جھگڑا پریوار کاہو یا سرکار کا نقصان ہر حال میں ہے

حفیظ نعمانی

            اترپردیش میں حکمراں سماج وادی پارٹی میڈیا کا موضوع بنی ہوئی ہے۔ بات صرف وزیر اعلیٰ، وزیروں اور افسروں کی نہیں ہے، بلکہ چچا اور بھتیجے کے نازک رشتوں کی بھی ہے۔ 2012ء میں انتہائی کامیابی کے بعدجو اچانک ملائم سنگھ نے فیصلہ کیا کہ وزیر اعلیٰ وہ نہیں بنیں گے بلکہ اپنے بیٹے اکھلیش یادو کو بنائیں گے تو اگرہماری صحت اچھی ہوتی اور شیو پال سے اسی طرح ملنا جلنا ہوتا جیسے 2007ء میں تھا تو ہم ضد کرتے کہ وہ اب وزیر بننے پر آمادہ نہ ہوں بلکہ پارٹی کے صدر بن جائیں یا کوئی اور عہدہ لے لیں۔

            شیو پال سنگھ کو شاید یہ خیال ہوگا کہ انھوں نے اسے اولاد کی طرح پالا ہے؟لیکن انھیں اس کا خیال کیوں نہیں آیا کہ کہ وہ اگر بھائی تھے تو بڑے بھیا ملائم سنگھ کو دوسری شادی سے کیوں نہیں روکا؟ اور اگر وہ نہیں مانتے تھے تو لوگ ان سے لپٹے کیوں رہے؟ شیو پال نے پہلی غلطی یہ کی کہ بھتیجے کا ماتحت بننا قبول کیا، اس کے بعد جب انھوں نے مختار انصاری کی پارٹی کو پارٹی کی بہتری کے لیے ضروری سمجھا اور ملائم سنگھ سے مشورہ کرنے کے بعد انھوں نے مختار کی پارٹی کو سماج وادی پارٹی میں شامل کرلیا تو اکھلیش یادو نے جس طرح سب کو ذلیل کرکے اسے ختم کیا اور ایک منٹ کے لیے یہ نہیں سوچا کہ چچا باپ کے برابر ہوتا ہے، ان سے پہلے بات کروں پھر خوبصورتی سے کوئی قدم اٹھائوں گا۔ افضال انصاری نے جس وقت کہا ہے کہ ہمیں دھوکہ دیا، راجیہ سبھا اور کونسل کے لیے ہم سے مدد مانگی اور اب آنکھیں پھیر لیں، تو شیو پال کے آنسو تو نہیں نکلے لیکن لگتا ہے جیسے دل بھر کے روئے ہیں اور دکھ اس کا تھا کہ  اولاد نے ذلیل کیا ہے۔

            اور اب پی ڈبلیو ڈی اورایری گیشن جیسے بڑے محکمے ایک منٹ میں واپس لے لیے اور جسم پر ایک نیکر اور ایک بنیان رہنے دیا اور کہا جائو اب پارٹی کے صدر بنو، اس کے بعد نہ انھیں دہلی جانا چاہیے تھا نہ وزیر بنے رہنا چاہیے تھا بلکہ پارٹی سے ہی استعفا دے دینا چاہیے تھا اور الیکشن کے وقت یہ فیصلہ کرنا چاہیے تھا کہ اب کیا کرنا ہے۔

            ایک بات جو ہے مگر سامنے نہیں آرہی ہے وہ شری ملائم سنگھ کی دوسری بیوی کی موجودگی ہے۔ جن کا بیٹا اتنا بڑا ہے کہ وہ سب کچھ بن سکتا ہے، لیکن کچھ قانونی مجبوری ہے جس نے ہاتھ باندھ رکھے ہیں لیکن اپنی چھوٹی بہو کو وہ لکھنؤ کی اس سیٹ سے لڑا رہے ہیں جہاں سے بہوگنا ایم ایل رہے ہیں۔ قانون کی وہ مجبوری جس نے ملائم سنگھ کے ہاتھ باندھ دئے ہیں وہ آخر کا ر ایک دن ختم ہوگی اور پھر اس کے بعد نیتا جی اپنی پہلی بیوی کے بیٹے اکھلیش یادو کو چھوٹے بیٹے کے سامنے ایسا ہی بنا دیں گے جیسے آج شیو پال بنے ہوئے ہیں۔

            ﷲالحمد کہ عمر کی 84 ویں سیڑھی پر کھڑا ہوں، یاد نہیں کتنے خاندانوں کو دیکھا ہے کہ پہلی بیوی جو بہت بڑے گھر کی شاہ زادی تھی اور سب نے اپنے پتی کو اوپر اٹھانے میں سب کچھ لگا دیا وہ جب دنیا سے اٹھ گئیں یا ان سب کی زندگی میں اس کے مجازی خدا نے دوسری شادی کرلی تو قیامت آگئی، پہلی بیوی کی اولاد سامنے ہوتے ہوئے بھی نظر نہیں آتی اور جو پہلی بیوی یا سسرال نے کیا ہے، وہ سب ذکر کے قابل نہیں رہتا، دلچسپ بات یہ ہے کہ دوسری بیوی عام طور پر کم شکل اور غریب گھرانے کی ملتی ہے، لیکن وہی ملکہ بنتی ہے اور اس کی اولاد شاہزادہ اور شاہزادی بنتی ہیں۔

            ہم نے بڑے بڑے زمینداروں، تعلقہ داروں، بڑے بڑے لیڈروں اور وزیروں کو بھی دیکھا ہے اور ان کو بھی دیکھا ہے جنھیں لوگ اللہ والا سمجھ کر ان کے ہاتھ چومتے ہیں، لیکن نہ جانے کیا بات ہے کہ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک صحابیؓ نے آکر عرض کیا کہ میں اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہی رہا کروں گا۔ میں نے اپنے باغ بیٹوں کو دے دئے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم تھا کہ ان کی دو بیویاں ہیں اور دونوں کے دو دو لڑکے ہیں، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ باغ چاروں کو دے دئے؟ عرض کیا نہیں، دونوں چھوٹی بیوی کے لڑکوں کو۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جتنا چھوٹوں کو دیا اتنا ہی بڑوں کو بھی دینا چاہیے۔

            ملائم سنگھ جیسے سیاسی لوگوں کو اگر سیاست کرنا ہے تو دوسری شادی کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہیے۔ اسی لکھنؤ ہی میں سی پی گپتا، بابو ترلوکی سنگھ، رام ساگرمصرا اور نہ جانے کتنے ہیں جنھوں نے ایک بھی شادی نہیں کی، اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ بھائی بھائی کا دشمن ہوجاتا ہے اور اگر شادی کرے تو خیال رہے کہ بچے کم سے کم ہوں۔

            آج ملائم کی صحت جو اتنی گری گری نظر آرہی ہے اس کا سبب صرف ایک ہے کہ چھوٹی بیگم کے یہ جملے کہ بڑے کو تو مکھ منتری بنا دیا اب دیکھو چھوٹا ایم ایل اے بنے یا چپراسی اور چھوٹی بیگم کے جو جملے ہوتے ہیں وہ A.K. 47کی گولیوں کا کام کرتے ہیں۔

            میڈیا میں پریوار میں جھگڑا کہا جارہا ہے، وزیر اعلیٰ سرکار میں جھگڑا کہہ رہے ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ یہ گھریلو جھگڑا ہے جو 2017ء کے بعد اور خطرناک ہوجائے گا، نہرو خاندان میں بھی جھگڑا ہوا اور اب تک ہے، مسٹر فیروز گاندھی کی زندگی اندرا گاندھی نے اجیرن کردی اور خاموشی کے ساتھ اندرا جی دونوں لڑکوں کو لے کر باپ کے گھر آگئیں۔

            سنجے گاندھی نے سونیا سے عشق کیا ماں نے دیکھ کر اجازت دے دی، دونوں نے شادی کرلی، سنجے نے کوشش تو بہت کی مگر لندن میں کیمبرج یونیورسٹی سے کوئی ڈگری نہ لا سکے تو پائلٹ بن گئے، چھوٹے سنجے گاندھی نے پہلے سستی کار ماروتی بنانا چاہی، لیکن بری طرح ناکام رہے تو سیاست میں آگئے اوربا لحاظ اتنے کہ بڑے بھائی کو سلام کی نوبت کم ہی آتی تھی، اس گھٹیا سیاسی منڈلی سے راجیو گاندھی بے زار ہوئے اور وہ زیادہ تر اٹلی میں اسٹے کرنے لگے۔ انتہا یہ ہے کہ سنجے کا حادثہ جب ہوا تو راجیو اور سونیا دونوں ا ٹلی میں تھے، اس کے بعد مینکا گاندھی اور ساس کے درمیان خوب خوب جنگ ہوئی مگر جو یادو پریوار میں ہورہا ہے کہ ایک نے دوسرے کو نیچا اور دوسرے نے تیسرے کو نکال باہر کیا، نہرو پریوار میں کبھی نہیں ہوا۔

            چار مہینے کے بعد الیکشن ہے۔ وزیر اعلیٰ یہ دکھا رہے ہیں کہ حکومت میں سب کچھ میں ہوں، لیکن جو وہ اب دکھا رہے ہیں وہ چار سال پہلے دکھانا چاہئے تھا، اب وہ جو کچھ کررہے ہیں اس سے صرف نقصان ہوگا، انھوں نے امرسنگھ کو بھی دور کردیا، اپنے چچا کو ذلیل کرکے ان سے محکمے واپس لے لیے، افضال انصاری کا جتنا اثر بھی ہو لیکن وہ اگر ناراض ہوتے تو فائدہ پہنچ سکتا تھا۔ اکھلیش بابو کا خیال ہے کہ لکھنؤ کو حسین ترین شہر بنانے اور میٹرو چلانے سے حکومت کو پھر موقع ملے گا لیکن اگر قدم قدم پر دشمن ہوں گے تو ان میں سے کچھ کام نہ آئے گا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔