دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بند قبا دیکھ

حفیظ نعمانی

کل رات رواروی کی خبروں میں چند سکنڈ کے لئے پاکستان کی ایک جھلک دیکھنے کو ملی وزیراعظم عمران خان ایک بڑے جلسہ کو خطاب کررہے تھے اور موضوع تھا نصیر الدین شاہ کے ایک بیان پر بھاجپائی لیڈروں کی نکتہ چینی۔ چند جملے بول کر خان صاحب نے کہا کہ قائد اعظم نے اپنی فراست سے یہ انداز کرکے ہی پاکستان بنوایا تھا انہوں نے کہا تھا کہ ہندوستان میں مسلمان رہیں گے تو دوسرے درجہ کے شہری بن کر رہیں گے۔ اور ہم وزیراعظم مودی صاحب سے کہنا چاہتے ہیں کہ ہم پاکستان میں رہنے والی اقلیتوں کو جنت ارضی میں رکھ کر دکھائیں گے کہ اقلیتوں کو کیسے رکھا جاتا ہے؟

قارئین کرام سے وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ میں نے جناح صاحب کو کبھی قائد اعظم نہیں کہا اگر لکھا تو نقل کفر کفر نہ باشد کے طور پر لکھا اور میں 45  دن 1952 ء میں کراچی میں رہا فرصت بھی تھی اور وسائل بھی اور سب کے کہنے کے باوجود میں اُن کی قبر پر نہیں گیا۔

جس آدمی کو قائد اعظم کہا جاتا ہے ان کو معلوم تھا کہ وہ ملک کو تقسیم کرکے جو حصہ لینا چاہتے ہیں وہ سب وہ ہے جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں۔ اور جو حصہ ہندوستان رہ جائے گا اس میں کہیں دس بارہ فیصدی کہیں دو چار فیصدی مسلمان رہ جائیں گے۔ مسٹر جناح نے جو دعویٰ پیش کیا وہ یہ تھا کہ:

’’ہم ایک الگ قوم ہیں ہماری تہذیب ہماری ثقافت ہمارے نام ہماری قدریں ہمارے قانونی ضابطے ہمارے رسم و رواج ہمارے احساسات ہماری اُمنگیں ہندو قوم سے بالکل الگ اور جداگانہ خصوصیات رکھتی ہیں۔ مختصر یہ کہ زندگی کے بارے میں ہمارا پورے کا پورا نقطۂ نظر الگ ہے۔‘‘

جناح صاحب نے جو تعارف کرایا وہ ان دس کروڑ مسلمانوں کا تھا جو اس وقت متحدہ ہندوستان میں تھے اور وہ جو پاکستان مانگ رہے تھے اس حصہ میں صرف چھ کروڑ آرہے تھے باقی چار کروڑ اسی ہندوستان میں رہے جارہے تھے جہاں اس ہندو قوم کی حکومت ہوگی جس کے بارے میں وہ بتاچکے کہ اس کے ساتھ مسلمان نہیں رہ سکتے۔

یہ معلوم ہونے کے بعد بھی یہ فیصلہ کرنا کہ چھ کروڑ کا ایمان بچ جائے یہی کافی ہے رہے چار کروڑ تو وہ دوسرے درجہ کے شہری بنیں تو بن جائیں یعنی وہ پاسپورٹ نہیں بنوا سکتے ان کو ووٹ دینے کا حق نہیں ہوگا ان کو سرکاری نوکری کا حق نہیں ہوگا وہ زمین کے مالک نہیں بن سکتے وغیرہ وغیرہ جو قائد یا جماعت یہ فیصلہ کرے کیا اسے قائد اعظم اور مسلم جماعت کہا جاسکتا ہے؟

آج ایک نصیرالدین شاہ یا عامر خان کے بیان پر صرف بیان بازی ہورہی ہے پاکستان والوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ ان دونوں نے دو دو شادیاں کی ہیں اور دونوں ہندو لڑکیوں سے اور اس قوم کی لڑکیوں سے جن کے ساتھ جناح صاحب کے بقول مسلمان نہیں رہ سکتے۔ جس ہندو پارٹی کی حکومت ہے اس کے مسلمان وزیروں کی بیوی ہندو ہے۔ اور نصیرالدین شاہ یا عامر خان جناح صاحب سے زیادہ مسلمان اس لئے ہیں کہ وہ بورے خوجے نہیں ہیں۔

پاکستان کے کسی وزیراعظم یا لیڈر کو حق نہیں ہے کہ وہ ان ہندوستانی مسلمانوں کے بارے میں زبان کھولیں جن کی جان، جن کی عزت، جن کے دین، جن کے ایمان اور جن کی آبرو کو قربان کرکے حکمرانی کے شوق میں کٹا پھٹا بھکاری پاکستان بنا لیا ہے۔ وہ پاکستان جو پہلے پہلے دن سے اب تک عربوں کے پیسوں کے بل پر زندہ ہے اور جس ایٹم بم پر پھول رہا ہے وہ لیبیا کے قذافی کی خیرات ہے۔ انہوں نے کیا کیا جنہوں نے ملک کے دو ٹکڑے کئے اور مسلمانوں کے تین ٹکڑے کردیئے۔ آج اگر ملک تقسیم نہ ہوتا تو پورے بنگال پورے پنجاب، آسام اور ہندوستان کے باقی صوبوں میں بکھرے ہوئے مسلمانوں کی وہ طاقت ہوتی کہ یا تو وہ حکومت کرتے یا وہ حکومت کرتا جسے وہ چاہتے۔

آزاد ہندوستان میں صرف چار سال میں یہ ہوا تھا کہ بعض جگہ مسلمانوں کی مرضی کے بغیر حکومت بنی چار سال کے بعد پھر مدھیہ پردیش اور راجستھان میں مسلمانوں کی بدولت ہی حکومت بنی اور انہوں نے اعتراف کیا۔ پاکستان میں جتنی تعداد میں مسلمان ہیں اتنے ہی ہندوستان میں ہیں سردار عبدالرب نشتر جن کو مندر میں جانے گھنٹا بجانے دھوتی پہننے اور تلک لگانے کے لئے چھوڑ گئے تھے ان میں سے صدر جمہوریہ بھی بنے مرکزی وزیر بھی بنے۔ اور صوبوں کے وزیر بھی بنے اور بن رہے ہیں ان کے لاکھوں بچے عالم اسلام اور امریکہ، افریقہ میں پڑھ یا پڑھا رہے ہیں۔ پنجاب، سندھ سرحد اور بلوچستان میں پاکستان پھیلا ہوا ہے مسٹر جناح نے ان کا ایسا دین ایمان بچایا ہے کہ رمضان ہو یا محرم سیکڑوں مسلمان شہید ہوجاتے ہیں کسی پاکستان کے لیڈر نے یہ نہ پڑھا ہوگا نہ سنا ہوگا کہ ہندوستان میں مسجد خون سے سرخ ہوگئی ہم مانتے ہیں کہ نفرت ہے مگر ہم سے زیادہ نفرت تو ان ہندوئوں سے ہے جو نیچی ذات کے ہندو ہیں۔ اور پاکستان سے جو ہندو گھومنے آتا ہے وہ پھر واپس نہیں جانا چاہتا جبکہ ہندوستان کا مسلمان اپنے عزیزوں سے ملنے جاتا ہے تو لعنت بھیجتا ہوا آتا ہے کہ اب نہیں جائوں گا۔ عمران خان نے تو ہندوستان کو بار بار دیکھا ہے اس کے کھلاڑیوں کے ساتھ ہر ملک میں کھیلے ہیں انہوں نے کسی مسلمان کو دوسرے درجہ کا شہری دیکھا۔ اور پھر جب جان بوجھ کر ہمیں چھوڑکر گئے تھے تو اب ہمارا ذکر کیوں؟

جب اسلام کے نام پر اور دین ایمان کی حفاظت کے لئے پاکستان بنایا تھا تو اس کی ایک جھلک تو دکھادی ہوتی کیا اس پر مسلمان فخر کریں کہ وہاں کی لڑکیاں ممبئی کی فلم نگری میں آکر ننگی ناچیں اور ہر وہ برائی جس کی سزا میں گردن مارنے کا حکم ہے وہاں فیشن میں داخل رہے نوابوں اور راجائوں کے زمانہ کی لعنت عروج بالفروج کے قصے ہم ہندوستان میں بیٹھ کر سنتے اور پڑھ کر سوچتے ہیں کہ پھر جو جناح صاحب نے کہا تھا کہ ’’ہماری اُمنگیں ہندو قوم سے بالکل الگ اور جداگانہ ہیں۔‘‘ تو وہ کہاں الگ ہیں؟

ہندوستان میں ایک دن بھی فوج نے حکومت نہیں کی جبکہ پاکستان میں بے ایمانی کے الزام میں تین بار فوج نے حکومت کی۔ نہرو خاندان نے ملک پر 50  برس کے قریب حکومت کی ان کے کسی فرد نے ہندوستان میں بھی محل نہیں بنایا پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا اس کے ہر وزیراعظم نے ایک مکان پاکستان میں ایک دوبئی میں اور ایک لندن کے اس علاقہ میں جہاں بے ایمان بادشاہ اور ملک کے سربراہ اپنے ملک کی دولت دونوں ہاتھوں سے لوٹ کر لائے اور محل خریدا۔ ہمیں اُمید ہے کہ عمران خان بہت کچھ تبدیل کریں گے ان سے بس یہ کہنا ہے کہ وہ ہندوستان کے مسلمانوں کے بجائے اپنے مسلمانوں کو وہ بنائیں جو اُن کے قائد اعظم دکھانا چاہتے تھے۔ وہ بنا تو اس لئے نہیں سکتے تھے کہ وہ خود اسلام کے معیار پر پورے اترنے والے مسلمان نہیں تھے۔

(اپنے قارئین کو بتانا ضروری ہے کہ ہمارا مضمون ’جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا‘ نہیں ہوتا ہے وہ پاکستان کے اردو کے کئی اخباروں اور انگریزی میں بھی چھپتا ہے اور اسی لئے کبھی کبھی لکھنا ضروری ہوتا ہے)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔