جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

ایک اخبار نے سرخی لگائی ہے کہ ’’بجٹ میں نوٹ بندی سے زخمی لوگوں کے لیے مرہم‘‘ اور اس کے بعد تفصیل میں بتایا گیا ہے کہ کسانوں کو قرض کے لیے 10 لاکھ کروڑ، گائوں کے مزدوروں کے لیے منریگا میں 48000 کروڑ، اور چھوٹے نیز درمیانی صنعت کاروں کے ٹیکس میں کمی۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وزیر مالیات ارون جیٹلی کو گھوم پھر کر دیکھنے کی توفیق تو کیا ہوتی انھوں نے شاید ٹی وی دیکھنے کی زحمت بھی نہیں کی۔ انھوں نے سب سے پہلے کسانوں کو قرض دینے بات کی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جیٹلی صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ گائوں میں صرف کسان رہتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ کسان جو اس قابل ہیں کہ قرض لے سکیں وہ پنجاب، ہریانہ، مغربی یوپی یا صوبہ میں کہیں کہیںہوتے ہیں اور وہ نوٹ بندی سے پریشان ضرور ہوئے زخمی نہیںہوئے۔ زخمی وہ ہوئے ہیں جو گائوں میں رہتے تو ہیں لیکن وہ خود کسان نہیں ہیں۔ گائوں میں جب کام ہوتا ہے تو وہ گائوں میں مزدوری کرتے ہیں اور جب بونے یا کاٹ کر رکھنے کا کام ختم ہوجاتا ہے تو قریب کے شہر آجاتے ہیں اور وہاں کام کرتے ہیں۔

گائوں میں ہی ایک طبقہ وہ ہے جو صرف پیدا گائوں میں ہوا اور ہوش سنبھالنے کے بعد کسی بڑے شہر میں کسی کارخانہ میں یا ملازم ہوگیا یا آج یہاں کل وہاں کارخانوں میں کام کرتا ہے اور چھٹی لے کر اپنے بچوں کے پاس گائوں جاتا ہے اور پھر واپس آکر کام کرتا ہے۔ بجٹ میں ان کے لیے کچھ نہیں ہے اور سب سے زیادہ زخمی وہی ہے کیوں کہ وہ 300 روپے روز کمارہا تھا اور اب تین مہینے سے گائوں میں پڑا ہے اور کچھ خبر نہیں کہ کیسے زندگی گذار رہا ہے؟

جنوری میں وزیر اعظم نے ایک دن بغیر کسی تقریب کے اعلان کیا تھا کہ گائوں میں اپنے مکان کو بڑا کرنا یا دو منزلہ بنانے کے لیے گائوںوالوں کو کم سود پر قرض ملے گا اور شہر میں بھی غریبوں کو کم سود پر مکان کے لیے قرض دیا جائے گا۔ 2016کے بجٹ میں جیٹلی صاحب نے ہی کہا تھا کہ ملک میں پانی کا مسئلہ حل کرنے کے لیے 10لاکھ تالاب بنوائے جائیںگے جس کے لیے 60لاکھ کروڑ روپے مخصوص کردئے گئے ہیں۔

تالابوں کی تفصیل میں کہا گیا تھا کہ 20 فٹ لمبا 20 فٹ چوڑا اور 10 فٹ گہرا ہوگا جس پر ایک لاکھ ۵۰ ہزار گاگت آئے گی اور حکومت سبسڈی کے طور پر آدھا خرچ دے گی اور آدھا کسان خو د لگائے گا۔ ملک میں جب کسان کی بات ہوتی ہے تو شاید کوئی نہیںجانتا کہ کسان کتنے قسم کے ہوتے ہیں؟ کسان وہ بھی ہے جس کے دروازہ پر کار کھڑی ہے اور ٹریکٹر سے سارا کام ہوتا ہے۔ اور کسان وہ بھی ہے کرایہ کے ٹریکٹر سے اپنا کام کراتا ہے اور کسان وہ بھی ہے جو ٹریکٹر کا ڈرائیور ہے اس لیے کہ اس کے پاس 4 بیگھہ بھی زمین نہیں ہے۔

حکومت کی طرف سے قرض دینے کی بات ایسے کہی جاتی ہے جیسے بینک کے دروازہ پر بینک کا کوئی افسر نوٹ لیے بیٹھا ہے اور جو کسان آتا ہے اسے اس کی ضرورت کے مطابق قرض دے دیتا ہے۔ ایک مذاکرہ میں بحث کے دوران ایک ایسے کارکن نے جو برسوں سے دیہاتوں میں کام کررہے ہیں بتایا کہ وہ جو تالاب کے لیے ساڑھے 52 ہزار روپے حکومت دیتی ہے اسے حاصل کرنے میںکم از کم 20 ہزار روپے خرچ ہوجاتے ہیں اور لگ بھگ 6 مہینے لگ جاتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پھر اس میں سے لوک پال کا حصہ اسے دیکر لکھوادیا جاتا ہے کہ اتنی جگہ میں تالاب بن گیا ہے اور اگر اتفاق سے کوئی دیکھنے چلا گیا تو یا تو اسے یقین دلایا جاتا ہے کہ تالاب تھا خشک ہوگیا یا اسے اس کا حصہ دے دیا جاتاہے اور وہ لکھ دیتا ہے کہ تالاب ہے مگر پانی کم ہے۔

چھوٹے ا ور درمیانے کارخانوں کے بارے میں یہ کہنا کہ ان کے ٹیکس میں رعایت کی جارہی ہے انتہائی بھونڈا مذاق ہے۔ ان کی انکم ہی کہاں رہ گئی جو وہ رعایت سے فائدہ اٹھائیںگے؟ ان کارخانوں میں تو الّو بول رہے ہیں۔ یہ وہ ہیں جنھوں نے 15 نومبر کو ہی کہہ دیا تھا کہ وزیر ا عظم نے ان کی کمر توڑ دی۔ ہم اب تک فیصلہ نہیں کرپائے کہ جو کچھ مودی جی نے کیا وہ کیا تھا۔ وہ کیا کرنا چاہتے تھے اور کیا ہوگیا؟ یہ تو ذہن قبول نہیں کرتا کہ کوئی وزیر اعظم اپنے ہی ملک کی معیشت کو بے وجہ برباد کردے۔ اور مودی یہ بتاتے نہیں کہ وہ کیا کرنا چاہتے تھے جو الٹا ہوگیا؟ مودی جی خود دیکھ رہے ہیں کہ جس کجریوال کا کوئی تعلق پنجاب سے نہیںہے وہ ہریانہ کے رہنے والے ہیں اور دہلی میں رہتے ہیں وہ صرف وزیر اعظم کو نشانہ بنا کر پنجاب میں الیکشن لڑ رہے ہیں اور پنجاب کے سکھ اور ہندو لاکھوںکی تعداد میں اس کی جے کررہے ہیں۔ اور تجزیہ نگار کہہ رہے ہیں کہ  الیکشن کانگریس اور کجریوال کے درمیان ہے۔

بجٹ کے لیے وزیر اعظم نے وزیر مالیات کی تعریف کی ہے۔ شاید یہ بھی ایک روایت ہے کہ ’’من تراحاجی بگویم تو مرا ملّا بگو‘‘ یہی کیا کم مذاق تھا کہ بجٹ کے دوران مودی جی بھی میز تھپتھپارہے تھے جیسے ان کے لیے بھی یہ نئی بات ہے۔ انھوں نے تعریف بھی کردی۔

مودی جی نے ایک روایت کو پامال کردیا کہ بجٹ کی تاریخ سے پہلے کیرالا کے ایک نامور لیڈر ای احمد کا انتقال ہوگیا وہ پارلیمنٹ کے ممبر بھی تھے اور کیرالا مسلم لیگ کے سب سے بڑے لیڈر تھے۔ حزب مخالف نے اصرار کیا کہ تعزیتی قرار داد پاس کرکے اجلاس ملتوی کردیا جائے لیکن مودی نہیں مانے کہنے والوں نے یہ بھی کہا کہ وہ مسلمان تھے اور مسلم لیگ کے لیڈر تھے۔ کسی نے کہا کہ مودی جی بھی جوتشی سے تاریخ اور وقت نکلواکر لاتے ہیں وہ اس وقت کو ٹال نہیں سکتے تھے۔ اور ہمیں یاد آیا کہ کشمیر کے وزیر اعلیٰ مفتی سعید دہلی کے اسپتال میں ایڑیاں رگڑتے رہے اور مر کر کشمیر چلے گئے لیکن مودی نظر نہیں آئے اور وہی مودی اپنے صدر جمہوریہ کے ساتھ چنئی جے للتا کی آخری رسوم میں شرکت کے لیے گئے اور ایسے شریک ہوئے جیسے بڑے گہرے ذاتی رشتے بھی تھے۔ بہرحال جو ہوا اس پر کیا رونا اور جو ہوگا اس سے کیا ڈرنا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔