خبردار! آیندہ پارلیامنٹ انتخاب تک آر ایس ایس کے نشانے پر پورا ملک رہے گا

صفدر امام قادری

کشمیر میں دہشت گردانہ حملے کے سلسلے سے جو سیاست شروع ہوئی ہے، ابھی اس کی شکل پورے طور پر واضح نہیں ہے مگر اندیشے ایسے ہی ہیں کہ ان حملوں کے پیچھے پاکستان یا دہشت گردانہ تنظیموں کے ساتھ ساتھ ہندستان کی وہ بااقتدار جماعت بھی کسی نہ کسی پہلو سے ملوث ہے۔ آئے دن بھارتیہ جنتا پارٹی کے بیان بہادروں کی غیر منطقی اور اشتعال انگیزی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ دہشت گردی سے مقابلہ کرنے یا اس کے انسداد کے لیے نہیں سوچتے بلکہ کشمیر کے سلگتے سوالوں سے ملک کے گوشے گوشے میں اپنے بکھرتے اور بگڑتے ووٹ بینک کو یکجا کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر بھی ہندستان کی مرکزی حکومت نے ان اموات کو استعمال کرنے کی کوشش کی مگر ابھی تک ایسا محسوس ہورہا ہے کہ اس کا کچھ خاص فائدہ بین الاقوامی سیاست اور ڈپلومیسی میں نہیں حاصل ہورہا ہے۔

نریندر مودی کی حکومت پانچ برس مکمل کرنے والی ہے لیکن تعلیم، معیشت، سماجی انصاف، صنعت کاری اور داخلی یا خارجی حکمتِ عملی میں کچھ اس انداز سے ناکام رہی کہ اس بات کا فیصلہ مشکل ہے کہ اس حکومت نے کون سے چند ایسے کام کیے جن کی وجہ سے اسے دوبارہ منتخب ہوکر آنا چاہیے۔ فہرست سازی میں معلوم یہ ہوگا کہ ملک کا کون سا ایسا کام ہے جہاں یہ حکومت زمین پر اتر کر ہمہ جہت تبدیلیوں کا خوگر رہی۔ سب لوگ یہ مانتے ہیں کہ امت شاہ نے گذشتہ انتخابات کے بعدچناوی جملہ جیسی اصطلاح پیش کرکے بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکمت عملی کو اجاگر کر دیا تھا۔ امت شاہ اردو فارسی داں بھی نہیں ہیں لیکن جملہ بازی کی ترکیب کو اس کے پورے تناظر میں سمجھتے تھے، اسی لیے یہ بات یہ بات کہہ گئے تھے کہ انتخابات میں بولے گئے لفظ اور کیے گئے وعدے مختلف ہوتے ہیں اور جب عوام کو بے وقوف بناکر ووٹ حاصل کرکے حکومت بنالینے کے بعد ان وعدوں سے مُکر جانا ہی اصل سیاست ہے۔ امت شاہ نے یہ بات انتخابات کے دوران پیش کیے گئے اعداد و شمار کے جھوٹے ہونے کی صفائی میں کہی تھی مگر کمال یہ ہے کہ نریندر مودی کی سرکار گذشتہ پانچ برسوں میں انھی جملہ بازیوں کے سہارے سرگرمِ اقتدار رہی۔ حکومت کے ہر فرد کو یہ معلوم ہے کہ جس موقعے سے آپ سرگرمِ تقریرہیں، آپ کو اس وقت سب سے بہتر اور موزوں سبز باغ دکھانا چاہیے۔ اس بات سے قطع نظر کہ وہ کام آپ کو کرنا چاہیے یا نہیں، یہ بھی کہ وہ کام آپ کر سکتے ہیں یا نہیں ؛ ان سب سے بے پروا ہوکر صرف لفظوں کے ڈھول پیٹتے رہنا ہے۔ جب کوئی سرکار ایسے ماحول میں پانچ برس کاٹ دے تو اب نئے سرے سے حکومت سازی میں اسے آخر کیسے خود کو قائم رکھنا چاہیے؟ سیدھا سا جواب ہے کہ وہ طرح طرح کے تنازعات پیدا کرے، جذباتیت کی بنیاد پر قوم کے سامنے پھر سے کچھ نئے وعدے کرے اور سماجی منافرت پھیلا کر ایک ایسی صورت حال قائم کرے جس کے نتیجے میں اسے کسی بھی طرح ووٹ حاصل ہوجائے اور پھر ایک بار پانچ سال کے لیے حکومت کی زمام ہاتھ میں آجائے۔

آرایس ایس ہیڈکوارٹر میں فرقہ پرستی کے لیے قومی سطح پر بلو پرنٹ تیار رکھا جاتا ہے۔ وہ زمانہ جب اقتدار میں بھارتیہ جنتا پارٹی کہیں نہیں تھی، اس وقت بھی چھوٹے موٹے فرقہ پرستانہ کاموں کا کریڈٹ لینے کے لیے آرایس ایس آگے رہتا تھا۔ لیکن اس کے نام نہادوقار میں اضافے کے بعد اور نئے نئے ہندووادی اداروں اور تنظیموں کے ابھرنے کے ساتھ اس کی حکمتِ عملی بدلی اور ہر گروپ کے ممتاز لوگوں کو بلانے، تبادلۂ خیالات کرنے او ربالآخر کچھ خفیہ ٹاسک دینے جیسے کام اس نے جاری رکھے۔ کشمیر کے حالات ایماندارانہ طور پر نہ نہرو نے سلجھائے اور نہ وشوناتھ پرتاپ سنگھ نے۔ اٹل بہاری واجپئی اور پھر نریندر مودی کی دلچسپی اس سلسلے سے کیوں کر ہو اور اگر ہے تو بالکل منفی انداز کی ہوسکتی ہے۔ پنجاب کے دہشت گردوں سے مقابلہ کرکے کانگریس نے اچھی خاصی مدت تک ملک میں نفرت کی سیاست کی تھی۔ کشمیر وہ جادوئی خطہ ہے جہاں سے فرقہ پرستی کی سیاست کا نیا طور قائم کیا جاسکتا ہے۔ ملک کی سالمیت، ملک سے وفاداری اور ملک پر قربانی جیسے جذباتی سوال ہمیشہ اس انداز سے اٹھائے جاتے ہیں جیسے ہندستان میں صرف ہندو مذہب کے ماننے والے ہی لوگ وطن پرست ہوسکتے ہیں۔ کشمیر کو موضوعِ بحث رکھنے سے یہ بھی فائدہ ہے کہ ہمیشہ ہر مورچے پر پاکستان کو سازش میں ملوث، خطاکار اور مجرم قرار دیا جاسکتا ہے۔ ہر کام کے لیے جرم پاکستان کے حصے آتا ہے۔ بعض دانشوران مذاق میں یہ پوچھتے ہیں کہ یہ ملک کیا پاکستان تو نہیں چلا رہا؟ ہندستان جیسے بڑے ملک میں پاکستان جیسا یاک چھوٹا اور کم طاقت ور ملک اگر انتشار پھیلا رہا ہے تو اس کا جواب دہ آخر کون ہوگا؟ ہندستانی حکومت کو اپنی سیکورٹی کی کوئی فکر ہے یا نہیں ؟ معاملہ یہ ہے کہ اس بات کا تعلق سیکوریٹی سے نہیں بلکہ خارجہ پالیسی سے ہے اور پاکستان کی مذمت کرنے سے ہندستان کی حکومت کی عمومی ناکامیاں ختم ہوجاتی ہیں اور ملک میں نفرت کا ماحول پیدا ہونے لگتا ہے جس سے انتخابات میں آسانیاں پیدا ہوتی ہیں۔

ہمیں یہ یاد ہونا چاہیے کہ اس حکومت نے آرایس ایس ہیڈ کوارٹر سے رام مادھو کو سرگرم سیاست میں واپس بلایا اور خاص طور سے کشمیر معاملات کی وزارت انھیں سونپی گئی۔ ایک زمانے میں وشوناتھ پرتاپ سنگھ نے جارج فرنانڈیس کو یہ ذمہ داری دی تھی اور ۱۹۹۰ء کے زمانے میں انھوں نے کشمیر کے ہر حلقے کے لوگوں سے براہِ راست بالواسطہ طریقے سے گفت و شنید کے ماحول کو قائم کرنے کی کوشش کی تھی۔ رام مادھو نے کشمیر میں جیسے ہی بھارتیہ جنتا پارٹی کی محاذی حکومت قائم کی تھی، اسی وقت سے ایہ اندیشے سر اٹھانے لگے تھے کہ گھاٹی میں اب مزید بگاڑ پیدا ہوگا۔ جس موقعے سے حکومت کا زوال ہوا، اور نئے سرے سے سیاسی پیش رفت کو کچلنے کی جوکوششیں ہوئیں، وہیں سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ بھارتیہ جنتا پارٹی اب کشمیر کو اپنی مٹھی میں رکھ کر قومی اور بین الاقوامی سیاست کی نئی بساط بچھا رہی ہے۔

نتیجہ سامنے ہے کہ سیکوریٹی کی سطح پر وہاں بھول ہو رہی ہے جہاں ایسی کوئی گنجایش ہی نہیں ہے۔ مخالفین یہ بات دبے لفظوں میں کہہ رہے ہیں کہ ایسے حملے سوچ سمجھ کر ہوئے ہیں اور کہیں نہ کہیں اس میں حکومت بھی شامل ہے۔ یہ قبول کرنے میں ہمیں تردد ہے کہ اپنی فوج کے جوانوں کو اس طرح کوئی حکومت بے دریغ نہیں لٹا سکتی مگر ہماری غلطی کی بنیاد پر ہی ایسا واقعہ سامنے آیا تھا۔ یہ بات بھی چہ می گوئیوں میں ہے کہ اس واقعے کے بعد سیاسی طور پر کسے فائدہ ملا یا کون فائدہ لے رہا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی پہ متعدد طرح کے حملے وقتی طور پر رک گئے۔ مرکزی حکومت اپوزیشن کے وار کو جھیلنے میں بیک فٹ پر چلی گئی تھی، اب وہ دہاڑ رہی ہے۔ حکومت کی ناکامیوں کے موضوعات د ب گئے اور نام نہاد دلیری یا چھپن انچ سینے کی دھڑکنیں سنائی دے رہی ہیں۔ بات صاف ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے اس واقعے کا سیاسی فائدہ جس قدر بھی اٹھا سکتی تھی، اس نے اٹھالیا۔

رام مندر بننا اور نہیں بننا بھی اس دوران پھر سے موضوعِ بحث ہوگا۔ تین طلاق کے بارے میں بھی آنے والے دو مہینوں میں گل افشانیِ گفتار قائم ہوگی۔ دلت، پچھڑوں، اقلیتوں اور عورتوں کے حقوق کی پامالی کے لیے مزید منصوبے بنیں گے اور غربت کے مارے لوگ کو پسپا کرنے کی کچھ اور اسکیمیں سامنے آئیں گی۔ اطلاعات تو ایسی ہیں کہ گائوں گائوں میں فرقہ پرستانہ ایجنڈوں پر ٹولیاں بنیں گی اور مقامی سوالوں کی بنیاد پر آپس میں جنگ و جدال کا ماحول بنانے کی کوشش ہوگی۔ کم از کم پچاس پارلیامنٹ حلقوں کو اس کام کے لیے آگ میں جھونکا جائے گا۔ کشمیر سے نفرت کا ایجنڈا لوگوں کے دماغوں میں پہنچ چکا ہے، اب اس کا استعمال کیا جانا ہے۔ اپوزیشن ہر چند کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی کمزوریوں اور ناکامیوں کی وجہ سے کچھ آگے بڑھتی نظر آرہی ہے مگر یہ کہنا مشکل ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی نفرت کے رتھ کو وہ آسانی سے روک پائے گی۔ عوام کو ایسے مرحلے میں ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور انسانیت اور ضمیر کی آواز کو سمجھتے ہوئے اپنے فیصلے لینے چاہیے۔ اپریل اور مئی میں پارلیامنٹ کے انتخابات میں عوام کو غلط کو راندۂ درگاہ کرنا چاہیے اور نئی حکومت کی بنیاد ڈالنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔