حکومت کے پاس ‘سب کا ساتھ’ حاصل کرنے کا سب سے بڑا موقع

سدھیر جین

آزاد ہندوستان کی تاریخ میں یہ پہلی بار دیکھنے کو ملا ہیکہ اس مسئلے پر تمام حزب اختلاف بھی حکومت کے ساتھ ہے. سرحد پار دہشت گردوں کے اڈوں پر سرجیکل اسٹرائک  کی اب کم از کم ملک کے اندر مخالفت نہیں دیکھنے کو مل رہی ہے . اپنے 18 جوانوں کی شہادت کے بعد دس دن تک غور و فکر کرنے کے بعد ہماری فوج نے سرجیکل اسٹرائک  نام کے اس روایتی طریقوں کے حملے کا استعمال کیا. اسی لئے حملے کے اس طریقےکی مخالفت کا کوئی اندیشہ بھی نہیں تھا. رہی بات عالمی برادری کی تو فی الحال اقوام متحدہ نے اور دنیا کے بڑے ممالک میں شامل امریکہ نے کشیدگی کو کم کرنے کا مشورہ دیا ہے. ویسے ایک بار پھر کشیدگی بڑھنے کی ابھی یہ آغاز ہے. آگے سے اس سرجیکل اسٹرائک  کے بعد ہوئے اثر کو مسلسل دیکھتے  اور سمجھتے رہنے کی ضرورت پڑے گی.

 حکومت کو اپوزیشن کا نایاب ساتھ

اپوزیشن کی تقریبا تمام جماعتوں نے کم از کم اس ایک مسئلے پر متحد ہو کر حکومت کے ساتھ کھڑے ہونے کی پیشکش کی ہے. بغیر اگر مگر کی یہ پیشکش ہندوستانی سیاست میں شاز موقعوں میں گنی جائے گی. اس طرح موجودہ حکومت کے پاس اپوزیشن کے اس مصنوعی تعاون کا فائدہ اٹھانے کا موقع ہے.

 حزب اختلاف نے پوری سنجیدگی دکھائی

غور کرنے لائق بات ہے کہ کانگریس صدر سونیا گاندھی نے کارروائی کی اطلاع ملتے ہی اس نازک وقت میں حکومت کا ساتھ دینے کا صاف اعلان کیا. سینئر کانگریس لیڈر غلام نبی آزاد اور دوسرے کانگریس لیڈروں نے فورا ہی حکومت کی حوصلہ افزائی کی. حکومت نے بھی اپوزیشن کے لیڈروں کو بلا کر اس کارروائی کی اطلاع دی. تاہم سی پی ایم کے جنرل سکریٹری نے میٹنگ کے بعد یہ ضرور کہا کہ فوجی مہم کے ڈائریکٹر جنرل پہلے ہی ایک پریس کانفرنس کے ذریعے یہ اطلاع دے چکے تھے. لیکن حزب اختلاف کے رہنماؤں کو یہ نہیں بتایا گیا کہ ہم آگے کیا کرنے والے ہیں. بہر حال عام طور پر اپوزیشن کی جانب سے نکتہ چینی اور اندیشے جتانے کا اب تک جو چلن رہا ہے اس سے ہٹ کر پہلی بار حکومت کو سب کا ساتھ دکھائی دے رہا ہے.

 اپوزیشن کی اہمیت کی ایک بڑی دلیل

ایک بار پھر یہ درج ہونا ضروری ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان اعلانیہ کشیدگی کی یہ آغاز ہے. آگے اس کے بڑھنے کے آثار زیادہ دکھائی دے رہے ہیں. یعنی آگے کی کارروائی کے لئے حکومت کو وقت وقت پر پورے ملک کو اعتماد میں لینے کی ضرورت پڑے گی. ہمارے اپنے جمہوری نظام میں اپوزیشن کی حیثیت اتنی بڑی ہے کہ اس وقت ملک کی دو تہائی عوام کی نمائندگی اپوزیشن پارٹیاں ہی کر رہی ہیں. اسی لئے جلد ہی پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس کی مانگ بھی اٹھے گی اور وہاں سنجیدگی سے غور و فکر کی ضرورت پڑے گی. ویسے موجودہ صورت حال یہ ہے کہ سرجیکل اسٹرائک  کے بارے میں حکومت کے فیصلے کی تنقید کرتا کوئی نظر نہیں آ رہا ہے.

 عالمی برادری کا ابتدائی موقف

سب سے بڑاعالمی ادارہ یعنی اقوام متحدہ کی ابتدائی نصیحت یہ آئی ہے کہ دونوں ممالک بات چیت سے ہی اپنے اختلافات حل کریں. امریکہ نے بھی کشیدگی کم کرنے کا ہی مشورہ دیا ہے. حالانکہ ابھی آغاز ہے لیکن آگے کے موقف کا اشارہ تو یہ ہے ہی. اور پھر ہماری طرف سے بھی معاملہ اتنا ہی بنایا گیا ہے کہ اڑي میں دہشت گردانہ حملے میں اپنے 18 جوان شہید ہونے کے بعد کنٹرول لائن کے اس پار دہشت گرد اڈوں پر ہی محدود حملےکئے گئے. لہذا عالمی برادری کا تفصیلی نظریہ آنے میں ابھی وقت لگے گا. جہاں تک حمایت کا سوال ہے تو سرجیکل اسٹرائک  کی کارروائی پر ابھی تک سب سے صاف حمایت بنگلہ دیش سے اور بلوچستان کے کچھ لیڈروں سے ملی ہے.

 جنگ کے اندیشے سے سب سے زیادہ فکر مند کون ہے

ویسے تو ہمیشہ سے ہی جنگ کے خلاف رہنے والا ایک بڑا طبقہ اس زمین پر موجود ہے. خاص طور پر ایٹمی طاقت میں اضافہ ہونے  کے بعد جنگ کی مخالفت بڑھتی ہی جا رہی ہے. وقت-وقت پر یہ  دانشورطبقہ جنگ کے نقصانات  سے آگاہ کرتا رہتا ہے. لیکن  سرجیکل اسٹرائک کی اطلاع ملتے ہی سب سے پہلے دونوں ممالک کی قیادت سے امن کی اپیل کرنے والا بیان جموں و کشمیر کی وزیر اعلی محبوبہ مفتی کی طرف سے آیا. انہوں نے کہا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان جنگ کی صورت میں اس ریاست میں کیسی خوفناک تباہی مچےگي اسے ابھی کوئی سوچ بھی نہیں سکتا. اس وقت جب سرجیکل اسٹرائک  کے بعد ہر لمحہ چہار پہلو پر غور کیا جا رہا ہے تو محبوبہ مفتی کے اس بیان پر بھی غور کیوں نہیں ہونا چاہئے .

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔