خاموشی تمہیں اس دور میں جینے نہیں دے گی

 ذوالقرنین احمد

 آج جس موضوع پر توجہ مرکوز کرنا چاہتا ہوں وہ ہے مسلم قوم کے دلوں میں حکومت اور دہشت گرد ہندو تنظیموں کا ڈر ہم جس ملک میں رہتے ہیں آزادی کے بعد سے ہی یہاں جمہوری نظام نظام قائم کیا گیا جہاں ہر کسی کو بلا تفریق مزہب و ذات پات کے تمام بنادی حقوق حاصل ہیں ہم اپنے اپر ہورہی زیادتی کے خلاف آواز بلند کر سکتے ہیں ہم قانونی چارہ جوئی کر سکتے ہیں۔

 ملک عزیز کی آزادی کیلئے ہمارے رہنماؤں نے علماء نے عظیم قربانیاں دی اس زمیں کو اپنا لہوں دے کر سینچا ہے اور تب جاکر اس ملک کو آزادی نصیب ہوئی اور یہ ملک سونے کی چڑیا کہلایا، لیکن کچھ غدار منافقین نے ملک کی ساخت کو کھوکھلا کرنے کے لئے مذہبی منافرت پھیلانے اور مذہب اور ذات پات کے نام پر گندی سیاست کا کھیل کھیلا، اور ملک کی گنگا جمنی تہذیب کو ختم کرنے کا کام کیا، کانگریس کی گزشتہ ۶۰ سالہ دور حکومت میں مسلم برادری کو سرے سے نظر انداز کیا گیا، انہیں نوکریوں سے لیکر حکومتی اقتدار تک محروم رکھا گیا، مسلمانوں کو ہر میدان میں کمزور کیا گیا، ہمارے ملی  رہنماؤں کا آنکھیں بند کر کے کانگریس پر بھروسہ کرنا کافی مہنگا ثابت ہوا، ان لوگوں نے صرف ووٹ بینک کے طور پر استعمال کیا۔ اورتعلیمی،معاشی، اقتصادی، سیاسی، میدانوں میں بلکل کمزور کردیا، جس سے آج تک مسلمان اس ملک میں معاشی،سیاسی، تعلیمی اور  اقتصادی طور پر مستحکم نہیں ہو سکا، اور انتہائی غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

 ۲۰۱۴ میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد ہندوستان کے مسلمانوں کیلئے زمین اور بھی تنگ کر دی گئی کہی گؤ کشی کے نام پر نوجوانوں کو ہجومی تشدد کا نشانہ بناکر قتل کیا جارہا ہیں، کہی مسلم عورتوں کے حقوق کی بات کرتے ہوئے انہیں بے یار و مددگار کرنے کی سازشیں ہورہی ہیں، کہی بچا چوری کے چھوٹے الزام میں قتل کردیا جارہا ہیں، تو کہی مسلم پرسنل لاء کو نشانہ بنایا جارہا ہے دیگر مذہب کے لوگ بھی ایسے حادثات کا شکار ہورہے ہیں، ملک میں ڈرو خوف کا ماحول پیدا کیا جارہا ہے، ماضی پر اگر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے، کانگریس کے دور حکومت میں بھی ممبئی میں مسلمانوں کا خون بہایا گیا، گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا، مظفر پور میں نوجوانوں کو بے جا گرفتاریاں کرکے انکونٹر کیا گیا، مالیگا ؤں بم دھماکہ، اسی طرح سیکڑوں مثالیں ہیں جہاں صرف مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا، اور گرفتاریاں بھی مسلم نوجوانوں ہی کی گئی، اگر ملک میں جمہوری نظام قائم ہے تو کیوں مسلمانوں کے ساتھ دوسرے درجے کے شہری ہونے جیسا برتاو کیا جارہا ہیں۔ کیوں ہمارے نوجوانوں کو خوف و ہراس میں رکھا جارہا ہیں۔

 ملک کی پولس عوام کی حفاظت کیلئے ہوتی ہیں یہاں تو حالات کچھ اور ہی ہیں، اگر مسلمان اپنے حق کیلئے آواز اٹھائیں تو ان پر لاٹھی چارج کیا جاتا ہیں، کشمیری عوام پر ربر کی گولیاں چلائیں جاتی ہیں، اور اک طرف ہریانہ کا جاٹ اندولن ہے جو ریزرویشن کا مطالبہ کرتے ہوئے قانونی املاک کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ عورتوں کی عصمت کو تار تار کرتے ہیں اس طرح مراٹھا ریزرویشن کیلئے سرکاری  املاک کو نقصان پہنچایا جارہا ہےاور پولس خاموش تماشائی بنی ہوتی ہیں، حکومت اداروں میں خالی اسامیوں کے پر کرنے میں مسلم نوجوانوں کو تعصب کا نشانہ بنایا جاتا ہے، نہ کوئی تعلمی ریزرویشن ہے نا ہی سرکاری نوکریوں میں ریزرویشن ہیں، آخر ملک کس طرف جارہا ہیں۔

 ملک کا میڈیا پوری طرح سے بک چکا ہیں جو حکومت کے اشارے پر ناچ رہا ہے، فلحال ملک کی عوام کے جزبات کے ساتھ درندگی کا کھیل کھیلا جارہا ہیں اور انہیں صرف ووٹ بینک کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے ، جتنے واعدے بی جے پی نے اقتدار میں آنے سے قبل کیے تھے اس پر کھری ثابت نہیں ہو سکی، ملک کے نوجوان صرف ڈگریاں ہاتھ میں لے کر گھوم رہے ہیں، بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤکا نعرہ بلکل الٹ دیکھائی دے رہا ہیں خواتین اس ریپستان میں اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کر رہی ہے، ایسے کیٔ سیکس ریکیٹ کا پردہ فاش ہوچکا ہے جس میں بی جے پی کے لیڈران موجود ہیں۔ اسکی ذمہ دار حکومت کے ساتھ ساتھ وہ گندی ذہنیت کا معاشرہ  بھی ذمہ دار ہیں جو عورت کو صرف جسمانی سکون کا زریعہ سمجھتے ہیں، انہیں صرف اپنی گھر کی عورت ہی عورت دیکھائی دیتی ہیں، اس بات سے انکی گندی ذہنیت کا پتہ چلتا ہے، ہمارے پاس اس کیلئے کیا لأحہ عمل ہے کیا مسلمان اس ملک میں محفوظ ہے اگر آپ ایسا سمجھتے ہیں تو آپ خوب خرگوش میں زندگی گزار رہے ہیں۔

 ہندوستان پر جتنا حق نریندر مودی کا ہیں اتنا ہی حق ایک عام مسلمان کا ہیں، تم ایک زندہ قوم ہو اپنے آپ کو احساس کمتری کا شکار نہ ہونے دو، اپنے بچوں کو بباک، نیڈر، بناؤ انکے اندر خود اعتمادی کا مادہ پیدا کرو کے یہ ملک کسی کے باپ کی جاگیر نہیں ہیں یہ ملک جتنا بھگت سنگھ کا ہیں اتنا ہی ٹیپو سلطان کا ہے ، تم اس ملک میں اپنے آپ کو دوسرے درجے کا شہری نہ سمجھوں آگے بڑھو  تم کوئی بزدل نہیں ہو تم اس قوم سے تعلق رکھتے ہو جس نے ساحل پر سفینوں جلا دیا تھا، تم اس قوم کے نوجوان ہو جس نے اپنے اخلاق و کردار سے سندھ کے غیروں کو اپنا دلدادہ بنایا تھا، اپنے حق کیلئے لڑوں چاہے تمہیں شہید ہونا پڑے، ظلم و نا انصافی کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہو جاؤ، اگر خاموش رہوگے تو بوڑھے کندھے نوجوانوں کی لاشوں کو ڈھوتے رہےگے، تمہارے سامنے تمہاری عزتیں عصمتیں تار تار کی جارہی ہیں، میں بات کر رہا ہو ملک کے ہر مظلوم شخص کے حق میں آواز بلند کرنے کی چاہے وہ کسی بھی مذہب کا ہو، تم یہ وفا کا جنازہ کب تک ڈھوتے رہوگے ، اور کیا ملا ہیں تمہیں آزادی کے بعد سے اب تک، خود ایک علمی، سیاسی ،اقتصادی، دفاعی طاقت بن کر کھڑے ہوجایئے۔

اب اور کسی پر بھروسہ کرنا بے وقوفی ہوگی، اپنے آستین کے سانپوں کو پہچانئیے، ورنہ حالات دیگر گو ہو سکتے ہیں ان سنگھی دہشت گردوں کو ملک سے کوئی محبت نہیں ہے یہ صرف محبت کا ڈھونگ رچا رہے ہے یہ اپنے مفاد کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں اسلۓ حالات سے واقف رہے تم اگر زندہ قوم ہو تو زندہ نظر آنا چاہیے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔