جمہوری تہذیب سے نا آشنا مسلمان !‎

عمر فراہی 

کل رات اچانک خواب میں یوگی آدیتیہ ناتھ سے ملاقات ہوگئی – وہ ایسے خندہ پیشانی سے ملا کہ جیسےلگتا ہی نہیں تھا کہ یوپی کا وزیر اعلیٰ ہے – پہلے تو ہم نے مبارکباد دی اور پھر گفتگو شروع ہوئی – کہہ رہا تھا کہ بھائی مسلمانوں کو میرے وزیر اعلیٰ بننے پر اعتراض کیوں ہے ؟ جب مختار انصاری جیل سے الیکشن لڑ سکتا ہے تو میں کیوں نہیں ! جب میں الیکشن لڑ سکتا ہوں تو وزیر اعلیٰ کیوں نہی بن سکتا ؟ کمال کی بات تو یہ بھی ہے کہ میں نے یوپی اسمبلی  کے الیکشن میں حصہ بھی نہیں لیا پھر بھی آج اس ریاست کا وزیر اعلیٰ ہوں – شاید یہ بھی تہذیب جمہوریت کا خوشنما پہلو ہے جہاں جنگ کے بغیر بھی اقتدار حاصل کرنے کی تمیز آنی چاہئے – آخر مسلمان کب جمہوری تہذیب سے آشنا ہونگے …؟

آخر وہ کب تک محمد علی جناح کے دو قومی نظریے کو ڈھوتے رہیں گے ؟ آخر وہ مولانا آزاد کےقومی یکجہتی کے نظریے پر عمل کرتے ہوئے قومی دھارے میں کیوں نہیں شامل ہوتے – کیا مولانا نے آپ لوگوں کو لوک تنتر کے اصول نہیں سمجھائے….؟ میں نے کہا تمہارا مطلب کیا ہے – اس نے کہا تم مسلمان کانگریس کو ووٹ دے سکتے ہو تو بی جے پی کو ووٹ کیوں نہیں دیتے – میں نے کہا تم لوگ فرقہ پرست ہو – اس نے کہا فرقہ پرستی کا مطلب کیا ہے ؟ کیا تم فرقہ پرستی کا مطلب سمجھتے ہو…؟ فرقہ پرستی کا مطلب ہوتا ہے اپنے مذہب اور عقیدے سے محبت اور دوسروں کو اس پر عمل کرنے کی ترغیب دینا – کیا تم مسلمان ایسا نہیں کرتے – کیا تم ہمیں کافر نہیں کہتے – کیا ذاکر نائیک نے بہت سارے ہندوؤں کو اپنے مذہب میں داخل ہونے کی ترغیب نہیں دی – میں نے کہا لیکن جب تم لوگ مسلمانوں کو بندے ماترم اور سوریہ نمسکار کیلئے اصرار کرتے ہو تو ہمارے عقیدے کو ٹھیس پہنچتی ہے – اس نے کہا کہ ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم کون تھے – میں نے کہا مولانا ابوالکلام آزاد – اس نے کہا کہ کیا بچوں کےاسکولی نصاب میں یہ تعلیم ان کے دور سے ہی نہیں دی جارہی ہے کہ انسان کی پیدائش آدم و حوا سے نہیں  بندر کی نسل سے ہے –

کیا یہ نظریہ اسلام کے نظریہ توحید سے متصادم نہی ہے – کیا انہوں نے تمہیں یہ نہیں بتایا کہ ہمارے اس لوک تنتر میں شراب بنانے بیچنے اور پینے کی آزادی ہوگی – کیا انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ زناکاری ، شراب نوشی اور سودخوری جسے اسلام میں گناہ کبیرہ میں شمار کیا جاتا ہے لوک تنتر میں تجارت کا حصہ قرار دی جاچکی ہیں – میں نے کہا کہ بات تو سچ ہے لیکن لوک تنتر میں یہ آزادی تو ہے کہ ہم چاہیں تو سود نہ کھائیں ہم چاہیں تو شراب نہ پیئیں اور بہت ساری برائیاں اختیاری ہیں – ہنسنے لگا بولا جو حکومت کے اختیار میں ہے اس کا فائدہ تم کیسے حاصل کرسکتے ہو – کیاتم ہماری پولس کو اپنے اوپر ظلم کرنے سے روک سکتے ہو – کیا تم مجھے یوپی کے مذبح خانے کو بند کرنےسے روک سکتے ہو – تمہارے اختیار میں تو وہ لوگ بھی نہیں ہیں جنھیں ساٹھ سالوں تک تم نے اقتدار سونپا – تم ہمیں فرقہ پرست کہتے ہو جبکہ میرٹھ ملیانہ بھیونڈی مالیگاؤں ممبئی اور بھاگل پور کے فساد کس کے دور میں ہوئے …؟ بابری مسجد کا تالا کھلنے سے لیکر شیلانیاس اور عارضی مندر بننے تک مرکز میں کس کی حکومت تھی ….؟ 2004 سے 2014 تک کس کی حکومت تھی – اس دوران سیکڑوں بے قصور مسلم نوجوانوں کی گرفتاری کس نے کروائی – کرکرے کو کس کی حکومت میں قتل کیا گیا – سچ تو یہ ہے کہ تم جنھیں سیکولر سمجھتے تھے وہ لوگ ہم سے زیادہ فرقہ پرست اور بدعنوان تھے –

ان کا سیکولرزم تو ایک مکھوٹا تھا تاکہ وہ تمہیں ہم سے ڈرا کر اقتدار کا مزہ لیتے رہیں – میں نے کہا لیکن مولانا ابو الکلام آزاد نے اپنی کتاب انڈیا ونس فریڈم میں کانگریس کے اس مکھوٹے کا ذکرکیوں نہیں کیا – ہنسنے لگا اور بولا یار تم مسلمان بھی کتنے بھولے اور بیوقوف ہو ساری باتیں لکھنے اور کہنے کی نہیں ہوتیں کچھ سمجھنے اور غور کرنے کیلئے بھی ہوتی ہیں – کیا آپ کو نہیں پتہ کہ جو کچھ انکشاف انہوں نے اپنی کتاب میں کیا بھی تو اس میں سے بھی تیس اہم صفحات کو شائع کرنے کیلئے یہ وصیت کردی کہ اسے تیس سال بعد شائع کیا جائے-مولانا ابوالکلام آزاد بہت ہی ذہین ، باشعور اور دور اندیش تھے وہ جانتے تھے کہ کچھ سوالوں اور ایک ایسی جدوجہد جس میں کہ وہ خود ناکام ہوچکے تھے اب اس کا جواب ان کے پاس بھی نہیں ہے  مسلمان خود وقت کے ساتھ تلاش کر لیں گے – میں تھوڑی دیر کیلئے سوچ میں پڑ گیا کہ ایک فرقہ پرست لیڈر وزیر اعلیٰ بنتے ہی فلاسفی کی بات کرنے لگا ہے – شاید مولانا بھی غلط نہیں تھے -چونکہ ہندوستان میں آزادی کے بعد بھی سیکولر قسم کے افراد کا ہی غلبہ تھا اس لیئے انہوں نے اس وقت کے حالات کو دیکھتے ہوئے بغیر کسی شرائط کے مسلمانوں کو سیکولر آئین کے حوالے کردیالیکن اقتدار اعلیٰ کی کرسی پر مودی اور آدیتیہ ناتھ جیسے کٹر ہندتو ذہنیت کےلوگوں کی تاج پوشی نے ان کی اس فکر کو بھی رد کردیا ہے کہ ہندوستان کبھی ہندو راشٹر نہیں بن سکتا – اچانک یوگی نے آواز دی کہ عمر میاں کس گہری سوچ میں گم  ہو – میں نے جلدی سے اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے کہا کہ بس یوں ہی ماضی کی یاد میں کھو گیا تھا اور مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت کے بارے میں سوچ رہا ہوں کہ حقیقت میں وہ کیا تھے..؟

اس نے خود ہی جواب دیا کہ آپ لوگوں سے زیادہ ہم آپ کے قائدین کو جانتے ہیں اور ان کا احترام بھی کرتے ہیں کہ انہوں نےکس طرح سیکولر آئین کے ذریعے ہی مودی جی اور میرے اس مقام تک پہنچنے کی راہ ہموار کی – مولانا بیک وقت بہت کچھ تھے – وہ سیاسیات کے ماہر مدبر عالم فلاسفر اور صوفی بھی تھے – شاید یہی وجہ ہے کہ انہوں نے جناح کی طرح جہاد کی بات نہیں کی – یہ ان کا صوفیانہ مزاج ہی تھا جو انہوں نے مسلمانوں کو عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے  سیکولر پارٹیوں سے وابستہ رہنے کا مشورہ دیا تھا تاکہ ہندو مسلمانوں کو اپنے خلاف چیلنج نہ سمجھیں – انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ مسلمان اگر ملک میں مساجد اور مدارس کے فروغ میں کامیابی حاصل کر لیتے ہیں تو یہی ان کیلئے  بہت بڑی جیت ہوگی – آپ لوگ فکر نہ کریں مودی جی یا میں خود بھی مولانا کی عزت کرتے ہیں ہم لوگ کبھی بھی اسپین اور برما کی طرح  آپ کی مساجد اور مدارس پر پابندی لگانے کی بات نہی کریں گے –

ہم صرف یہ چاہیں گے کہ آپ کے مدارس اور مساجد سے مودودی ، اقبال اور جناح کی ذہنیت کے لوگ نہ پیدا ہوکر سرسید اور ابوالکلام جیسے ہی نیشنلسٹ لیڈر پیدا ہوں آور آپ لوگ ہر سال دھوم دھام سے ان کی سالگرہ وغیرہ مناکر خوش رہیں – یہی حقیقتا جمہوری تہذیب کی خوبصورت روایت ہے – یوگی کی باتیں سن کر میں پھر اس خیال میں گم ہوگیا کہ ایک مندر کا پجاری اور سادھو کا بھیس اختیار کرنے والا فرقہ پرست لیڈر اتنی عقلمندی کی باتیں کیسے  کر رہا ہے – اس کی وجہ شاید یہ بھی ہوسکتی ہے کہ مسلمانوں کا امام آج بھی تقدیر کو روتا ہے اور برہمن مندر کے دروازے پر نہ سو کر ایوان سیاست میں داخل ہوچکا ہے اور پھر اچانک میری نیند کھل گئی – میں پھر یہ سوچنے لگا کہ ہم مسلمان کب تک یوں ہی خواب دیکھتے رہیں گے – مجھے تو اب اپنے اس خواب کی تعبیر سے بھی ڈر لگنے لگا ہے! اللہ رحم کرے –

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔