حضورﷺ کی تشکیل ِریاست کی فکری بنیادیں (تیسری قسط)

ترتیب:عبدالعزیز
د – ایمان بالکتب:’’اسلام کی اصطلاح میں کتاب سے مراد وہ کتاب ہے جو بندوں کی رہنمائی کیلئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول نازل کی جاتی ہے اور جسے لوگوں تک پہنچانے اور جس کی توضیح و تشریح کرنے اور جس کو عمل کا جامہ پہنانے کیلئے رسول دنیا میں بھیجا جاتا ہے ۔ رسول اس کلام کو ایک امانت دار قاصد کی حیثیت سے لوگوں تک پہنچاتا ہے۔ پھر خدا کی عطا کی ہوئی حکمت و بصیرت سے اس کے معانی و مطالب کی تشریح کرتا ہے اور انہی الہامی اصولوں پر تمدن و اخلاق، معاشرت و سیاست کا نظام قایم کرتا ہے۔
ایمان بالکتب در اصل ایمان بالرسالت کا ایک ضروری تقاضہ اور لازمہ ہے؛ چنانچہ کتاب کو رسالت سے جدا نہیں کیا جاسکتا کیونکہ کتاب لفظی بیان ہے اور رسول اس کا عملی نمونہ و مظہر۔ اس لئے انسان کی ہدایت و رہنمائی کیلئے دونوں کی یکساں ضرورت ہے۔
ایک مسلمان کو اگر چہ عقیدہ کے طور پر تمام کتب آسمانی پر ایمان لانے کی تلقین کی گئی ہے؛ تاہم عمل کے میدان میں اسے صرف قرآن کا مکلف بنایاگیا۔ خود قرآن تمام اہل ایمان کو یہ دعوت دیتا ہے کہ اسی کتاب کو اپنا دستور العمل بنائیں کیونکہ یہ کتاب منزل من اللہ ہے۔ پوری طرح محفوظ و مامون ہے۔ ہر قسم کی کمی بیشی اور تحریف و تبدیلی سے پاک ہے۔ تمام انسانوں کی رہنمائی کیلئے ہے۔ اس میں ہر زمانے اور ہر عالم کیلئے نصیحت ہے اور جو کچھ بھی اس کتاب کے خلاف ہے وہ ہرگز قابل اتباع نہیں ہے۔ یہ کتاب گزشتہ رسولوں کی تعلیمات کی محافظ ونگران اور جامع ہے۔ یہ کتاب سراسر حق ہے۔ باطل کو اس میں قطعی کوئی راہ نہیں ملی، نہ اندازہ یا گمان کا اس میں دخل ہے اور نہ کسی شیطانی قوت یا نبی کی ذاتی خواہش و مرضی کا۔
مختصر یہ کہ اللہ کی کتاب پر ان لوازمات کے ساتھ ایمان لانے سے اور پھر ایک رسول پر ایمان و اتباع سے آدمی کے سامنے راستہ متعین ہوجاتا ہے اور ذہنیت ایک خاص سانچے میں ڈھل جاتی ہے۔ اب ظاہر ہے کہ جب انہی مآخذ سے تمام اعتقادات، عبادات، اخلاق و معاملات اور جملہ سیاسی و تمدنی اور تہذیبی و ثقافتی قوانین ماخوذ ہوں گے اور اسی ایمان، اطاعت اور اتباع کے رشتہ میں تمام اہل ایمان منسلک ہوجائیں گے تو ایک مستقل تہذیب بنے گی اور ایک ایسی امت کی تشکیل ہوگی جہاں نسل و رنگ اور زبان و وطن کے بجائے عقاید کی کار فرمائی ہے۔
ہ – ایمان بالآخرت: آخرت اس دنیا کے بعد آنے والی (دوسری) زندگی کا نام ہے جس پر ایمان لائے بغیر کوئی شخص مسلمان نہیں ہوسکتا۔ اور عقیدۂ آخرت کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اس پر یقین رکھے کہ ’’جس طرح دنیا کی ہر چیز فرداً فرداً ایک عمر رکھتی ہے اسی طرح پورے نظام عالم کی بھی ایک عمر ہے جس کے تمام ہونے پر یہ سارا کارخانہ درہم برہم ہوجائے گا اور دوسرا نظام اس کی جگہ لے گا جس کے قوانین طبیعی اس نظام کے قوانین طبیعی سے مختلف ہوں گے  اس نظام کے درہم برہم ہونے پر ایک زبردست عدالت قایم ہوگی جس میں ہر چیز کا حساب لیا جائے گا۔ انسان کو اس روز پھر ایک نئی جسمانی زندگی ملے گی وہ اپنے خدا کے سامنے حاضر ہوگا، اس کے تمام اعمال جانچے اور تولے جائیں گے، حق اور انصاف کے ساتھ اس کے مقدمے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اچھے اعمال کی اچھی جزا اور برے اعمال کی بری سزا دی جائے گی۔
اس عقیدہ کو تسلیم کرلینے سے دنیوی زندگی اور اس کے معاملات کے متعلق انسان کا نقطۂ نظر بنیادی طور پر منقلب ہوجاتا ہے، انساں اپنے آپ کو ایک ذمہ دار اور جواب دہ ہستی سمجھتا ہے اور اپنی زندگی کے تمام معاملات کو یہ سمجھتے ہوئے انجام دیتا ہے کہ وہ اپنی ہر حرکت اور ہر فعل کا ذمہ دار ہے پھر چونکہ اس کی نظر اپنے افعال و اعمال کے صرف دنیاوی اور ظاہری و مادی نتائج پر ہی نہ ہوگی بلکہ آخرت پر ہوگی اس لئے یہ احساس ایک ایسے طاقتور ضمیر کی شکل میں ظاہر ہوگا جو انسان کو معروفات پر قایم اور منکرات سے مجتنب رکھے گا۔ اس لحاظ سے یہ عقیدہ انسان میں تقویٰ و طہارت، پاکیزگی، سرفروشی، بے خوفی اور بہادری، مصائب پر صبر، نیک کاموں میں جان و مال خرچ کرنے کی ترغیب، اچھے کاموں کو اختیار کرنے اور برے کاموں سے بچنے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے۔
آخرت پر ایمان نے دنیا کو عموماً اور اہل عرب کو خصوصاً انسانیت و آدمیت کی تعلیم دی۔ زندگی کو منضبط و محتاط بنایا۔ ذاتی مفاد پرستی اور خود غرضی و جارحیت کی فضا کو تبدیل کیا۔ اس کی وجہ سے غیر مختتم سلسلہ ہائے جنگ کا بھی خاتمہ ہوا جو محض فخر و مباہات یا قبائلی انتقام و عداوت پر مبنی تھیں۔ اب ان کے سامنے اس دنیا کے تجملات بے وقعت ہوگئے اور اصل توجہ انجام و آخرت پر مرکوز ہوگئی۔ ایک متعین راہ عمل اور عالمگیر مشن کیلئے لگن پیدا ہوئی اور اس مقصد یا نصب العین کے حصول کیلئے اپنی تمام صلاحیتوں کو اس طرح وقف کر دیا کہ اپنی جان تک کی پروا نہ کی؛ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ دنیا کی موت اخروی مسرت کا پیش ختیمہ ہے۔ ایمانیات نے ایک کمزور آدمی کوبھی دلیر بنا دیا اور طاقتوروں کے حوصلے پست کر دیئے کیونکہ دونوں کو یہ معلوم ہوگیا کہ ایک دن حق کی عدالت میں حاضر ہوکر جواب دہی کرنی پڑے گی۔ نظریۂ آخرت و معاد نے اہل عرب کو بالغ نظری عطا کی اور یہ سمجھ گئے کہ اس دنیا کی خوشحالی و بدحالی اور منفعت و مضرت اصل نہیں ہے۔ مطلوب حقیقی تو اللہ کی رضا و خوشنودی ہے۔
بہر حال دین کی یہ وہ بنیادیں ہیں جن پر اسلام کا نظام تہذیب و تمدن، نظام معیشت و معاشرت اور نظام سیاست قایم ہے۔ عہد نبویؐ میں انہی فکری بنیادوں پر ایک معاشرہ کی تشکیل ہوئی اور انہی عقاید کو تسلیم کرنے والے ایک مجتمع جدید کی شکل میں ظاہر ہوئے اور پھر اسی مجتمع جدید پر ریاست نبویؐ کی عمارت تعمیر کی گئی۔
(2)  تشکیلِ معاشرہ:
جیسا کہ ہم لکھ چکے ہیں یہ تھے وہ بنیادی اصول جن پر نہ صرف دین کی عمارت قایم ہوئی بلکہ انہی اصولوں پر ایک سوسائٹی کو منظم کیا گیا اور پھر معاشرتی و سیاسی نظام کی تمام ترتیب و تہذیب بھی انہی عقاید و ایمانیات کے ذریعہ کی گئی۔ ان اصولوں اور عقاید کی حقیقت و ماہیت پر پچھلے اوراق میں بحث کی جاچکی ہے، اس لئے اب دوسرے مرحلہ میں یہ دیکھنا ہوگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اصولوں پر ایک نئے معاشرہ کی نشو و نما کا کام کس طرح انجام دیا، لیکن آگے بڑھنے سے پہلے تین بنیادی نکات کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے:
(1  اول یہ کہ اسلامی تاریخ کی روشنی میں تاسیس ریاست کے جو تین مراحل ہم نے مقرر کئے ہیں (یعنی پہلے فکری بنیادوں کی تعلیم، پھر سوسائٹی کی تشکیل و تنظیم اور اس کے بعد ریاست کی تاسیس) ان کے پیش نظر یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ عہد رسالت میں ریاست کی تاسیس اور معاشرے کا قیام چند بنیادی اصولوں کا مرہونِ منت ہے اس کو ہم اس طرح بھی کہہ سکتے ہیں کہ عقاید و نظریات پہلے وجود میں آئے اور ریاست بعد میں۔ یہ نکتہ اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ سیاسی افکار و اعمال کی تاریخ میں عموماً اور مغرب کے فلسفۂ سیاسی میں خصوصاً یہ ترتیب نظر نہیں آتی۔ اس کی رو سے پہلے سوسائٹی اور ریاست کا قیام عمل میں آتا ہے اور پھر ان کے زیر اثر نظریات جنم لیتے ہیں۔ اس نقطۂ نظر کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ احوال و ظروف کی تبدیلی اور معاشرہ یا ریاست کی ہیئت میں ہر تغیر کے ساتھ سیاسی نظریات میں بھی انقلاب آتا رہا۔ اس کے برعکس ریاست نبوی کے سیاق و سباق میں یہ نکتہ قابل غور ہے کہ یہاں معاشرہ اور ریاست دونوں کا ظہور تمام تر عقاید و نظریات کا مرہونِ منت ہے۔
(2  دوم یہ کہ افرادِ معاشرہ کے اتحاد و انجذاب کیلئے دین کو بنیاد بنایا گیا؛ حالانکہ دنیا اس وقت تک سیاسی و معاشرتی اتحاد کی جن بنیادوں کا عملی تجربہ کرچکی تھی ان میں زبان، رنگ، نسل، وطن اور قومیت خاص ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف یہ کہ معاشرہ کے اتحاد کیلئے ان بنیادوں کو استعمال نہیں کیا بلکہ رنگ و نسل و زبان اور وطن و قومیت کے تمام معیارات کو باطل قرار دے دیا اور ہر قسم کی عصبیت کو حرام ٹھہرایا کیونکہ یہ امتیازات اگر ایک طرف وحدت انسانیت کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں اور ایک انسان اور دوسرے انسان کے درمیان نفرت و ذلت کی دیوات کھڑی کرتے ہیں۔ اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تعلیم و تلقین کا ہدف عقیدہ، ایمان اور دین کو قرار دیا اور ان معیاراتِ باطلہ کو پرِکاہ کی حیثیت بھی نہ دی اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ رسول اللہ ایک عالمگیر پیغام کے علمبردار تھے۔ آپ کا مقصد تمام انسانیت کو ایک رشتہ میں جوڑتا، انھیں ایک امت بنانا اور ایک عالمی اخوت میں منسلک کرنا تھا وہ نہ تو امتیازات رکھنے والے طبقات کے خلاف کسی سیاسی یا معاشی تعصب میں مبتلا تھے اور نہ گرے ہوئے طبقات کیلئے ان کے دل میں کوئی بے جا عصبیت تھی کہ طبقاتی جنگ برپا کرکے مقدم الذکر کو پست اور موخر الذکر کو بلند کرنے کی کوشش کریں۔ رسولؐ اللہ ایک فساد کو دوسرے فساد سے بدلنے کیلئے نہیں آئے تھے بلکہ آپؐ کی پوری دعوت سرتا سر مثبت تھی۔
(3  معاشرہ کی بنیاد عام طور سے مادیت بتلائی جاتی ہے؛ یعنی انسانی جہد و سعی کا مقصود یہ ہے کہ انسان کو تین بنیادی ضروریات (غذا، مکان اور لباس) حاصل ہوجائیں جبکہ رسولؐ اللہ نے سوسائٹی کی بنیاد مادیت کے بجائے روحانیت پر رکھی اور یہ امر واضح کیا کہ اگر چہ مادیت زندگی کے قیام و بقا کیلئے ناگزیر ہے اور اسے بہر حال حاصل کرنا چاہئے لیکن انسانی جدوجہد کا اصل ہدف فلاحِ آخرت ہے، ساتھ ہی یہ بھی بتلا دیا گیا کہ دنیاوی مال و متاع کو زندگی کا مقصود نہ بنالیا جائے کہ مادی ضرورتیں انسان کی روحانی اقدار کو پامال کردیں۔
بہر حال آنحضرتؐ نے اپنے کام کا آغاز کیا اور لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف بلایا جس نے اس دین کو تسلیم کیا وہ صاحب ایمان ہوا اور نئی برادری کا رکن بن گیا، خواہ اس کی زبان، نسل، وطن، رنگ وغیرہ کچھ ہی ہو اور جس نے اس کو نہیں مانا وہ اس مجتمع رکنیت سے محروم رہا ، خواہ وہ قریشی و ہاشمی ہی کیوں نہ ہو، اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ نسل و نسب کی بنیاد منہدم ہوگئی۔ دین کے سوا کوئی دوسرا رشتہ ایسا نہ تھا جس کے ذریعہ افراد کو امت کی شکل میں جوڑا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ابتدا میں اہل مکہ میں سے جن لوگوں نے اس دعوت پر لبیک کہا ان کا تعلق مختلف شعوب و قبائل سے تھا۔ وہ تمام امتیازات کو پامال کرتے ہوئے پرائے معاشرہ سے کٹ کر نئے مرکز پر جمع اور خالص عقیدہ کی بنیاد پر ایک دوسرے سے وابستہ ہوتے چلے گئے اور اس طرح ایک نئے معاشرہ کا آغاز ہوگیا۔
اب ہم ان اسباب و عوامل سے بحث کرنا چاہتے ہیں جو اس معاشرہ کے قیام اور اس کی توسیع میں ممد و معاون ثابت ہوئے اور وہ مندرجہ ذیل ہیں:
(الف): پہلا سبب جسے ہم فطری سبب کہتے ہیں یہ تھا کہ زندگی کے ہر میدان میں پستی و زوال اور انتشار و افتراق کی جو کیفیت اس زمانے میں طاری تھی اس نے لوگوں کو ذہنی طور پر تبدیلیِ حالات پر آمادہ کیا، جیسا کہ ہم پچھلے باب میں مطالعہ کرچکے ہیں کہ یہ انحطاط و زوال مجموعی طور پر دنیا کے تمام متمدن علاقوں میں پایا جاتا تھا اس لئے حالات جتنے زیادہ خراب تھے کرب و اضطراب بھی اسی قدر زیادہ تھا۔ ہدایت و اصلاح کی شدید پیاس لوگوں میں پیدا ہوچکی تھی اور وہ ایک حیات بخش ضابطۂ حیات کا خیر مقدم کرنے کیلئے بالکل تیار تھے بلکہ تاریخ بتاتی ہے کہ ظہورِ اسلام کے وقت بحر و بر میں مفاسد کی یورش اس حد تک بڑھ چکی تھی کہ بعض نیک دل افراد تو گھبراکر تلاشِ حق میں نکل کھڑے ہوئے؛ چنانچہ ابن ہشام نے حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی روایت سے حضرت سلمان فارسی کی جو سرگزشت نقل کی ہے اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ہدایت کی تلاش میں کہاں کہاں پھرتے رہے، بالآخر عموریہ کے ایک راہب کی وصیت کے مطابق رسولؐ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اسی سے متصل ابن ہشام کا ایک دوسرا بیان نہایت قابل توجہ ہے، وہ کہتا ہے کہ ایک موقع پر قریش اپنے ایک بت کے گرد جمع ہوکر تقریب عید منا رہے تھے ، عین اس وقت چار آدمی یعنی ورقہ بن نوفل، عبیداللہ حجش، عثمان بن الحویرث اور زید بن عمرو بن نفیل اس ہنگامہ سے بیزار الگ تھلگ بیٹھے یہ گفتگو کر رہے تھے کہ :
’’خدا کی قسم؛ ہماری قوم ایک بے بنیاد مسلک پر چل رہی ہے۔ اپنے باپ ابراہیم کے دین کو انھوں نے گنوا دیا، جس پتھر کا ہم طواف کر رہے ہیں وہ نہ دیکھتا ہے نہ سنتا ہے، نہ نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان۔ ساتھیو! اپنے دلوں (دین) کو ٹٹولو۔ خدا کی قسم تم محسوس کروگے کہ تمہاری کوئی بنیاد نہیں ہے، ملک ملک گھومو اور کھوج لگاؤ دین ابراہیم کے پیروؤں کا‘‘۔
چنانچہ حق کی تلاش و جستجو میں بقول ابن ہشام ورقہ بن نوفل عیسائی ہوگیا۔ عبیداللہ بن حجش عالم اضطراب میں پہلے اسلام لایا پھر اسی اضطراب میں مرتد ہوکر عیسائی ہوا۔ عثمان نے قیصر روم کے یہاں جاکر عیسائیت اختیار کرلی اور زید نے یہودیت قبول کی نہ نصرانیت؛ البتہ اپنی قوم کا دین ترک کردیا۔ بت پرستی چھوڑ دی۔ مردار اور استخوان کے ذبیحوں سے پرہیز کرنا شروع کر دیا۔ بیٹیوں کے قتل سے لوگوں کو باز رکھنے کی تلقین کرتا اور کہاکرتا :
’’اعبد رب ابراہیم‘‘ (میں تو ابراہیم کے رب کا پرستار ہوں)۔                         (جاری)
موبائل: 9831439068    [email protected]

تبصرے بند ہیں۔