خونی بھیڑیا بنتی جا رہی ہے بھیڑ

منصور عالم قاسمی

پے در پے گئو بھکتوں کی دہشت گردی کو دیکھ کر گزشتہ دنوں ہم نے فیس بک اور ٹویٹر پہ ایک جملہ پوسٹ کیا تھا ’’اس صدی کا سب سے بڑا جھوٹ یہ ہے کہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے ‘‘اس کے بعد کچھ دانشوران مجھے یہ باور کرانے کی کوشش کرنے لگے کہ ہندوستان پہلے بھی ایک سیکولر ملک تھا اور آج بھی ہے۔آئین بھی یہی کہتا ہے ۔ہندوستان کے حالات اتنے خراب نہیں ہیں کہ ہم اسے غیر سیکولر یا ہندو راشٹر کہیں ۔

میں آج پھر سے ان دانشوران سے بصد ادب و احترام گزارش کرتا ہوں کہ گائے اور بیف کے نام پر درجنوں قتل ہونے کے بعدبھی  اگر آپ کی نظر میں ہندوستان ایک سیکولرملک ہے، تو یہ آپ کی خام خیالی ہے 1975.  میں جو ایمرجنسی نافذ ہوئی تھی، وہ اعلانیہ تھی، لوگ چلتے تھے،پھرتے تھے، آرام سے گھومتے اور کھاتے پیتے تھے لیکن موجودہ وقت میں ہندوستان غیر اعلانیہ ایمرجنسی کے دور سے گزر رہا ہے ۔ سر پرلال چنری باندھے، ہاتھ میں بھگوا جھنڈا لئے دہشت گردوں کا نہ جانے کب کون شکار ہو جائے، کوئی نہیں جانتا۔ ٹرین میں،  ریلوے پلیٹ فارم میں، بس میں، بس اڈہ میں، چلتے ہوئے راہ میں بلکہ گھر میں ہی، بھیڑمارتی رہے گی، کچھ شر پسند عناصر اس کی حوصلہ افزائی کرتے رہیں گے اور ویڈیو بناکر سوشل میڈیا میں خوف دلانے کے لئے ڈال دیں گے مگر بچانے کے لئے یا غلط کو غلط کہنے کے لئے کوئی آگے نہیں آئے گا ۔اور اگر داڑھی ہے، ٹوپی ہے، پاجامہ کرتا زیب تن ہے، تو سمجھ لیجئے خطرات کے بادل ہر وقت آپ کے سر پر منڈلا رہے ہیں،  نہ جانے کب بھیڑ بھیڑیا بن کر پر ٹوٹ پڑے۔

’’انڈیا اسپینڈ‘‘کی رپورٹ کے مطابق ’’بیف سے منسلک تشدد کے 97 فیصد کیسز مرکزمیں نریندر مودی حکومت کے آنے کے بعد پیش آئے، مارے گئے افراد میں 86 فیصد مسلمان ہیں، سال 2017 میں گائے سے منسلک تشدد کے معاملات میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے،صرف 5 فیصد ملزمان کی ہی گرفتاری ہوئی ہے‘‘ مگر سزاندارد۔

    دادری کے اخلاق سب سے پہلے اس خونی بھیڑ کے شکار ہوئے، ان کے گھر میں بیف تو نہیں ملا، ہاں بھیڑیے اخلاق کو نوچ نوچ کر ضرور کھا گئے،  ضعیف پہلو خان کو سر راہ ان بھیڑیوں نے پٹک پٹک کر مار ڈالا، حافظ جنید جو ایک نوخیز لڑکا تھا، عید کی خریداری کر کے خوشی خوشی گھر لوٹ رہا تھا مگر چلتی ٹرین میں بھگوا دہشت گردوں اور آوارہ بھیڑیوں نے چیر پھاڑ کر لقمہ اجل بنادیا،اور بالکل تازہ واقعہ جھارکھنڈ کے گریڈیہہ کے محمد عثمان انصاری کا ہے، ان کے گھر ایک گائے مرجانے سے مارنے کا الزام لگا کرگئو پوتروں نے ان کو لگ بھگ مارڈالاوہ  ابھی اسپتال میں موت و حیات کی جنگ لڑ رہے ہیں، اور ابھی ابھی مضمون کی کتابت کرتے ہوئے جھارکھنڈ سے ہی ایک اور خبر آرہی ہے کہ گئو دہشت گردوں کی بھیڑ نے آج پھر ایک اور مسلمان محمد علیم الدین کاقتل کردیا اور اس کی کار کو نذر آتش کردیا ۔

میری سمجھ سے بالا تر ہے کہ آخر جھارکھنڈ جیسی آدی باسی اور چھوٹی ریاست میں اچانک بھگوا بھیڑ یوں کی بھیڑ ہرجگہ حملہ آور کیسے ہورہی ہے ؟ صرف جھارکھنڈ میں اب تک گائے یا بیف کے نام پر 18 معصوم قتل کر دیئے گئے ۔نیویارک ٹائمز تک اس کی گونج سنائی دی  اور اس نے لکھا ’’at heast 16 muslims killed by hindu terrorist group in indian state of jharkhand”مگر رگھوور داس سرکار بہری اور اندھی بنی ہوئی ہے ؟رحم کی بھیک مانگتے ہوئے محمد نعیم کی خون سے لت پت تصویر سے ہر شخص کانپ گیا مگر سرکار کے کان میں جوں تک نہیں رینگی۔ محسن  پونے،چھوٹو خان، شیح  سجو،شیخ سراج، مظلوم انصاری، شیخ سلیم سبھی جھاکھنڈکے،ابراہیم میوات، پپو مستری گونڈہ،محمد ظفر راجستھان  اور محمد یونس مئو کے علاوہ تقریبا 80 سے زائد افراد خونی بھیڑ کے شکار ہوگئے، مگر ہروقت ٹویٹ کرنے والے فرانس یا برٹش میں دھماکہ یا حادثہ ہونے پر سب سے پہلے مذمت یا افسوس جتانے والے مہان وزیر اعظم نے آج اپنا منھ کھولا اور روایتی جملے بازی کر کے خاموش ہو گئے۔ تعجب خیزبات یہ ہے کہ جب مودی جی مذمت یعنی جملے بازی کر رہے تھے، عین اسی وقت بیف کے نام پرجھارکھنڈمیں ایک اور مسلمان محمدعلیم الدین مارے جا رہے تھے ۔

    سوال یہ ہے کہ آخر اس بھیڑ کو حوصلہ کہاں سے مل رہا ہے؟یہ بھیڑ تو پہلے بھی ٹرینوں میں، سڑکوں میں چلتی تھی، ساتھ ساتھ رہتی تھی مگراب یکلخت بھیڑیا کیوں کر بن جا رہی ہے ؟ تو اس کا سیدھا سا جواب ہے (1) مذکورہ معاملات میں اب تک ایک بھی خاطر خواہ کارروائی نہ ہونا اور سرکار کا روایتی بیان دینا(2)اخلاق کے قاتل ملعون روی کو ترنگا میں لپیٹنے کے باوجود کارروائی نہ ہونا، (3) پہلو خان کو مارتے وقت پولیس اہلکار کا مسکرانا اور مرحوم کو بچانے کی کوشش نہ کرنا (4) پہلو خان کے قاتل کو گئو رکشکوں کے ذریعہ جیل میں حوصلہ افزائی کر کے اس کا شیواجی مہاراج سے موازنہ کرنا،  (5)مختار عباس نقوی جیسے اندھا لیڈر کا راجیہ سبھا میں پہلو کے قتل کا انکارہی کردینا،(6)قانون کے رکھوالوں کے ذریعہ منہاج انصاری کوتھرڈ ڈگری ٹارچر کر کے ماردیا جانا، پھر بھی ان کے خلاف کارروائی نہ ہونا(7)بی جے پی کے طلباء ونگ کے ذریعہ نجیب کو زد و کوب اور غائب کر دینے کے باوجود مجرمین پر کارروائی نہ ہونا،ان کے علاوے بھی بہت سے وجوہات ہو سکتے ہیں ۔

     تشدد، تعصب اور نفرت کا کینسر بھگوا دھاری سیاسی لوگوں نے ایسا پھیلا دیا ہے کہ گنگا جمنی تہذیب جو ہندوستان کی شناخت تھی، اب وہ معدوم ہو تی جا رہی ہے ۔ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی ۔آپس میں ہیں بھائی بھائی کا نعرہ اب جھوٹ لگ رہا ہے، تاہم ’’ناٹ ان مائی نیم ‘‘ جیسی مہم میں برادران وطن کو دیکھ کر یہ بھی لگتا ہے کہ کہیں نہ کہیں محبت کی رمق اب بھی باقی ہے۔ اپنے زہریلے بیانات سے مسند اقتدار تک پہونچے فرقہ پرست لوگ اپنے بھولی بھالی عوام کو یہ یقین دلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ہندو تو خطرے میں ہے.  ہم ہی اس کے محافظ ہیں ۔ سارے مسلمان دہشت گرد ہیں، بیف کھانے والے ہیں، دیش دروہی ہیں، یہ ہندوئوں کے سب سے بڑے دشمن ہیں، یہ سارے ہندوئوں کو ختم کر دینا چاہتے ہیں ۔اب جس بندے کے پاس عقل و خرد ہے وہ  جب سوال کر تا ہے کہ آخر 18 کروڑ مسلمان 90 کروڑ ہندئوں کو کیسے ختم کر دیں گے؟توایسے سوالات کرنے والوں کو یہ سنگھی سیکولرکی گالیاں دیتے  ہیں، کبھی کانگریسی کہتے ہیں ۔ آر ایس ایس اور سنگھی نظریات و افکار کے حامل افراد اور خود وزیر اعظم کو جان لینا چاہئے کہ ہٹلر نے بھی اپنے عوام کو بڑے بڑے خواب دکھلائے تھے،  جرمنی کی اقلیت یعنی یہودیوں کو سارے مسائل کامجرم بتا کر 60 لاکھ یہودیوں کا قتل عام کردیا مگر اسی طاقتور ہٹلر کو ایک دن خودکشی کرنی پڑی اور جرمنی تباہ ہوگئی ۔مسولینی کو اسی کی جنتا نے سر عام چوراہے پر الٹا لٹکا کر پیٹ پیٹ کر مار ڈالا ۔

عوام کی طاقت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ معمر قذافی کو انہی کے عوام نے موت کے گھاٹ اتاردیا،آج وہاں خانہ جنگی چل رہی ہے۔اس لئے بھیڑیا بنتی بھیڑ کو روکئے صاحب !  ورنہ یہ آپ کو مارے یا نہ مارے مگر مظلوم کی آہیں آپ کو کسی دن ضرورمار دیں گی، اور ملک تباہ و بربادہو جائے گا ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔