حدیثِ دل 

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

وقار احمد ندوی

بعض وقت مجھے خود اپنے الفاظ کی شدت اور لہجہ کی ترشی سے شکایت ہوتی ہے اور اس پر افسوس بھی ہوتا ہے۔ بایں ہمہ کوئی بھی زیر بحث مسئلہ اگر برسوں گزرنے کے باوجود "حالیہ” اور "موجودہ” ہی رہے تو الفاظ کی شیرینی وترشی اور لہجہ کی فروتنی وشدت بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے۔ بایں ہمہ میں اپنی بعض گزشتہ تحریروں میں نا مناسب شدید لہجہ پر معذرت کے ساتھ احباب کی خدمت میں چند گزارشات کے ساتھ حاضر ہوں۔ آئیے مطلب کی بات کرتے ہیں۔

ایک طالب علم ڈاکٹر بننا چاہتا ہے، CA, IIT اور IIM کی اسناد حاصل کرنا چاہتا ہے، UPSC اور BPSC کوالیفائی کرنے کی شدید خواہش رکھتا ہے، لیکن ان اداروں میں داخلہ اور امتحانات کے رجسٹریشن کے لیے مطلوبہ استعداد نہیں رکھتا۔ البتہ پیسہ جُٹا سکتا ہے۔ ہے کوئی جو منہ مانگی رقم لے کر اسے مندرجہ بالا کورسز میں داخلہ دلادے، امتحانات میں کامیاب کروائے اور سند یافتہ بنادے؟ جواب یقینا نفی میں ہوگا۔ کیوں کہ ان اداروں نے اپنا وقار اور اعتبار بحال رکھا ہوا ہے۔ لہذا کوئی اس کی مدد نہیں کر سکتا، اسے کچھ نہیں بنا سکتا۔ ہاں! کسی کو مولوی، عالم، فاضل کے کورسز میں داخلہ مل سکتا ہے، امتحانات پاس کروایا جا سکتا ہے اور مدرسوں میں بحیثیت مدرس اس کا تقرر بھی ہو سکتا ہے، خواہ وہ جاہلِ مطلق ہی کیوں نہ ہو۔ بس شرط یہ ہے کہ امیدوار کے پاس رجسٹریشن اور فارم کی فیس کے علاوہ چند سو روپے ہوں، جو وہ مدرسہ کے ذمہ دار کو حقِ خدمت کے طور پر بلا چوں چرا ادا کر دے۔ اگر بوجوہ زائد رقم ادا نہ کرے تب بھی کام ہو جائے گا۔ مدارس کے ذمہ داروں نے مولوی، عالم اور فاضل درجات کے مدارس حکومت سے منظور کروا رکھے ہیں۔ تنخواہیں وصول کرتے ہیں، لیکن ان کے پاس طلبہ نہیں ہوتے اور امتحانات کے لیے امیدواروں کی بہر صورت ضرورت ہر سال ہوتی ہے۔ بڑے بڑے مدارس صرف حفظ قرآن اور پرائمری درجات کی تعلیم دیتے ہیں، اس سے زیادہ نہیں پڑھاتے کیوں کہ وہ پڑھانا نہیں چاہتے یا پڑھا نہیں سکتے، کیوں کہ ان کے اساتذہ خود امتحان پاس کر کے ہی آئے ہوتے ہیں، پڑھ کر نہیں۔ اساتذہ علم سے تہی دامن ہیں اور  مدرسے ڈگریوں کی دکان، اس عمل میں بڑے چھوٹے کا فرق نہیں ہے، سبھی بے لباس ہیں۔ یہ صورت حال بہار کے مدارس کی ہے۔

اتر پردیش کے مدارس کے ناظم حضرات بھی وہ سارے کام کرتے ہیں جو بہار والے مولوی صاحبان کرتے ہیں۔ البتہ ان کی صورت حال تھوڑی مختلف ہے۔ یو پی کے بیشتر مدرسوں میں ہاسٹل ہیں جہاں قوم کے نونہال اقامت پذیر ہیں۔ کچھ ادارے سرکاری امداد یافتہ ہیں اور کچھ نہیں۔ دونوں طرح کے ادارے زکات وصدقات اورخیرات وعطیات اپنے لائق مدرسین کے ذریعہ مختلف موقعوں سے اکٹھا کرواتے ہیں۔ اور اگر کوئی مدرس چندہ وصول نہیں کر پاتا ہے تو اسے نالائق قرار دے کر نکال باہر کیا جاتا ہے۔ ان مدارس میں بچوں کو آرام کرنے کے لیے ایک گز چوڑی اور ڈھائی گز لمبی فرش مہیا کی جاتی ہے۔ خوراک کا انتہائی ناقص نظام ہوتا ہے، اور حفظان صحت کے لیے کھیل کود کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہوتا جبکہ طبی سہولیات مکمل ناپید ہوتی ہیں۔ البتہ قرآن خوانیوں کے نام پر انہیں در بدر اور گھر بہ گھر خوب دوڑایا جاتا ہے تاکہ مفت خور ثواب رسانی کی عادت کے ساتھ چندہ جمع کرنے کی تربیت حاصل ہو اور نظروں سے حجاب جاتا رہے۔ ان مدرسوں کی آمدنی کا حساب کتاب رکھنے کی ضرورت قطعا محسوس نہیں کی جاتی البتہ صاحب خیر حضرات کو خرچوں کا تفصیلی حساب بڑھا چڑھا کر ضرور دکھایا جاتا ہے تاکہ مزید حاصل کیا جا سکے۔

اعتراف کیا جانا چاہیے کہ وہ اپنی مندرجہ بالا حرکات سے مسلمانوں کے درمیان شرحِ خواندگی میں نہیں، شرحِ ناخواندگی میں مسلسل اضافہ کرتے جا رہے ہیں۔ یہ حضرات ملت کے جسم پر parasite کی حیثیت رکھتے ہیں۔ خون چوسنے والی بے فائدہ مخلوق، جیسے جانوروں کے جسم پر چموکن اور اٹھگوربے ہوتے ہیں۔ دونوں صوبوں کے مذکورہ مدارس علومِ قرآن وحدیث کی بے توقیری کے مجرم ہیں کہ انہوں نے معمولی مالی فوائد کے لیے علوم دینیہ کا سودا کر لیا ہے۔ نتیجتا وہ خود بے توقیر ہو کر رہ گئے۔ بڑے اور قابل قدر مدارس کو ان میں شمار نہ کیا جائے۔

دونوں صوبوں کے شہروں اور دیہاتوں میں پھیلے ہوئے ہزاروں مدارس کی وسیع وعریض عمارتوں اور ان سے ملحقہ آراضی پر مدارس کی کمیٹیوں اور ناظموں کا قبضہ ہے جو مسلم قوم کے پیسوں سے قائم کیے گئے ہیں اور ان کی قیمت کا تخمینہ کھربوں روپے ہے۔ مولوی برادری چوں کہ دینی تعلیم کے لیے انہیں استعمال نہیں کر سکی لہذا بہتر ہوتا مدارس کی کمیٹیاں اور ناظم حضرات مسلم کمیونیٹی کے ساتھ مل کر سوسائٹی بناتے جس کے تحت ان عمارتوں میں  اسکول اور ٹیکنکل کالجز چلائے جاتے۔ ایسا ہو تو عجب نہیں کہ مسلمانوں میں تعلیمی اور معاشی انقلاب برپا ہو جائے۔ ان مدارس کے کڑوروں کے سالانہ فنڈ سے انہیں عمارتوں میں اسکول اور ٹیکنیکل ادارے قائم کیے جاتے اور اس کا ایک حصہ بڑے مدارس کو دے دیا جاتا تو بڑے مدارس کی کارکردگی میں خاطر خواہ اضافہ کے ساتھ عمومی اور صنعتی تعلیم میں مسلمان تقریبا خود کفیل ہو سکتے تھے۔ لیکن کیا کیجیے کہ ہم مسلمان بحیثیت قوم؛ غیر منظم، ملی مفاد کو ذاتی مفاد پر قربان کر دینے والے اور عمل سے زیادہ شکوہ پر یقین رکھنے والے ہیں۔

 دینی تعلیم کی ضرورت پوری کرنے کے لیے مدارس کے نام پر دیوبند، ندوہ، اشرفیہ مبارکپور، سلفیہ بنارس، الفلاح اعظم گڑھ، محمدیہ مالیگاؤں، اشاعت العلوم، جامعہ نظامیہ حیدراباد، جامعہ الثقافۃ السنیۃ اور جامعہ اسلامیہ کیرالا اور ان جیسے مزید چند مدارس کافی سے زیادہ ہیں۔ امامت، نکاح، ختنہ، عقیقہ اور جنازہ کی پیشوائی کے لیے مدارس کے فضلاء کی قطعا کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے لیے معمولی ٹریننگ کافی ہے، جو عمومی اور ٹکنیکل تعلیم کے طلبہ کو بھی فراہم کی جا سکتی ہے۔ برساتی مشروم کی طرح اُگنے والے لاتعداد مدارس اور ان کے فارغین کا ریوڑ نہ صرف یہ کہ نامطلوب اور امت پر غیر ضروری بوجھ ہے بلکہ دینی علوم کے حاملین کی بے توقیری کا بڑا سبب بھی ہے۔ طلب سے زیادہ رسد نے ان کو بے وقعت کر دیا ہے۔

ریاستی حکومتوں کے تعاون سے مذکورہ بالا خیالات کو زمین پر اتارا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں پہل کے طور پر دو اصلاحات فی الفور ناگزیر ہیں۔ پہلی یہ کہ تعلیم کے نام پر جو بھی ادارہ قائم کیا جائے اس کے رجسٹریشن کا معیار اور شرائط وہی ہوں جو کسی بھی بورڈنگ یا ڈے اسکول یا کالج کے لیے مطلوب ہوتے ہیں اور ناقص کارکردگی کی بنیاد پر رجسٹریشن قابل تنسیخ ہو۔ دوسری اصلاح یہ ہو کہ مالیات کا کڑا احتساب نافذ العمل ہو۔ مدارس کے قیام اور اس کے چلائے جانے میں بے شک مسلمانوں کے وسائل ہی زیادہ تر استعمال ہوتے ہیں لیکن ان میں زیر تعلیم نسل انسانی قومی انسانی سرمایہ ہے۔ اس کے حقوق کا تحفظ حکومت کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔

ملک کے حالات جس رخ پر سرپٹ دوڑ رہے ہیں، ان کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے، وقت رہتے، اگر ملی اداروں اور سرمایہ کا درست استعمال نہیں کیا گیا تو آنی والی نسلیں اپنے اجداد پر ہرگز فخر نہیں کریں گی، بلکہ ممکن ہے لعنت بھیجیں۔ آپ جب خود اپنے آپ کے ساتھ اور آنے والی اپنی نسلوں کے حق میں مخلص نہیں ہیں تو کس منہ سے حکومت سے اپنے حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں۔

مجھ پر لعنت ملامت کرنے، مجھے فلاں فلاں کا ایجنٹ کہنے اور دوزخی ٹھہرانے سے پہلے کان کھول کر سن لیجیے! آپ اقلیت ہیں، آپ کو جو کچھ اور جتنا کچھ مل رہا ہے وہ بھی بہت ہے۔ آئین اور انصاف کی دہائی دینا بند کیجیے اور اس دن سے ڈریے جب خدا نا خواستہ مکمل محرومی آپ کی نسلوں کا مقدر ٹھہرے۔ موجودہ دور میں دوزخ نصیب کفار کو جانیں دیجیے، اہلِ ایمان جنتیوں کے ہی کسی ایک ملک کی مثال پیش کر دیجیے جہاں اقلیتوں کے ساتھ انصاف ہو رہا ہو! جس کی لاٹھی اس کی بھینس کی کہاوت ضرور سنی ہوگی، بس اس کو گرہ باندھ لیجیے۔ اگر ابھی نہ جاگے اور موجودہ روش بر قرار رہی تو مؤرخ ایک کتاب لکھے گا جس کا ٹائٹل ہوگا: قومے فروختند وچہ ارزاں فروختند۔

 

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔