حاجی نگر کا فرقہ وارانہ فساد اور ترنمول کانگریس

عبدالعزیز

کلکتہ سے شائع ہونے والا ایک کثیر الاشاعت اردو اخبار نے کلکتہ سے تقریباً چالیس پچاس کیلو میٹر دوری پر واقع حاجی نگر و مارواڑی کل ضلع شمالی چوبیس پرگنہ کے فرقہ وارانہ فساد کے بارے میں دو اہم سوالات اٹھائے ہیں۔ ایک سوال یہ ہے کہ ترنمول کانگریس میں شامل مسلم لیڈروں نے مسلم کش فساد پر اپنی زبانوں پر تالا کیوں لگا رکھا ہے؟ اور دوسرا سوال یہ کیا ہے کہ ترنمول نے حاجی نگر کی پر امن ریلی سے اپنی پارٹی کے مسلم چہرے کو الگ کیوں رکھا؟ ریلی میں ان لوگوں کو شامل نہیں کیا یا ان لوگوں نے شمولیت سے انکار کیا۔
ان سوالوں کا جواب تو متعلقہ افراد ہی کو دینا چاہئے مگر جو حالات ہیں ان سے عوام کو آگاہ کرنا ضروری ہے۔ ایک بات تو یہ سمجھ میں آتی ہے کہ مذکورہ پارٹی مسلمانوں کو اپنے مقصد اور مطلب کیلئے استعمال کرتی ہے اور مسلم عوام پر یہ تاثر دینے کی کوشش کرتی ہے کہ فلاں فلاں افراد مسلمانوں کے مسلم چہرے ہیں اور ان کی پارٹی کے ہیں۔ یہ لوگ بھی اپنے مادی اور دنیوی مفاد کے تحت اخبارات یا ٹیلیویژن کیلئے تصویریں کھینچوانے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے بلکہ اپنی تشہیر اور ناموری کیلئے مناسب اور موزوں سمجھتے ہیں۔ جہاں تک ان حضرات کا پارٹی میں وزن اور وقعت کا معاملہ ہے تو وہ نہیں کے برابر ہے۔ پارٹی کے اندر اور باہر مسلمانوں کے مفاد کیلئے ان کی زبانیں گنگ ہوتی ہیں۔ اسی میں یہ لوگ اپنی عافیت اور خیریت سمجھتے ہیں کیونکہ ان کو خطرہ درپیش ہوتا ہے کہ کہیں پارٹی سپریمو ناراض نہ ہوجائیں اور ان کو پارٹی سے باہر کردیں یا آئندہ انتخاب میں ٹکٹ سے بھی محروم نہ ہوجائیں۔ پارٹی سپریمو کو بھی ایسے ہی لوگ مطلوب ہیں جو ان کے سامنے بروقت ’’ہاں ‘‘ کہیں اور ہر معاملہ میں ہاں کہا۔ اگر نہیں کہیں گے تو پھر ان کی خیریت نہیں۔
پارٹی میں ایک طرح سے ایسے لوگوں کیلئے ایمرجنسی جیسی حالت ہوتی ہے۔ حاجی نگر، مارواڑی کل یا نئی ہٹی میں مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں کو لوٹا گیا ہے یا نذر آتش کیا گیا، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ترنمول میں شامل مسلم قیادت بے چین اور مضطرب ہوجاتی مگر اسے نہ احساس ہوا اور نہ کسی قسم کا تردد کیونکہ کسی کا بیان یا اظہار خیال تک نہیں آیا۔ ایک صاحب کا آیا بھی تو وہ بی جے پی یا آر ایس ایس کو برا بھلا کہہ کر کنارے ہوگئے ۔ انھیں یہ بھی نہیں معلوم کہ چار دنوں تک مسلمانوں کی بستیوں کو فسادیوں نے جلایا برباد کیا جس کی وجہ سے پانچ سو سے زائد افراد کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا اور بہت سے لوگ زخمی اور لہو لہان ہوئے جو یا تو اپنے رشتہ داروں کے یہاں پناہ گزیں ہیں یا اسپتال میں زیر علاج ہیں۔ آخر جب حکومت لاپرواہ ہو یا پولس ناکارہ ہوگئی یا بلوائیوں سے مل گئی ہے تو پھر مسلمانوں پر یا ان کی بستیوں پر فسادی آسانی سے یلغار کرسکتے ہیں۔ حاجی نگر،مارواڑی کل یا نئی ہٹی کے مسلم محلوں یا مسلم بستیوں میں یہی کچھ ہوا۔
جہاں تک پارٹی کی پر امن ریلی میں مسلم چہرہ کی شمولیت کا معاملہ ہے تو ترنمول کانگریس کی لیڈر شپ نے ان کی ضرورت ہی نہیں سمجھی یعنی ان کے شامل ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں ہوگا۔ مقامی لوگوں نے یہ بھی بتایا کہ ترنمول کانگریس کی پر امن ریلی کا مارچ فسادہ زدہ مسلم علاقے میں نہیں ہوا بلکہ ہندوؤں کے علاقہ میں ہوا جو پر امن ہیں، جن کا نقصان نہیں ہوا اور نہ ہی وہ دوسری جگہوں میں مسلمانوں کی طرح پناہ لینے کیلئے منتقل ہونے پر مجبور ہوئے۔
کانگریس اور سی پی ایم کے لیڈران کو فساد زدہ علاقے میں جانے نہیں دیا گیا۔ شاید اس لئے کہ ان کو صحیح حالات کی جانکاری ہوجاتی۔ حکومت کی طرف سے کوئی اعلان اور اظہار نہیں ہوا کہ وہ فساد زدگان کی مدد کرے گی یا ان کو فسادیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دے گی۔
مقامی ایم ایل اے مسٹر ایس رائے نے تو فساد زدگان کے چند لوگوں سے ملاقات کا وعدہ کیا تھا مگر عین وقت پر ملاقات سے انکار کر دیا۔ اس طرح حکمراں جماعت کے ہندو اور مسلم لیڈروں نے مصیبت زدگان سے ناروا سلوک کرنا شروع کیا ہے۔ شاید اب مسلمانوں کی پانچ سال بعد ہی ضرورت پڑے یا کچھ پہلے تاکہ پھر انھیں اپنایا جاسکے۔ ابھی الیکشن بہت دور ہے اس لئے لیڈر شپ یا پارٹی سپریمو کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔ میرے خیال سے تو کلکتہ کے اخبار کے سوالوں کا جواب اسی لئے پارٹی یا مسلم چہرہ دینے سے قاصر ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔