دلتوں سے سبق لینے کی ضرورت! 

نازش ہما قاسمی

ہندوستان میں دو قومیں آزادی کے بعد سے زیادہ آزمائشوں میں مبتلا رہی ہیں، ہر جگہ ان کا استحصال کیا گیا انہیں اذیت دی گئی، انہیں دبایا گیا، ان کے حقوق پر ڈاکہ ڈالاگیا۔ ایک ’مسلمان ‘اور دوسرے ’دلت‘دلتوں پر مظالم کاسلسلہ تو برسہا برس سے جاری ہے۔ لیکن مودی حکومت کے تین سالہ دور اقتدار میں یہ دونوں قومیں کچھ زیادہ ہی پریشان حال رہیں۔ جہاں ایک طرف حکومتی سرپرستی میں گئو رکشک مسلمانوں کو ہلاک کر رہے ہیں، وہیں دلتوں کو بھی پریشان کیا ہے، ان کی عزت و آبرو سے کھلواڑ کیا ہے، انہیں بھی انسانی زمرے سے خارج کرتے ہوئے جانوروں جیسا سلوک کیاگیاہے۔ ایک طرف جہاں پہلو خان گئو رکشک کی بھینٹ چڑھا تو وہیں گجرات میں دلتوں کو گاڑیوں سے باندھ کر پیٹا گیا اور سرعام اس کی ویڈیو بنا کر دلتوں کو پیغام دیاگیا کہ جس طرح تم پہلے اچھوت تھے آج بھی شودر ہو،اچھوت ہو، اکیسوی صدی کی ترقیات بھی دلتوں کی صورت حال میں تبدیلی نا لاسکے۔

یہ تین سالہ دور دونوں قوموں کے لیے آزمائش کادور رہا ہے، لیکن دلت مسلمانوں کے مقابلے بیدار ہوئے، انہوں نے روہت ویمولا کی ہلاکت کے بعد سے پونے کورے گائوں تصادم تک کا بدلہ لے لیا، لیکن مسلمان اب تک بے ہوش بے خبر رہے، انہوں نے نہ تو کوئی مطالبہ کیا اور نہ ہی کوئی اپیل کہ ہمارے اوپر کیوں ظلم روارکھا جارہا ہے، نہ انہیں کوئی جگنیش میوانی نصیب ہوا اور نا کنہیا کمار۔ کیوں ہمیں جانوروں سے بھی بدتر سمجھا جارہا ہے۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ میں جو کہا گیا تھا کہ اس ملک کا مسلمان دلتوں سے بھی پچھڑا ہوا ہے اس پر یقین پختہ ہوتا جارہا ہے کہ ہم ہر جگہ مصائب و مسائل سے نبرد آزما ہونے کے باوجود کوئی حل نہ تلاش کرسکے۔ یوں ہی پٹتے رہے، مارکھاتے رہے اور بے غیرتی کو صبر کا جامہ پہنا کر خاموش رہے۔ لائق تحسین ہیں وہ دلت لیڈران جنہوں نے اپنی قوم کو یکجا کرکے ظلم کے خلاف آج سینہ سپر ہیں۔ پونے میں باجی رائو پیشوا سوم کو ہرانے کی 200ویں برسی پر جمع تین لاکھ دلتوں کو مراٹھیوں کے نسلی تشدد کا شکار ہونا پڑا۔

اس تشدد کے بعد پورا مہاراشٹر سلگ اُٹھا۔ دلتوں نے خاموشی بہتر نہیں جانی بلکہ اپنے اوپر اس ظلم کا بدلہ لینے کے لیے کمر بستہ ہوگئے اور مہاراشٹر بند کا اعلان کردیا۔ہندوستان کا سب سےتیز رفتار شہر ممبئی ان کے خوف سے تھم گیا۔ پورے مہاراشٹر میں کہرام بپا ہوگیا۔ ہم پونے تشدد اور ممبئی سمیت مہاراشٹر تشدد کی مذمت کرتے ہیں لیکن ان دلتوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جنہوں نے اپنے بھائی کی ہلاکت کا بدلہ لے لیا، حکومت کو مجبور کردیا کہ ہمیں معاوضہ دے، ہمارے ساتھ انصاف کرے۔ اگر اسی طرح مسلمان اپنے اوپر ہونے والے مظالم کا پرامن طور سے بدلہ لیں تویقیناً حکومت کو زیر کرسکتے ہیں۔ مسلمانوں کی تعداد بھی کوئی کم نہیں ہے، لیکن ہمیشہ انتشار ہمارے آڑے آتا ہے، ہم میں اتحاد نہیں۔ ۔۔دلتوں میں اتحاد ہے۔۔۔خیر جو کچھ ہوا ان تین دنوں میں وہ  نہیں ہوناچاہئے تھا، لیکن ناگزیر حالات میں ہونا بھی ضروری ہوجاتا ہے۔۔۔۔ اب شاید حکومت ان دلتوں پر کچھ کاروائی کرنے کے بارے میں سوچے گی۔۔۔ہزار بار سوچے گی۔۔۔ان کا اتحاد انہیں خوف میں مبتلا کرے گا۔۔۔لیکن ہمارے تئیں وہ بے خوف ہوں گے۔

انہیں کوئی ڈر نہیں رہے گا۔۔۔اور مظالم کا سلسلہ یونہی جاری رہے گا۔ ۔۔اگر ہم اخلاق حسین کے قتل کے وقت ہی ہوشیار ہوگئے ہوتے تو نہ جھارکھنڈ میں نعیم مرتا، نہ پہلو خان مرتا، نہ حافظ جنید شہید ہوتا، نہ گلبرگہ میں موذن صاحب فرقہ پرستی کی بھینٹ چڑھتے۔ اگر ہم دلتوں کی ہی طرح یک جٹ ہوکر ایک جھنڈے تلے اپنے اوپر ہورہے مظالم کے خلاف احتجاج کرتے۔۔۔سڑکیں بند کرتے۔۔۔لاشوں کو اُٹھانے سے انکار کرتے۔۔۔تو شاید حکومت ہمارے عزائم کے سامنے سپر ڈال دیتی، لیکن ہم خاموش رہے۔۔۔چپ رہے۔۔۔حالات سے سمجھوتہ کرلیا۔۔۔! جس کے نتائج بھگت رہے ہیں، پانی گلے تک آ پہونچا ہے، شریعت عائلی اور خانگی مسائل تک محفوظ نہیں ہیں، طلاق ثلاثہ کو ختم کرنے کی سازش اس کی بین دلیل، سول کوڈ، یوپی کوکا، اس کانتیجہ اور شاخسانہ ہے۔

ملک کی سنگین صورت حال کو دیکھتے ہوئے اس نامساعد اور کسمپرسی کے عالم میں اگر ہندوستان کی دو پچھڑی قومیں متحد ہوجائیں تو برہمنی تسلط سے نجات مل سکتی ہے۔ انقلاب ہمیشہ ظلم کی چکی میں پسنے والی ہی قوم لاتی ہے۔مسلمان بھی کچھ کچھ بیدار ہوتے نظر آرہے ہیں ان میں بھی کنہیا کمار، جگنیش میوانی، ہاردک پٹیل کی طرح عمر خالد موجود ہیں۔ ۔۔اور بھی دیگر ہیں جو انقلاب لا سکتے ہیں۔ ۔۔اگر دلت مسلم اتحاد کے ذریعے قوم کو بیدار کیاجائے۔ ۔۔ہمیشہ چھوت چھات کی بیماری میں مبتلا رہنے والے دلتوں کو اگر ابھارا جائے، ان کے مکمل حقوق کی بازیابی کے لیے انہیں کمر بستہ کیا جائے تو امید کامل ہے کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ اتحاد کرلیں گے۔ اگر یہ اتحاد ہوجاتا ہےتو برہمنی تحریک، برہمنی عزائم، اور ہندو راشٹر کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے گا۔

اس کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان پہلے آپس میں اتحاد کریں۔ ۔۔اگر اپنے اوپر ہورہے مظالم کے خلاف خود متحد ہوگئے تو جلد ہی دلتوں سے اتحاد کی راہیں ہموار کی جاسکتی ہیں۔ ۔۔اور اس اتحاد سے قبل مسلمانوں کا اپنے مذہبی پیشوائوں، رہنمائوں، سے وہی محبت ضروری ہے جو آج برہمنی تحریک سے ہر وابستہ شخص نریندر مودی جی سے کرتا ہے۔۔۔ان کی غلطیوں کو درگزر کرکے سب یکجا ہیں۔ ۔۔تمام تر ناکامیوں کے باوجود ’نریندر مودی جی‘ آج ہندوئوں کے ہیرو ہیں، کیوں آخر ان کے ذہن ودماغ میں یہ بات چھائی ہوئی ہے؟ اس کے لیے بڑی کوششیں کی گئیں، تحریکیں چلائی گئیں، ناکامیاں ان کی محبت پر غالب نہیں آتیں۔ ۔۔۔ وہ اس سے الگ ہوکر سوچتے ہیں اور بنا کچھ کیے انہیں ہر جگہ کامیاب کراتے ہیں۔

وہی سوچ مسلمانوں میں بھی اپنے رہنمائوں کے تعلق سے ضروری ہے۔۔۔۔ اگر ہم اس میں کامیاب ہوگئے تو ان شاء اللہ ضرور بالضرور ہندوستان ہندو راشٹر سے دور ہوگا۔۔۔۔لیکن حالیہ کچھ دنوں سے جو تصویریں سامنے آرہی ہیں وہ دل کو غمگین کرنے والی ہیں۔ ۔۔طلاق ثلاثہ بل کے لوک سبھا میں پاس ہونے کے بعد مسلم نوجوانوں کی طرف سے علمائے دین کے تئیں جس طوفان بدتمیزی کا مظاہرہ کیاگیا وہ خون کے آنسو رلانے اور بدترین مستقبل کی نشاندہی کرنے والا ہے۔۔۔خدا ہمیں عقل سلیم عطا کرے اور اپنی قیادت پر مکمل اعتماد رکھنے والا بنائے۔۔۔ہمیں اس دور میں اگر مظالم سے نجات حاصل کرناہے تو چند چیزیں ضروری ہیں۔

آخر کب تک ہم گئو رکشکوں کے ظلم کا شکار ہوتے رہیں گے۔۔۔کب تک ٹرینوں میں پٹتے رہیں گے۔۔۔کب تک ہماری مائوں بہنوں کی چادریں تار تار ہوتی رہیں گی۔۔۔ظلم کے خلاف خاموش رہنا بھی ظالم کی حمایت کے زمرے میں آتا ہے اس لیے دلتوں سے سبق لیتے ہوئے اپنے اوپر ہورہے مظالم کے خلاف ہمیں آوازبلند کرنی ہے۔۔۔اس کے لیے ہمیں اپنی قیادت پر بھروسہ رکھتے ہوئے ان کے ساتھ چلنا ہے۔۔۔ ایسا نہیں ہے کہ ہمارے قائدین  خاموش بیٹھے ہوئے ہیں، وہ حالات پر گہری نگاہیں رکھے ہوئے ہیں، بس ضرورت انہیں ہمارے اعتماد کی ہے، اگر ہم نے ان پر سے اپنا اعتماد کھودیا تو یہ ا بلیس، دجال،مکروفریب کے حامی افراد ہم پر غالب رہیں گے اور ہماری حالت کبھی سدھرنے والی نہیں رہے گی، ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت شایدوہی ہوجائے جوبرمامیں ہوئی ہے۔

آج جو ہمیں ووٹ دینے کا حق حاصل ہے وہ بھی چھن جائےگا۔۔۔اس لیے اب ضرورت اتحاد کی ہے، اگر دلت مسلم آپس میں متحد ہوگئے تو برہمنی تسلط ختم ہوجائے گا۔ ۲۰۱۹ کے الیکشن کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک ایسا متبادل پیش کیاجائے جو بھگوا اور جینو دھاری دونوں سے نجات دلا دے۔ اور ہندوستان پھر سے گنگا جمنی تہذیب کا علمبردار ہوجائے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔