خدمت خلق اور ہم…

 مدثر احمد، شیموگہ
سال رواں کرناٹک سمیت ملک کے مختلف مقامات پر گرمی کی شدت عروج پر ہے اور گرمی کی وجہ سے نہ صرف ریاست میں خشک سالی سے لوگ پریشان ہیں بلکہ قحط سالی سے ہزاروں لوگ پینے کے پانی کیلئے بھی ترس رہے ہیں۔ ریاست کے مختلف مقامات پر پینے کے پانی کے لئے بھی لوگ ترس رہے ہیں۔ حالت اس قدر بدتر ہوگئی ہے کہ پینے کے پانی کی قلت سے جانیں تک جانے لگی ہیں، جانور تو جانور انسان بھی بوند بوند کے محتاج ہوگئے ہیں۔ ہم اور آپ جن علاقوں میں مقیم ہیں وہاں اتنی پریشانیاں نہیں ہیں اور نہ ہی ہمیں قحط سالی اور خشک سالی کا اندازہ ہے۔ ان قدرتی آفات کا اندیشہ صرف انہیں لوگوں کو ہوگا جو جھیل رہے ہیں لیکن ہم انسان ہونے کے ناطے ایسے متاثرین کی مدد کے لئے آگے آنے کی بات تو دور اس سلسلے میں جاننا تک نہیں چاہتے، ایسے میں ہماری انسانیت پر ہی سوال اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ فسادات میں مرنے والے اور زخمی ہونے والے ہی مظلوم نہیں بلکہ قدرتی آفات سے متاثر ہونے والے بھی مظلوم ہیں اور ان کی مدد کرنا ہمارا مذہبی اور انسانی فریضہ ہے۔ یوں تو ہمارے پاس ملی و سماجی خدمات کے لئے سینکڑوں تنظیمیں ہیں اور ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم خدمت خلق کاکام انجام دے رہے ہیں لیکن ہماری خدمات محدود ہو گئی ہیں۔ کوئی بچوں کی ختنہ کرانے کا کام کر رہا ہے تو کوئی غریبوں کی شادیاں کروارہا ہے۔ کسی کو چھوٹے موٹے امدادی کارروائیوں انجام دے کر فوٹو سیشن کروانے کا شوق چڑھا ہے تو کسی کو اخباری بیانات دینے کا بھوت سوار ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے مذہب اسلام نے ہمیں اسی بات کا درس دیا ہے کہ ہم اپنی خوشیوں میں مگن رہیں اور ہمارا پڑوسی بھوکا پیاسا رہے۔ اسلام نے سختی سے خدمت خلق کاکام انجام دینے کی ہدایت دی ہے ایسے میں ہم ہمارے پڑوسی علاقوں میں پیاس بجھانے کے لئے بھی مدد کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ جہاں تک ہمارے علم کی بات ہے فی الوقت ریاست میں سوائے جماعت اسلامی ہند کے شعبہ خدمت خلق کے علاوہ کسی بھی تنظیم یا ادارے کی جانب سے پانی کے قحط زدہ علاقوں میں امدادی کارروائی کرنے کا بیڑہ نہیں اٹھایا ہے اور نہ ہی انکا بڑے پیمانے پر ساتھ دیا جارہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس تنظیم کی طرف سے ہر دن ایک ہزار ٹینکروں سے پانی کی سپلائی کی جارہی ہے جس پر فی ٹینکر ایک ہزار روپے کا خرچ آرہا ہے۔ بلاری،باگلکوٹ، رائچور ،بیجاپور،بیدر، گلبرگہ،دھارواڑ،جیسے اضلاع میں پینے کا پانی حکومت کی جانب سے ہفتے میں ایک دفعہ فراہم کیا جا رہا اسکے ساتھ ساتھ کئی علاقوں میں مستقل حل کے لئے بورویل کھدوائے جارہے ہیں۔ یہ جو کام کیا جارہا ہے وہ واقعی میں بہت بڑا کام ہے اور وقت کے لحاظ سے ہونا بھی چاہئے۔ مانا کہ اس خدمت سے استفادہ کرنے والوں کی بڑی تعداد غیر مسلمین کی ہے لیکن اسلام نے خدمت خلق کا حکم دیا ہے نہ کہ صرف خدمت مسلمین کو محدود کیا ہے۔ ہم نے دین اسلام کی اشاعت اور تبلیغ کا طریقہ بھی بدل دیا ہے ہم اپنے مذہب کا پیغام اس طرح کی خدمت کو انجام دے کر بھی دوسروں تک پہنچا سکتے ہیں اور یہی طریقۂ کار وقت کی ضرورت ہے۔ موجودہ سنگین حالات میں ہم خود ان مقامات پر جاکر خلق کی خدمت نہیں کرسکتے ہیں تو کوئی بات نہیں لیکن جو لوگ خدمت کررہے ہیں انکا تعاون کرنے کے لئے ضرور آگے آئیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔