خندہ زن کفر ہے احساس تجھے ہے کہ نہیں

محمدجمیل اختر جلیلی ندوی

یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ ’امتِ واحدہ‘ کا خطاب پانے والی امت ’امتِ متفرقہ‘ بن چکی ہے، کسی بھی محلہ اور گاؤں میں چلے جائیے، غیرمسلم اپنے تمام تراختلافات کے باوجود قدم سے قدم ملاکر چلتے نظرآئیں گے؛ لیکن امتِ مسلمہ دوچارگروہوں میں ضرورنظرآئے گی۔

مسلک ومشرب کے اختلافات سے صرفِ نظر، ذاتی پرخاش اور رنجشیں اس حد تک پہنچ جاتی ہیں کہ بھائی بھائی کے خون پیاسا ہوجاتا ہے، رشتہ داریاں آپسی چپقلشوں کی نذر ہوجاتی ہیں، نہ دکھ میں کوئی ساتھ دینے والا ہوتا ہے، نہ سکھ میں کوئی شریک ہونے والا، نہ غم کے موقع سے کوئی تسلی آمیز کلمات کہنے والاہوتا ہے، نہ خوشی کے موقع پر محفلِ طرب سجانے والا، یہ ہے اس امت کا حال، جس کے نبی  ﷺ نے فرمایا: مونین کی مثال آپسی محبت، نرمی اوررحمدلی میں ایک جسم کی طرح ہے، جب اس کا کوئی عضو بیمار ہوتا ہے تو سارے اعضاء اس سے متاثر ہوتے ہیں (مسلم، کتاب الأدب، حدیث نمبر: ۶۵۸۵)

آپسی لڑائیوں، جھگڑے اورفسادات کے لحاظ سے تاریخ کا تاریک ترین دور بعثت ِ نبوی سے پہلے (عربوں )کے دور کوکہاجاتا ہے، معمولی معمولی باتوں پر ایسی شدید لڑائی جھڑجاتی تھی کہ اس کا اختتام بیس بیس اور چالیس چالیس سالوں کے بعد ہوتاتھا، لڑائیوں کے چکر میں بوڑھے پھوس، بچے جوان اور جوان ادھیڑعمر کے ہوجاتے تھے، گویا متاع ِ حیات کی ساری توانائیاں، ساری طاقتیں اور ساری قوتیں جھوٹی غیرتوں اور قبائلی عصبیتوں کے بھینٹ چڑھادی جاتی تھیں، قرآن مجید نے کتنی سچی تصویر کشی کی ہے:

اور اسی(اللہ) نے ان کے قلوب میں اتفاق پیدا کردیا، اگر آپ دنیا بھر کا مال خرچ ڈالتے، جب بھی ان کے قلوب میں اتفاق نہ پیداکرسکتے تھے؛ لیکن اللہ نے ان میں اتفاق پیداکردیا، بے شک وہ بڑا قدرت والا،بڑاحکمت والا ہے،(انفال: ۶۳)

لیکن بعثت ِنبوی کے بعد اُسی معاشرہ کا اِس طرح کایاپلٹ ہوا کہ دنیا کی نگاہیں حیرت سے کھلی کی کھلی رہ گئیں، برسہا برس سے جو ایک دوسرے کی جان کے پیاسے تھے، وہ اس طرح شِیروشکر ہوگئے کہ دیکھنے والا کہہ ہی نہیں سکتاتھا کہ یہ کبھی ایک دوسرے کی جان کے درپے رہے ہوں گے، قرآن مجیدنے اسی کی طرف اشارہ کیا ہے:

اور اللہ کا یہ انعام اپنے اوپر یاد رکھوکہ جب تم(باہم) دشمن تھے تواس نے تمہارے قلوب میں الفت ڈال دی، سو تم اس کے انعام سے(آپس میں ) بھائی بھائی بن گئے،(اٰل ِعمران: ۱۰۳)

نبوت ملنے کے بعد؛ بل کہ نبوت ملنے کے پہلے سے ہی آپ نے اتحاد واتفاق کی تعلیم دینا شروع کردیا تھا، چنانچہ جب کعبۂ مقدسہ کو سیلاب کی وجہ سے دوبارہ تعمیر کرنے کی نوبت آئی اور حجر ِاسود رکھنے کے وقت اہالیانِ مکہ باہم جھگڑ پڑے، قریب تھا کہ تلواریں میانوں سے نکل آتیں، ایک بوڑھے شخص کے اس فیصلہ پر سب راضی ہوگئے کہ جوکل صبح سب سے پہلے کعبہ میں داخل ہوگا، اس کا فیصلہ ہمیں منظور ہوگا، لوگوں نے دیکھاکہ ان کے محلہ کے ’صادق وامین‘ کے لقب سے پکاراجانے والانوجوان صبح کی پہلی کرن کے ساتھ کعبہ میں داخل ہواجارہاہے، آپ نے ایک چادرمنگوائی اور اپنے دست ِمبارک سے اس پر حجرِاسود کورکھ دیا،پھر تمام قبیلوں کے سردار سے اس چادر کو حجرِاسود رکھنے کی جگہ لے جانے کے لئے کہا، وہاں اپنے دستِ مبارک سے پتھر اس کی جگہ پر رکھ دی اور اس طرح شعلۂ جوالہ بن جانے والی چیزکو سردادیا، اس واقعہ کے بین السطور میں یہ بات پوشیدہ ہے کہ دیکھو ! تمہاری کامیابی اتحاد ہی میں چھپاہواہے۔

   آفتاب ِاسلام کے طلوع ہونے سے پہلے اوس اور خزرج کے درمیان دشمنی رہاکرتی تھی، جب نبی اکرم  ﷺ ہجرت فرماکر مدینہ تشریف لائے تو یہ چیز جاتی رہی اور اللہ تعالیٰ نے ان کے مابین الفت ومودت قائم کردی، ایک دن دونوں قبیلہ کے لوگ ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اوس کے ایک شخص نے ایک مصرعہ پڑھا، جس میں خزرج کی برائی تھی، خزرج کے ایک فرد نے بھی ایک مصرعہ پڑھا، جس میں اوس کی برائی تھی، یہ سلسلہ چلتا رہا، یہاں تک کہ دونوں قبیلہ کے لوگ ایک دوسرے پر جھپٹ پڑے اور ہتھیار سے لیس ہوکر ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوگئے، جب اس کی خبر آپ  ﷺ کو ہوئی توتیزی کے ساتھ ان کے پاس آئے اور قرآن کی ایک آیت پڑھی: ائے ایمان والو! اللہ سے اس طرح ڈرو جس طرح کے اس سے ڈرنے کاحق ہے، اورتمہاری موت مسلمان ہو نے کی حالت ہی میں ہو(اٰلِ عمران:۱۰۲)، لوگوں نے اپنی تلواریں پھینک دیں اور روتے ہوئے ایک دوسرے سے چمٹ پڑے،(معجم صغیر، طبرانی:۶۰۲)

 آپ  ﷺ کی انتھک کوششوں کے نتیجہ میں عربوں کی قومی اور قبائلی جنگیں ہمیشہ ہمیش کے لئے ختم ہوگئیں اور آپس میں سب یک جان دو قالب کے مثل ہوگئے، اللہ تبارک وتعالیٰ نے مؤنین کے لئے اسی اتحاد کو پسند کیا ہے اور متحد نہ رہنے کی صورت میں نتیجہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے:

اللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھامے رکھو اور افتراق وانتشار مت پیداکرو(اٰلِ عمران: ۱۰۳) آپس میں مت تنازع پیداکرو، ورنہ تم بزدل ہوجاؤگے اور تمہاری ہوا نکل جائے گی(انفال: ۴۶)

اللہ تعالیٰ کے یہ ارشادات کتنے سچے ہیں، خریطۂ عالم پر ایک نظر دوڑاجایئے، دنیا کے اس کونہ سے لے کر اُس کونہ تک بسنے والے مسلمانوں کی حالتِ زار کو دیکھئے، جوروجفا کی بجلیاں انھیں پر گر رہی ہیں، ظلم وستم کے پہاڑ انھیں پر ٹوٹ رہے ہیں، میزائلوں اور بموں کی برسات انھیں پر ہورہی ہے، سب وشتم کے تیر انھیں پر پھینکے جارہے ہیں، دہشت پسندی کا تمغہ انھیں ہی دیا جارہاہے، امن ِ عالم کے لئے خطرہ انھیں کو بتایاجارہاہے، اخلاقی انارکی کا ذمہ دار انھیں ہی ٹھہرایاجارہاہے، غرض دنیا کی پوری بحرانی کیفیت کا ذمہ دار انھیں کو گرداناجارہاہے؛ لیکن کیوں ؟ صرف اس لئے کہ ان الزامات لگانے والوں کو معلوم ہے کہ مسلمان آپسی ناچاقی کے شکار ہیں، ایک دوسرے کے حق میں آواز بلند کرہی نہیں سکتے، اس لئے یکے بعد دیگرے ایک ایک پر الزام دھرتے جاؤ اور ’نشانۂ ستم‘ بناتے جاؤ، ان کو معلوم ہے کہ مسلمان اتنے بزدل ہوچکے ہیں کہ اپنی بہنوں اور بیٹیوں کی لُٹتی ہوئی عصمت پر چار آنسو توبہاسکتے ہیں ؛ لیکن گریبان پکڑ کر اُن عصمت لوٹنے والوں کے منھ پر طمانچہ رسیدنہیں کرسکتے، عزت کی چِتا میں اگر آگ لگادی جائے تودور ٹھہر کر کفِ افسوس تو مل سکتے ہیں ؛ لیکن اس آگ کو بجھانے کے لئے کوئی کوشش نہیں کر سکتے، گھروں میں اگر ڈاکہ ڈال دیا جائے توشوروغوغا تو مچاسکتے ہیں ؛ لیکن ڈاکوؤں کا مقابلہ نہیں کرسکتے، انکاؤنٹر کے نام پرسیکڑوں کو ہلاک کردیا جائے تودو منٹ کی خاموشی تومناسکتے ہیں ؛ لیکن خون ِناحق کے لئے انصاف کی آواز بلند نہیں کرسکتے، اگر کسی کونہ سے آواز آبھی جائے تو اتنی آہستہ کہ بازو میں بیٹھنے والابھی مشکل سے سن سکے۔

افسوس ! آج ہمارا معاشرہ پھرجاہلیت کے تاریک دور کی طرف لوٹ چکاہے، بھائی بھائی کا دشمن، باپ بیٹے میں تفریق اورچچا بھتیجہ میں چپقلش ہے، انتہا تو یہ ہے کہ جہاں سے اتحاد واتفاق کا درس دیا جاتاہے، وہاں کے درس دینے والے خود ایک دوسرے کے خلاف صف آرا نظرآتے ہیں، ملی ادارے بھی اس دوڑ میں شامل ہوچکے ہیں، جلسے جلوس اور عوامی اسٹیج پراتحاد واتفاق کے نعرے لگانے والوں کے گھر خودٹوٹ پھوٹ کے شکار ہیں، نتیجہ ڈھول کے اندر پول ہے، جب خود رہبرانِ قوم اور رہنمایان ِملت خلفشار کے شکار ہیں، کہیں مدرسہ کے ٹکرے ہورہے ہیں اور کہیں اداروں کے بخرے، تو عوام بیچارے کالأنعام ہیں، جس سمت سردار کو جاتے دیکھیں گے، اسی ڈگر پر چلیں گے۔

امت ِ مسلمہ کو آج پھر اسی وحدت کی ضرورت ہے، جس نے اپنے وقت کی سپر پاورطاقتوں روم وایران کو لرزہ بد اندام کردیا تھا، جس وحدت نے حضرت امیر معاویہ ؓ سے اس وقت یہ جملے کہلوائے تھے، جب حضرت علی ؓ کے ساتھ ان کا مشاجرہ چل رہاتھا، اور اس مشاجرہ کو دیکھ کر رومی سالار نے لالچ دے کر اپنے سے مل جانے کے لئے کہاتھا، حضرت امیر معاویہؓ نے جواب میں کہا: اورومی مردود! اگر تم نے علی ؓ کے لشکر کی طرف آنکھ بھی اُٹھاکر دیکھاتو سن لو! ان کے لشکر کے ایک ادنیٰ سپاہی کی حیثیت سے پہلی صف میں پاؤگے،کاش! قوم کے رہبروں اور ملت کے رہنماؤں کو اس کا احساس ہوتا۔

خند ہ زن کفر ہے احساس تجھے کہ نہیں

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    تمام تعریفیں اس ذات بے ہمتا سے مخصوص ہیں جو کریم ہے اور رحیم ۔جس نے اپنے حبیب محمد کو مصطفیٰ بنا کر مبعوث بہ ر سالت فرمایا اور ان کے دین کو "ان الدین عند اللہ الاسلام”کی بے نظیر سند سے نوازا ۔

    یہ سند شرف ،فضیلت، کرامت،عزت ،اخوت اور وحدت کی سند ہے ،جس کے زیر سایہ آکر فرزندان توحید سر فرازی کے ساتھ یہ نعرہ بلند کرتے ہیں کہ "ہم مسلمان ہیں "۔یہ نعرہ وہ قرآنی نعرہ ہے جس کی تعلیم خود خدائے منان نے مسلمانوں کو دی ہے "وانّ ھذہ امتکم امةًواحدة وانا ربّکم فاتقون”یہ شعار وہی قرآنی شعار ہے جس کی آغوش عطوفت میں مسلمانوں کی اخوت پروان چڑھی ہے” انما المؤمنون اخوة”۔

    اگر مسلمانان عالم کے درمیان شمع اخوت و وحدت فروزاں رہے گی، تو یقیناان کے اردگرد پروانہ عزت وکرامت کا طواف ہوگا اور اگر ان کی مختصر سی غفلت کی وجہ سے یہ شمع وحدت بجھی، تو پروانۂ عزت بیگانہ چراغ کی طرف رخ کرلے گا ۔ اسی وجہ سے قرآن مجید نے مسلمانوں کو صدر اسلام میں ہی ہوشیار کر دیا کہ "یا ایھاالذین آمنوا اتقوا اللہ حق تقاتہ ولا تموتنّ الاّوانتم مسلمون واعتصموا بحبل اللہ جمیعاًولا تفرقوا”۔

    (اے ایمان والو !خدا کا ایسا تقویٰ اختیار کرو جو اس کے تقوے کا حق ہے اور موت کو گلے نہ لگاؤ مگر یہ کہ حالت اسلام میں اور خدا کی رسّی کو تھام لو اور تفرقہ نہ کرو)

    خدائے واحد، قرآن مجید میں مسلمانوں کی وحدت کے علل واسباب کو اپنی طرف منسوب کر رہا ہے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات سے آگاہ کررہاہے کہ اے رسول!

    اگر صرف اور صرف آپ یہ چاہتےہیں کہ ان لوگوں کے قلوب میں بذر اتحاد بو دیں، تو تمام وسائل و اسباب اور دولت و ثروت کے باوجود بھی یہ کام آپ کے بس میں نہ تھا
    "والّف بین قلوبھم لو انفقت ما فی الارض جمیعاًما الفت بین قلوبھم ولکن اللہ الّف بینھم انّہ عزیز حکیم”

    (اور ان کے دلوں میں محبت پیدا کر دی ہے کہ اگر آپ ساری دنیا خرچ کر دیتے تو بھی ان کے دلوں میں باہمی الفت پیدا نہیں کر سکتے تھے لیکن خدا نے یہ الفت اور محبت پیدا کر دی ہے کہ وہ ہر شئی پر غالب اور صاحب حکمت ہے)۔

    اسی وجہ سے پیغمبر اسلام نے خداوند عالم کے لطف و کرم کے نتیجہ میں مسلمانوں کے درمیان عقد اخوت پڑھا اور امت مسلمہ کے ما بین ایک الہی رابطہ قائم کر دیا ۔ مسلمان بھی اس گرانقدر رابطہ میں خود کو گرہ لگا کر توحید ،نبوت ،قرآن اور کعبہ کے مشترک عقیدہ پر گامزن ہو گئے، جس کی وجہ سے ان کی وحدت شہرہ آفاق بن گئی اور ان کی ہیبت سے مرکز کفر کانپ اٹھا۔

    قرآن میں اتحاد کی قسمیں

    قرآن مجید نے اتحاد کو چند قسموں میں تقسیم کیا ہے:

    ۱۔امت کا اتحاد: "انّ ھذہ امتکم امة واحدة وانا ربکم فاعبدون,,

    (بے شک یہ تمھارادین ایک ہی دین اسلام ہے اور میں تم سب کا پروردگار ہوں لھذا میری ہی عبادت کیا کرو)۔

    ۲۔آسمانی ادیان کے پیرو کاروں کا اتحاد:” قل یا اھل الکتاب تعالوا لیٰ کلمة سواء بیننا و بینکم الاّنعبد الاّ اللہ ولا نشرک بہ شیئاً”

    (اے پیغمبر! آپ کھہ دیں کہ اہل کتاب ایک منصفانہ کلمہ پر اتفاق کر لیں کہ خدا کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ بنائیں)۔

    ۳۔ تمام ادیان کا اتحاد:”شرع لکم من الدین ما وصیٰ بہ نوحاً والذی اوحینا الیک وما وصینا بہ ابراھیم وموسیٰ وعیسیٰ ان اقیموا الدین ولاتتفرقوافیہ”

    (اس نے تمہارے لئے دین میں وہ راستہ مقرر کیا ہے جس کی نصیحت نوح کو کی ہے اور جس کی وحی اے پیغمبر تمھاری طرف بھی کی ہے اور جس کی نصیحت ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ کو بھی کی ہے کہ دین کو قائم کرو اور تفرقہ نہ کرو)۔

    ۴۔ تمام انسانوں کا اتحاد:”یا ایھا الناس انا خلقناکم من ذکر و انثیٰ وجعلنا کم شعوباًو قبائل لتعارفوا”

    (اے انسانو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور پھر تم میں شاخیں اور قبیلے قرار دئے ہیں تاکہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچان سکو)۔

    ان آیات کے پیش نظر ہمیں یہ یقین کرنا ہو گا کہ سب سے پھلے مرحلہ میں اتحاد بین المسلمین کا فریضہ ہر مسلمان پر واجب ہے یعنی اتحاد اسی وقت مکمل طور پر نمایاں ہو گا جب امت اسلامیہ کا ایک ایک فرد اس فریضۂ مفروضہ پر عمل پیرا ہو۔ اس لئے کہ اتحاد بین المسلمین کا فریضہ واجب کفایہ نہیں ہے جو کسی ایک خاص فرد یاگروہ کے عمل کرنے کے ذریعہ ادا ہو جائے یا دوسروں کی گردن سے اس کا وجوب ساقط ہو جائے، بلکہ اتحاد ایک ایسی حقیقت واحدہ ہے جس کے وجوب کے گھیرے میں ہر ایک فرزند توحید شامل ہے۔

    اسلامی اتحاد اس عمارت کی مانند ہے جس کی ایک ایک اینٹ اس کے قیام اور ثبات میں حصہ دار ہے اور ہر مخالف اتحاد قول و عمل ،اسلامی بنائے اتحاد سے ایک اینٹ کو نابود کرنے کے مساوی ہے جس کی تکرار اس خوب صورت عمارت کو کسی پرانے کھنڈر میں تبدیل کرکے اسے تاریخ کے کسی سسکتے ہوئے گوشے کا نام دے سکتی ہے ۔

تبصرے بند ہیں۔