حکومت آج بھی افسر چلاتے ہیں

حفیظ نعمانی

یہ ہندوستان میں ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے کہ وزیراعظم یا وزیراعلیٰ کہیں گئے ہیں تو ان لوگوں کو اُن کے پاس نہیں آنے دیا جاتا جو شہر کی حقیقی صورت حال اور مسائل ان کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں۔ بلکہ سب سے زیادہ اہمیت ان کو دی جاتی ہے جو مہمان سربراہ کا ان کی پارٹی کا اور ممبر پارلیمنٹ اور ان کی پارٹی کے ایم ایل اے کا قصیدہ پڑھ سکیں کل کی نہیں 03  جون کی بات ہے کہ وزیراعلیٰ آدتیہ ناتھ یوگی ہردوئی گئے تھے وہاں وہ کئی گھنٹے رہے لیکن میڈیا، کاشتکاروں ، عام آدمیوں کے علاوہ اپنی ہی پارٹی کے کارکنوں اور عوامی نمائندوں سے افسروں نے انہیں دور ہی رکھا۔

ایک بات جو ہر پارٹی ہی میں ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ دوسری پارٹی سے بغاوت کرکے آئے ہوئے لوگوں کو اپنوں کے مقابلے میں اہمیت دی جاتی ہے وہی ہردوئی میں بھی ہوا اخباروں نے ان کے نام تو نہیں لکھے لیکن شاید اشارہ سماج وادی پارٹی سے رشتہ توڑکر جانے والے باپ بیٹوں کی طرف تھا۔ جب جب کسی شہر میں وزیراعلیٰ کی آمد کا اعلان ہوتا ہے تو ہر طرف تیاری ہوتی ہے کہ ان کے سامنے کون کون سے مطالبات اور مسائل رکھنا ہے۔ نگرپالیکا ہردوئی کے چیئرمین نے سیور لائن کا مسئلہ ان کے سامنے رکھا، شاہ آباد کی ایم ایل اے رجنی تیواری نے 100  بیڈ کے اسپتال کا خاکہ ان کے سامنے رکھا کاشتکاروں کی ایک تنظیم نے بھی ایک میمورنڈم پیش کیا ایک خاتون کے اپنے جوان بیٹے کے قتل کے معاملہ میں پولیس کی شکایت کی غرض کہ وہ سب ہوا جو ہر جگہ ہوتا ہے اور اس کے جواب میں بھی وہی سب ہوا کہ سب کو یقین دلایا اور سب کو تسلی دی کہ جس نے جو مانگا ہے وہ دیا جائے گا اور 2019 ء کے الیکشن میں ووٹ پکے کرکے اور ایک دن برباد کرکے وہ واپس آگئے۔

ملک کے نظام میں انگریزوں نے افسروں کی وہ حیثیت بنادی ہے کہ وزیر بھی افسروں کے ماتحت ہوکر رہ گئے ہیں ۔ راجیو گاندھی نے ایک بار ملک کے نگرنگم کے چیئرمینوں کو دہلی بلایا اور کہا کہ ہر کسی کو ایک منٹ کا وقت دیا جاتا ہے۔ وہ اپنی اور اپنے نگم کی جو سب سے اہم ضرورت ہو وہ بتادے۔ سنبھل میں 33 ممبروں کا بورڈ تھا اس کے چیئرمین چودھری محفوظ علی خاں تھے ان کو جب بلایا گیا تو انہوں نے کہا کہ ہم تو نام کے چیئرمین ہیں جب بھی کسی کلرک سے کہتے ہیں کہ یہ کام کردو تو وہ کہتا ہے E.O.  کریں گے پھر جب E.O.  آتے ہیں اور ان سے کہتے ہی تو وہ کہتے ہیں کہ G.O.  نہیں ہے ہم E.O.   اور G.O.  کے چکر سے نکلیں تو کام کریں ۔ ایک بار ہمارے محترم دوست جمیل مہدی اسامہ بن فاضل نام کے ایک خوش پوشاک اور خوش مزاج ضرورتمند کو لے کر آئے۔ ان کا مقدمہ یہ تھا کہ وہ تیسرے درجہ کی میونسپلٹی سے دوسرے درجہ کی میونسپلٹی میں ترقی چاہتے تھے اور وہ تین مثالیں لے کر آئے تھے کہ جو اُن کی ہی علمی قابلیت کی ڈگری والے تھے اور ان کی ترقی ہوئی تھی۔

ایک وزیر سے ہمارا بہت اچھا تعلق تھا ان کے پاس محکمہ بھی شہری ترقیات تھا۔ ہم نے بڑے اعتماد سے کہا کہ جو نظیریں آپ لائے ہیں اگر وہ صحیح ہیں تو آپ کا کام ضرور ہوگا۔ ہم ان کو لے کر منسٹر صاحب کے آفس گئے انہوں نے بھی وہی کہا جو ہم نے کہا تھا کہ تین نہیں ، اگر ایک کا بھی ہوا ہوگا تو آپ کا ضرور ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ آپ دو دن کے بعد آجائیں ۔ ہم سب دو دن کے بعد گئے تو وزیر نے یہ کہہ کر معذرت کی ان کی فائل نہیں ملی ہے اور ذرا رُک جائیں ۔ غرض کہ چکر لگتے رہے اور ایک دن ہم نے کہہ دیا کہ کیسے وزیر ہو کہ سکریٹری سے فائل نہیں منگوا سکے؟ انہیں جوش آگیا تو انہوں نے سکریٹری سے کہا کہ اسامہ بن فاضل کی فائل لے کر آپ میرے پاس آیئے۔ اور ہم انتظار میں بیٹھ گئے۔ ایک گھنٹہ کے بعد سکریٹری صاحب آئے اور دونوں چیمبر میں چلے گئے۔ دس منٹ کے بعد پہلے سکریٹری باہر آئے اور اس کے بعد وزیر محترم اور انہوں نے بجھی ہوئی آواز میں کہا کہ وہ تبادلے پولیٹیکل پریشر میں ہوئے ہیں ۔ اور ہم بس اتنا کہہ سکے کہ کیا آپ کا کہنا سیاسی دبائو نہیں ہے؟ بات یہ تھی کہ اسامہ بن فاضل مسلمان تھے سفارشی حفیظ نعمانی مسلمان تھے اور وزیر بھی مسلمان تھے۔

کیرانہ کے آنجہانی ممبر پارلیمنٹ جن کی بیٹی اپنے باپ کی وراثت نہ بچاسکیں وہ حکم سنگھ تھے۔ ہم نے ان سے اپنے داماد کا تبادلہ روکنے کے لئے کہا۔ انہوں نے ڈائرکٹر سے کہہ دیا کہ مرغوب حسین کا تبادلہ مجھ سے پوچھے بغیر نہ کرنا۔ ڈائرکٹر نے کہا کہ ان کا تبادلہ بار بار رُکوانا پڑا ہے ان کی وجہ سے دوسروں کا تبادلہ نہیں ہوپارہا۔ حکم سنگھ نے کہا کہ ایک بار ہمارے حکم سے روک دو۔ اور ہم سے کہا جائے تبادلہ رُک گیا۔

ہمارے داماد نے ایک مہینہ کے بعد بتایا کہ تبادلہ کی لسٹ میں پہلا نام ہمارا ہے۔ ہم پھر حکم سنگھ کے پاس گئے انہوں نے صورت دیکھتے ہی کہا اب اور کیا حکم ہے؟ ہم نے کہا ہماری بیوی حج کو جارہی ہیں ۔ داماد کا تبادلہ ہوگیا تو وہ اپنی بیوی بچوں کو لے کر وہاں جائے گا جہاں تبادلہ ہوگا۔ اور بیٹی میرے پاس ہی رہتی ہے۔ انہوں نے حیرت کے ساتھ معلوم کیا کہ کیا تبادلہ نہیں رُکا؟ اور پھر اپنے P.A.  سے کہا کہ ڈائرکٹر کو فون کرو اور پھر فون ہاتھ میں لے کر بس اتنا کہا کہ مرغوب حسین کی فائل لے کر ابھی میرے پاس آئو۔ انہوں نے بہانہ کیا کہ میرے پاس گاڑی نہیں ہے۔ حکم سنگھ نے کہا گاڑی میں بھیج رہا ہوں اور ڈرائیور جب جانے لگا تو اس سے کہا کہ اب کوئی بہانہ کرے تو ڈکّی میں ڈال کر لانا۔ اور ہم سے کہا کہ بیگم کے ساتھ آپ بھی حج کو جایئے۔ بات صرف اتنی تھی کہ وزیر ہندو ہی نہیں جاٹ تھا۔

وزیراعلیٰ کے ہردوئی دورہ کی بات شروع کی تھی۔ اہم بات یہ ہے کہ ایک کاشتکار سید عمار حسین زیدی نے کہا کہ جتنی دیر یوگی جی ہردوئی میں رہے اب تک اتنی دیر کوئی وزیراعلیٰ نہیں رُکا۔ اس کے باوجود نہ انہوں نے منڈی جاکر معائنہ کیا نہ گنّا کاشتکاروں کا درد جاننے کی کوشش کی نہ کسی بھی سرکاری دفتر کا معائنہ کیا نہ اپنے کارکنوں سے ملاقات کی۔ افسروں نے جن پردھانوں کو بولنے کا موقع دیا وہ بھی رسمی کلمات سے زیادہ کچھ نہ کہہ سکے پارٹی کے ضلع صدر کا کہنا ہے کہ انتظامیہ نے عام آدمیوں کی آواز دبانے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ اور یہ شکایت عام ہے کہ وزیراعلیٰ اور فریاد کرنے والوں کے درمیان افسر دیوار بنے رہے اور زندہ باد کے نعروں سے یوگی کو واپس کردیا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔