جی ایس ٹی بل – کس کو کیا ملا؟

سجاد الحسنین

راجیہ سبھا نے گڈّز اینڈ سروسز ٹیکس بل کی منظوری دے دی ہے جس کے اطلاق کے بعد پورے ملک میں ساز و سامان اور سروسز پر صرف ایک مرتبہ ٹیکس نافذ کیا جائے گا اور اس کی شرح پورے ملک میں یکساں ہوگی۔ ملک کی زیادہ تر سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے ہو جانے کے بعد گڈّز اینڈ سروسز ٹیکس کے اطلاق کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔ اس آئینی ترمیم کو پارلیمان کی منظوری مل جانے کے بعد توثیق کے لیے ریاستوں کو بھیجا جائے گا۔ حکومت نئے ٹیکس کا اطلاق آئندہ مالی سال سے شروع کرنا چاہتی ہے۔ اس آئینی ترمیم کو ملک کے ٹیکس نظام میں اب تک کی سب سے اہم تبدیلی قرار دیا جا رہا ہے۔ وزیر خزانہ ارون جیٹلی کے مطابق اس کے نتیجے میں پورا ملک ایک سنگل مارکیٹ میں تبدیل ہو جائے گا۔ ملک کے کسی بھی حصے میں تیار ہونے والا ساز و سامان یا فراہم کی جانے والی سروسز پر ایک ہی شرح سے ٹیکس نافذ کیا جائے گا اور ہر ریاست میں الگ الگ ٹیکس دینے کی ضرورت ختم ہو جائے گی۔ فی الحال صورتحال یہ ہے کہ اگر کوئی سامان ہریانہ سے بن کر ممبئی جاتا ہے تو راستے میں آنے والی ہر ریاست میں کسی نہ کسی شکل میں ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اس بل کے اطلاق کے بعد ایسا نہیں ہوگا۔ ارون جیٹلی نے یہ بھی کہا کہ نئے قانون کے اطلاق کے بعد ٹیکس چوری روکنے میں مدد ملے گی جس سے حکومت کی آمدنی بڑھے گی اور معاشی ترقی کی رفتار تیز ہوگی۔ گڈز اینڈ سروسز ٹیکس کی تجویز دس سال سے بھی زیادہ پرانی ہے لیکن حکومت، حزب اختلاف اور ریاستوں کے درمیان اختلافات کی وجہ سے یہ اب تک التوا کا شکار تھی۔ ریاستوں کو خدشہ تھا کہ ان کی آمدنی کم ہو جائے گی جب کہ حزبِ اختلاف جماعت کانگریس کو فکر ہے کہ حکومت آمدنی بڑھانے کی کوشش میں ٹیکس کی اونچی شرح نافذ کر سکتی ہے۔ واضح رہے کہ سابق وزیر خزانہ پی چدمبرم نے سب سے پہلے اس ٹیکس کی تجویز پیش کی تھی۔ پارلیمان میں خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا ’یہ بالواسطہ ٹیکس ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ غریب ہو یا امیر، سب کو یکساں شرح سے یہ ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ حکومت کو غریب آدمی کا خیال رکھتے ہوئے ٹیکس کی شرح کم سے کم رکھنی چاہیے اور یہ کسی بھی حالت میں 18 فیصد سے زیادہ نہ ہو ورنہ مہنگائی بڑھے گی اور نیا ٹیکس نافذ کرنے کا بنیادی مقصد ہی ختم ہو جائے گا۔ ‘لوک سبھا میں بی جے پی کی اکثریت ہے اور وہاں یہ بل گذشتہ برس ہی منظور ہو گیا تھا۔ اس بل میں کچھ تبدیلیاں کی گئی ہیں اس لیے اسے دوبارہ منظوری کے لیے لوک سبھا بھی بھیجا جائے گا۔ راجیہ سبھا میں بے جے پی کی حکومت اقلیت میں ہے اس لیے اسے حزب اختلاف کی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے ان کی تجاویزکو تسلیم کرنا پڑا ہے۔ بل کے نافذ ہونے کے بعد جگہ جگہ قائم چنگیاں بھی ختم ہو جائیں گی۔ جہاں سامان استمعال ہوگا، یا خدمات (سروسز) فراہم کی جائیں گی، ٹیکس وہیں وصول کیا جائے گا اور وفاقی حکومت ایک طے شدہ فارمولے کے تحت ریاستوں کو ان کا حصہ دے کر اپنا حصہ اپنے پاس رکھ لے گی۔ نئے قانون پر سب سے زیادہ اعتراض ان ریاستوں کو تھا جو مینیوفیکچرنگ ہب مانی جاتی ہیں، یعنی جہاں صنعتیں زیادہ ہیں انھیں یہ خطرہ ہے کہ ان کی آمدنی کم ہو سکتی ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق جی ایس ٹی کے اطلاق میں اب بھی سب سے بڑی رکاوٹ ایک الیکٹرانک نظام کا قیام ہے کیونکہ ٹیکس کی وصولی اور تقسیم سب کمپیوٹروں کے ذریعہ ہوگی اور آئندہ برس مارچ تک یہ نظام قائم کرنا ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ ماہرین کے مطابق بل کی منظوری اور نفاذ کے بعد معیشت پر کئی منفی اور مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ روزمرہ کی کچھ چیزیں سستی ہوسکتی ہیں تو کچھ مہنگی ہوجائیں گی۔ ماہرین معاشیات کے مطابق ٹی وی، فرج، واشنگ مشین سستے ہو سکتے ہیں جبکہ ریڈی میڈ گارمنٹس اور وہ اشیا جن پر سروس ٹیکس عائد ہوتاہے مہنگی ہوجائیں گی۔ مارکیٹ میں جو سازوسامان فروخت ہوتے ہیں ان پر مرکزی اور ریاستی حکومتیں علاحدہ علاحدہ ٹیکس عائد کرتی ہیں۔ رےڈمےڈ گارمنٹس سیکٹر پر جی ایس ٹی کا اثر بلکل مختلف ہوگا۔ گارمنٹس پر ایکسائز ڈیوٹی عائدنہیں کی جاتی ہے۔ جس کے باعث گارمنٹس پر ٹیکس کا بوجھ کم ہوتا ہے۔ ریڈی میڈ ملبوسات پر ریاستی سطح پر دس سے بارہ فیصدٹیکس عاید ہوتاہے لیکن جی ایس ٹی کے نفاذ کے بعد گارمنٹس پر ٹیکس میں اضافہ ہوا اور ریڈی میڈکپڑے مہنگے ہوسکتے ہیں۔  لیکن عام تاثر یہ ہے کہ یہ قانون نافذ ہونے کے بعد ملک میں کاروبار کرنا آسان ہو جائے گا۔

تبصرے بند ہیں۔