خواتین اور زیارتِ قبور (حاجی علی درگاہ کے تناظر میں)

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

ممبئی میں سیر و سیاحت کے مقامات اور زیارت گاہوں میں سے ایک حاجی علی کی درگاہ ہے۔ ساحلِ سمندر سے کچھ دور سمندر کے اندر ایک جزیرہ سا بنا ہوا ہے۔ وہاں چند عمارتیں ہیں، جن میں سے ایک درگاہ ہے، چھوٹے موٹے پارک ہیں، کنارے چٹانیں ہیں۔ سمندر کی موجیں آآ کر ٹکراتی ہیں تو بہت خوب صورت منظر ہوتا ہے۔ سڑک سے درگاہ تک سمندر میں پتلی سی سڑک بنادی گئی ہے۔ کبھی اس پر بھی سمندر کا پانی آجاتا ہے۔ مجھے دو بار درگاہ کی زیارت کا موقع ملا ہے۔
درگاہ حاجی علی کے آس پاس گھومنے کے لیے تو عورتیں، مرد، مسلم، غیر مسلم سب جاتے ہیں، لیکن درگاہ کے اندر عورتوں کو داخل ہونے کی اجازت نہ تھی۔ کچھ عرصہ قبل آزاد خیال مسلم عورتوں نے اسے ایشو بنایا۔ انھوں نے اسے مردوں اور عورتوں کے درمیان تفریق کا مظہر قرار دیا اور مطالبہ کیا کہ عورتوں کو بھی مردوں کے مثل درگاہ کے اندر تک رسائی دی جائے۔ مہاراشٹر ہائی کورٹ میں کیس دائر کیا گیا۔ کل اس سلسلے میں ہائی کورٹ کا فیصلہ آگیا ہے اور اس نے عورتوں کو بھی درگاہ کے اندر تک جانے کی اجازت دے دی ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ دور میں ہند و پاک کی درگاہیں شرک و بدعات کے اڈّے ہیں۔ جو کچھ وہاں ہوتا ہے اس میں اور ہندوؤں کی بت پرستی میں ذرا بھی فرق نہیں ہے۔ اس لیے میری تو خواہش ہے کہ کاش وہاں عورتوں ہی نہیں، مردوں کے داخلے پر بھی پابندی ہوجاتی۔
اس وقت اس سے متعلق ایک دوسرا موضوع قابلِ توجہ ہے۔ وہ یہ کہ کیا مسلمان عورت کے لیے قبرستان جانے اور زیارتِ قبور کی اجازت ہے۔ مذکورہ کیس کی تفصیلات اخبارات میں آئیں تو بعض علماء کی طرف سے کہا گیا تھا کہ اسلام نے عورتوں کو قبرستان جانے سے روکا ہے۔ بعض احادیث میں ہے کہ” اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے قبرستان جانے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔ ” (ابوداود: 3236، ترمذی :320)
میرے نزدیک دیگر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قبرستان عورتیں بھی جا سکتی ہیں :
1۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے پہلے زیارتِ قبور سےمنع کیا تھا، بعد میں اجازت دے دی تھی۔ (مسلم :3235)یہ ممانعت اور اجازت عام ہے۔ اس کا اطلاق مردوں پر بھی ہوتا ہے اور عورتوں پر بھی۔
2۔ حدیث میں اس کی حکمت یہ بتائی گئی ہے کہ "اس سے آخرت کی یاد تازہ ہوتی ہے۔ ” (ترمذی :1054)یہ فائدہ مردوں کے لیے بھی مطلوب ہے اور عورتوں کے لیے بھی۔
3۔ حدیث میں صراحت ہے کہ "عورتوں کو جنازہ کے ساتھ جانے سے منع کیا گیا ہے۔ ” (بخاری :1278، مسلم :938) اس کی وجہ یہ ہے کہ عورتیں رقیق القلب ہوتی ہیں، حادثہ تازہ ہونے کی وجہ سے قوی امکان ہوتا ہے کہ جنازہ کے ساتھ ان کا رونا دھونا جاری رہے۔ اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ بعد میں بھی ان کا قبرستان جانا ممنوع ہے۔
4۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھائی حضرت عبد الرحمن رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو وہ موجود نہ تھیں۔ بعد میں وہ ان کی قبر پر گئیں۔ (حاکم، بیہقی، ذہبی)
4۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت کیا :”میں قبرستان جاؤں تو وہاں کیا کہوں؟” آپ ص نے انھیں ایک دعا بتائی۔ (مسلم:2037)
5۔ علامہ قرطبی نے لکھا ہے:”حدیث میں زیارتِ قبور کرنے والی جن عورتوں پر لعنت کی گئی ہے ان سے مراد وہ عورتیں ہیں جو کثرت سے ایسا کرتی ہیں۔ ”
6۔ علامہ ابن تیمیہ نے فقہاء کے حوالے سے لکھا ہے : "جس عورت کو اپنے بارے میں اندیشہ ہو کہ اگر وہ قبرستان جائے گی تو اپنے اوپر قابو نہیں رکھ سکے گی اس کا قبرستان جانا بلا اختلاف ناجائز ہے۔ "(فتاوی ابن تیمیہ :34/356)

تبصرے بند ہیں۔