خاموش پریس کانفرنس اور مضحکہ خیز انٹرویوز

فیصل فاروق

گزشتہ پانچ سال سے صحافی حضرات وزیراعظم نریندر مودی کی پریس کانفرنس کے منتظر تھے۔ مودی نے اپنے پانچ سالہ دور اقتدار میں کسی پریس کانفرنس کا سامنا نہیں کیا لیکن لوک سبھا الیکشن کی انتخابی مہم کے آخری دن امیت شاہ کے ساتھ پریس کانفرنس میں شرکت کرنے کیلئے پارٹی دفتر پہنچے لیکن صحافیوں کے کسی بھی سوال کا جواب نہیں دیا۔ محسوس ہوا کہ موصوف نے اپنی ہی پریس کانفرنس میں خاموشی کا روزہ رکھا ہے۔ اِس کے برعکس گزشتہ دنوں وزیراعظم مودی نے یکے بعد دیگرے اخبارات اور نیوز چینلز کو خوب انٹرویوز دیئے۔ کبھی سیاسی تو کبھی غیر سیاسی۔ اپنے اظہار خیال کے دوران ایسی باتیں کہی ہیں جو مزاق کا موضوع بنیں۔

مثال کے طور پر اُنہوں نے بتایا کہ وہ آم کیسے کھاتے ہیں؟ یا یہ کہ اُنہوں نے بذات خود پاکستان میں گھس کر دہشت گردوں کو سبق سکھایا۔ لوگ حیران تو تب ہوئے جب وزیراعظم نے بتایا کہ اُن کے پاس۱۹۸۷ء یا ۸۸ء میں ڈیجیٹل کیمرہ تھا اور وہ اُس وقت بھی اِی میل کے ذریعہ پیغام رسانی کیا کرتے تھے۔ ایک انٹرویو میں صحافی نے پاکستان پر ایئر اسٹرائک کے تعلق سے سوال کیا۔ اِس پر فزکس کے طلبہ کو شش و پنج میں ڈالنے والا جواب دیتے ہوئے وزیراعظم مودی نے کہا ’’اُس رات بارش ہو رہی تھی تو اُنہوں نے سوچا کہ ابھی موسم خراب ہے تو جو جنگی جہاز ہیں، اُن کو راڈار کے ذریعہ پکڑا نہیں جائے گا۔‘‘

بڑی تنقیدوں کے بعد کسی طرح وزیر اعظم نے پانچ سال میں پہلی بار پریس کانفرنس تو کی لیکن سوالات کے جواب نہیں دیئے بلکہ صرف خاموش بیٹھے رہے لیکن اُس سے قبل مودی نے پریس کانفرنس سے یکطرفہ خطاب بھی کیا۔ بالکل اُسی انداز میں جیسا کہ وہ من کی بات میں کرتے آئے ہیں۔ اُنہوں نے یہاں بھی صحافیوں کے سوالوں کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھا بلکہ اپنے دل کی بات کرتے رہے۔ لیکن اِس معاملہ میں پوری طرح سے مودی کو مورد الزام ٹھہرانا بھی بالکل غلط ہے۔ آخر جب کسی وزیراعظم کو بغیر پریس کانفرنس کئے حد سے زیادہ کوریج حاصل ہو تو وہ کیونکر پریس کانفرنس کرے گا؟

بہرحال، سیاسی گہما گہمی کے درمیان مودی نے اداکار اکشے کمار کو غیر سیاسی انٹرویو بھی دیا جس میں اکشے کمار نے وزیراعظم سے بیحد ’مشکل‘ سوالات پوچھے۔ اکشے کمار نے سوال پوچھا، آج آپ کا بینک بیلنس کتنا ہے؟ مودی جی کو جب زکام لگتا ہے تب کیا کرتے ہیں؟ کیا آپ کو آم کھانا پسند ہے اور آپ آم کیسے کھاتے ہیں؟ وزیراعظم مودی نے جواب دیا، ’’مَیں آم کھاتا ہوں اور مجھے آم پسند بھی ہے۔ ویسے جب مَیں چھوٹا تھا تو ہمارے خاندان کی حالت ایسی نہیں تھی کہ خرید کر کھا سکیں۔ لیکن ہم کھیتوں میں چلے جاتے تھے اور وہاں درختوں کے پکے آم کھاتے تھے۔‘‘ مطلب یہاں بھی باور کرا دیا کہ مودی بچپن میں کتنا غریب تھا۔ اُس کے پاس آم خرید کر کھانے کے پیسے نہیں ہوتے تھے۔

انٹرویوز کے دوران اُنہوں نے ایسی ’نادر‘ قسم کی معلوماتی باتیں شیئر کی ہیں کہ سب حیرت میں ہیں۔ دینا بھر کے سائنسداں بالکل بے خبر ہیں کہ جنگی طیاروں کو بادلوں میں چھپا کر راڈار کی شعاعوں سے بچایا جا سکتا۔ لیکن مودی جی کو پتہ ہے۔ یہ انکشاف اُنہوں نے نیوز نیشن کو دیئے گئے انٹرویو کے دوران کیا۔ صحافی نے سوال کیا، جب جوان پاکستان پر حملہ کرنے جا رہے تھے اس رات آپ سو پائے تھے؟ اِس پر فزکس کے طلبہ کو شش و پنج میں ڈالنے والا جواب دیتے ہوئے وزیر اعظم مودی نے کہا ’’دن بھر مصروف رہا، رات قریب نو ساڑھے نو بجے اسٹرائیک کی تیاریوں کا جائزہ لیا اس کے بعد بارہ بجے پھر جائزہ لیا۔ ہمارے سامنے ایک مسئلہ تھا اُس وقت اچانک موسم خراب ہو گیا تھا، بارش بہت ہو رہی تھی۔ یہ بھی مَیں پہلی بار بول رہا ہوں، افسروں کو کیا لگے گا مجھے معلوم نہیں۔‘‘

اُنہوں نے مزید کہا، ’’تو بارہ بجے ایک لمحہ ہمارے من میں آیا کہ اِس موسم میں ہم کیا کریں گے۔ کلاؤڈ (بادل) ہے جا پائیں گے یا نہیں جا پائیں گے؟ ماہرین حملہ کی تاریخ بدلنا چاہتے تھے۔ میرے دماغ میں دو باتیں تھیں۔ ایک رازداری اور دوسرا، مَیں نے کہا مَیں اُن میں سے نہیں ہوں جو اِن سارے سائنس کو جانتا ہو لیکن مَیں نے کہا اتنے بادل ہیں، بارش ہو رہی ہے تو ایک فائدہ ہے۔ کیا ہم (پاکستانی) راڈار سے بچ سکتے ہیں۔ مَیں نے کہا میرا ’’را ویژن‘‘ ہے کہ یہ بادل فائدہ بھی پہنچا سکتا ہے۔ سب الجھن میں تھے کیا کریں۔ پھر آخرکار مَیں نے کہا بادل ہیں جائیے اور فوجی چل پڑے۔‘‘ اِس بیان کو سننے کے بعد لوگ الجھن میں ہیں کہ یہ ’’را ویژن‘‘ کیا تھا؟

ایک وزیر اعظم سے یہ سن کر کتنا عجیب لگتا ہے کہ اُنہوں نے سوچا کہ ابھی موسم خراب ہے تو جو جنگی جہاز ہیں، اُن کو راڈار کے ذریعہ پکڑا نہیں جائے گا۔ آٹھویں یا دسویں جماعت کے طلباء بھی جنہوں نے بہت ہی بنیادی سائنس پڑھی ہے ان کو بھی پتہ ہے کہ راڈار اِس طرح سے کام نہیں کرتا۔ ورنہ اگر بارش ہو جائے گی تو دو ملک اگر آپس میں لڑ رہے ہیں تو صرف بارش ہو جانے کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کے جنگی جہاز کا پتہ نہیں لگا پائیں گے۔ راڈار مختلف قسم کی چیزوں کو الیکٹرو میگنیٹک سینسر کے ذریعہ پتہ لگاتا ہے، اُسے ٹریک کرتا اور اُس کی شناخت کرتا ہے۔ فزکس میں یہ پڑھایا جاتا رہا ہے کہ راڈار کسی بھی موسم میں کام کرتا ہے اور موسم چاہے کتنا ہی خراب ہو یہ طیارے کا پتا لگا لیتا ہے۔

سوشل میڈیا پر مودی کے اِس بیان کا کھل کر مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ عمر عبداللہ نے مذاق اڑاتے ہوئے لکھا، ’’پاکستانی راڈار بادلوں میں داخل نہیں ہو سکتا۔ یہ فوجی حکمت عملی کی بہت ہی اہم معلومات ہے اور مستقبل کے ايئر اسٹرائکس کی منصوبہ بندی میں یہ انتہائی اہمیت کا حامل ہوگا۔‘‘ سوال پیدا ہونا لازمی ہے کہ کیا مودی جان بوجھ کر غلط بیانی کر رہے ہیں؟ اِسی انٹرویو میں، مودی نے دعوی کیا کہ اُنہوں نے کبھی بھی بٹوے کا استعمال نہیں کیا کیونکہ وہ اتنے غریب تھے کہ اُن کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ اِس پر طنز کرتے ہوئے اسدالدین اویسی نے ٹویٹ کیا، ’’ہندوستان کے وزیراعظم کے پاس بٹوا نہیں تھا (کیونکہ پیسے نہیں تھے) لیکن ۱۹۸۸ء میں ڈیجیٹل کیمرہ اور اِی میل تھا؟ یہ بہت مضحکہ خیز ہے اور شرمناک بھی۔ ایک ایسا پی ایم جو واقعی کچھ بھی کہے جو اُس کے ذہن میں آئے تو ممکنہ طور پر ہماری قومی سلامتی پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

کبھی کبھی تو لگتا ہے وزیراعظم مودی اپنے دور سے بہت آگے ہیں۔ اُسی انٹرویو میں وزیراعظم نے بتایا کہ اُن کے پاس۱۹۸۷ء یا ۸۸ء میں ڈیجیٹل کیمرہ تھا اور وہ اُس وقت بھی اِی میل کے ذریعہ پیغام رسانی کیا کرتے تھے۔ موصوف کہتے ہیں، ’’پہلے سے تکنیک کے تئیں میری دلچسپی تھی۔۹۰ء کی دہائی میں میرے پاس آئی پیڈ تھا۔ مَیں نے پہلی بار ڈیجیٹل کیمرہ کا استعمال کیا تھا ۱۹۸۷ء یا ۸۸ء میں شاید۔ اور اُس وقت بہت کم لوگوں کے پاس اِی میل رہتا تھا۔ تو میرے ہاں ویرمگام تحصیل میں اڈوانی جی کی سبھا تھی تو مَیں نے اُس ڈیجیٹل کیمرہ پر اُن کی فوٹو لی۔ تب ڈیجیٹل کیمرہ اتنا بڑا آتا تھا (ہاتھ کے اشارے سے بتاتے ہوئے) میرے پاس تھا اُس وقت، مَیں نے فوٹو نکالی اور مَیں نے دہلی کو ٹرانسمٹ کی۔ اب دوسرے دن کلر فوٹو چھپی۔ اڈوانی جی کو بڑا سرپرائز ہوا کہ دہلی میں میری کلر فوٹو آج کے آج کیسے چھپی؟‘‘

جبکہ ۱۹۸۸ء میں ہندوستان میں انٹرنیٹ شروعاتی مرحلہ میں تھا اور اُس کا استعمال صرف ماہرین اور سائنس دانوں تک محدود تھا۔ ۱۵ اگست، ۱۹۹۵ء کو ودیش سنچار نیشنل لمیٹیڈ (وی ایس این ایل) نے ہندوستان کے لوگوں کیلئے انٹرنیٹ کا آغاز کیا تھا۔ ۱۹۹۲ء میں پہلی بار اِی میل میں کوئی فائل اٹیچ کر کے بھیجی گئی تھی۔ یہ ایک غیر ہندوستانی محقق نے بھیجی تھی۔ جس امریکہ کو تکنیک کے معاملہ میں کافی آگے مانا جاتا ہے اُسی امریکہ کا صدر رہتے ہوئے بل کلنٹن نے ۱۹۹۸ء میں پہلی بار اِی میل بھیجا تھا۔ اُنہوں نے یہ اِی میل خلائی مسافر جان گلین کو بھیجا تھا۔ سوال یہ ہے کہ جب ۱۹۸۸ء میں کسی عام شہری کے پاس اِی میل تھا ہی نہیں تو مودی اِی میلز کسے اور کیسے بھیج رہے تھے؟ اور یہ پہلی بار نہیں ہے جب مودی نے غیر سائنسی یا غلط بیان دیئے ہوں۔

آپ کو یاد ہوگا جب وزیراعظم نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ گنیش جی وہ پہلی مثال تھے جن پر پلاسٹک سرجری ہوئی تھی۔ بقول مودی ’’اب ہم پلاسٹک سرجری کو دیکھیں، مجھے لگتا ہے کہ دنیا میں سب سے پہلے پلاسٹک سرجری، جسم انسان کا اور ماتھا ہاتھی کا، گنیش جی کی تخلیق۔‘‘ ایک مرتبہ اسکولی بچوں کے ساتھ ویڈیو کانفرنس کے ذریعہ سوال و جواب کے دوران موسم کی تبدیلی پر اُنہوں نے کہا تھا، ’’آب و ہوا تبدیل نہیں ہوئی ہے بلکہ ہم بدل گئے ہیں، ہماری عادتیں تبدیل ہوگئی ہیں۔‘‘ یا پھر وہ بیان کہ ’’گٹر میں پیدا ہونے والی گیس سے چاۓ بنائی جا سکتی ہے۔‘‘ اِس قسم کے بیانات ملک کے ہونہار سائنس دانوں کی توہین ہیں۔ اُن کی قابلیت کا مزاق اڑانے جیسا ہے۔ کسی بھی ملک کا وزیراعظم جب اظہار خیال کرتا ہے تو ایک ایک لفظ سوچ سمجھ کر بولتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اُن کی تقریر، انٹرویو یا بیان پوری دنیا میں پہنچے گا۔ پھر بھی وہ جان بوجھ کر ایسے مضحکہ خیز بیان کیوں دیتے ہیں؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔