جمہوری اقدار کے قاتل نظریات

وصیل خان

ہمارے معاشرے میں یہ روایت ہمیشہ سے رہی ہے کہ مرنے والے کو اچھے ڈھنگ سے یاد کیا جائے اور یہ کوشش کی جائے کہ ماضی میں اس سے سرزد ہونے والی کسی بھی نامحمودبات کو بھلادیا جائے اور جہاں تک ہوسکے اس کے اچھے اور بہتر اعمال و افعال کو ہی موضوع بحث بنایا جائے۔ بلا شبہ یہ ایک مستحسن عمل ہے لیکن اس کے کچھ نقصانات بھی ہوتے ہیں جس سے پورا معاشرہ متاثر ہوتا اور ایک غلط روایت کو تحریک ملتی ہے یہ ایک ایسا عمل ہے جس سے ہونے والے نقصانات کی تلافی بے حد مشکل ہوجاتی ہے۔ گذشتہ دنوں دو بڑی شخصیات ہمارے درمیان سے رخصت ہوئیں جن کے تعلق سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں بہت کچھ لکھااور بتایا گیا ان کے کارناموں کو اجاگر کرتے ہوئے زمین و آسمان کے قلابے ملادیئے گئے انہیں پڑھ کر ایسا محسوس ہونے لگا کہ یہ شخصیتیں عام نہیں عبقری تھیں اور ان کا نعم البدل ناممکن تو نہیں لیکن مشکل ضرور ہے۔

دنیا سے رخصت ہونے والے افراد کے تعلق سے اچھی باتیں لکھنے اور بولنے کی ہمارے ملک میں بھی وہی قدیم روایت قائم ہے۔ لیکن یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ ہر انسان میں کچھ نہ کچھ خامیاں بھی ہوتی ہیں اور ہمیں یہ بات نہ صرف قبول کرلینی چاہیئے بلکہ ان خامیوں کے تدارک کیلئے خاطر خواہ کوشش بھی کرنی چاہیئے اور اس شخص کو چاہے وہ رخصت ہوچکا ہو یا موجود ہو اسکی غلط پالیسیوں پر تنقیدی نشان دہی ضروری ہے تاکہ ان خامیوں کا ازالہ کیا جاسکے کیونکہ لمحوں کی خطا بعض اوقات صدیوں پر محیط ہوجاتی ہے۔ اس جملے اور نظریئے کے حوالے سے ہمارے لئے یہ ضرور ی ہوجاتا ہے کہ ہم پہلے ان دونوں شخصیتوں کے تعلق سے ایک سرسری جائزہ لیں تاکہ وہ حقائق سامنے آسکیں جن کی بنیاد پر ہمیں آگے کے لائحہ ٔ عمل کیلئے کچھ روشنی حاصل ہوسکے۔

 ان دونوں میں سب پہلے ہم وی ایس نائپال کی بات کرتے ہیں جن کا سرنیم ودیا دھر ہے جن کا تعلق ٹرینیڈاڈ سے ہے جن کا خاندان طویل عرصہ قبل ہندوستان سے تلاش معاش کیلئے وہاں پہنچا تھا، نائپال وہیں پیدا ہوئے۔ وہ ہندوستانی زبان اور تہذیب و ثقافت سے عملا ً بہت کم واقف تھے۔ انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی پھر بی بی سی لندن میں ملازمت کی، انہوں نے ناول اور ٹراویل بکس بھی لکھیں، ان کا مشاہدہ بے حد تیز اور غیرمعمولی تھا اس کے باوجود ہندوستانی قومیت و ثقافت کی تفہیم میں انہوں نے ایسی  فاش غلطیاں کیں جنہیں کسی بھی طرح شعور و عقل کے زمرے میں نہیں رکھا جاسکتا۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ہندوستانیوں کا مشاہدہ اتنا تیز نہیں ہے اور یہ جب دیگر ممالک کا دورہ کرتے ہیں تو وہ کسی دیہاتی کی طرح نظر آتے ہیں جو اپنی اور دیگر ممالک خصوصی طور پر مغربی ملکوں کی ثقافت میں امتیاز نہیں کرپاتے، اس کے علاوہ دنیا کو دیکھنے کا ان کا نظریہ بالکل الگ ہے۔

انہوں نے یہ بھی لکھا تھا کہ ہندوستانی پڑھتے نہیں یہ لوگ گاندھی اور نہرو کے نظریات کو اجاگر ضرور کرتے ہیں لیکن ان میں سے بیشتر ایسے ہیں جن کی معلومات ان کے تعلق سے بے حد کم ہے۔ وہ مزید لکھتے ہیں انڈین ہندو اندھے تھے اور اپنے ضمیر کو دبا کررکھتے تھے یہی سبب تھا کہ ہندوستانی مسلم حکمرانوں کے دور اقتدار میں ان کا مشاہدہ مزید کمزور ہوگیا تھا، انہوں نے یہاں تک لکھ دیا کہ ہندوستان میں بابری مسجد کی شہادت ایک خوش آئندہ اقدام تھا جس نے ہندوؤں کے اندر ایک نئی  روح پھونک دی۔ نائپال  کی ان تحریروں اور نظریات کے سبب ہندوستان کی ایک کثیر تعداد ان سے متنفر ہوگئی اور آج بھی ہے۔ انہوں نے مرنے سے قبل تک نہ ہی اپنا موقف تبدیل کیا  نہ ہی اس کو غلط سمجھا اور اپنی بات دوہراتے رہے جس سے ہندوستانی مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان پیدا ہوئی  نفرت کی کھائی مزید گہری ہوتی گئی اور آج صورتحال یہ ہے کہ ملک کی حالت بارودسے بھرے اس ڈھیر جیسی ہوگئی ہے جو کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے اور جہاں مذہب اور نظریاتی جنگ کی آندھی فسادو خون کی صورت میں اس تہذیب و ثقافت کو نگل سکتی ہے جو کبھی ہم ہندوستانیوں کا طرہ امتیاز ہوا کرتا تھا۔

دوسری بات ہم سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی کے تعلق سے کریں گے، جنہیں ایک نرم مزاج اور مدبرسیاستداں کا کریڈٹ حاصل تھا، کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی پارٹی کے دیگر لیڈران سے مختلف تھے لیکن  آرایس ایس سے تعلق رکھتے تھے جس کا مقصدخاص اقلیتوں کو نشانہ بنانا ہے۔ ان کے دور حکومت میں  ایودھیا تحریک، جموں وکشمیر کی آئینی خودمختاری اور ہندوستانی مسلمانوں کے پرسنل لاکا خاتمہ جیسے حساس معاملات پر فیصلے کئے گئے تھے، ایل کے اڈوانی کے ساتھ مل کر انہوں نے ان تینوں معاملات میں بڑا جارحانہ انداز اپنا یا تھا۔ آزادی کے بعد ایک لمبے عرصے تک ملکی سیاست میں مذہبی شمولیت برائے نام تھی لیکن بعد کے زمانے میں آر ایس ایس کی حلیف بی جے پی نے زورشورکے ساتھ سیاست میں مذہب کی شمولیت کی کوششیں شروع کردیں اور اس عمل میں اڈوانی اور واجپئی سرخیل بنے رہے، وہیں سے ہندوستانی سیاست کا رخ تبدیل ہوگیا اور تعصب و نفرت کی ایسی تیز آندھی چل پڑی جس کی رفتاروقت کے ساتھ  بڑھتی چلی گئی۔ لیکن واجپئی جی ہمیشہ تشدد کے خلاف رہے یہی سبب ہے کہ گجرات قتل عام پر انہوں نے اس وقت کے وزیراعلیٰ مودی سے راج دھرم نبھانے کی بات کہی تھی،وہ مودی کو ہٹانا چاہتے تھے لیکن اڈوانی کے سمجھانے پر خاموشی اختیار کرلی۔ وہ ہندوتوا کے حامی تھے لیکن تشدداور خون خرابے کے حق میں نہیں تھے۔

اس تشدد مخالف نظریئے نے انہیں دو حصوں میں منقسم کردیا تھا ایک طرف وہ آرایس ایس اور کٹرہندوجماعتو ں کو ناپسندتھے لیکن امن پسند مسلمانوں اور ہندوؤں میں ان کی شبیہ بہتر تھی، وہ اگر چاہتے تو مودی کو وزارت اعلیٰ سے برطرف کرکے تشددکا بڑی حد تک خاتمہ کرسکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا جو یہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہے کہ وہ نرم ہی سہی لیکن ہندوتوا کے زبردست حامی تھے۔ یہ دونوں مثالیں بتاتی ہیں کہ جمہوری اقدار کے تحفظ کیلئے اس طرح کے نظریات کبھی مفید ثابت نہیں ہوسکتے بلکہ وہ فسطائیت کوتقویت دیتے ہیں۔ آج بھی بی جے پی اسی نظریئے کی تکمیل کیلئے پوری سرگرمی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے اور ملک کی حالت انتہائی مخدوش ہوتی جارہی ہے۔ ۲۰۱۹کے پارلیمانی انتحابات اب دور نہیں ہیں لیکن اب تک اپوزیشن کا وہ عظیم اتحاد غیر یقینی حالت میں ہے جبکہ مسلمہ حقیقت یہ ہے کہ اس جمہوری اتحاد کے بغیر منھ پھاڑے کھڑے اس عفریت کا مقابلہ ناممکن ہے۔ اب ہمیں عوامی او رسیاسی دونوں سطحوں پر فوری مستعدی دکھانے کی سخت ضرورت ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔