جنازہ کے چالیس اہم مسائل (چوتھی قسط)

مقبول احمدسلفی

(36)شہداء کا مقام اور ان کے اقسام :

اسلام میں جہاد، شہادت اور شہید کا بلند مقام ہے، شہداء کو انبیاء اور صدیقین کے بعد تیسرے درجہ پر رکھا گیا ہے جیساکہ اللہ کا فرمان ہے :

وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ ۚوَحَسُنَأُولَٰئِكَرَفِيقًا (النساء:69)

ترجمہ: اور جو بھی اللہ تعالٰی کی اور رسول ﷺ کی فرمانبرداری کرے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ تعالٰی نے انعام کیاہے، جیسے نبی اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ یہ بہترین رفیق ہیں۔

قرآن وحدیث میں شہداء کے بے شمار فضائل ومناقب، بڑے اجروثواب اور بلند درجات کا ذکر کیا گیا ہے جن کا یہاں احاطہ ممکن نہیں ہے۔ ویسے سارے مرنے والوں کو برزخ کی زندگی ملتی ہے مگر اللہ نے خصوصی طورپر شہداء کی  برزخی زندگی  کا ذکر کیا ہے، ان سے گناہوں کی مغفرت کا وعدہ کیا گیا،قرض کے علاوہ سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں، انہیں جنت کی بشارت دی گئی، ان کی روحیں قندیل میں عرش الہی سے آویزاں ہیں اور سبزپرندوں کے جوف میں سواری کرتی ہیں اور جنت میں سیروتفریح کرتی ہیں۔ شہید کی یہ بھی خصوصیت ہے کہ انہیں ان کے کپڑوں میں خون سمیت بغیر غسل وجنازہ کے دفن کیا جاتا ہے تاکہ قیامت میں انہیں کپڑوں میں اٹھائے جائیں۔ شہداء جب اپنا یہ مقام دیکھتے ہیں تو پھر سے دنیا میں لوٹنے اور شہید ہونے کی تمنا کرتے ہیں۔ یہ وہ شہداء ہیں جو اسلام وکفر کی کسی لڑائی میں شہید ہوئے ہوں۔ شہداء کااتنا بڑا مقام ہونے کے باوجود ان سے ہم استغاثہ نہیں کرسکتے ہیں کیونکہ وہ دنیا سے وفات پاچکے ہیں جو زندگی انہیں نصیب ہوئی ہے وہ برزخ کی زندگی ہے۔ جب شہداء کو حاجت روائی کے لئے نہیں پکار سکتے تو صالحین واولیاء کو بھی بدرجہ اولی نہیں پکار سکتے بلکہ اللہ کے علاوہ کسی کو بھی مدد کے واسطے  پکارنا منع ہے، اللہ نے حکم دیا ہے کہ ہم صرف اسی کو ہی پکاریں اور وفات پانے والےتو ہماری پکار بھی نہیں سن سکتے مدد کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔

شہداء کی ایک دوسری قسم بھی ہے جو کچھ مخصوص اعمال اور مخصوص حالات کی وجہ سے شہید کا مقام پاتے ہیں، ان کی تعداد بھی کئی ہیں۔ سات قسم کے شہداء کا اکٹھے ایک حدیث میں بیان ہے۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :

الشَّهادةُ سبعٌ سوى القتلِ في سبيلِ اللَّهِ المطعونُ شهيدٌ والغرِقُ شهيدٌ وصاحبُ ذاتِ الجنبِ شهيدٌ والمبطونُ شهيدٌ وصاحبُ الحريقِ شهيدٌ والَّذي يموتُ تحتَ الهدمِ شهيدٌ والمرأةُ تموتُ بِجُمعٍ شهيدةٌ(صحيح أبي داود:3111)

ترجمہ: اللہ کی راہ میں قتل ہونے والوں کے عِلاوہ سات شہید ہیں (1) مطعون شہید ہے(2) اور ڈوبنے والا شہید ہے(3)ذات الجنب کی بیماری سے مرنے والا شہید ہے اور (4)اورپیٹ کی بیماری سے مرنے والا، اور(5) جل کر مرنے والا شہید ہے، اور (6)ملبے کے نیچے دب کر مرنے والا شہید ہے، اور (7)اور وہ عورت جو ولادت کی تکلیف ( درد زہ ) میں وفات پا جائے شہید ہے۔

یہ فطری طور پر ملنے والی شہادتیں ہیں، کچھ شہادتیں مبارک اعمال کی انجام دہی کی وجہ سےہمیں نصیب سکتی ہیں جن کا ہمیں خصوصی اہتمام کرنا چاہئے۔ ان میں سے ہے شہادت کی تمنا کرنا، والدین کی خدمت کرنا،بیوہ اور مسکین کی خدمت کرنا، اول وقت پر نماز پڑھنا، عشرہ ذی الحجہ میں اعمال صالحہ انجام دینا، عورتوں کا حج کرنا، اپنی نفسانی خواہشات سے جہاد کرنا، ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا، اپنے مال، عزت اور دین کی حفاظت کرتے ہوئے قتل ہونا، فتنے کے زمانے میں دین حق پر عمل کرنا، نماز کے بعد تسبیح فاطمی پڑھنا، اللہ کا ذکر کرنا، سو بار اللہ اکبر، سوبار الحمد للہ اور سوبار سبحان اللہ کہنا، اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرناوغیرہ۔ انہیں تفصیل سے جاننے کے لئے میرے بلاگ پر مضمون ” کیا عورتوں کو جہاد کے اجر سے محروم کیا گیا ہے؟” مطالعہ فرمائیں۔

(37)حسن خاتمہ کی علامت واسباب :

موت سے قبل اچھی حالت میں وفات پانا یا زبان پر کلمہ کا جاری ہونا حسن خاتمہ کی علامت ہے۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے : الأعمالُ بالخَوَاتِيمِ ( صحيح البخاري:6607) یعنی عمل کا دارومدار خاتمہ پر ہے۔ اور یہ بھی فرمان نبوی ہے : من كانَ آخرُ كلامِهِ لا إلَهَ إلَّا اللَّهُ دَخلَ الجنَّةَ(صحيح أبي داود:3116)ترجمہ: جس کی زبان سے آخری کلمہ لاالہ الااللہ نکلے وہ جنت میں داخل ہوگا۔

 اس لئے مسلمان کو بری موت سے اللہ کی پناہ اور حسن خاتمہ کی اللہ سے ہمیشہ دعا کرتے رہنا چاہئے اور عمل ترک کرکے صرف دعا سے موت کے وقت کلمہ نصیب نہیں ہوگا بلکہ ہمیں کلمے کا تقاضہ پورا کرنا ہوگا یعنی اللہ اور اس کے رسول کے فرمان کے مطابق زندگی گزارنی ہوگی۔ حسن خاتمہ کی کچھ علامتیں ہیں جنہیں نیچے ذکر کیا جاتا ہے۔

شہادت کی موت تو سب سے اچھا خاتمہ ہے جس کا ذکر اقسام کے ساتھ اوپر ہواہے وہ ساری قسمیں اچھی موت ہیں، ان کے علاوہ مرتے وقت زبان سے کلمہ ادا ہونا، پیشانی سے پیسہ نکلنا، مومن کی اچانک موت ہونا، جمعہ کی رات یا دن میں وفات پانااور کسی بھی قسم کا نیک کام کرتے ہوئے وفات پانا مثلا نمازپڑھتے ہوئے، روزہ رکھتے ہوئے، تلاوت کرتے ہوئے، ذکر کرتے ہوئے، دعا کرتے ہوئے اور توبہ واستغفار کرتے ہوئے وغیرہ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :

إذا أرادَ اللهُ بعبدٍ خيرًا استعملَه، فقيل : كيف يستعملُه يا رسولَ اللهِ ؟ قال : يوفِّقُه لعمَلٍ صالحٍ قبلَ الموتِ(صحيح الترمذي:2142)

ترجمہ: جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اسے کام پر لگاتا ہے،عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! کیسے کام پر لگاتا ہے؟ آپ نے فرمایا:موت سے پہلے اسے عمل صالح کی توفیق دیتا ہے۔

اس لئے ہم اعمال صالحہ کے ذریعہ اللہ کا پسندیدہ بندہ بنیں تاکہ موت کے وقت وہ ہمیں عمل صالح کی توفیق دے۔ بعض اہل علم نے لکھا ہے کہ موت کے وقت نیک لوگوں کے چہرے پہ تبسم و نورانیت بھی حسن خاتمہ کی علامت ہے۔ یاد رہے وفات کے بعد یا دفن کے بعد میت کی طرف جھوٹے  کشف وکرامات منسوب کرنا اور ان کی تشہیر کرکے اپنی تجارتی دوکان سجانا سخت عذاب کا باعث ہے۔

(38)موت کے وقت ظاہر ہونے والی بری علامات:

ایک مسلمان کو بری موت سے بکثرت پناہ مانگنی چاہئے، مرتے وقت جس کا خاتمہ شر پر ہو واقعی اس کے لئے افسوس در افسوس ہے۔ بری موت کی وجہ دین سے دوری، اعمال صالحہ سے نفرت، برائی سے محبت اوراس پر اصرار، ذکر الہی سے غفلت اور منکرات وفواحش کی انجام دہی، عقائد باطلہ، شرک وبدعات پر عمل اور ان کی نشر واشاعت، آخرت سے بے فکری اور دنیا سے بیحد محبت وغیرہ  ہے۔ ایسی صفات کے لوگوں کو مرتےوقت کبھی کلمہ نصیب نہیں ہوتابلکہ برائی کرتے ہوئے ان کی موت واقع ہوتی ہے مثلا فلم دیکھتے ہوئے، زنا کرتے ہوئے، شراب پیتے ہوئے، جوا کھیلتے ہوئے، خودکشی کرکے،شرک وبدعت کرتے ہوئے۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے : مَنْ ماتَ على شيءٍ بَعثَهُ اللهُ عليْهِ(صحيح الجامع:6543)

ترجمہ: جس حالت میں آدمی فوت ہوگا،اسی پر اسے قیامت کے دن اٹھایا جائے گا۔

آپ ذرا تصور کریں جس کی موت زنا کرتے ہوئے ہواور قیامت میں وہ زناکرتے ہوئے اٹھایا جائے وہ شخص رب کو کیا منہ دکھائے گا اور اس کا حساب وکتاب کیسا ہوگا؟

بسا اوقات اچھے لوگوں کی موت پر ہمیں کچھ ایسی علامات نظر آتی ہیں جنہیں ہم ناپسند کرتے ہیں مثلا چہرہ یا بدن کا سیاہ ہوجانا تو اس قسم کی کوئی علامت کے ظہور پرپردہ کرنا چاہئے بطور خاص میت کو غسل دینے والے اگراس میں کوئی بری علامت دیکھے تو لوگوں سے اسے بیان نہ کرے۔ حقیقت حال کا اللہ کو علم ہے ہمیں کسی مسلمان میت کی برائی کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :

ذُكرَ عندَ النَّبيِّ صلى الله عليه وسلم هالِكٌ بسوءٍ فقالَ : لاَ تذْكروا هلْكاكم إلاَّ بخيرٍ(صحيح النسائي:1934)

ترجمہ: نبی کریم ﷺ کے سامنے کسی مرنے والے کا ذکر برائی کے ساتھ کیا گیا تو آپ نے فرمایا: اپنے فوت شدگان کا ذکر بھلائی کے سوا(برائی کے ساتھ ) نہ کرو۔

(39)سوگ اور عدت کے مسائل:

سوگ اور عدت یہ دونوں عورتوں سے متعلق ہیں، مردوں کے لئے سوگ نہیں ہے۔ جب کسی عورت کا کوئی رشتہ دار وفات پاجائے تو تین دن سوگ منانا جائز ہے اور شوہر کی وفات پر چار مہینے دس دن سوگ منانا واجب ہے۔ نبی ﷺکا فرمان ہے : لا يحلُّ لامرأةٍ تؤمنُ باللهِ واليومِ الآخرِ أنْ تحدَّ على ميِّتٍ فوقَ ثلاثِ ليالٍ، إلَّا على زوجٍ أربعةَ أشهُرٍ وعشرًا (صحيح البخاري:5334)

ترجمہ: کسی عورت کے لیے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو یہ جائز نہیں کہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منائے، صرف شوہر کے لیے چار مہینے دس دن کا سوگ ہے۔

سوگ منانے کا اسلامی طریقہ کیا ہے ؟ سوگ میں زینت اور بناؤسنگار کی چیزیں استعمال کرنا منع ہیں۔ خوشبو اور سرمہ سے بھی پرہیزکرنا ہے۔بیوہ عدت کے دوران رنگین وچمکدار کپڑے،ریشمی اور زعفرانی لباس،زینت کی چیزیں مثلا کان کی بالی، نان کا نگ،، پازیب، کنگن، ہار،انگوٹھی، چوڑیاں، کریم، پاؤڈر، خوشبودارتیل، عطر، سرمہ، مہندی وغیرہ استعمال نہیں کرے گی۔ حیض سے پاکی پر معمولی مقدار میں بخور وغیرہ استعمال کرسکتی ہےاور دوا کے طور پرسرمہ بھی استعمال کرسکتی ہے مگر صرف رات میں۔ خلاصہ یہ ہے کہ سوگ میں عورت پر غم کے آثار ظاہر ہوں اس وجہ سے زینت کی چیزیں استعمال کرنا منع ہے۔ سفید کپڑا ہی بیوہ کی علامت نہیں ہے کوئی بھی عام سادہ کپڑا جو خوبصورت نہ ہو پہن سکتی ہے اور ضرورت کی چیزیں انجام دینے مثلا کھانا پکانا، پانی بھرنے، جھاڑو دینے، غسل کرنے، کپڑا صاف کرنے، بات چیت کرنے اور گھریلو امور انجام دینے میں کوئی حرج نہیں ہے یہاں تک کہ اگر کوئی ملازمت ہواور چھٹی کی کوئی گنجائش نہ ہو توبناؤسنگار سے بچتے ہوئے ملازمت بھی کرسکتی ہےکیونکہ یہ ضرورت میں داخل ہے۔ بلاضرورت بات چیت، ہنسی مذاق، گھر سے نکل کر کام کرنا (الایہ کہ اشد ضرورت ہو)، ٹیلی ویزن، ریڈیو، اخبار اور موبائل کا بلاضرورت استعمال کرنا یعنی وقت گزاری کے لئے منع ہے۔ خالی وقت میں قرآن کی تلاوت، ذکرواذکار، دعاواستغفاراورکتب احادیث وسیر کا مطالعہ بہتر ہے۔

وفات پر یا نزول بلا پر آنکھوں سے آنسو بہ جائے، بے اختیار رونا آجائے اس میں کوئی حرج نہیں ہے مگر قصدا پھوٹ پھوٹ کر دیر تک روتے رہنے، آہ وبکا کرتے رہنے، جزع فزع کرنے، زبان سے برے کلمے نکالنے اور نامناسب کام کرنا سوگ کے منافی ہے اور اس سے صبر کا اجر ضائع ہوجائے گا۔میت کی بیوہ یا ا س کے کسی رشتہ دار کو میت کے پاس جزع فزع کرنے کی ممانعت ہے، وہاں چیخنے چلانے کی بجائے میت کے حق میں دعائے خیر کرنا چاہئے۔ ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے وقت ان کے گھر والے چیخنے چلانے لگے تو آپ ﷺنے فرمایا:

لا تَدعوا علَى أنفسِكُم إلَّا بِخيرٍ، فإنَّ الملائِكَةَ يؤمِّنونَ على ما تَقولون ثمَّ قالَ : اللَّهمَّ اغفِر لأبي سلَمةَ وارفع درجتَهُ في المَهْديِّينَ، واخلُفهُ في عقبِهِ في الغابِرينَ، واغفِر لَنا ولَهُ ربَّ العالمينَ، اللَّهمَّ افسِح لَهُ في قبرِهِ، ونوِّر لَهُ فيهِ(صحيح أبي داود:3118)

ترجمہ: اپنے لیے بد دعائیں مت کرو بلکہ اچھے بول بولو کیونکہ جو تم کہتے ہو اس پر فرشتے آمین کہتے ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( بطور دعا ) فرمایا: اے اللہ ! ابوسلمہ کی بخشش فرما، ہدایت یافتہ لوگوں کے ساتھ اس کے درجات بلند کر اور اس کے پیچھے رہ جانے والوں میں تو ہی اس کا خلیفہ بن۔ اور اے رب العلمین ! ہماری اور اس کی مغفرت فرما، اے اللہ ! اس کی قبر کو فراخ اور روشن کر دے۔

مزید چند مسائل مندرجہ ذیل ہیں۔

بیوہ کو عدت کے طور پر چار مہینے اور دس دن گزارنے جوسوگ کے دن  ہیں، حاملہ کی عدت وضع حمل ہے، عدت کی شروعا ت اس دن سے ہوگی جب شوہر کی وفات ہوئی ہےگرچہ بیوہ کو خبر بعد میں ہوئی ہو، عدت شوہرکے گھر میں گزارے گی، عدت کے دوران بلاضرورت سفر کرنا منع ہے، دوران عدت سوگ کے مذکورہ احکام اپنانے ہیں، اس میں نکاح کرنا یا نکاح کا پیغام دینا منع ہے بلکہ عدت کے گزرنے کے بعد ہی دوسرے مرد سے شادی کرسکتی ہے۔ بیوہ کے احکام ومسائل سے متعلق مفصل ومدلل مضمون میرے بلاگ پر دیکھیں۔

(40)تعزیت کے آداب :

جو اہل شرک اور کافر ہیں انہیں صرف دلاسہ دے سکتے ہیں، ان کےمیت کے لئے استفغار نہیں کرسکتے ہیں اور مسلمانوں کی تعزیت کرنا مسنون اوربڑے اجر کا کام ہے۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :

ما من مؤمنٍ يعزِّي أخاهُ بِمُصيبةٍ إلَّا كساهُ اللَّهُ سبحانَهُ من حُلَلِ الكرامةِ يومَ القيامَةِ(صحيح ابن ماجه:1311)

ترجمہ: جو مومن اپنے بھائی کی مصیبت کے وقت اس کی تعزیت کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن عزت وشرف کا لباس پہنائیں گے۔

میت کے رشتہ داروں کا غم ہلکا کرنے کے لئے انہیں تسلی دینا، صبر دلانا، اظہارہمدردی کرنا، تعاون کی ضرورت ہوتو ان کا تعاون کرنااور میت کے لئے دعاءواستغفار کرنا تعزیت کہلاتی ہے۔ تعزیت کے طور پریہ دعا رسول اللہ ﷺ سے منقول ہے:إنَّ لله ما أخذَ وله ما أعطى . وكلُّ شيء ٍعنده بأجلٍ مسمى(صحيح مسلم:923)

ترجمہ: لی ہوئی چیز بھی اسی کی ہے اور دی ہوئی چیز بھی اسی کی تھی اور ہر چیز اس ذات کے پاس وقت مقررہ کے مطابق لکھی ہوئی ہے۔

سوگ کے دن متعین ہیں جیساکہ اوپر معلوم ہوا مگر تعزیت کے واسطے زیارت کرنے کادن مدت متعین نہیں ہے جب کسی کے یہاں وفات کی خبر ملے اس کی تعزیت کرسکتا ہے خواہ تین دن بعد ہی ہو مگر تعزیت کے لئے خیمہ نصب کرنا، کسی جگہ لوگوں کا جمع ہونا، رسمین انجام دینا، اجتماعی شکل میں دعوت کا اہتمام کرنا، اجتماعی دعائیں، دعا میں ہاتھ اٹھانا، باربار تعزیت کے لئے جانا یہ سب امور ثابت نہیں ہیں لہذا ان سے بچا جائے ۔ جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :

كنَّا نرى الاجتماعَ إلى أَهلِ الميِّتِ وصنعةَ الطَّعامِ منَ النِّياحة(صحيح ابن ماجه:1318)

ترجمہ: ہم اہل میت کیلئے اکٹھا ہونا، اور دفن کرنے کے بعد کھانا بنانا نوحہ گری میں شمار کرتے تھے۔

نوٹ : جنازہ کے مسائل کی کثرت کی وجہ سے نکات کا مزید اضافہ کیا جائے گا، اس لئے اس مضمون کی اگلی سرخیوں کا انتظار کریں۔

تبصرے بند ہیں۔