حضورﷺ : ایک اچھے دوست

محمدجمیل اختر جلیلی ندوی

انسانی زندگی میں تعلقات کی بڑی اہمیت ہے، یہ کسی بھی انسان کو پرکھنے کے لئے نہایت اعلیٰ کسوٹی ہے، اگر کسی کے تعلقات اچھے لوگوں کے ساتھ ہیں تو اسے بھی معاشرہ میں اچھا سمجھا جاتا ہے؛ لیکن اگر بروں کے ساتھ راہ ورسم ہے تو اسے سماج براہی سمجھتا ہے، تعلقات دوطرح کے ہوتے ہیں، ایک وہ جو کسی طرح انسانی خون سے جڑا ہوتا ہے، اسے ہم ’رشتہ داری‘ بھی کہہ سکتے ہیں، دوسرا وہ جو خون سے جڑاہوا نہیں ہوتا؛ لیکن بسااوقات خونی تعلق سے زیادہ مضبوط اور مستحکم ہوتا ہے، اسے ہم ’دوستی‘ سے تعبیر کرسکتے ہیں۔

انسانی سماج میں دوستی کی اہمیت کا کوئی بھی صاحب عقل انکارنہیں کر سکتا؛ کیوں کہ دوست ہی ایک ایساشخص ہے، جس کے نہاں خانۂ دل میں ایک انسان اپنے رازِدروں کو چھپاتا ہے، اس کے سامنے اپنے رازہائے سربستہ کو آشکاراکرتا ہے، بہت ساری وہ باتیں بھی اسے بتاتا ہے، جو اپنے خونی تعلق والے کو نہیں بتاتا، دوست دُکھ میں شریک ہوتا ہے، سُکھ میں ساتھ دیتا ہے، غم کو بانٹتا ہے، رنج کو دور کرتا ہے، تسلی بھی دیتا ہے، نصیحت بھی کرتا ہے، پیش آمدہ مسٔلہ کا حل بھی بتاتا ہے اور ضرورت پڑنے پر مشورہ بھی دیتا ہے۔

دوست دو طرح کے ہوتے ہیں، ایک نیک وصالح، دوسرا بدوبُرا، صالح دوست کی مثال اُس عطارکی سی ہے، جس کے پاس خوشبوہی خوشبو ہے، اگر آپ خریدنا چاہیں تو خوشبوملے، دوست تحفہ دینا چاہے تو خوشبو ملے، اگر خریدنا نہیں ہواور دوست نے تحفہ بھی نہیں دیا تو کم ازکم جتنی دیر اُس کے پاس بیٹھنا ہوگا، ذہن و دماغ معطررہے گا؛ لیکن بُرے دوست کی مثال اُس بھٹی پھونکنے والے کی طرح ہے، جس کے پاس آگ اور راکھ کے سواکچھ بھی نہیں، اُس سے خریدیں گے بھی تو کیا؟ اور اگر وہ بے چارہ کچھ دینابھی چاہے تو چنگاری اور راکھ کے سواکیا دے سکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ ہمیں کسی کو دوست بنانے سے پہلے یہ دیکھ لینے کا حکم دیا گیا ہے کہ ہم کس کو دوست بنارہے ہیں ؟ کیوں کہ انسان کے اچھے یا بُرے ہونے کا مدار اس پر ہے کہ اس کے دوست کیسے ہیں ؟

صحبتِ صالح تُرا، صالح کُند

صحبتِ طالع تُرا، طالع کُند

دوستی کی معراج یہ ہے کہ وہ بے لوث و بے غرض اور بے حرص و بے طمع ہو،غل و غش کا شائبہ تک نہ آنے پائے، کیوں کہ ادنی درجہ کی خودغرضی دوستی کے صاف شفاف آئینہ میں دراڑ پیداکرنے کے لئے کافی ہے، اسی لئے کسی کو دوست بنانے سے پہلے اس کے مزاج و مذاق اور شوق و شغف سے واقفیت ازحدضروری ہے، ذہنی اور فکری سطح کا بھی جائزہ لے لے نا چاہئے؛ تا کہ بعد میں پچھتائیوں کا لبادہ اُوڑھ کر رنجیدہ خاطری کے ساتھ کفِ افسوس نہ ملنا پڑے، اسی طرح مزاح و مذاق، ایثاروقربانی، ایفائے عہد، تکلفات کی برطرفی، ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردری، غم خواری اور خیرخواہی، لغزشوں کی معافی، کوتاہیوں کو نظرانداز کردینا، ایک دوسرے کو دعاؤں میں یادرکھنا، عیبوں کو چھپانا اور معصیت سے روکنا بھی دوستی کے حقوق میں سے ہے۔

مزاح ومذاق

جس طرح حضورادیگرشعبہائے زندگی میں ہمارے لئے اسوہ اور نمونہ ہیں، اسی طرح ایک دوست کی حیثیت سے بھی ہمارے لئے نمونہ ہیں، ایک دوست بحیثیتِ دوست کبھی مزاح و مذاق کرتا ہے، آپ انے بھی مزاح فرمایا، چنانچہ زاہرنامی ایک صحابی ص کا واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ وہ بازار میں سامان فروخت کررہے تھے کہ پیچھے سے آکرحضورا نے ان کی آنکھیں بند کردیں، انھیں معلوم نہیں تھا کہ یہ آپ اہیں، اس لئے انھوں نے کہا: أر سلنی (مجھے چھوڑدو)، آپ انے چھوڑدیا، جب ان صحابی نے مڑکردیکھا کہ یہ حضورا ہیں تو اور زیادہ آپ ا کے سینۂ اطہرسے چمٹ گئے (شمائل ترمذی، ص:۱۶)، یہ مزاح یک طرفہ نہیں ہوا کرتا تھا؛ بل کہ صحابہ بھی آپ اسے مزاح کرلیا کرتے تھے، چنانچہ حضرت عوف بن مالک اشجعی ص فرماتے ہیں کہ میں غزوۂ تبوک سے لوٹتے وقت حضوراکی خدمت میں اس وقت حاضر ہوا،جب کہ آپ اچمڑے کے بنے ہوئے ایک خیمہ میں تشریف فرما تھے، چنانچہ میں نے اندرآنے کی اجازت طلب کی تو آپ انے فرمایا: ادخل(اندر آجاؤ)، میں نے کہا: أکلی یارسول اللہ؟(کیا میں پورا داخل ہوجاؤں اے اللہ کے رسول ؟)، آپ انے فرمایا: ہاں ہاں ! پورے داخل ہو(ابوداؤد،باب ماجاء فی المزاح،حدیث نمبر:۵۰۰۰)

ایثار وترجیح

دوستی کا ایک حق یہ بھی ہے کہ دوست تمام معاملات میں اپنے اوپر دوست کو ترجیح دیتا ہے، خودایثارسے کام لیتا ہے، حضور ا کی بھی یہی عادتِ شریفہ تھی، ہمیشہ ایثارسے کام لیا کرتے تھے،چنانچہ حضرت جابر ص سے روایت ہے کہ غزوۂ احزاب کے موقع سے ہم لوگ خندق کھودنے میں مشغول تھے کہ ایک جگہ ایک سخت قسم کی چٹان آئی، صحابہ نے اس بابت آپ اسے شکایت کی کہ یہ سخت چٹان ٹوٹتی نہیں، آپ انے فرمایا:میں خود اترتا ہوں، یہ ایساموقع تھا کہ ہم نے تین دن سے کچھ کھایانہیں تھا، اور آپ اکے پیٹ پر پتھربندھے ہوئے تھے، آپ ا نے کدال اٹھاکر پتھر پر ضرب لگائی، پتھرمٹی کے تودے کی طرح چورچورہوگیا، حضرتِ جابر کہتے ہیں کہ میں نے آپ اسے گھرجانے کی اجازت طلب کی اور گھرجاکر اپنی اہلیہ سے کہا کہ میں نے آپ اکو ناگفتہ بہ حالت میں دیکھا ہے تو کیا تمہارے پاس کھانے کے لئے کچھ ہے؟اہلیہ نے کہا: کچھ جَواور بھیڑکا ایک بچہ ہے، چنانچہ میں نے بھیڑکے اس بچہ کو ذبح کیا، جو کوگوندھا اور گوشت کو چولہے پر چڑھانے کے بعد آپ اکی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہمارے گھر میں تھوڑا ساکھانا ہے، آپ ایک دوصحابہ کو ساتھ لے کرتشریف لے چلیں، آپ انے پوچھا کھانا کتنا ہے؟ میں نے بتایا تو آپ انے فرمایاـ:زیادہ اور پاکیزہ ہے، اپنی بیوی سے کہو کہ میرے آنے سے پہلے نہ گوشت چولہے پر سے اتارے اور نہ روٹی تنورسے نکالے، پھر انصار ومہاجرین کو مخاطب کرفرمایا: قوموا(چلو، جابر کے یہاں دعوت ہے)؛چنانچہ مہاجرین و انصارسب کے سب چل پڑے، میں گھرمیں داخل ہوا اور بیوی سے کہا: تیراناس ہو! آپ ا اور تمام مہاجرین و انصار آرہے ہیں، بیوی نے پوچھا: کیا آپ انے کچھ پوچھا تھا؟ میں نے کہا: ہاں ! چنانچہ آپ اآئے اور مہاجرین و انصارکو مخاطب کرکے فرمایا: ادخلواولاتضاغطوا(سکون کے ساتھ داخل ہوجاؤ اور دھکم دھکا مت کرو)،پھرروٹی توڑتوڑکراس پر گوشت ڈالتے جاتے اور صحابہ کو دیتے جاتے، جب جب نکالتے چولہے اور تنورکو چھپاتے، اسی طرح دیتے رہے، یہاں تک کہ تمام صحابہ کے شکم سیرہوکر کھانے کے بعد بھی بچ رہا تو آپ انے فرمایا:تم بھی کھاؤاور ہدیہ بھی بھیجو؛ کیوں کہ لوگ اس وقت بُھک مری کے شکارہیں، (بخاری، کتاب المغازی،باب غزوۃ الخندق، حدیث نمبر:۴۱۰۱)، اسی طرح ایک مرتبہ جب حضور اکے پاس مالِ غنیمت کے غلام آئے تو حضرتِ فاطمہ ؓ گھرکے کام کاج کے لئے ایک غلام مانگنے کے لئے آئیں ؛ لیکن پاسِ حیا کی وجہ سے کچھ عرض نہ کرسکیں، واپس لوٹ کرچلی گئیں، دوسرے دن جب پھر آئیں تو آپ انے پوچھا’’کل کس لئے تم آئیں تھیں کیا خاص کام تھا؟‘‘ غازۂ غیرت کی بناپراب بھی زبان نہ ہلا سکیں تو حضرتِ علی ص نے اپنی زبان سے ان کا پیغام بتایا، آپ انے یہ سن کرارشاد فرمایا: بدر کے یتیموں کا حق تم پر مقدم ہے؛البتہ میں تمہیں خادم سے اچھی چیزبتاتا ہوں، ہر فرض نماز کے بعد ۳۳؍مرتبہ سبحان اللہ،۳۳؍مرتبہ الحمداللہ،۳۴؍مرتبہ اللہ اکبر کہہ لیا کرو(ابوداؤد، باب فی بیان مواضع قسم الخمس۔۔ حدیث نمبر:۲۹۸۷، ۲۹۸۸)

عفو ودرگزر

دوستی کا ایک حق یہ بھی ہے کہ دوست اپنے دوست کی لغزشوں کو معاف کردیا کرتا ہے، یہ لغزشیں دوطرح کی ہوسکتی ہیں، ایک وہ، جو معصیت کے دائرہ میں آتی ہو، ایسی لغزشوں پر سختی کے ساتھ توجہ دلائے؛ چنانچہ روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرتِ عائشہ ؓ نے حضرتِ صفیہؓ کے بارے میں ہاتھ کے اشارہ سے یہ کہا کہ وہ پستہ قدہیں، آپ اکے چہرے پر ناگواری کے آثار ظاہرہوئے اور فرمایا: لقد مزجتِ بکلمۃ لو مزج بھاماء البحر لمزج (تم نے ایسی بات کہہ دی ہے کہ اگر سمندر میں ملادیا جائے تو اس کا پانی کڑوا ہوجائے) (ترمذی، باب حدیث لومزج بھاماء البحر، حدیث نمبر:۲۵۰۲)،لغزش کی دوسری قسم وہ ہے، جو معصیت کے دائرہ میں نہ آتی ہو،ایسی لغزشوں کو معاف ہی کردینا چاہئے، آپ ا کا معاملہ کچھ ایساہی تھا؛ چنانچہ روایت میں ہے کہ آپ ا ایک مرتبہ مسجِدنبوی میں تشریف فرماتھے کہ ایک دیہاتی نے آکرمسجد میں کھڑے کھڑے ایک جگہ پیشاب کرنا شروع کردیا، صحابہ ان کو روک نے کے لئے چیخے، آپ ا نے نہایت ہی بردباری کے ساتھ ان کو منع فرمایا، پھر ان دیہاتی(صحابی)کو بلاکر سمجھایا: دیکھویہ اللہ کا گھرہے، ذکرواذکار، نماز اور تلاوتِ قرآن کے لئے ہے، پیشاب پاخانہ کے لئے نہیں (مسلم، باب غسل البول وغیرہ من النجاسات۔۔۔۔۔،حدیث نمبر:۶۶۱)، اسی طرح حضرت انسص سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں آپ اکے ساتھ جارہاتھا، اس وقت آپ اکے جسم پر ایک نجران کی بنی ہوئی چادرتھی، راستہ میں ایک دیہاتی ملا اور اس نے اتنی سختی کے آپ ا کی چادرکو کھینچا کہ میں نے آپ ا کی گردن پر اس کے نشانات دیکھے، پھر اس نے کہا:اے محمد!مجھے مال دینے کا حکم دیجئے، آپ انے اس کی طرف دیکھا، مسکرائے، پھرمال دینے حکم دیا،(بخاری، باب ماکان النبی ا یعطی المؤلفۃ قلوبھم،حدیث نمبر:۳۱۴۹)

ایفائے عہد

دوستی ساتھ رہنے اور ساتھ دینے کے ایک معاہدہ کا نام ہے، اور معاہدہ ایک ایسا عمل ہے، جس کو نباہنے کا حکم دیاگیا ہے، وأوفو ابا لعھد (الاسراء: ۳۴)’’اور عہدکو پورا کرو‘‘،آپ  انے دوستی کے اس معاہدہ کو نباہ کر دکھایا، آپ ا کی پیدائش مکہ مکرمہ میں ہوئی، جوان بھی وہیں ہوئے اور نبوت بھی وہیں ملی؛ لیکن ایک وقت ایسا آیا کہ اپنے ہی مولد ومسکن سے جلاوطن ہونا پڑا، ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے، انصارنے آپ ا اور آپ  اکے ساتھیوں کا ہرطرح سے ساتھ دیا، جانیں بھی نچھاور کیں اور مال بھی لُٹائے، پھرجب ۸ھ میں فاتحانہ ؛بل کہ شاہانہ کروفرکے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے اور پورا مکہ آپ ا کے زیرِنگیں آگیا، وطن کی محبت مکہ میں قیام کے لئے کھینچ رہی تھی، لیکن آپ ا نے مدینہ ہی میں قیام کو ترجیح دیا، حتیٰ کہ وفات کے بعد بھی اسی سرزمین کو جسمِ اطہر کے لئے بساط بننے کی سعادت نصیب ہوئی۔

غزوۂ طاؤس کے موقع پر مالِ غنیمت کی تقسیم کے وقت جب بعض انصار یہ کہنے لگے کہ بخدااللہ کے رسول ا اپنی قوم سے مل گئے تو آپ  انے تمام انصار کو جمع کرکے فرمایا:لو لا الھجرۃ لکنت امرأمن الأنصار، ولو سلک الناس شعباووادیا وسلکت الأ نصار شعباو وادیا لسلکت شعب الأ نصار و وادیھا، (زادالمعاد:۳؍۴۷۴، ط: مؤسسۃ الرسالۃ بیروت، ۱۹۹۵)اگر ہجرت نہ ہوتی تو بھی میں انصارہی کا ایک فرد ہوتا، اگر تمام لوگ ایک الگ وادی اور گھاٹی کو اختیار کرتے اور انصارایک الگ وادی اور گھاٹی کو اختیار کرتے تو میں انصار ہی کی وادی اور گھاٹی کو اختیار کرتا۔

بے تکلفی

ایک دوست اپنے دوست سے اس حد تک بے تکلف ہوتا ہے کہ اپنے دل کی ہربات بلاجھجھک کہہ ڈالتا ہے، آپ  اکا معاملہ بھی صحابہ کرام کے ساتھ ایساہی تھا، صحابہ بلا جھجھک اپنی بات آپ  اکے سامنے رکھ دیا کرتے تھے؛ چنانچہ حضرتِ قتادہ صبن نعمان کے بارے میں منقول ہے کہ غزوۂ احد کے موقع سے ان کی آنکھ میں ایک تیر ایسا لگاکہ ان کی آنکھ باہرآگئی، وہ رسول اللہ اکے پاس اس حال میں آئے کہ ان کی آنکھ ان کے ہاتھ پر تھی، آپ  انے پوچھا یہ کیا ہے؟ جواب دیا:دیکھ رہے ہیں، آپ  انے ارشاد فرمایا: ان شئت صبرت ولک الجنۃ،وان شئت رددتھاودعوت اللہ (اگر تم چاہوتو صبرکرو اور اس کے بدلہ تمہیں جنت ملے گی اور اگر چاہو تو میں اس کو اس کی جگہ پر لوٹا دوں اور اللہ سے تمہارے لئے دعاکروں )، حضرت ِ قتادہ صنے کہا: اے اللہ کے رسول ! واقع جنت بہترین اور بہت ہی عمدہ بدلہ ہے؛ لیکن میں ایک خاتون (جس سے ان کی شادی ہونے والی تھی) سے محبت کرتا ہوں، مجھے اندیشہ ہے کہ وہ اس حال میں دیکھ کر مجھے ناپسند کرے گی، اس لئے آپ میری آنکھ اس کی جگہ پر لوٹا دیجئے اور اللہ سے میرے لئے جنت کی دعا کیجئے، آپ ا نے اپنے دستِ مبارک سے ان کی آنکھ اس کی جگہ پر لوٹا دی اور جنت کے لئے دعا بھی کی، (عمدۃ القاری:۱۲؍۴۶، کتاب المغازی، حدیث نمبر:۳۹۹۷)

دوست کے لئے دعا

دوست کی ایک خصوصیت یہ بھی کہ وہ جب بھی دستِ دعادراز کرتا ہے، اپنے دوست کی بھلائی کے لئے دعا کرتا ہے، آپ ا کثرت سے دعا مانگا کرتے تھے، اپنے لئے بھی اور تمام مومنین کے لئے بھی، اسی طرح اپنے حق میں دوسروں سے دعا کے لئے بھی کہتے تھے؛ چنانچہ حضرتِ عمرص نے ایک مربتہ جب عمرہ کے لئے اجازت مانگی، تو آپ ا نے اجازت دیتے ہوئے فرمایا: لاتنسنایاأخی من دعائک(ابوداؤد،کتاب الصلاۃ، حدیث نمبر:۱۴۹۸) اے میرے بھائی! اپنی دعا میں ہمیں یادرکھنا۔

مذکورہ بالا سطور سے یہ بات واضح ہوگئی ہوگی کہ جس طرح حضور ا دیگرشعبوں میں ہمارے لئے رہنما اور نمونہ ہیں، اسی طرح زندگی کے ایک اہم شعبہ’’دوستی‘‘ میں بھی ہمارے لئے اسوہ ہیں، اور کیوں نہ ہوں ؟ جب کہ خودخالقِ کائنات نے ان کو ہمارے لئے ہرہرچیز میں نمونہ قرار دیا ہے، لقدکان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ (الأحزاب:۲۱) بلا شبہ وہ ہمارے لئے آئیڈئل اور بہترین نمونہ ہیں، اور ہم انھیں کو اپنا آئیڈئل مان کر ہی دنیا جہاں میں سرخرواور کا میاب ہوسکتے ہیں، اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطافرمائے، آمین!

تبصرے بند ہیں۔