دعوت و جہاد اور اسوۂ نبوی

ڈاکٹر محمد رفعت

انسانیت کی ابتدا ہی سے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کے لیے پیغمبروں کے بھیجنے کا سلسلہ جاری کیا جو آخری نبی حضرت محمد ﷺ کی بعثت پر مکمل ہوا۔ پیغمبروں کی آمد کا مقصد یہ تھا کہ انسان غفلت اور شرارت سے جس راہِ ہدایت کو گم کردیا کرتے تھے وہ دوبارہ اُن کے سامنے واضح کردی جائے تاکہ حجت تمام ہوجائے اور اندھیروں میں بھٹکنے کے لیے بھٹکنے والے کوئی عذر پیش نہ کرسکیں ۔  قرآن مجید نے اس تاریخی حقیقت کو واضح طور پر بیان کیا ہے۔

انبیاءِ کرام کی بعثت:

 کَانَ النَّاسُ أُمَّۃً وَاحِدَۃً فَبَعَثَ اللّٰہُ النَّبِیِّیْنَ مُبَشِّرِیْنَ وَمُنذِرِیْنَ وَأَنزَلَ مَعَہُمُ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ لِیَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِیْمَا اخْتَلَفُوا فِیْہِ وَمَا اخْتَلَفَ فِیْہِ إِلاَّ الَّذِیْنَ أُوتُوہُ مِن بَعْدِ مَا جَاء تْہُمُ الْبَیِّنَاتُ بَغْیْاً بَیْنَہُمْ فَہَدَی اللّٰہُ الَّذِیْنَ آمَنُواْ لِمَا اخْتَلَفُوا فِیْہِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِہِ وَاللّٰہُ یَہْدِیْ مَن یَشَاءُ إِلَی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ (البقرۃ:2)

’’ابتدا میں سارے انسان ایک ہی طریقے پر تھے (یعنی اُس راہِ حق پر جو ابتدا میں اُن کے خالق نے اُن کو بتادی تھی۔ پھر یہ حالت باقی نہ رہی۔ لوگ ہدایت کو بھلا بیٹھے اور اختلافات رونما ہوئے) تب اللہ نے نبی بھیجے جو (راست روی پر) بشارت دینے والے اور (کج روی کے برے نتائج سے) ڈرانے والے تھے، اور اُن (نبیوں ) کے ساتھ کتاب برحق نازل کی تاکہ حق کے بارے میں لوگوں کے درمیان جو اختلافات رونما ہوگئے تھے، اُن کا فیصلہ کرے۔ — (اور ان اختلافات کے رونما ہونے کی وجہ یہ نہ تھی کہ ابتدا میں لوگوں کو حق بتایا نہیں گیاتھا — نہیں )اختلاف اُن لوگوں نے کیا، جنھیں حق کا علم دیا جاچکا تھا۔ انھوں نے روشن ہدایات پالینے کے بعد محض اس لیے حق کو چھوڑ کر مختلف طریقے نکالے کہ وہ آپس میں زیادتی کرنا چاہتے تھے۔ پس جو لوگ انبیاء پر ایمان لے آئے، انھیں اللہ نے اپنے اِذن سے اُس حق کا راستہ دکھا دیا، جس میں لوگوں نے اختلاف کیا تھا۔ اللہ جسے چاہتا ہے، راہِ راست دکھا دیتا ہے۔‘‘

انسانوں میں راہِ حق کے بارے میں اختلاف کے دو اسباب ہوسکتے ہیں ۔ ایک سبب ناواقفیت ہے۔اگر اللہ کی ہدایت گم ہوگئی ہو تو لوگوں کے پاس راہِ حق کو جاننے کا کوئی یقینی ذریعہ ہی موجود نہیں ہوتا۔ یہ سبب ایسا ہے جس کی موجودگی میں ، اِدھر اُدھر بھٹکنے والے انسان — ایک حد تک— اپنی گمراہی کے لیے معذور ہوتے ہیں ۔ جب کتابِ الٰہی – تحریف سے پاک شکل میں – دنیا میں موجود ہی نہ ہو تو انسان یہ عذر پیش کرسکتا ہے کہ حق معلوم کرنے کا کوئی یقینی ذریعہ اس کے پاس نہ تھا۔ پیغمبروں اور کتاب کی آمد سے، انسانوں کی گمراہی کا اور اُن کے اختلافات کے شکار ہونے کا یہ سبب (یعنی ناواقفیت کا سبب) دور ہوجاتا ہے۔ وہ ناواقف نہیں رہتے بلکہ راہِ ہدایت سے واقف ہوجاتے ہیں ۔ درج بالا آیت کا پس منظر یہی ہے۔ انسانی اختلافات کا دوسرا سبب یہ ہے کہ بعض لوگ، ہدایت سے واقف تو ہوتے ہیں لیکن راہِ ہدایت کو اس لیے قبول نہیں کرتے کہ وہ دوسرے انسانوں پر زیادتی کرنا چاہتے ہیں اوردوسروں سے بڑے بننا چاہتے ہیں ۔ اختلافات کے اس سبب کو مکمل طور پر دور کرنا ممکن نہیں ہے، اس لیے کہ اللہ نے اس دنیا کی آزمائشی زندگی کی حد تک — انسان کو آزادی دی ہے۔ انسان چاہے تو نبیوں کی تعلیم کو مان سکتا ہے اور چاہے تو اس کا انکار بھی کرسکتا ہے۔ انکار کی سزا اسے آخرت میں ملے گی، مگر اس دنیوی زندگی میں بہرحال وہ انکارِ حق کی آزادی رکھتا ہے۔ نبیوں کا کام صرف اتنا ہے کہ حق اور ہدایت کو اس طرح انسانوں کے سامنے واضح کردیں کہ کوئی شخص، اپنی گمراہی کے لیے، ناواقفیت کا عذر پیش نہ کرسکے۔

فَذَکِّرْ إِنَّمَا أَنتَ مُذَکِّرٌo لَّسْتَ عَلَیْہِم بِمُصَیْطِرٍo إِلَّا مَن تَوَلَّی وَکَفَرَ o  فَیُعَذِّبُہُ اللّٰہُ الْعَذَابَ الْأَکْبَرَo إِنَّ إِلَیْنَا إِیَابَہُمْ o ثُمَّ إِنَّ عَلَیْنَا حِسَابَہُمْ o        (الغاشیہ:21-26)

’’پس (اے نبی!) نصیحت کیے جاؤ، تم بَس نصیحت ہی کرنے والے ہو، کچھ ان پر جبر کرنے والے نہیں ہو۔ البتہ (واضح رہے کہ) جو شخص منہ موڑے گا اور (حق کا) انکار کرے گا تو اللہ اس کو بھاری سزا دے گا۔ ان لوگوں کو پلٹنا ہماری ہی طرف ہے، پھر ان کا حساب لیناہمارے ہی ذمہ ہے۔‘‘

انکارِ حق پر دُنیا میں گرفت:

انبیاء علیہم السلام کو اللہ نے یہ کام سپرد کیا کہ وہ انسانوں کو سیدھا راستہ دکھائیں ۔ انسانوں کو راستی اور حق سے واقف کرانے اور راہِ ہدایت کی طرف بلانے کے لیے نبیوں نے جو طریقہ اختیار کیا وہ پیغامِ حق پہنچانے اور نصیحت و تلقین کرنے کا تھا۔ ضرورت پڑنے پر اس کی بھی اجازت دی گئی کہ مخاطبین سے اچھے طریقے سے، بحث و مباحثہ (مجادلہ) کیا جائے مثلاً نبی کریم ﷺ کو ہدایت دی گئی کہ:

اُدْعُ إِلِی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُم بِالَّتِیْ ہِیَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّکَ ہُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِیْلِہِ وَہُوَ أَعْلَمُ بِالْمُہْتَدِیْنo          (النحل: 125)

’’(اے نبی!) اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو، حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ، اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے پر جو بہترین ہو۔ تمہارا رب ہی زیادہ بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹکا ہوا ہے اور کون راہِ راست پر ہے۔‘‘

عملاً رسولوں کی دعوت کے جواب میں ہوا یہ کہ کچھ حق پسندوں نے دعوتِ حق کو قبول کرلیا۔ اس کے برعکس کچھ نادانوں نے حق کو قبول نہیں کیا البتہ مخالفت بھی نہیں کی۔ کچھ شرپسندوں نے محض انکار پر اکتفا نہیں کیا بلکہ رسولوں کی دعوت کی مخالفت شروع کردی۔ کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو حق کا اقرار یا انکار کرنے کے بجائے محض صورتِ حال کا مشاہدہ کررہے تھے اور شاید اپنے  انتخاب کے بارے میں فیصلہ کرنے سے پہلے یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ حق کےعلم برداروں اور اس کے مخالفین کی باہم کشمکش کا کیا نتیجہ سامنے آتا ہے! دعوتِ اسلامی کے ظہور کے بعد جن لوگوں نے اس کی مخالفت کی اور اس مخالفت میں اس حد تک بڑھے کہ رسول اور داعیانِ حق کو اپنی بستی سے نکالنے پر تُل گئے، اُن کے بارے میں قرآن یہ بتاتا ہے کہ اسی دنیا میں اللہ کی جانب سے، اُن کی گرفت ہوئی۔ چنانچہ قرآن میں نبی ﷺ سے کہا گیا:

وَإِن کَادُواْ لَیَسْتَفِزُّونَکَ مِنَ الأَرْضِ لِیُخْرِجوکَ مِنْہَا وَإِذاً لاَّ یَلْبَثُونَ خِلافَکَ إِلاَّ قَلِیْلاًo  سُنَّۃَ مَن قَدْ أَرْسَلْنَا قَبْلَکَ مِن رُّسُلِنَا وَلاَ تَجِدُ لِسُنَّتِنَا تَحْوِیْلاًo(بنی اسرائیل: 76-77)

’’اور یہ لوگ اس بات پر بھی تلے رہے ہیں کہ تمہارے قدم اس سرزمین سے اکھاڑ دیں اور تمہیں یہاں سے نکال باہر کریں لیکن اگر یہ ایسا کریں گے تو تمہارے بعد، یہ خود یہاں کچھ زیادہ دیر نہ ٹھہر سکیں گے۔ (یہ معاملہ محض تمہارے ساتھ نہیں ہے بلکہ) یہ ہمارا مستقل طریقِ کار ہے جو اُن سب رسولوں کے بارے میں ہم نے برتا ہے، جنھیں تم سے پہلے ہم نے بھیجا تھا، اور ہمارے طریقِ کار میں تم کوئی تغیر نہ پاؤ گے۔‘‘

وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ لِرُسُلِہِمْ لَنُخْرِجَنَّـکُم مِّنْ أَرْضِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا فَأَوْحَی إِلَیْہِمْ رَبُّہُمْ لَنُہْلِکَنَّ الظَّالِمِیْنَo وَلَنُسْکِنَنَّـکُمُ الأَرْضَ مِن بَعْدِہِمْ ذَلِکَ لِمَنْ خَافَ مَقَامِیْ وَخَافَ وَعِیْدِo  وَاسْتَفْتَحُواْ وَخَابَ کُلُّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍo (ابراہیم: 13-15)

’’آخر کار کفر کرنے والوں نے اپنے رسولوں سے کہہ دیا کہ ’’یا تو تمہیں ہماری ملت میں واپس آنا ہوگا ورنہ ہم تمہیں ہم اپنے ملک سے نکال دیں گے۔‘‘ تب اُن کے رَب نے اُن پر وحی بھیجی کہ ’’ہم ان ظالموں کو ہلاک کردیں گے اور اُن کے بعد تمہیں زمین میں آباد کریں گے۔ یہ انعام ہے اُس کاجو میرے حضور جواب دہی کا خوف رکھتا ہو اور میری وعیدسے ڈرتا ہو۔‘‘ انھوں نے فیصلہ چاہا تھا تو (یوں اُن کا فیصلہ ہوا اور) ہر جبّار، دشمنِ حق نے منہ کی کھائی۔‘‘

قرآن مجید بتاتا ہے کہ رسول کی آمد، کسی گروہ کے لیے فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے۔ رسول کے انکا ر کی صورت میں اس گروہ کو اللہ کا عذاب، اسی دنیا میں آلیتا ہے۔

وَلِکُلِّ أُمَّۃٍ رَّسُولٌ فَإِذَا جَاء  رَسُولُہُمْ قُضِیَ بَیْنَہُم بِالْقِسْطِ وَہُمْ لاَ یُظْلَمُونَo  وَیَقُولُونَ مَتَی ہَـذَا الْوَعْدُ إِن کُنتُمْ صَادِقِیْنَo قُل لاَّ أَمْلِکُ لِنَفْسِیْ ضَرّاً وَلاَ نَفْعاً إِلاَّ مَا شَاءَ  اللّٰہُ لِکُلِّ أُمَّۃٍ أَجَلٌ إِذَا جَاءَ أَجَلُہُمْ فَلاَ یَسْتَأْخِرُونَ سَاعَۃً وَلاَ یَسْتَقْدِمُونَo  قُلْ أَرَأَیْتُمْ إِنْ أَتَاکُمْ عَذَابُہُ بَیَاتاً أَوْ نَہَاراً مَّاذَا یَسْتَعْجِلُ مِنْہُ الْمُجْرِمُونo (یونس: 47-50)

’’ہر امت کے لیے ایک رسول ہے۔ پھر جب کسی اُمت کے پاس اُس کا رسول آجاتا ہے تو اس کا فیصلہ، پورے انصاف کے ساتھ چکا دیا جاتا ہے اور اس پر ذرّہ برابر ظلم نہیں کیا جاتا۔ کہتے ہیں کہ ’’اگر تمہاری یہ دھمکی سچی ہے تو آخر یہ کب پوری ہوگی؟‘‘ کہو، ’’میرے اختیار میں تو خود اپنا نفع و ضرر بھی نہیں ، سب کچھ اللہ کی مشیت پر موقوف ہے۔ ہر امت کے لیے مہلت کی ایک مدت ہے۔ جب وہ مدت پوری ہوجاتی ہے تو گھڑی بھر کی تقدیم و تاخیر بھی نہیں ہوتی۔‘‘ اِن سے کہو’’کبھی تم نے یہ بھی سوچا کہ اگر اللہ کا عذب اچانک رات یا دِن کو آجائے (تو تم کیا کرسکتے ہو)، آخر یہ ایسی کون سی چیز ہے، جس کے لیے مجرم جلدی مچائیں ۔‘‘

اللہ کی سُنت کی معنویت:

قانونِ الٰہی یہ ہے کہ رسولوں کا انکار کرنے والے اور اُن کی دعوت کی راہ میں روڑے اٹکانے والے، اسی دنیا میں اللہ کی گرفت میں آجاتے ہیں ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس قانونِ الٰہی کی حکمت کیا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ انسانوں پر حجت تمام کرنا اور حق کو اچھی طرح واضح کردینا، اللہ کے رسولوں کی آمد کا مقصد ہے۔ یہ مدعا اسی وقت مکمل ہوتا ہے جب دلائل کے ذریعے بھی حق کا حق ہونا واضح ہوجائے اور عالمِ واقعہ میں باطل کی عملاً شکست کے ذریعے بھی، باطل کا غلط، بے بنیا داور تباہ کن ہونا واضح ہوجائے۔ جب تک عالمِ واقعات میں حق اور باطل کی کش مکش کا نتیجہ، حق کی فتح کی صورت میں نہیں نکلتا، بہت سے انسان، تذبذب کا شکار رہتے ہیں ۔ ذہنی افق کی تنگی، حق شناسی کی لذت سے نا آشنائی، جرأت کی کمی اور کردار کی پستی اُن کو حق قبول کرنے سے اور حق کو پہچاننے سے باز رکھتی ہے۔ عامۃ الناس کی آنکھیں کھولنے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ غلبہ حق، اُن کو اُن کی نظروں کے سامنے واقعے کی صورت میں نظر آئے۔ قرآن مجید بتاتا ہے کہ حق کی فتح کے بعد، انسان بڑی تعداد میں اللہ کے دین میں داخل ہوتے ہیں :

إِذَا جَاء  نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُo وَرَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُونَ فِیْ دِیْنِ اللّٰـہِ أَفْوَاجاً o فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہُ إِنَّہُ کَانَ تَوَّاباً o  (النصر)

’’جب اللہ کی مدد آجائے اور فتح نصیب ہوجائے اور تم دیکھ لو کہ لوگ، فوج در فوج، اللہ کے دین میں داخل ہورہے ہیں ، تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو، اور اُس سے مغفرت کی دعا مانگو، بے شک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے۔‘‘

اسی لیے اہلِ ایمان، دنیا میں حق کی فتح کو محبوب رکھتے ہیں :

وَأُخْرَی تُحِبُّونَہَا نَصْرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَفَتْحٌ قَرِیْبٌ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَo (الصف:13)

’’(تمہارے ایمان و جہاد کے نتیجے میں اللہ) وہ دوسری چیز بھی تمہیں دے گا، جسے تم چاہتے ہو۔ یعنی اللہ کی طرف سے نصرت اور قریب ہی میں حاصل ہوجانے والی فتح۔ اے نبی! اہلِ ایمان کو اس فتح کی خوش خبری دے دو۔‘‘

دلائل کے ذریعے حق کی وضاحت کے ساتھ، جب عملاً حق کے غلبے کے ذریعے بھی سیدھے راستے کی حقانیت ظاہر ہوجائے تو اس کیفیت کو ’’اظہارِ دین‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ نبی کریم ﷺ اس لیے تشریف لائے کہ پورے طور پر دین کا اظہار ہوسکے:

  یُرِیْدُونَ أَن یُطْفِؤُواْ نُورَ اللّٰہِ بِأَفْوَاہِہِمْ وَیَأْبَی اللّٰہُ إِلاَّ أَن یُتِمَّ نُورَہُ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُونَo ہُوَ الَّذِیْ أَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْہُدَی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہِ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُونَ  o (توبہ:32-33)

’’(منکرینِ حق) چاہتے ہیں کہ اللہ کی روشنی کو اپنی پھونکوں سے بجھادیں لیکن اللہ اپنی روشنی کو مکمل کیے بغیر نہیں رہے گا خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اُسے پورے دین پر ظاہر کردے، خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔‘‘

مخالفت کی نوعیت:

دنیا میں جب دعوتِ حق پیش کی جاتی ہے تو بعض شرپسند اس کی مخالفت کرتے ہیں ۔ وہ حق کی طرف بلانے والوں کا مذاق اڑاتے ہیں، اُن کو برا بھلا کہتے ہیں ، نامعقول سوالات کرتے ہیں اور دعوت کو بدنام کرنے کے لیے جھوٹا پروپیگنڈا کرتے ہیں ۔ جب ان طریقوں سے وہ دعوتِ حق کو نہیں روک پاتے تو حق پیش کرنے والوں اور اُسے قبول کرنے والوں کو دھمکیاں دیتے ہیں ، اُن کو تنگ کرتے ہیں، اُن پر ظلم ڈھاتے ہیں اور بس چلے تو انھیں اپنی بستی سے نکال دیتے ہیں ۔ پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ حق پرستوں کو سزائیں دی جاتی ہیں، اُن کا بائیکاٹ کیا جاتا ہے، انھیں جیلوں میں ڈال دیا جاتا ہے اور تختہ دار پر لٹکایا جاتا ہے۔

 جب اہلِ کفر وشرک کے درمیان— رسول کی سربراہی میں دعوتِ حق پیش کی جارہی ہوتی ہے تو قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ مذکورہ بالا ساری مخالفت کے باوجود زمین پرحق غالب ہوجاتا ہے اور منکرینِ حق، اللہ کے عذاب کی گرفت میں آجاتے ہیں ۔ اس موضوع پر غور کرتے وقت یہ سوال ہمارے آتا ہے کہ دعوتِ حق کے راستے کی رکاوٹیں دور کرنے کے لیے، کیا داعیانِ حق کو بھی کچھ کرنے کی ضرورت ہے یا اس سلسلے میں انھیں محض مشیتِ الٰہی کے حرکت میں آنے کا انتظار کرنا چاہیے؟ اس سوال کا جواب، قرآنِ مجید میں تلاش کیا جائے تو یہ جواب ملتا ہے کہ حق کے راستے کی رکاوٹیں دور کرنے کے لیے، اہلِ ایمان اور داعیانِ حق کو بھی، اپنا فرض انجام دینا چاہیے۔ یہ رکاوٹیں تین طرح کی ہوسکتی ہیں ، حق کی طرف بلانے سے روکا جائے، حق کو قبول کرنے کی راہ میں رکاوٹ ڈالی جائے یا حق پر عمل سے باز رکھنے کی کوشش کی جائے۔ رکاوٹ کی نوعیت جو بھی ہو، اس کا مقابلہ کرنے اور اس پرقابو پانے کی سعی، ایمان کا تقاضا ہے۔ راہِ حق میں آنے والی رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوشش کو، اسلامی اصطلاح میں جہاد کہا جاتا ہے۔

قرآن کے ذریعے جہاد:

جہاد کا ایک مرحلہ’’جہاد بالقرآن‘‘ ہے یعنی قرآن کو لے کر جہاد۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو خطاب کرکے فرمایا ہے:

وَلَوْ شِئْنَا لَبَعَثْنَا فِیْ کُلِّ قَرْیَۃٍ نَذِیْراًo فَلَا تُطِعِ الْکَافِرِیْنَ وَجَاہِدْہُم بِہِ جِہَاداً کَبِیْراً o (فرقان:51-52)

’’اگر ہم چاہتے تو ایک ایک بستی میں ایک ایک خبردار کرنے والا اٹھا کھڑا کرتے۔ پس اے نبی! کافروں کی بات ہرگز نہ مانو اور اس قرآن کو لے کر اُن کے ساتھ زبردست جہاد کرو۔‘‘

دعوتِ حق کے راستے میں بعض رکاوٹیں ، نامعقول سوالات، جھوٹے پروپیگنڈے اور فریب کن باتوں کی شکل میں سامنے آتی ہیں ۔ اُن رکاوٹوں کا مقابلہ قرآن مجید کو انسانوں کے سامنے لاکر کیا جاسکتا ہے۔ قرآن مجید سوالات کا تشفی بخش جواب دیتا ہے، جھوٹ کے بے بنیاد ہونے کا آشکاراکرتا ہے اور فریب کے پردوں کو چاک کردیتا ہے۔ اس طرح رکاوٹیں دور ہوتی ہیں اور انسانوں کا حق کی طرف آنا آسان ہوجاتا ہے۔ یہ جہاد بالقرآن ہے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ، جہادِ کبیر کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’جہادِ کبیر کے تین معنی ہیں ۔ ایک انتہائی کوشش، جس میں آدمی، سعی وجاں فشانی کا کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھے۔دوسرے بڑے پیمانے پر جدوجہد، جس میں آدمی اپنے تمام ذرائع لاکر ڈال دے۔ تیسرے، جامع جدوجہد، جس میں آدمی کوشش کا کوئی پہلو اور مقابلے کا کوئی محاذ نہ چھوڑے۔‘‘ (تفہیم القرآن سورہ فرقان، حاشیہ 67)

البتہ یہ ظاہر ہے کہ راہِ حق میں ڈالی جانے والی ہر قسم کی رکاوٹوں کا مقابلہ محض جہاد بالقرآن —سے نہیں کیا جاسکتا۔ بہت سی رکاوٹیں ایسی ہیں جن کا مقابلہ طاقت سے ہی کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے اسلام نے جہاد کی دیگر شکلوں کی بھی اجازت دی ہے تاکہ حق کو پھیلانے، اُسے قبول کرنے اور ہدایتِ الٰہی پر عمل کرنے کی فطری آزادی، انسانوں کو حاصل رہے۔ البتہ جہاد اُن شرائط اور آداب کے ساتھ ہی کیا جاسکتا ہے جو اسلام نے بتائے ہیں ۔ اصلاً جہاد کے لیے اسلام کی بنیادی ہدایات دو ہیں جو تمام شرائط اور آداب کا خلاصہ ہیں ۔ یعنی فساد فی الارض سے بچا جائے اور معاہدوں اور عہدوپیمان کی پابندی کی جائے۔ ان ہدایات کی تفصیلات قرآن مجید، حدیث، سیرت اور فقہ میں دیکھی جاسکتی ہیں ۔

اللہ کے راستے میں جہادکا مدعا:

اصطلاحاً جہاد کے معنی ہیں ، (اسلامی آداب و شرائط کے تحت)  اللہ کی راہ میں طاقت کا استعمال، تاکہ راہِ حق میں ڈالی جانے والی رکاوٹوں کو دور کیا جاسکے۔ قرآنِ مجید نے جہاد کا مقصد اس طرح بیان کیا ہے:

وَقَاتِلُواہُمْ حَتَّی لاَ تَکُونَ فِتْنَۃٌ وَیَکُونَ الدِّیْنُ لِلّٰہِ فَإِنِ انتَہَواْ فَلاَ عُدْوَانَ إِلاَّ عَلَی الظَّالِمِیْنَo (البقرۃ: 193)

’’تم اُن سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کے لیے ہوجائے۔ پھر اگر وہ باز آجائیں تو سمجھ لو کہ ظالموں کے سوا، اور کسی پر دست درازی روا نہیں ۔‘‘

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاد کا مقصود، فتنے کا خاتمہ ہے۔ اس اصطلاح (فتنہ) کا مفہوم بیان کرتے ہوئے سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ لکھتے ہیں :

’’فتنے کا لفظ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے، جس میں انگریزی کا لفظ Persecutionاستعمال ہوتا ہے، یعنی کسی گروہ یا شخص کو محض اس بنا پر ظلم و ستم کا نشانہ بناناکہ اُس نے رائج الوقت خیالات و نظریات کی جگہ، کچھ دوسرے خیالات و نظریات کو حق پاکر قبول کرلیا ہے اور تنقیدو تبلیغ کے ذریعے سے سوسائٹی کے موجودالوقت نظام میں اصلاح کی کوشش کرتا ہے۔ … بلا شبہ انسانی خون بہانا بہت برا  فعل ہے، لیکن جب کوئی انسانی گروہ زبردستی اپنا فکری استبداد دوسروں پر مسلط کرے اور لوگوں کو قبولِ حق سے بجبر روکے اور اصلاح و تغیر کی جائز و معقول کوششوں کا مقابلہ، دلائل سے کرنے کے بجائے حیوانی طاقت سے کرنے لگے، تو وہ قتل کی بہ نسبت زیادہ سخت برائی کا ارتکاب کرتا ہے اور ایسے گروہ کو بزورِ شمشیر ہٹادینا بالکل جائز ہے۔‘‘ (تفہیم القرآن، سورۃ بقرۃ، حاشیہ 202)

اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ فتنے کے معنی ہیں ’’اللہ کے راستے سے جبراً لوگوں کو روکنا، اور حق قبول کرنے والوں کو اس سے پھِر جانے پر مجبور کرنا۔‘‘یہ فتنہ اتنا بڑا شر ہے کہ اس کو ختم کرنے کے لیے جنگ بھی درست ہے۔ ’’فتنے‘‘ کے درج بالا مفہوم کی تائید قرآن مجید کی متعدد آیات سے ہوتی ہے۔ مثلاً:

یَسْأَلُونَکَ عَنِ الشَّہْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِیْہِ قُلْ قِتَالٌ فِیْہِ کَبِیْرٌ وَصَدٌّ عَن سَبِیْلِ اللّٰہِ وَکُفْرٌ بِہِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِخْرَاجُ أَہْلِہِ مِنْہُ أَکْبَرُ عِندَ اللّٰہِ وَالْفِتْنَۃُ أَکْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ وَلاَ یَزَالُونَ یُقَاتِلُونَکُمْ حَتَّیَ یَرُدُّوکُمْ عَن دِیْنِکُمْ إِنِ اسْتَطَاعُوا وَمَن یَرْتَدِدْ مِنکُمْ عَن دِیْنِہِ فَیَمُتْ وَہُوَ کَافِرٌ فَأُوْلَـئِکَ حَبِطَتْ أَعْمَالُہُمْ فِیْ الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ وَأُوْلَـئِکَ أَصْحَابُ النَّارِ ہُمْ فِیْہَا خَالِدُونo(البقرۃ:217)

’’لوگ پوچھتے ہیں کہ ماہِ حرام میں لڑنا کیسا ہے؟ کہو ’’اِس  میں لڑنا بہت برا ہے، مگرراہِ خدا سے لوگوں کو روکنا اور اللہ سے کفر کرنا اور مسجد حرام کا راستہ (خدا پرستوں پر) بند کرنا اور حرم کے رہنے والوں کو وہاں سے نکالنا، اللہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ برا ہے۔ اور فتنہ، قتل سے شدید تر ہے‘‘۔ وہ (کافر) تو تم سے لڑتے ہی جائیں گے، حتیٰ کہ اگر اُن کا بس چلے، تو تمہیں اس دین سے پھیر لے جائیں (اور یہ خوب سمجھ لو) تم میں سے جو کوئی اس دین سے پھرے گا اور کفر کی حالت میں جان دے گا، اس کے اعمال، دنیا اور آخرت دونوں میں ضائع ہوجائیں گے۔ ایسے سب لوگ جہنمی ہیں اور ہمیشہ جہنم ہی میں رہیں گے۔‘‘

ثُمَّ إِنَّ رَبَّکَ لِلَّذِیْنَ ہَاجَرُواْ مِن بَعْدِ مَا فُتِنُواْ ثُمَّ جَاہَدُوا وَصَبَرُوا إِنَّ رَبَّکَ مِن بَعْدِہَا لَغَفُورٌ رَّحِیْمo(النحل:110)

’’جن لوگوں کا حال یہ ہے کہ جب (ایمان لانے کی وجہ سے) وہ ستائے گئے (فتنے میں مبتلا کیے گئے) تو انھوں نے گھر بار چھوڑدیے، ہجرت کی، راہِ خدا میں سختیاں جھیلیں اور صبر سے کام لیا، اُن کے لیے یقینا تیرا رب غفور و رحیم ہے۔‘‘

قرآن مجید میں ان آیات کی موجودگی کے باوجود آج کل بعض لوگوں نے یہ عجیب وغریب بات کہنی شروع کردی ہے کہ جہاد، صرف نبی ﷺ پر فرض تھا۔ آپ کے بعد عام مسلمان، محض اپنے جان و مال کے دفاع کے لیے طاقت کا استعمال کرسکتے ہیں ، دنیا سے فتنے کو مٹانے کے لیے جہاد کرنا، اُن پر فرض نہیں رہا۔ ایسی رائے رکھنے والوں کو قرآن مجید کی درجِ ذیل آیت پر غور کرنا چاہیے جس میں تمام اہلِ ایمان سے جہاد کے لیے کہا گیا ہے، (محض نبی سے نہیں )۔

وَجَاہِدُوا فِیْ اللّٰہِ حَقَّ جِہَادِہِ ہُوَ اجْتَبَاکُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِیْ الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ مِّلَّۃَ أَبِیْکُمْ إِبْرَاہِیْمَ ہُوَ سَمَّاکُمُ الْمُسْلِمیْنَ مِن قَبْلُ وَفِیْ ہَذَا لِیَکُونَ الرَّسُولُ شَہِیْداً عَلَیْکُمْ وَتَکُونُوا شُہَدَاء  عَلَی النَّاسِ فَأَقِیْمُوا الصَّلَاۃَ وَآتُوا الزَّکَاۃَ وَاعْتَصِمُوا بِاللّٰہِ ہُوَ مَوْلَاکُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلَی وَنِعْمَ النَّصِیْرُ o(حج: 78)

’’اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے، اس نے تمہیں اپنے کام کے لیے چن لیا ہے اور دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔ قائم ہوجاؤ اپنے باپ ابراہیم کی ملت پر۔ اللہ نے پہلے بھی تمہارا نام مسلم رکھا تھا اور اس (قرآن) میں بھی (تمہارا یہی نام ہے)۔ تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم انسانوں پر گواہ۔ پس نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو اور اللہ سے وابستہ ہوجاؤ۔ وہ ہے تمہارا مولا۔ بہت ہی اچھا ہے وہ مولا اور بہت ہی اچھا ہے وہ مدد گار۔‘‘

اقدام یا دفاع

یہ سوال اکثر کیا جاتا ہے کہ ’’جہاد، دفاعی ہے یا اقدامی؟‘‘ یہ سوال چونکہ نامکمل شکل میں کیا جاتا ہے اس لیے مغالطہ آمیز ہے۔ اصل صورتحال یہ ہے کہ ایمان لانے والوں کا کام حق پر خود عمل کرنا اور دنیا کے سامنے حق کا اظہار کرنا ہے تاکہ ہدایت کے طالبین، ہدایت سے محروم نہ رہیں ۔ اظہارِ دین کا یہ کام دعوت اور جہاد کے ذریعے انجام پاتا ہے۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ دونوں کام لازم و ملزوم ہیں ۔ ذہنوں پر گمراہی کے غلبے کو مٹانے کا کام، دعوت کے ذریعے ہوتا ہے۔ اگر دعوت کے اس کام میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی جائے تو جہاد کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ البتہ اگر حق کی طرف بلانے، حق کو اختیار کرنے یا احکامِ الٰہی پر عمل کرنے میں رکاوٹ ڈالی جائے تو ان رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے جہاد کی ضرورت پیش آتی ہے۔ دعوت، ایک اقدامی عمل کا نام ہے۔ اہلِ ایمان یہ اقدام، اس لیے کرتے ہیں تاکہ حق واضح ہوجائے اور باطل کے فریب سے لوگ دھوکا، نہ کھائیں ۔ جہاد، اس پہلو سے اقدامی ہے کہ وہ دعوت کی راہ کی رکاوٹیں دور کرتا ہے اور خود دعوت، ایک اقدامی سرگرمی ہے۔ جہاد، اس پہلو سے دفاعی ہے کہ اُس کے ذریعے، انسان کی قبولِ حق کی آزادی کی حفاظت مقصود ہے، (اگر اس آزادی کو سلب کرنے کی کوشش کی جارہی ہو۔) چنانچہ جہاد ایک ایسا عمل ہے ، جوبیک وقت اقدامی بھی ہے اور دِفاعی بھی۔تاہم عملاً جہاد اُسی وقت ہوسکتا ہے جب اُس کی شرائط پوری ہوتی ہوں اور اُس کے آداب کا لحاظ رکھا جاسکتا ہو۔ بصورتِ دیگر محض دعوتی سرگرمیوں پر اکتفا ضروری ہے۔

رکاوٹوں کودور کرنے کی سعی:

مکّہ میں نبی ﷺ نے دعوتِ عام کا فریضہ انجام دیا۔ اپنے قیامِ مکہ کے دوران ایک مرحلے میں آپ طائف تشریف لے گئے کیونکہ مکہ میں تبلیغِ حق جاری رکھنے کے مواقع کم سے کم تر ہوتے جارہے تھے۔ آپ ایسی بستی کی تلاش میں تھے جہاں آپ کو دعوت حق جاری رکھنے کے مواقع مل سکیں ۔ طائف  کے اس سفر میں آپ کو سخت آزمائش سے دوچار ہونا پڑا اور جو تائید آپ چاہتے تھے وہ نہ مل سکی۔ مکہ واپسی پر آپ اس پوزیشن میں نہ تھے کہ بطورِ خود شہر میں داخل ہوسکیں ۔ چنانچہ آپ نے مطعم بن عدی سے پناہ کے لیے کہا۔ مطعم بن عدی نے آپ کو پناہ دینے کے لیے آمادگی ظاہر کی تب آپ مکہ میں داخل ہوئے۔

مکہ میں مخالفینِ حق نے دعوتِ اسلامی کے راستے میں جو رکاوٹیں ڈالیں اور کمزور مسلمانوں کو جس طرح تنگ کیا، اس صورتحال کے مقابلے کے لیے نبی ﷺ نے چند اقدامات کیے۔

(الف)     صاحبِ حیثیت اصحاب کو آمادہ کیا کہ وہ غلام جو اسلام قبول کرنے کی وجہ سے ستائے جارہے تھے، اُن کو خرید کر آزاد کردیں تاکہ وہ کافروں کے جبر و ظلم سے نجات پاسکیں ۔

(ب)      اصحاب کے درمیان مواخات کرائی تاکہ وہ سخت حالات میں ایک دوسرے کی خبر گیری اور مدد کرسکیں ۔

(ج)     مسلمانوں کو اجازت دی کہ ایمان بچانے کے لیے حبشہ کی طرف ہجرت کرجائیں ۔

(د)     مکہ کے قیام کے آخری دور میں آپ نے متعدد قبائل سے ملاقاتیں کیں ۔ آپ جس قبیلے سے ملتے، اُس سے یہ فرماتے کہ ’’مجھے اپنے ہاں پناہ دو اور میری حمایت کرو تاکہ میں اپنے رَب کا کلام پہنچاؤں ‘‘۔ اس سلسلے میں جن قبائل سے آپ نے رابطہ قائم کیا اُن میں قابلِ ذکر یہ ہیں :

 کندہ، کلب، بنی بکر بن وائل، بنی البکاء، ثعلبہ بن عکابہ، بنی شیبان بن ثعلبہ، بنی الحارث بن کعب، بنی حنیفہ، بنو سلیم، بنی عامر بن صعصعہ، بنی عبس، بنی عذرہ، غسان، زارہ، بنی عبداللہ، بنی محارب بن خصفہ۔ (سیرت سرورِ عالم، از سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ)

(ہ)    ان سب اقدامات کے بعد آپ کا جو اقدام فیصلہ کن ثابت ہوا وہ مدینے کے قبیلے خزرج کے ایک گروہ سے، آپ کی ملاقات تھی جو بعثت کے گیارہ سال بعد عقبہ کے قریب ہوئی۔ اس ملاقات کا نتیجہ پہلی بیعتِ عقبہ کی شکل میں سامنے آیا۔ مزید ایک سال بعد دوبارہ عقبہ کے مقام پر مدینے کے بارہ نمائندے، آپ سے آکر ملے۔ ان لوگوں سے حضورﷺ نے بیعت لی۔ پھر آپ نے مصعب بن عمیر کو مدینے بھیجا تاکہ اسلام کی عام تبلیغ کریں ، ایمان لانے والوں کو قرآن کی تعلیم دیں ، اُن کو اسلامی احکام بتائیں اور اُن کے اندر دین کی سمجھ پیدا کریں ۔

(و)   دوسری بیعت کے ایک سال بعد، حج کے زمانے میں ستر آدمی مدینے سے آئے اور عقبہ کے مقام پر آپ ﷺ سے ملے۔ آپ کو مدینے آنے کی دعوت دی اور آپ کی سچی وفاداری کا عہد کیا۔ یہ عقبہ کی آخری بیعت تھی۔

(ز)   اس بیعت کے بعد آپ نے مکّے کے مسلمانوں کو عام حکم دے دیا کہ مدینہ کی طرف ہجرت کرجائیں تاکہ مدینہ، فی الواقع دارالاسلام بن سکے۔

(ح)   سب سے آخر میں خود نبی ﷺ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ آپ کا یہ سفرِ ہجرت، بعثت کے چودہ سال بعد (ماہ ِصفر میں ) ہوا۔ حضرت ابوبکر صدیق، اس سفر میں آپ کے ساتھی تھے۔

نبی کریم ﷺ کے ان اقدامات سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ مکہ میں آپ محض دین کی تبلیغ نہیں کررہے تھے بلکہ اُن سب رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے تدابیر بھی اختیارکررہے تھے، جو حق اور دعوتِ حق کے راستے میں حائل تھیں ۔ اس کے ساتھ، آپ مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لیے اقدامات کررہے تھے اور اُن کو زیادتیوں سے بچانے کی تدبیریں کررہے تھے۔ سب سے زیادہ جس امر پر آپ کی توجہ مرکوز تھی وہ ایسے گروہ کی تلاش تھی جو آپ کی تائید و حمایت کے لیے آمادہ ہوتاکہ آپ اپنے رب کا پیغام، انسانوں تک پہنچاسکیں ، اس لیے کہ مکہ میں تبلیغ و دعوت کی راہیں تقریباً مسدود کی جاچکی تھیں ۔

قیامِ مکہ کے دوران راہِ حق میں ڈالی جانے والی رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے، آپﷺ نے جنگی اقدام نہیں کیا، اس لیے کہ اللہ کی طرف سے آپ کو اس کی اجازت نہیں ملی تھی بلکہ کہا گیا تھا کہ ’’کفوا ایدیکم‘‘ (یعنی اپنے ہاتھ روکے رکھو)۔ اس ہاتھ روکے رکھنے کا تذکرہ سورہ نساء کی آیت ۷۷ میں کیا گیا ہے۔ چنانچہ براہِ راست جنگی اقدام کے بجائے، رکاوٹوں پر قابو پانے کے لیے آپ نے دیگر تدابیر اختیار کیں ۔ اللہ کے اِذن سے جو اقدام کارگر ثابت ہوا، وہ مدینہ کی جانب ہجرت کا اقدام تھا۔

ہجرت کے بعد

مدینہ پہنچ جانے کے بعد آپ کو جنگی اقدام کی اجازت اللہ نے دی۔ جنگِ بدر سے جنگِ احزاب تک غزوات کا ایک دور مکمل ہوجاتا ہے۔ جنگِ احزاب کی خصوصیت یہ ہے کہ اس موقع پر اسلام کے دشمن یکجا ہوکر مدینے پر چڑھ آئے تھے۔ اللہ کے فضل کی بنا پر پچیس دن کے محاصرے کے باوجود، وہ دشمنانِ حق، مسلمانوں کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ بالآخر قدرتِ خداوندی سے شدید آندھی آئی اور راتوں رات حملہ آور لشکر، اس آندھی کی تاب نہ لاکر میدانِ جنگ چھوڑ کر فرار ہوگئے۔ نبی ﷺ نے اس موقع پر ارشاد فرمایا کہ’’اَب قریش تم پر کبھی چڑھائی نہ کرسکیں گے، اب تم اُن پر چڑھائی کروگے۔‘‘ آپ کا یہ ارشاد اِس بات کی طرف اشارہ تھا کہ اب حق و باطل کی کشمکش، ایک نئے مرحلے میں داخل ہورہی ہے۔ جس میں اقدام، حق پرستوں کی طرف سے ہوگا اور باطل کو اپنی مدافعت کرنی پڑے گی۔

اس نئے مرحلے میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے اشارہ ملنے کے بعد، نبی ﷺنے عمرے کا ارادہ فرمایا۔ حج اور عمرہ اُن اچھی روایات کا جز تھے، جو دینِ ابراہیمی کے باقیات کے طور پر عرب میں موجود تھیں ۔ قریش، عرب کے مسلمہ رواج کے مطابق، آپ کو عمرہ کرنے سے روکنے کا کوئی جواز نہ رکھتے تھے۔ اس کے باوجود انھوں نے صریح دھاندلی سے کام لیا اور آپ کو عمرہ نہ کرنے دیا۔ تاہم عمرہ کرنے کے لیے آپ کے اقدام نے اہم نتائج پیدا کیے۔ ایک جانب قریش کی اخلاقی پوزیشن مجروح ہوئی اس لیے کہ وہ عرب کے مسلمہ رواج کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے۔ دوسری جانب، مسلمانوں نے اپنے عمل سے یہ دعویٰ پیش کردیا کہ وہ خانہ کعبہ کی زیارت کا حق رکھتے ہیں اور جو لوگ یہ حق انھیں نہیں دینا چاہتے، وہ مسلمانوں پر اپنی اس زیادتی کو درست ثابت کرنے کے لیے کوئی دلیل پیش نہیں کرسکتے۔ سب سے اہم نتیجہ صلحِ حدیبیہ کی شکل میں سامنے آیا۔ اس صلح کی بعض ناگوار شرائط کے باوجود، اہم نتیجہ یہ نکلا کہ دعوت کی  وسیع راہیں کھل گئیں ۔ جنگوں کی وجہ سے مکہ اور مدینہ کے باشندوں کا رابطہ بہت محدود ہوگیا تھا۔ جنگ بندی ہوجانے سے رابطے کے وسیع مواقع پیدا ہوگئے اور دعوتِ اسلامی کو فروغ حاصل ہونے لگا۔ تمام تدابیر کا اصل مدعا بہرحال یہی تھا کہ دعوتِ حق کے راستے کی رکاوٹیں دور کی جائیں ۔ تاریخی واقعات کی ترتیب پر نظر رکھی جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ فتحِ مکہ، صلحِ حدیبیہ کا لازمی نتیجہ تھی۔ قریش نے یہ صلح کرکے، حق کی فتح کے دروازے خود کھول دیے تھے اور اب تاریخ کا دھارا جس رخ کو اختیار کرچکا تھا، اس سے پھیرا نہ جاسکتا تھا۔

فتحِ مکہ کے بعد، دعوتِ حق کا بین الاقوامی دور شروع ہوتا ہے۔ اسلامی دعوت کے مزاج کے مطابق، اس بین الاقوامی خطاب  کے مرحلے میں بھی’’دعوت و جہاد‘‘ کی یکجائی نظر آتی ہے۔ آپ ﷺ نے حکمرانوں کو خطوط لکھ کر اُن کو اللہ کی بندگی اختیار کرنے کی دعوت دی اور اپنی قوموں کے انجام کا ذمہ دار بھی اُن کو ٹھہرایا۔ شاہِ روم نے دعوتِ حق کے جواب میں متکبرانہ طرزِ عمل اختیار کیا چنانچہ آپ نے غزوہ تبوک کی شکل میں سلطنت روم کے خلاف اقدام فرمایا۔ گو عملاً جنگ نہیں ہوئی اس لیے کہ قیصرِ روم مقابلے کے لیے نہ آیا تاہم یہ حقیقت ثابت ہوگئی کہ اسلام ایک ابھرتی ہوئی طاقت ہے، جس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے عرب کے اور دنیا کے عوام و خواص اسلام کے پیغام کو سنجیدہ غور کا مستحق سمجھنے لگے اور فضا قبولِ حق کے لیے سازگار ہوئی۔

اسوۂ نبوی پر اس سرسری نظر سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ دعوت اور جہاد، دونوں کا مقصد ایک ہے یعنی اظہارِ دین۔ دعوت سے راہِ حق واضح ہوتی ہے اور جہاد سے قبولِ حق کی آزادی محفوظ رہتی ہے۔

اے رہروِ فرزانہ، رستے میں اگر تیرے

گلشن ہے تو شبنم ہو، صحرا ہے تو طوفاں ہو

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    جہاد ،،اس لفظ کے مادہ(ج۔ھ۔د) کے معنی ہیں
    ‘ محنت اور مشقت۔ وسعت۔ اور طاقت۔
    جہادؔ کے معنی ہیں کسی مقصد کے حصول کے لئے اپنی طاقت اور وسعت کو پورا پورا صرف کر دینا اور اُسے اتنہا تک پہنچا دینا۔ اسلام‘ عمل پیہم اور حرکت مسلسل کا دین ہے۔ اسی کا نام حیات ہے۔ اس کے مقابلہ میں وہ جمودو تعطل اور افسردگی و اضمحلال کو موت سے تعبیر کرتا ہے۔ خواہ یہ موت وحیات افراد کی ہوخواہ اقوام کی۔ افراد‘ اس سعی پیہم ہے اپنی ذات کی نشوونما کرتے ہیں، اور اقوام اس جہد مسلسل سے زندگی کی سرفرازیاں اور خوشگواریاں حاصل کرتی ہیں۔ اسلام‘ اس سعی وعمل کے لئے ایک بلند وبالا نصب العین متعین کرتا ہے۔اور وہ نصب العین ہے اس دین یعنی نظام کا قیام واستحکام جس میں تمام امور, اقدار وقوانین خداوندی کے مطابق سر انجام پائیں۔اسے وہ جہادؔ فی سبیل اللہ کی اصطلاح سے تعبیر کرتا ہے۔اگرچہ جہاد‘ میں ہر قسم کی کوشش آجاتی ہے۔ لیکن اس کا آخری مقام وہ ہوتا ہے جہاں مردِ مومن ‘میدانِ جنگ میں‘ سر بکف اور شمشیر بدست‘ باطل کی قوتوں کے سامنے کھڑا ہوجاتا ہے ۔ تاکہ وہ جان تک دےکر دین کے راستے میں مزاحم ہونے والی قوتوں کو راستے سے ہٹا سکے۔ قرآن کریم کی رُو سے مومن کا یہ عمل سب سے زیادہ گراں بہا اور بلند ترین ہے۔ قرآن کریم میں اس مادہ سے مشتق الفاظ ہر قسم کی کوشش سے لےکر جنگ وقتال کے لئے آئے ہیں ۔ جنگ وقتال کے لئے بالعموم جہادِؔ فی سبیل اللہ کی اصطلاح آتی ہے اجتہادؔ کا لفظ بھی اسی مادہ سے ہے۔ یعنی کدوکاوش اور انتہائی فکر کوشش بات تک پہنچنا۔ لیکن یہ لفظ قرآن میں نہیں آیا۔ یہ فقہ کی اصطلاح کے طور آتا ہے۔ ایسا کرنے والے کو مجتہدؔ کہتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔