خوف کی نفسیات سے نکلے بغیر نئی صبح کا سورج طلوع نہیں ہوگا

ملک میں ریاستی اسمبلی اور مہاراشٹر میں مقامی شہری انتظامیہ نیز ہندوستان کا سب سے امیر ممبئی کارپوریشن کا انتخابی ماحول ہے۔ حالیہ سیاست میں زیادہ گرمی اس وقت سے آئی ہے جب سے حیدر آباد کی سرزمین سے نکل کر ہندوستان کے دیگر صوبوں اور شہروں میں کل ہند مجلس اتحاد المسلمین نے اپنے پر پھیلانے شروع کئے ہیں۔  مجلس کی آمد سے جہاں فرقہ پرستوں کی نیندیں حرام ہیں وہیں نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے پائوں کے نیچے سے زمین کھسکتی ہوئی محسوس ہورہی ہے۔ اسی احساس نے انہیں بوکھلاہٹ کا شکار بنادیا ہے۔ اس لئے فرقہ پرستوں سے زیادہ نام نہاد مسلمانوں کی مسیحائی کا دعویٰ کرنے والی سیاسی پارٹیوں کو تکلیف ہے کہ مجلس کیوں انتخابی عمل میں متحرک ہوئی ہے ؟

شاید اس بوکھلاہٹ کی وجہ یہ ہے کہ یہ سیکولر سٹ مسلمانوں کو آر ایس ایس اور بی جے پی کا خوف دکھا کر جس ووٹ بینک کے سہارے اقتدار کے مزت لوٹتے رہے اس میں سیندھ لگنے والا ہے۔ مجلس کے قائد اسد الدین اویسی نے اور پھر اکبر الدین نے بھی اپنے عوامی خطاب میں یہ بات کئی بار دہرائی ہے کہ اگر انہوں نے کام کیا ہوتا تو مجلس کو یہاں آنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ وہ ہر محفل میں ہر جگہ ایک ہی سوال کرتے ہیں کہ تم نے آزادی کے بعد کیا کام کیا ہے ؟حساب دو !لیکن کسی کے پاس کوئی جواب ہی نہیں ہے۔ ممبرا کے ایک این سی پی والے کہہ رہے تھے کہ ان سے اچھی تقریر وہ کرسکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ انہیں روکا کس نے ہے اچھی تقریر کرنے سے۔ ایک بات اور یہ کہ اچھی تقریر سے کچھ نہیں ہوتا اچھے کام سے انسان ہر دلعزیز ہو اکرتا ہے۔ آپ کو ان کے سوالوں کا جواب دینا چاہئے اگر آپ کے پاس ہے تو ورنہ اپنی سیاسی زندگی کی شام کیلئے تیار رہیں۔ ان سے اچھی تقریر اور سیاسی اچھل کود آپ کو نہیں بچاپائیں گے۔مسلمانوں کے نام نہاد قائد اور ان کی مذہبی جماعتوں کا حال ان کے سوچنے اور سمجھنے کی کیفیت دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔

ایک سال قبل آج تک پر ایک پروگرام غالبا ً اس کا نام ’اوپر والا سب دیکھ رہا ہے ‘ہے میں آر ایس ایس بی جے پی والوں کے ساتھ کچھ مسلم ٹیوایائی لیڈر بھی تھے۔ وہاں گفتگو کا موضوع بیف بین تھالیکن ایک مولوی نما شخص کو پتہ نہیں اسدالدین سے کیا دشمنی ہے کہ انہوں نے ان کی شکایت شروع کردی۔ گفتگو اپنے موضوع سے بھٹک کر اسد الدین اویسی پر مرکوز ہو گئی۔ اس میں ایک مسلم تنظیم جس کا آزادی کی جنگ میں بھی کردار رہا ہے اس کے میڈیا کے ذمہ دار بھی تھے وہ بھی ان کی ہاں میں ہاں ملا رہے تھے۔ اس پروگرام میں کوئی میزبان نہیں ہوتا بس مہمان ہی گفتگو کرتے ہیں۔ کافی دیر بعد یا اختتام سے کچھ پہلے اینکر جو کہیں دوسری جگہ اسکرین پر یہ نظارہ دیکھ رہی تھی اس کا ضمیر شاید بیدار ہوا اس نے کہا کہ واہ کیا بات ہے جو شخص یہاں موجود نہیں ہے اس کے خلاف بات ہو رہی ہے۔ اس میں ایک مولوی صاحب کو یہ شکایت تھی کہ میڈیا اسد الدین کو اتنا کوریج کیوں دے رہا ہے۔ ان کے کہنے کا در پردہ مقصد یہ تھا کہ اسد الدین سنگھ اور بی جے پی کے ایجنٹ ہیں۔ مسلم سیاسی لیڈر شپ کو ختم کرنے کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے کہ جب کوئی اس قابل ہونے لگے کہ وہ مسلمانوں کے مسائل کو موثر ڈھنگ سے اٹھائے اور اس کی بات سنی بھی جائے تو اس کی تضحیک کی جائے۔ مسلمانوں کے درمیان اسے بدنام کیا جائے۔ اسے کسی مسلم دشمن پارٹی کا ایجنٹ کہا جائے۔ لیکن اس کے برعکس اگر تھوڑا غور کریں تو یہ جو دو مولوی صاحبان وہاں تھے خودوہی دونوں مسلم لیڈر کی تضحیک کرکے مسلم دشمنوں کے ایجنٹ ہونے کی وضح دلیل پیش کررہے تھے۔

ممبئی کے غیر مسلم علاقے تو کچھ حد تک ترقی کی دوڑ میں شامل نظر آتے ہیں۔ ان کی نئی نئی کالونیاں قائم ہو گئیں لیکن مسلمانوں کو اسی پرانی آبادی میں رہنے کیلئے مجبور کردیا گیا ہے جہاں بنیادی سہولیات تک مہیا نہیں ہیں۔ جہاں گٹروں کی حالت یہ ہے کہ اس کا پانی باہر بہتا ہے۔ پانی کی سپلائی ٹھیک نہیں ہے۔ اسکول اور ابتدائی صحت کے مراکز نہیں ہیں۔ سیکولرسٹوں کے غیروں سے شکوہ نہیں شکوہ تو ان پارٹیوں کے اپنے لیڈروں سے ہے جنہوں نے مسلم ایشو پر خوب جوش دکھایا گرما گرم تقریرں کیں لیکن ان مسائل کو حل کرنے میں وہ ناکام رہے۔

مسلم محلوں کے بنیادی مسائل میں صفائی، پانی، بجلی، تعلیم اور صحت اہم ہیں۔  اگر انہوں نے دھیان دیا ہوتا تو آج قوم کے بچوں کو غیروں کے اسکول اور کالج میں تعلیم حاصل کرنے کی مجبوری نہیں ہوتی۔ یہ کوئی بہت بڑا کارنامہ نہیں کہ مشکلات کا سامنا ہوتا۔ اگر یہ لوگ متحد ہوکر چاہتے تو مسلم علاقوں کے ان بنیادی مسائل پر قابو پایا جاسکتا تھا۔ لیکن انہوں نے کبھی کوشش ہی نہیں کی۔ قوم کو صرف جذباتی باتوں اور تقریروں میں الجھائے رکھا۔ کہتے ہیں کہ کاٹھ کی ہانڈی دوبارہ چولہے پر نہیں چڑھتی۔ پر یہاں معاملہ عجیب ہے کہ سیکولر سیاسی پارٹیوں کے مسلم لیڈروں کے وعدوں کے کاٹھ کی ہانڈی مسلسل چولہے پر چڑھتی رہی اورمسلمان بہلتے رہے کہ شاید اب حالات بدلے۔ اب یہ کاٹھ کی ہانڈی بیکار ہو چکی ہے۔مسلمان جب ناامید اور مایوس ہو گئے تب انہوں نے ایک نئی صف بندی کی جانب توجہ دی ہے۔ اب انہیں تکلیف ہے کہ ہماری پرسکون سیاسی زندگی میں مجلس ارتعاش پیدا کرنے کیلئے کیسے آگئی۔ ارتعاش ہی کیا اب ان کی سیاسی زندگی میں زلزلہ اور سونامی کا بھی خطرہ ہے۔ کیا کریں جب انہوں نے طوفان سے پہلے اس کی تیاری ہی نہیں کی تو اس میںکسی کا کیا قصور۔
مسلم رائے عامہ پر جس قیادت کا اثر رہا ہے اس کے سامنے کانگریس میں لاکھوں خرابیوں اور برائیوں کے باوجود وہ بی جے پی کے مقابلے میں قابل قبول رہی ہے۔ انہوں نے ہمیشہ مسلمانوں کوبی جے پی یا سنگھ کا خوف دلا کر کانگریس کی جھولی میں ان کا ووٹ ڈلوادیا، بدلے میں انہیں لوک سبھا یا راجیہ سبھا کی ایک دو عدد نمائندگی دے دی گئی۔ اس نمائندگی کا فائدہ بھی حزب اقتدار نے مسلم ملکوں میں اپنی شبیہ بہتر بنانے کیلئے اٹھایا۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ مرادآباد سمیت اور کئی فسادات پر مسلم ملکوں میں بے چینی پھیلی تھی تو عالم و سیاسی رہنما نے وہاں جاکر سب خیریت ہے کا مزدہ سنایا تھا۔ جس سے ناراض کچھ نوجوانوں نے انڈے اور ٹماٹروں سے ان کا استقبال کیا تھا۔ بہر حال اسی خوف کی نفسیات نے کہ بی جے پی آجائے گی جو آتے ہی مسلمانوں کو چیر پھاڑ کر کھاجائے گی !کے سبب مسلمانوں کی سیاسی قیادت پنپ نہیں سکی۔

مسلم سیاسی قیادت کو پنپنے سے پہلے ہی ختم کرنے میں کانگریس نے اہم کردار ادا کیا اور اس میں ان کے ساتھ ہمارے وہی نام نہاد لیڈر تھے جو ہمارے نہیں پارٹی کے وفادار ہوا کرتے ہیں۔ یہ باتیں ان لوگوں کی توجہ کیلئے ہیں جو کہتے ہیں کہ مسلم نام والی پارٹی سے فرقہ پرستی میں اضافہ ہوگا یا ہندو ووٹوں کا ارتکاز ہوگا۔ توابھی تک جو کچھ ہوا اس کے پیچھے کیامسلم نام والی پارٹی کا ہاتھ رہا ہے؟مجھے یاد آتا ہے کہ سری لنکا کی پارلیمنٹ میں ایک مسلم پارٹی کے چار یا پانچ ممبر تھے انہوں نے اپنی حمایت واپس لے کر حکومت گرادی تھی وجہ تھی چند مسلم تاجروں کے قتل کا معاملہ۔ یہ بات اس لئے کہی جارہی ہے کہ اگر اپنی سیاسی قوت ہو گی تو آپ کا دبائو رہے گا۔ دوسری بات یہ کہ مجلس کا نام ضرور مسلم ہے لیکن اس میں غیر مسلم خصوصی طور پر دلت اور دیگر پسماندہ طبقات کی نمائندگی بھی ہے۔ اورنگ آباد اور کلیان ڈومبیولی کارپوریشن میں مجلس اتحاد المسلمین کے دلت رکن بھی ہیں۔حالیہ ممبئی کارپوریشن میں بھی انہوں نے غیر مسلموں کو ٹکٹ دیا ہے۔ مجلس کے قائد اسد الدین اویسی نے دلت دیگر پسماندہ طبقات کے ساتھ مسلمانوں کے اتحاد کیلئے عملی قدم بھی اٹھایا ہے۔ وہ اپنی تقریر میں بھی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ مسلمانوں اور پسماندہ طبقات کا اتحاد وقت کی ضرورت ہے۔ یہاں مجھے یہ کہنا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم خوف کی نفسیات سے نکلیں کہ فلاں پارٹی آجائے گی۔

 اپنی سیاسی قوت کو مضبوط کریں۔ اس کی قوت بنیں تاکہ وہ بھی وقت بوقت ہمارے لئے ڈھال بن سکے۔ آج کی ہماری حمایت ہی کل ہماری قوت میں تبدیل ہوگی۔ کانگریس اور دیگرسیکولر سیاسی جماعتیں نہیں چاہتیں کہ ہمارا سیاسی قد بلند ہو اور ہم ہندوستانی سیاست میں فیصلہ کن کردار ادا کرسکیں۔ اس لئے وہ نئے نئے حربے لاتے ہیں۔ افواہ پھیلاتے ہیں۔ مسلمانوں کو مسلمانوں سے بد ظن کرتے اور انہیں ذہنی طور پر منتشر رکھنے کے درپے رہتے ہیں تاکہ ہم کوئی ٹھوس فیصلہ نہ کرپائیں۔ دشمن کی منصوبہ بند کوشش کو مسلمانوں کا عزم محکم ہی ناکام کرسکتا ہے۔ یہ عزم ہماری بیداری اور سیاسی شعور سے آئے گا۔ جس سے ہم اپنے دشمنوں سے آگاہ ہو سکیں۔ دشمن دو ہیں ایک وہ جو ہمارا کھلا دشمن ہے جسے ہم اچھی طرح پہچانتے ہیں۔ دوسرا وہ جو ہماری آستین کا سانپ ہے جس کے ساتھ ہماری لائق احترام ہستیاں وابستہ رہی ہیں لیکن ان کی سادہ لوحی نے اس دشمن کو پہچاننے سے عاجز رکھا۔ ہم اس لئے جانتے اور پہچانتے ہیں کہ ہم نے ستر برسوں میں جو کچھ بھگتا ہے اس سے اس کا اصلی چہرہ واضح نظر آنے لگا ہے۔ کھلے دشمن سے چھپا دشمن زیادہ خطرناک ہو تا ہے۔ وہ آپ کو تھپکی دے دے کر سلا دیتا ہے جب آپ سو جاتے ہیں تب حملہ آور ہوتا ہے۔ یہی کیا ہے اس پارٹی نے ہمیں سیکولرزم، رواداری اور ہمدردی کا افیم کھلا کھلا کر بے ہوش رکھا اور جب ہم جاگے تو معلوم ہوا کہ ہم تو 35 فیصد سے 2 فیصد پر آگئے۔یاد رکھئے خوف کی نفسیات سے نکلے بغیر نئی صبح کا سورج طلوع نہیں ہوگا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔