جنازے کے مسائل

ریاض فردوسی

پھر اللہ نے ایک کوا بھیجا جو زمین کو کریدنے لگا تاکہ اسے دکھائے کہ وہ اپنے بھائی کی لاش کیسے چھپائے۔ اس نے کہا: ہائے افسوس! کیا میں اتنا مجبور ہوں کہ اس کوّے کی ہی مانند ہوتا اور اپنے بھائی کی لاش کو چھپا دیتا، پھر وہ افسوس کرنے لگا۔”(سورہ المائدہ)

”ہم نے تم سب کو زمین سے پیدا کیا ہے اور اسی میں تمہیں لوٹائیں گے پھر دوسری بار اسی سے تمہیں نکالیں گے۔”(سورہ طہ۔)

ایک دفعہ حضور ﷺ تشریف فرما تھے کہ ایک جنازہ گزرا۔ آپؐ اس کے احترام میں کھڑے ہوگئے۔ کسی نے کہا یہ تو ایک یہودی کا جنازہ ہے۔ آپ ﷺنے فرمایا کیا ہوا، انسان تو ہے۔

 جنگ احزاب میں ایک کافر سردار خندق میں گر کر ہلاک ہوگیا اور نعش پر مسلمانوں نے قبضہ کرلیا۔ کفار نے پیشکش کی کہ دس ہزار درھم لے لیں اور یہ نعش ان کے حوالے کردی جائے۔ آپ ﷺنے فرمایا ہم مردہ فروش نہیں، ہم اس کی دیت نہیں لیں گے اور پھر بلامعاوضہ اس نعش کو واپس کردیا۔ (شرح الامام العلامہ محمد بن عبدالباقی الزرقانی المالکی علی المواھب اللدنیۃ للعلامۃ القسطلانی۔ الجزء الثانی صفحہ ۴۱۱، الطبعۃ الاولیٰ بالمطبعۃ الازھریۃ المصریۃ) (السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، الجزء الثالث صفحہ ۵۵۱، دارالجیل بیروت لبنان)

حضور ﷺ کا یہ طرز عمل تھا کہ اگر میدانِ جنگ میں یا اس قسم کے حالات میں آپؐ کو کوئی نعش پڑی ملتی تو آپ ﷺ اس کی تدفین کا حکم دیتے اور اسے اپنی نگرانی میں دفن کراتے اور یہ نہ پوچھتے کہ یہ مومن کی نعش ہے یا کافر کی۔ (السیرۃ الحلبیۃ۔ تالیف علی ابن برھان الدین الحلبی الشافعی۔ الجزء الثانی صفحہ ۰۹۱، مطبعۃ محمد علی صبیح و اولادہ بمیدان الازھر بمصر ۵۳۹۱ء)

جنگ بدر میں اور جنگ احد میں آپ ﷺنے کفار کی نعشوں کی تدفین کروائی اور ایک ہی میدان میں مسلمانوں اور کافروں کی تدفین ہوئی، وقت کی تنگی کی وجہ سے جس طرح کئی مسلمان شہداء کو ایک ہی قبر میں دفن کروایا گیا اسی طرح کفار کی نعشوں کو بھی ایک ہی جگہ دفن کروایا۔(السیرۃ الحلبیۃ۔ تالیف علی ابن برھان الدین الحلبی الشافعی۔ الجزء الثانی صفحہ ۰۹۱، مطبعۃ محمد علی صبیح و اولادہ بمیدان الازھر بمصر ۵۳۹۱ء)

حضورﷺ کا حکم تھا کہ کسی مخالف کی نعش کا مثلہ نہ کیا جائے۔

امام شوکانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ

”اللہ تعالیٰ نے(ہر) انسان کوقبر میں دفنانے کی تعلیم دی ہے کیونکہ اس میں انسان کی تعظیم ہے۔ ایسا نہیں کہ اسے زمین پردرندوں اور پرندوں کے لیے پھینک دیا جائے۔” (فتح القدیر:۵/۲۷۴)

جب کسی مسلمان کی وفات کا وقت قریب ہو اور سکرات الموت طاری ہو تو ہمیں چاہئے کہ اس کے قریب بیٹھ کر نرمی سے لاالہ الا اللہ کی تقلین کریں تاکہ اس کا خاتمہ بالخیر ہواور اس کا چہرہ قبلہ رخ کردیا جائے۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے:

ترجمہ: اپنے قریب الموت کو لا الہ الا اللہ کی تلقین کرو۔ (صحیح مسلم: 916)۔۔سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سیروایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،، جس کی زبان سے آخری کلمہ لاالہ الااللہ نکلے وہ جنت میں داخل ہوگا۔(صحیح ابوداؤد: 3116)۔۔آدمی سے تعلق کی بنا پر اگر اس کی وفات پر آدمی رنجیدہ ہو یا رونا آجائے تو یہ مذموم نہیں ہے؛ بلکہ طبعی چیز ہے، خود حضرت ابراہیم کی وفات پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں نم تھیں؛ البتہ نوحہ کرکے رونا یہ زمانہ جاہلیت کی رسم ہے جو شرعاً ممنوع ہے، نوحہ یہ ہے کہ آدمی واویلا مچاکر خود بھی روئے اور دوسروں کو رلانے کے لیے مردہ کے اوصاف وحالات بڑھا چڑھاکر بیان کرے۔۔(مشکوٰۃ: ۹۴۱)رَوَاہُ أَبُو دَاوُد (مشکوٰۃ: او کما قال ﷺ)دونوں حدیثوں کے مفاہیم سے ماخوذ۔۔۔۔۔بعض جگہوں پر نہلانے کا تخت کافی چھوٹا ہوتا ہے ۔اس سے نہلانے میں بڑی دشواری ہوتی ہے۔تخت کی لمبائی ،چورائی مردے کے قد سے زیادہ ہونی چاہئیے۔

میت کو غسل دینا فرض کفایہ ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے، حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے جبکہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحب زادی (سیدہ زینب رضی اللہ عنہا) کو غسل دے رہے تھے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اسے پانی اور بیري کے پتوں کے ساتھ طاق غسل دو یعنی تین یا پانچ بار، اور آخر میں کافور ملا لیں۔ غسل کا سلسلہ اپنی جانب سے اور وضو کے اعضا سے شروع کریں۔‘‘ (بخاری، الصحح، کتاب الجنائز، باب ما  یستحب انيغسل وتراً، 1: 423، رقم: 1196)

میت کو غسل دینے کا طریقہ یہ ہے کہ جس تخت پر میت کو نہلانے کا ارادہ ہو اس کو تین، پانچ یا سات مرتبہ لوبان یا کسی خوشبو سے دھونی دیں۔ پھر اس پر میت کو لٹا کر تمام کپڑے اتار دیئے جائیں سوائے لباس ستر کے،میت کو قبلہ رخ کرکے یا جیسے بھی آسان ہو لٹایا جائے، اس کے بعد میت کے بدن کے کپڑے چاک کرلیں اور ایک تہبند اس کے ستر پر ڈال کر بدن کے کپڑے اتارلیں، یہ تہبند موٹے کپڑے کا ناف سے لے کر پنڈلی تک ہونا چاہیے تاکہ بھیگنے کے بعد ستر نظر نہ آئے، پھر بائیں ہاتھ میں دستانے پہن کر میت کو استنجا کرائیں، اور اگر جسم سے بول و براز خارج ہو تو غسل دینے والا اپنے ہاتھ پر کپڑا لپیٹ کر میت کی شرمگاہ آگے پیچھے دونوں طرف سے دھوئے، اور پانی بہا دے، نیز ناف سے لیکر گھٹنے تک جسم کو ڈھانپ کر رکھا جائے، اس کی طرف نظر نہ پڑے۔

اس کے بعد شرعی وضو کروایا جائے، میت کا منہ اور ناک پانی سے صاف کیا جائے،وضو میں ناک اور منہ میں پانی نہ ڈالا جائے،بلکہ  کوئی کپڑا یا روئی وغیرہ گیلی کرکے ہونٹوں، دانتوں اور مسوڑھوں پر پھیر دیں، اور ناک بھی اچھی طرح  صاف کردیں، اس کے بعد ناک، منہ اور کانوں کے سوراخوں میں روئی رکھ دیں، تاکہ وضو وغسل کراتے ہوئے پانی اندر نہ جائے۔میت کا چہرہ اور کہنیاں دھوئی جائیں، سر اور کانوں کا مسح کروایا جائے، پھر میت کے پاؤں دھوئے جائیں، پھر جسم کے اعضاء کو دائیں جانب سے دھونا شروع کیا جائے،جلدی جلدی پانی نہ بہایا جائے،آرام سے نہایت ادب اور احترام کے ساتھ غسل دیا جائے،پانی ڈالتے ہوئے بدن کو بھی آہستہ آہستہ ملا جائے۔ اس کے بعد میت کو ذرا بٹھانے کے قریب کردیں اور پیٹ کو اوپر سے نیچے کی طرف آہستہ آہستہ ملیں،اگر کچھ نجاست نکلے تو اس کو صاف کرکے  دھو ڈالیں۔ پھر سارے بدن کو خشک تولیہ وغیرہ سے صاف کردیا جائے،اور پھر بیری کے پتوں والا پانی سر پر بہا دیا جائے، اس کے بعد دائیں جانب اور پھر بائیں جانب پانی ڈالا جائے، اور پھر پورے بدن پر پانی بہا دیا جائے، آخری باری پانی بہاتے ہوئے کافور بھی لگایا جائے، کافور ایک مشہور خوشبو ہے جس سے جسم کی حفاظت اور مہک اچھی ہو جاتی ہے۔غسل کا یہ طریقہ کار افضل ہے، تاہم کسی طرح بھی غسل دیا جائے کفایت کر جائیگا، شرط یہ ہے کہ سارے جسم پر پانی بہایا جائے اور جسم کی اچھی طرح صفائی کی جائے۔اگر تین بار سے زیادہ غسل دینے کی نوبت آئے تو پانچ بار اس بھی زیادہ ضرورت محسوس ہو تو سات بار غسل دیں، یعنی وتر تعداد میں غسل دیا جائے، یہی افضل ہے۔

  چند ضروری احکامات

غسل دینے والا میت کا امانت دار ہے۔ لہٰذا اس کو غسل دینے کے تمام مسنون طریقے استعمال کرنے چاہئیں۔

 غسل دینے والے کو میت کے عیبوں کی پردہ پوشی کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

 غسل دینے والے کو میت کے ساتھ مکمل احترام اور نرمی کرنی چاہیئے۔ لباس اتارتے اور کفن پہناتے وقت غیر ضروری جلد بازی اور سختی نہیں کرنی چاہیئے۔

مسلمان کو غسل دینا اور اس کی تدفین میں حصہ لینا فرض کفایہ ہے۔ اس لئے اس عمل میں حصہ لینے والے کو اجر و ثواب کے حصول کی مکمل نیت کرنی چاہیئے۔ غیر مسلم کو غسل دینا اورمسلمانوں کے ساتھ دفن کرنا جائز نہیں ہے۔غسل دینے والے کے حق میں افضل یہ ہے کہ وہ غسل کرلے تاکہ استحباب پر عمل بھی ہوجائے اور میت کو غسل دینے، اسے باربار دیکھنے اور حرکت دینے سے ذہن میں جو فتور پیدا ہوگیا ہے وہ زائل ہوجائے۔اگر غسل نہ کرسکے تو کم ازکم وضو کرلیگرچہ انہوں نے پہلے وضو کیا ہو۔ اگر پہلے وضو نہیں کیا تو نماز جنازہ کیلئے وضو تو بہرحال کرنا ہے۔ابن عباس رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ میت کو غسل دینے سے تمہارے لئے غسل کرنا واجب نہیں ہے جبکہ تم اسے غسل دو کیونکہ تمہارا میت نجس (ناپاک) نہیں ہوتا تو تمہارا ہاتھ دھولینا ہی کافی ہے۔ امام حاکم، امام ذہبی اور علامہ البانی رحمہم اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور حافظ ابن حجر ؒ نے حسن کہا ہے۔

ابن عمررضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ہم لوگ میت کو غسل دیتے تھے تو ہم میں سے بعض لوگ غسل کرتے اور بعض لوگ غسل نہیں کرتے۔

اس روایت کو البانی صاحب نے صحیح السند قرار دیا ہے۔(مسند احمد الجنائز:72)

اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا  نے جب اپنے شوہر ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کوان کی وفات پر غسل دیا تو انہوں نے مہاجرین سے پوچھا کہ سخت سردی ہے اور میں روزے سے ہوں کیا مجھے غسل کرنا پڑے گا تو صحابہ نے جواب دیا کہ نہیں۔ (مصنف ابن ابی شیبہ: 6123، موطا امام مالک:521)

کفن دینے کا طریقہ

آپ ﷺنے ارشاد فرمایا: ’’زیادہ قیمتی کفن استعمال نہ کرو، کیوں کہ وہ جلدی ختم ہو جاتا ہے۔‘‘(ابوداود)

کم از کم ایک بڑی چادر سے مکمل طور پر میت کو لپیٹنا ضروری ہے۔ کفن کے تین کپڑے ہونے چاہئیں۔ کفن سفید رنگ کا ہونا چاہیئے۔ ایک چادر زمین پر بچھا کر میت کو اس کے اوپر لٹایا جائے۔ پھر دونوں اطراف سے لپیٹ دی جائے۔ ایک چادر کو

بطور شلوار ٹانگوں اور دوسری چادر کو بطور قمیض سر اور سینے پر لپیٹ دی جائے۔خیال رکھا جائے کہ جہاں قمیض میں سوراخ ہے وہی میت کو رکھا جائے۔نہانے کے فورا بعد دو یا تین مسلمان بھاء اس کام کو کر لیں۔دو تین کپڑے کی رسی بھی رکھ لے اور سر میں کمر میں اور پیروں کو آہستہ سے باندھ دیں۔

مر د کے لیے سنت تین کپڑے ہیں، لفافہ یعنی چادر جو میت کے قد سے اس قدر زیادہ ہو کہ دونوں طرف باندھ سکیں ازار یعنی تہ بند چوٹی سے قدم تک یعنی لفافہ سے اتنا چھوٹا جو بندش کے لیے زیادہ تھا اور قمیص جسے کفنی کہتے ہیں، گردن سے گھٹنوں کے نیچے تک اور یہ آگے اور پیچھے دونوں طرف برابر ہو، چاک اور آستین اس میں نہ ہوں۔کفن اور میت کو خوشبو لگانا بھی بہتر ہے۔ کافور اور دیگر خوشبویات کو ناک کان اور دیگر اعضاء پر لگائیں۔

عورت کے لیے کفن میں پانچ کپڑے سنت ہیں، تین تو یہی اور اوڑھنی، اس کی مقدار تین ہاتھ یعنی ڈیڑھ گز ہے، سینہ بند، سینہ سے ناف تک اور بہتر یہ ہے کہ ران تک ہو ہاں مرد اور عورت کی کفنی میں فرق ہے۔ مرد کی کفنی مونڈھے پر چیریں اور عورت کے لیے سینہ کی طرف یعنی مرد کی کفنی کا گر بیان مونڈھے کی طرف ہوگا اور عورت کی کفنی کا سینہ کی طرف ہے۔ میت کو قبر میں اتارنے کے بعد کفن کھول دینا چاہیئے۔

نمازِ جنازہ کا طریقہ

 ہر مسلمان کا جنازے کی نماز پڑھنا ضروری ہے۔ میت مرد ہو یا عورت، چھوٹا ہو یا بڑا۔

 چار مہینے سے زائد عمر کا حمل اگر ساقط ہو جائے تو بھی ناقص الخلقت بچے کا جنازہ پڑھانا چاہیئے کیونکہ اس بچے میں روح ڈال دی گئی تھی۔

 اگر بچے میں روح نہیں ڈالی گئی تھی تو ایسے اسقاط کا غسل و جنازہ نہیں ہوتا۔

 میت اگر مرد ہو تو اس کے درمیان میں اور  اور عورت کے سر کی طرف امام کو کھڑا ہونا چاہیئے۔

جنازے کی چار تکبیرات ہوتی ہیں۔ پہلی تکبیر کے بعد تعوذ،(اعوذ باللہ)بسم? اورثنا پڑھی جائے۔ دوسری تکبیر کے بعد دوردِ ابراہیمی مکمل پڑھا جائے۔

تیسری تکبیر کے بعد مسنون دعائیں میت کی بخشش کے لئے پڑھی جائیں۔ اور چوتھی تکبیر کے بعد سلام پھر دی جائے۔دعایئں الگ الگ ہیں، بالغ کے لئے الگ نابالغ کے لئے الگ،اسے دریافت کر لیں۔

تدفین کا طریقہ

قبر کو گہرا کرنا لازمی ہے تاکہ درندوں سے میت محفوظ رہ سکے۔  قبر کو ’’لحد‘‘ کے طریقے پر بنانا افضل ہے۔ یعنی پہلے ایک گہرا گڑھا کھود کر پھر ایک پہلو میں دوسر گڑھا نکالنا۔ اس طریقے کو ’’لحد‘‘ کہتے ہیں۔ اگر اس طرح لحد نہ بنائی جا سکے تو صرف ایک سادا سا گڑھا بنانا بھی جائز ہے۔

 میت کے چہرے کو قبلے کی طرف موڑ دینا چاہیئے۔ گڑھا بند کرنے کیلئے پہلے پتھر کی اینٹیں یا لکڑی کا تختہ رکھ دیا جائے تاکہ میت کو مٹی نہ لگے۔ قبر کو بلند اور سیمنٹ سے پختہ نہیں کرنا چاہیئے۔ طلوع و غروبِ شمس اور زوال کے وقت میت کو دفن نہ کریں۔ اس کے علاوہ تمام اوقات (دن رات) میں دفن کرنا جائز ہے۔

اسلام نے جس طرح میت کو دفن کرنے کا حکم دیا ہے، اسی طرح اس بات کی بھی تعلیم دی ہے کہ ایک آبادی کے مردوں کو تدفین کے لئے مخصوص مقام یعنی قبرستان میں ہی دفن کیا جائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اہل مدینہ کے لئے بقیع الغرقد (عرفی نام جنت البقیع) کا قبرستان مختص تھا جہاں مسلمان میتوں کو دفن کیا جاتا تھا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بقیع الغرقد میں جاکر فوت شدگان کی مغفرت کی دعا کیا کرتے تھے۔ (مسلم:۳/۴۱، نسائی:۱/۶۸۲،احمد:۶/۱۲۲)

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا،،میں تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کرتا تھا، اب ان کی زیارت کرلیا کرو (اس کی اجازت ہے) کیونکہ یہ آخرت کی یاد دلاتی ہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ جو شخص (قبرستان کی) زیارت کے لئے جانا چاہے، اسے اجازت ہے مگر وہاں جاہلانہ باتوں سے اجتناب کرو۔” (مسلم:۶/۳۵، احمد:۵/۰۵۳،ابوداؤد:۲/۲۲۷،بیہقی:۴/۷۷، نسائی: ۱/۵۸۲) ایک روایت میں ہے کہ

”قبروں کی زیارت کرو۔ بلاشبہ اس میں عبرت ہے اور کوئی ایسی بات نہ کرو جس سے اللہ ناراض ہو۔” (احمد:۳/۸۳،حاکم:۱/۳۷۳) ایک اور روایت میں ہے کہ

”قبروں کی زیارت کرو، یہ دل کو نرم کرتی ہیں۔ آنکھوں سے آنسو بہاتی ہیں اور آخرت کی یاد دلاتی ہیں اور وہاں لغویات سے اجتناب کرو۔” (احمد:۳/۷۳۲، حاکم:۱/۶۷۳)

حضرت جابررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ”اللہ کے رسول نے قبر کو چوناگچ کرنے، ا س پر بیٹھنے اور اس پر عمارت بنانے سے منع کیا ہے۔” (صحیح مسلم:۰۰۷۹، ابوداؤد:۵۲۲۳، ترمذی:۲۵۰۱، نسائی:۶۶۲۰۲، ابن ماجہ: ۲۶۵۱، احمد:۳/۹۹۳،حاکم:۱/۰۷۳،عبدالرزاق:۳/۴۰۵)

حضرت ابوسعیدرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر عمارت بنانے، ان پربیٹھنے اور وہاں نماز پڑھنے سے منع کیا ہے۔” (ابن ماجہ:۴۶۵۱،ابویعلی:۰۲۰۱،مجمع الزوائد:۳/۱۶)

حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ”اللہ کے رسول نے قبر پر عمارت بنانے یا اسے پختہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔” (مسند احمد:۶/۹۹۲)

امام محمد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ

”ہم اس چیز کو درست نہیں سمجھتے کہ قبر پر اس کی اپنی مٹی سے زیادہ مٹی ڈالی جائے اور ہم اسے بھی مکروہ(بمعنی حرام) سمجھتے ہیں کہ قبر کو چونا گچ کیا جائے یا مٹی سے لیپا جائے یا اس کے قریب مسجد بنائی جائے یا نشان بنایا جائے یا اس پر لکھا جائے۔ اسی طرح ہمارے نزدیک پختہ اینٹ سے قبر بنانا یا اسے قبر میں استعمال کرنا مکروہ ہے۔ البتہ قبر پر پانی لگانے میں کوئی گناہ نہیں اور امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کا بھی یہی فتویٰ ہے۔” (کتاب الآثار مترجم:۶۲۱، فتاویٰ قاضی خان:۱/۳۹)

امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ

‘میں نے مہاجرین اور انصار صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیکم اجمعین کی قبروں کو پختہ تعمیر شدہ نہیں دیکھا۔ طاؤس روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  نے قبروں پر عمارت کی تعمیر یا اسے پختہ کرنے سے منع کیا ہے اور میں نے ان حکمرانوں کو دیکھا ہے جو مکہ میں قبروں پر بنائی جانے والی عمارتیں گرادیتے تھے۔ جبکہ فقہا ان پر عیب نہیں لگاتے تھے۔” (کتاب الام:۱/۷۷۲)

 ابن قدامہ حنبلی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ قبر پر عمارت تعمیر کرنا، اسے پختہ بنانا یا اس پرکتبہ لگانا مکروہ ہے کیونکہ امام مسلم رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی صحیح حدیث  میں روایت کیا ہے کہ ”اللہ کے رسول ﷺنے قبر پختہ بنانے، اس پر عمارت کھڑی کرنے اور اس پر بیٹھنے سے منع کیا ہے۔ ” (المغنی:۳/۹۳۴)

امام مالک  رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ”میں قبروں کوپختہ بنانے اور ان پر عمارت تعمیر کرنے کو مکروہ (حرام) سمجھتا ہوں۔” (المدون الکبریٰ:۱/۰۷۱)

شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں”قبر زمین سے ایک بالشت اونچی بنائی جائے اور اس پر پانی چھڑکا جائے۔ اس پر سنگریزہ رکھنا اور مٹی سے لیپ کرنا جائز ہے مگر پختہ گچ کرنا مکروہ ہے۔” (غنیہ الطالبین: ۴۶)

ابوالحسن موسیٰ کاظم رحمتہ اللہ علیہ ”قبر پر عمارت تعمیر کرنا،اس پر بیٹھنا،اسے پختہ کرنا اور لپائی کرنا درست نہیں۔” (الاستبصار:۱/۷۱۲)

امام جعفرصادق رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر پر ایسی مٹی زیادہ کرنے سے منع کیا ہے جو اس سے نہ نکلی ہو۔ قبروں پر عمارت تعمیر نہ کرو اور نہ ہی گھروں کی چھتوں کو مصوری سے مزین کرو یقینا اللہ کے رسول نے اسے ناپسند کیا ہے۔”(تہذیب الاحکام:۱/۰۶۴۔۱۶۴)

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: (ایک آدمی دہکتے ہوئے انگارے پر بیٹھ  جائے جو اسکے کپڑے جلا کر اسکی جلد بھی جلا دے، یہ اسکے لئے قبر پر بیٹھنے سے بہتر ہے) مسلم: (971)

حضور ﷺ نے قبروں کواکھاڑنے والے مردوں اور عورتوں پر لعنت بھیجی ہے،(التمہیدلما في الموطأ من المعانی والأسانید(موطأامام مالک)،ص:139-138)۔

آپ ﷺ کا ارشاد ہے ،میت کی ہڈیوں کی توڑ تاڑ اسی طرح ممنوع ہے،جیسے زندہ انسان کی’’- زندہ ومردہ ہر حال میں احترامِ آدمیت کو ملحوظ رکھاجائے،،(مسلم)۔ (احکام الغسل والتکفین والجنائز، شیخ خالد المصلح)

عتبہ بن عامر الجہنیؓ حضرت ابوبکرصدیق ؓکے پاس مشرکین کے مقتولین میں سے ایک شخص کا سر لے آئے، اس پر حضرت ابوبکر صدیق ؓناراض ہوئے اور انھوں نے اپنے کمانڈ روں کو لکھا: ’’میرے پاس کوئی سرنہ لایاجائے ور نہ یہ حد سے تجاوز ہوگا، یعنی دل کی بھڑاس نکالنے میں۔میرے لئے اللہ کی کتاب اور اس کے رسول ﷺکی سنت کافی ہے۔‘‘

نصیحت

بوقتِ ضرورت اگر کوئی رشتہ دار آجائے تو اس کو غسل کے بعد یا قبل ازدفن دکھانے کی گنجائش ہے،تاہم رسماً اس کا معمول مناسب نہیں،بسااوقات آثارِ برزخ شروع ہوجاتے ہیں جن کا اخفاء مقصودہے۔۔اگرتدفین کے بعد کچھ دور کے مہمان حاضر ہوں جن کا واپس جانا دشوار ہو ان کے کھانے کا نظم کردینے میں مضایقہ نہیں؛لیکن اس موقع پر باقاعدہ اہلِ میت کی طرف سے کھانے کا اہتمام درست نہیں، فقہاء نے اس کو بدعتِ قبیحہ میں شمار کیا ہے؛کیونکہ دعوت کی مشروعیت خوشی کے موقع پر ہے غمی کے موقعہ پر دعوت مشروع نہیں۔(ویکرہ اتخاذ الضیافۃ من الطعام من أہل المیت؛لأنہ شرع فی السرورلا فی الشرور،وہی بدعۃتقبحۃ(شامی:۳/۸۴۱ط:زکریا دیوبند)

انتقال کے بعد میت کی تجہیز و تکفین اور تدفین میں جلدی کرنے کا حکم ہے، قریبی اعزاء کے لئے کچھ دیر تو انتظار کی گنجائش ہے؛ لیکن بہت زیادہ تاخیر کرنا منع اور خلافِ سنت ہے، ہاں اگر کسی سخت مجبوری میں زیادہ تاخیر ہو،سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا جب انتقال ہوا تو آپ نے اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو جلدی کفن دفن کرنے کا حکم دیا۔

میت والے گھر میں تین دن تک کھانا پکانے کی ممانعت نہیں ہے، البتہ میت کے گھر والے چونکہ غم کی وجہ سے کھانے کا اہتمام نہیں کرسکیں گے اس لیے قریبی عزیزوں یا ہمسایوں کی طرف سے میت کے گھروالوں کے یہاں دو وقت کھانا بھیجنا مستحب ہے؛ اس لیے تین دن کھانا پکانے سے رکنا غلط رسم ہے جو قابل ترک ہے۔ (قال في الفتح: ویستحب لجیران أہل المیت والأقرباء الأباعد تہیء فی طعام لہم یُشبعہ یومہم ولیلتہم (شامي: ۲/۰۴۲، ط: سعید کراچی)

میت کے گرد اجتماع اور اہل  میت کا لوگوں کے لئے کھانا تیار کرنا ایک بہت بڑا گناہ ہے اور بہت  سے علاقے اس قبیح حرکت کا شکار ہو کر مقروض ہوجاتے ہیں  اور بسا اوقات وہ تو سود پر قرض لینے پر بھی مجبور ہوجاتے ہیں اس طرح سے وارثوں کا اور بطور خاص یتیموں کا مال برباد کیا جاتا ہے۔

حضرت جریر رضی اللہ تعالی عنہ بن عبداللہ ’’المتوفی51 ھجری ’’فرماتے ہیں:

(ابن ماجہ ص117، مسند امام احمد ج2 ص204)۔۔۔۔۔ ہم یعنی حضرات صحابہ اکرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین میت کے گرد جمع ہونے کو اور میت کے گرد کھانا تیار کرنے کو نوحہ سمجھتے تھے۔         میت کے گھر کھانے کے اہتمام میں چند باتیں ضروری ہیں،

ایک یہ کہ یہ کسی قسم کی شرعی رسم نہیں، بلکہ ایک اخلاقی نوعیت کی چیز ہے۔ دوسرے یہ کہ میت کے گھر والوں کے علاوہ اس کھانے میں صرف انہی لوگوں کو شریک ہونا چاہیے جو دور دراز سے آئے ہوں۔ زیادہ لوگ ہوں گے تو اس کا اہتمام میت کے رشتہ داروں کے لیے باعثِ زحمت ہو گا۔ اس لیے نزدیک رہنے والے لوگوں کو اپنے گھر لوٹ کر ہی کھانا کھانا چاہیے۔ تیسرے یہ کہ اکثر اوقات اس کھانے کو میت کے سسرالی عزیزوں کی ایک لازمی ذمہ داری بنادیا جاتا ہے۔ یہ رویہ بھی ٹھیک نہیں۔ صحیح رویہ یہ ہے کہ رشتہ داروں میں سے جو بھی صاحبِ حیثیت ہو اسے چاہیے کہ وہ اس کھانے کو اپنی ایک اخلاقی ذمہ داری سمجھ کر قبول کرے۔ سسرال والوں پر بوجھ ڈالنا مناسب ہی نہیں غیر اخلاقی بھی ہے۔اہل میت رنج و الم میں مبتلا ہوتے ہیں، انہیں اس طرح یہ اہتمام کرنا پڑتا ہے جیسے خوشی کے موقع پر کیا جاتا ہے۔ پھر اسی طرح تیسرے دن پھر آٹھویں دن۔ اس طرح یہ سلسلہ چالیس دن تک چلتا رہتا ہے۔ بعد چالیس دن کے ”چالیسویں” کے نام سے ایک دعوت اس طرح ہوتی ہے کہ اس میں پرتکلف کھانے، چائے، سگریٹ، پان چھالیہ کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہاں شادی کی کوئی تقریب ہے۔اہل میت اس دعوت سے ذہنی اور مالی طور پر کافی پریشان اور زیر، بار ہوتے ہیں، وہ بھی مجبورا اس رسم کو نبھانے کے لیے قرض لیتے ہیں اور بعد میں قرض اتارنے کے لیے گھر کا سامان تک فروخت کرنا پڑتا ہے اور اس طرح مفلسی مستقل طور پر ان کے ہاں اپنا ڈیرہ ڈال لیتی ہے۔ اگر ان کو منع کیا جائے تو وہ جوابا کہتے ہیں کہ تم یہ چاہتے ہو کہ برادری میں ہماری ناک کٹ جائے اور تمام عمر ہم اپنے رشتہ داروں کے طعنے سنیں۔

اہل میت کی طرف سے کھانے کی ضیافت کرنا منع ہے، کیونکہ ضیافت خوشی کے موقع پر ہوتی ہے نہ کہ غمی کے موقع پر۔ نیز اس قسم کی ضیافت بدعت شنیعہ ہے۔” یہی الفاظ و عبارت حنفیہ کی مشہور کتاب ”مراقی الفلاح” میں بھی ہیں۔

فتاویٰ خلاصہ۔سراجیہ۔ظہریہ۔ تاتارخانیہ اور عالمگیری میں ہے۔

واللفظ للسراجیہ۔(الفاظ سراجیہ کے ہیں)

آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آلِ جعفر کے لیے کھانا تیار کرو۔ کیونکہ ان کو ایسا معاملہ درپیش آ گیا ہے (وفات کا) کہ جس نے ان کو مشغول کر دیا ہے۔ (سنن ابو داود باب صنع الطعام لأال الميت سنن ابن ماجہ  باب ما جاء فی الطعامي بعث إللہ  ال المیت جامع الترمذی  باب ما جاء فی الطعاميصنع لأفیل المیتی مصنف عبد الرزاق 2/550)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”ہر وہ چیز جو تمہیں جنت سے قریب اور جہنم سے دور کر دے اس کے کرنے کا میں نے تمہیں حکم دے دیا ہے۔ جو چیز تمہیں جہنم سے قریب اور جنت سے دور کر دے اس سے منع کر دیا ہے۔”پس جس چیز کا ذکر شریعتِ مطہرہ میں بالکل نہ ہو اسے دینی و شرعی حیثیت دے کر باعثِ اجر و ثواب سمجھتے ہوئے جاری و اختیار کرنا بدعت کہلاتا ہے۔(اس حدیث پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے راوی عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ ہیں۔۔ ماخوذ۔۔مشکوٰۃ شریف ص 452)

ماخوذ: الدارالمختار مع رد المحتار: ۳۹۱/۲، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، ط: دار الفکر، بیروت اور دیگر مضامین سے۔

تبصرے بند ہیں۔