حیاتِ محمد ﷺ کے چند اوراق

مصباحی ؔ شبیر احمد

عرب اور پو ری دُ نیا کے حا لا ت جب مذ ہبی، سما جی، علمی، تمد نی اور تہذ یبی ہر لحا ظ سے ابتر ہو گئے دُ نیا پر چا ر جا نب جا ہلیت ہی جا ہلیت گا گھپ اند ھیر ا چھا گیا تو ر حمت خدا و ند ی کو جو ش آ یا اس نے ایک ہا دی اور ر ہبر کو مبعو ث کیا تا کہ ان بھٹکے ہو ئو ں کو سید ھی راہ کھا ئے۔ اور کو ئی یہ عذ ر نہ پیش کر سکے کہ ہما رے لئے کو ئی ہا دی نہ تھا۔ آ یت ’ان تَقُو لُو ما جا ء نا من بشیرُ و نذیر‘۔ تر جمہ۔ (کبھی کہو کہ ہما رے پا س کو ئی خو شی اور ڈ ر سنا نے وا لا نہ آ یا )۔ اس آ یت کر یمہ کی شا ن ِنز و ل کے با ر ے میں مفسرِ قُر آن علا مہ نعیم الد ین مُر ادآ با دی فر ما تے ہیں کہ

’’ حضرت عیسٰی علیہ ا لسلا م کے بعد سے سید عا لم ﷺ کے ز ما نے تک پا نچ سو اُ نہتر بر س کی مُدت نبی سے خا لی ر ہی۔ اس کے بعد حضو ر ﷺ کی تشر یف لا نے کی مُد ت کا اظہا ر فر ما یا جا تا ہے کہ نہا یت حاجت کے و قت تم پر اللہ تعا لیٰ کی عظیم نعمت بھیجی گئی اور اس میں الزام و حجت و قطع عذ ر بھی ہے کہ اب یہ کہنے کا موقع نہ رہا کہ ہمارے پاس تنبیہہ کرنے والے تشریف نہ لا ئے (کنز الا یما ن)

اب سید عالم ﷺ کی پیدائش کے بارے میں چنددلچسپ  پہلوئوں کو ملاحظہ فرمائیں۔

قُر یش کی و جہ تسمیہ۔ آپ ﷺ عر ب کے معز ز قبیلہ قر یش میں پیدا ہو ئے۔ اس قبیلہ کی وجہ تسمیہ کے بارے میں مولانا عبدالمصطفیٰ اعظمی صاحب زرقانی علی المواہب کے حوالے سے لکھتے ہیں۔ ’’ قریش ایک جانور ہے جو سمندر میں رہتا ہے۔ اسی کے نام پر قبیلئہ قریش کا نام رکھ دیا گیا۔  آپ ﷺ ماں باپ دونوں کی طرف سے ’’قریشی‘‘ ہیں۔

پو تے کا نا م محمد ﷺ کیوں ؟

آ پ ﷺ کا نا م محمد کیوں ر کھا گیا۔ اس بارے میں مو رخ شاہ معین الد ین ند و ی لکھتے ہیں ’’ محمد نا م عر ب میں بالکل نیا نام تھا۔ قُر یش نے اس نا ما نو س نا م ر کھنے کا سبب پو چھا عبد ا لمطلب نے کہا کہ میر ا فر ز ند سا ری دُ نیامیں مدح و ستا ئش کا سز اوا ر قر ار پا ئے۔ ‘‘ (تا ر یخ اسلا م حصہ او ل صفہ ۱۲۰)

پیر کے روز پید ا ئش کیوں ؟

’’ پیر کے روز آ پ ﷺ کے پید ا ہو نے میں یہ حکمت ہے کہ اللہ تعا لیٰ نے پیر کو تما م در خت پیدا کئے گو یاا نسا نو ں کا رزق پھل، سبز یا ں وغیر ہ جن پر ا نسا نی زند گی کا دار و مد ا ر ہے وہ پیر کو پیدا ہو ئے۔ تو آ پ ﷺ کو اس دن پیدا کر کے اشا رہ فر ما د یا کہ آ پ کی ذات بھی ا نسا نو ں کی رو حوں کو ز ند گی بخشنے کا ذ ر یعہ ہے جس طر ح رزق کے بغیر ا نسا ن کا ز ند ہ ر ہنا محا ل ہے اسی طر ح آ پ کے بغیرار وا ح کی بقا نہیں ‘‘(تذکرۃُ ا لا نبیاء)

ر بیع الا ول کے ما ہ میں کیو ں ؟

ایک روا یت ہے کہ’’ ر بیع الا ول مو سم بہا ر کو کہتے ہیں۔ جو تما م مو سمو ں سے معتد ل ہے۔ اور ا حسن ہے آ پ کوربیع الا ول میں پیدافر ما کر اشا رہ کیا گیا کہ آ پ کی شر یعت تما م شر یعتو ں سے معتد ل ہے۔ نہ اس میں ا فر ا ط ہے اور نہ تفر یظ یعنی بہت سختیاں بھی نہیں جیسے مو سیٰ علیہ السلا م کی شر یعت میں اور بہت فرسیا ں بھی نہیں جیسے عیسیٰ عیلہ ا لسلا م کی شر یعت میں تھیں ‘‘(حا وی الا فتا ویٰ صفہ ۱۹۷)

عر ب قوم کاا نتخاب کیو ں؟

اس با رے میں شا ہ معین الد ین ند وی اپنی کتا ب تا ر یخ اسلا م میں لکھتے ہیں کہ’’ عر ب کتابی تعلیم سے نا آ شنا اور تمد نی اثر ات سے پاک تھے اور مختلف قسم کی بُر ا ئیو ں کے با و جو داُن میں آز ادی، حُر یت، حق گو ئی، جُر ات، اور بہا دری کے بد و یا نہ اخلا قمو جو د تھے۔ اسی لئے متمدن اقو ام کے مقا بلے میں ان میں قبو ل حق کی سب سے زیا دہ صلا حیت تھی اس لئے اما نت الٰہی کی تفو یض اور مخلو ق کی رہنما ئی کے لئے اسی سا دہ مگر پُر جو ش قو م کا انتخا ب ہو ااور دُ نیا کے مو حد ا عظم ابر اھیم خلیل اللہ کی نسل سے محمد بن عبد اللہ کو یہ منصب تفو یض ہوا۔ ‘‘ (تاریخ اسلام حصہ اول صفہ ۱۱)

ملک عر ب کا ا نتخا ب کیوں ؟

حضرت علا مہ عبدا لمُصفیٰ اعظمی رحمتُہ اللہ علیہ اس کی تو صیح یوں بیا ن کر تے ہیں کہ’’ اگر ہم عر ب کو کر ہ ِز مین کے نقشے پر د یکھیں تو اس کے محل ِوقو ع سے یہی معلوم ہو تا ہے کہ اللہ تعا لیٰ نے مُلک عر ب کوایشیا یورپ اور افر یقہ تین بر ا عظمو ں کے وسط میں جگہ دی ہے۔ اس سے بخو بی یہ سمجھ میں آسکتا ہے کہ ا گر تما م دُ نیا کی ہد ایت کے وا سطے ایک واحد مر کز کے لئے ہم کسی جگہ کا ا نتخا ب کر نا چا ہیں تو مُلک عر ب ہی اس کے لئے سب سے زیا دہ موز ون اور منا سب مقا م ہے (سیر ت مصطفی صفہ ۴۲، ۴۳)

اللہ نے اپنے نو رسے آپ کو پیدا کیا۔ قُر آن کر یم میں واضع ہے کہ آپ نو ر سے پیدا کئے گئے۔ آ یت’’ قد جاء کم من اللہ نُو رو کتا بُ مُبین‘‘ (پ۶ سو رہ الما ئید ہ آ یت ۱۵)تر جمہ۔ بے شک تمہا رے پا س اللہ تعا لیٰ کی طر ف سے ایک نو رآ یا اور رو شن کتا ب۔

اس آ یت کر یمہ کی تفسیر میں تین اقو ال ملتے ہیں۔ ۱۔ عا م مُفسرین کا جنہو ں نے نو رسے مُر اد نبی یم ﷺ اور کتا ب مُبین سے مُر اد قر آن پاک لیا ہے۔ ۲۔ دو سر وں کا قو ل ہے کہ نو رسے مُر اد قُر آن ہے اور کتا ب سے بھی مُر اد قر آن ہے۔ ۳۔ تیسر اقو ل عا م محقیقن کا ہے جیسے

 علا مہ آ لو سی اور مُلا علی قا ری و غیر ہ۔ اُ نہو ں نے نو را ور کتا ب مبین دو نو ں سے مُر اد نبی کر یم ﷺ کی ذات لئے ہیں۔ اب با ت یوں ہے کہ ہر کو ئی پہچان نہیں پا تا ہے صر ف نظر وا لے پہچا ن لیتے ہیں۔ ڈا کٹر علامہ ا قبا ل اس کو یو ں بیا ن کر تے ہیں۔

   نگاہ عا شق کی جا ن لیتی ہے پر دہ میم اُ ٹھا اُ ٹھا کر

   وہ بز م ا مکان میں لا کھ بیٹھیں ہز ار مُنہ کو چھپا چھپا کر

اس کی تائید اس حد یث پاک سے بھی ہو تی ہے۔ عبد الر زاق نے جا بر بن عبد اللہ ر ضی اللہ عنہُ سے روا یت کی ہے کہ میں نے عر ض کی کہ یار سو ل اللہ ﷺ میر ے ما ں با پ آپ پر قر بان مجھے یہ خبر د یجئے کہ تما م چیز وں سے پہلے اللہ تعا لیٰ نے کسے پید اکیا؟۔ آپ ﷺ نے فرما یا’’اے جا بر بے شک اللہ تعا لیٰ نے تما م اشیاء سے پہلے اپنے نور سے تیرے نبی کے نور کو پیدا کیا پھر وہ نور اللہ تعالیٰ کی قدرت سےجہا ں بھی منظو ر تھا سیر کر تا ر ہا۔ اس وقت نہ لو ح تھی نہ قلم نہ جنت اور نہ روح نہ فر شتے نہ آ سما ن نہ ز مین اور نہ سو رج نہ چا ند نہ جن اور نہ انسا ن تھے ‘‘(ذرقا نی ج اصفہ ۶۹)

 مشکو اۃ شر یف کی حد یث ہے حضرت عر با ض بن سا ر یہ سے روا یت ہے کہ ر سول اللہ ﷺ نے ارشا د فر ما یا ’’بے شک میں اللہ تعا لیٰ کے نز د یک اس وقت خا تم النبین تھا جب آدم علیہ السلا م ابھی تک اپنے خمیر میں تھے۔ ‘‘(مشکو اۃ شر یف با ب الفضا ئل سیدا لمر سلین ۵۱۳)

آخر ی با ت۔ حیا ت محمد ﷺ کے مطا لعہ سے ایک با ت وا ضع ہو گئی کہ محمد ﷺ کی ذات کسی ایک قو م اور مذ ہب کے لیے ہی با عث رحمت نہیں بلکہ آ پ ﷺ کی ر حمت عا م ہے۔ اور ہمیشہ عا م ر ہے گی۔ ہمیں سوچنا ہے کہ ہم کیا کہتے ہیں اور ا گر کہنے اور لکھنے کا سیلقہ نہیں تو پھر یہ مید ان بچو ں کا کھیل نہیں ہے۔ اللہ تعا لیٰ ہمیں حیا ت محمد ﷺ پر چلنے کی تو فیق عنا یت فر مائے۔

تبصرے بند ہیں۔