دنیا، عالم اسلام اور مسلمان

سید عبداللہ علوی بخاری اشرفی

ایک طرف کم و بیش ستر (۷۰) سالوں سے فلسطین، سترہ (۱۷) سالوں سے افغانستان، چودہ (۱۴) سالوں سے عراق اور اب لبنان، یمن، شام، روہنگیا، و سیریا ٗبے قصور مسلمانوں کے خون سے سرخ ہورہا ہے۔ یہ وہ ممالک ہیں جن پر اسلام مخالف طاقتوں نے سازشی طور پر منظم جنگیں مسلط کر رکھی ہیں ۔کبھی یہ جنگیں مسلم ممالک میں آپسی سیاسی مفادات کے حصول کے تحت کرائی گئیں تو کبھی مغربی ممالک نے اپنے سیاسی مقاصد کو پورا کرنے کے لیے مسلمانوں پر مشتمل تربیت یافتہ جنگجو افواج تشکیل دے کر انھیں جنگ میں استعمال کیا۔ ’’القاعدہ‘‘و’’داعش‘‘ اس کی مثالیں ہیں اوراس کی ایک مثال موجوہ وقت میں آئی ایس آئی ایس نامی دہشتگرد تنظیم ہے جو اسی کاز کو انجام دے رہی ہے۔ بظاہر مسلمانوں کا لبادہ اوڑھے مسلم نظر آنے والی یہ آلہ کار فو ج حقیقت میں یہود و نصاری ہیں جو اسلامی دنیا پر ایک جنگ مسلط کیے ہوئے ہے۔ تعجب ہوتا ہے کہ ان دہشت گردوں کو ظلم ڈھانے اور جنگیں کرنے کو دولت اور ہتھیار کیسے میسر آجاتے ہیں بالخصوص ان حالات میں جب کہ دنیا مالی زبوں حالی سے دو چار ہے اور دنیاکے ملکوں کی حفاظتی انتظامات اس قدر سخت ہیں کہ ایک چھوٹی سی پن تک کاسرحدوں سے پار لے جانا آسان نہیں ۔ ایسے میں ان دہشتگردوں کو بے حساب و کتاب اور تو اور جدید ترین ہتھیاروں کا وافر ذخیرہ کیسے میسر آرہا ہے ؟اوراس قدر دولت کیسے حاصل ہو رہی ہے؟ یہ یقینادنیا کی ان بڑی طاقتوں کی سازشی کارفرمائیاں ہیں جو اس مقصد کے تحت انجام دی جاری ہیں کہ اسلامی ممالک یا مسلم دنیا کو تباہی و بربادی کے ان غاروں میں ڈھکیل دیا ہے جہاں سوائے ہلاکتوں کے دوسرا کچھ نہیں۔

عالمی سطح پرآج پوری دنیا میں فقط قوم مسلم ہی ایک ایسی قوم ہے جو نسل کشی کا شکار ہے اوراسلامی حکومتیں ہی ایسی حکومتیں ہیں جو گذشتہ نصف صدی سے جنگوں سے جوجھ رہی ہیں ۔ قوم مسلم پر ہورہے مظالم پر زمین کا سینہ ہو یا سمندروں کی تہیں یا کہ آسمان کی وسعتیں سب مسلمانوں کی ان خوفناک ہلاکتوں پر ماتم کناں ہیں۔ ہواؤں میں اڑتے ہوئے انسانی جسموں کے چیتھڑے، میزائلوں کے تباہ کن دھماکوں سے تباہیوں اور بربادیوں کا اٹھتا ہوا دھواں ، آسمان سے آگ کے شعلے اگلتے ہوئے ہوائی حملے پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے خوں ریز مناظر کو دہرارہے ہیں۔ آج تک دنیا ان جنگوں کی یادوں کو تازہ کیے ہوئے درد و غم سے آزردہ ہے، آنکھیں آنسو بہارہیں ، زبانیں اور قلمیں مذمتیں کر رہی ہیں پر یہی دنیا مسلم ممالک کے موجودہ حالات سے بے پروا نظر آرہی ہے۔ اس دنیا کو اسلامی ممالک میں ڈھائے جارہے مظالم کیوں نہیں تڑپا رہے ؟ اس دنیا کو اسلامی ممالک کی تباہیاں و ہلاکتیں کیوں اشکبار نہیں کر رہیں ؟ اس دنیا کے دلوں کو اسلامی ممالک کی بربادیاں کیوں غمزدہ نہیں کر رہیں ؟ اس دنیا کو مسلم آبادیوں پر گرتے ہوئے میزائل و بم کیوں آزردہ نہیں کر رہیں ؟ مسلم بچوں کی خون میں آلودہ لاشیں ، کٹے پھٹے آدھے ادھورے جسم کیوں نہیں تڑپا رہے ؟ کیوں عالمی دنیا کی زبانیں و قلمیں گنگ ہو گئی ہیں ؟ کیوں عالمی دنیا کی آنکھیں ان مناظر پر بند اور خشک ہوگئی ہیں ؟ کیا اس لیے کہ مرنے والے، تباہ ہونے والے، لٹنے والے، ہلاک ہونے والے، برباد ہونے والے مسلمان ہیں ؟ شاید ہاں !  یا یقینا ہاں ؟  یہ تو اس دنیا کو ہی جواب دینا ہے۔

 مسلم ممالک کی آبادیاں کھنڈرات میں تبدیل ہو رہی ہیں ، شہر کے شہر ویران اور اُجاڑ قبرستانوں جیسے مہیب نظر آرہے ہیں ننھے بچوں کی خون میں لت پت لاشوں کے انبار روحوں کو تڑپا رہے ہیں ، زندہ بچے ہوئے لاکھوں یتیم و بے سہارا بچّے د رد و تکلیف سے چیختے پکارتے، خوف و ہراس سے لرزتے کانپتے مدد مانگتے نظر آرہے ہیں ۔ یہ وہ بچے ہیں جنھیں سر چھپانے کو چھت، کھانے کو روٹی کا ٹکڑا، پینے کو پانی کا قطرہ، تن چھپانے کوکپڑا، اور سہارے کو ماں و باپ کا سایہ تک میسر نہیں رہ گیا، یہ بے یار و مدگار آسرے کی تلاش میں سرگرداں پھر رہے ہیں ۔ یہ وہ بچّے ہیں جن کی عمریں دو (۲) سال سے چودہ، پندرہ (۱۴، ۱۵) سال کے درمیان ہے۔ یہ نونہال کسمپرسی کے حالات سے دوچارزندگی کی بھیک مانگتے پھر رہے ہیں ۔ کہیں یہ حال ہے کہ نوجوان نسلوں کو انتہائی اذیت ناک سزاؤں سے گذر ا جا رہا ہے، اور سزائیں بھی ایسی کہ جن کا تصور تک کبھی ذہن و گمان سے نہ گذرا ہو۔اسی پر بس نہیں یہ وحشی درندے جواں سال بچیوں کی عصمتوں کوبھوکے جنگلی خونخوار جانوروں کی طرح بے دریغ تار تار کر رہے ہیں ۔ یہ نوجوان بچے اور بچیاں تڑپ تڑپ کر، چیخ چیخ کر ا ن ظالموں سے رحم کی بھیک مانگ رہے ہیں ،مائیں بلک بلک کر، مچل مچل کر اپنے نو نہالوں کے ان ظالموں کے شکنجے سے بچانے کی سعیٔ لا حاصل کر رہی ہیں ۔ لیکن یہ ان کی یہ ساری کوششیں بس کوشش ہی بن کر دم توڑ جاتی ہیں ۔ یہ وہ دنیا ہے جہاں جانوروں کی نسل کی حفاظت کے لیے ان کے مارنے(شکار کرنے) کو جرم قرار دیا جاتا ہے لیکن انسانی نسلوں کو مٹانا کوئی جرم نہیں سمجھا جاتا۔ جانوروں کے تحفظ پر دنیا بھر میں احتجاج کر کے قوانین مرتب کیے جاتے ہیں لیکن مسلمانوں کے تحفظ کے لیے کوئی قانون، کوئی ضابطہ کوئی اصول تو درکنار کوئی مطالبہ تک نہیں کیا جاتا۔ امن عالم اور انسانی جانوں کی دہائیاں دینے والی عالمی تنظیمیں اندھی، گونگی اور بہری ہو چکی ہیں ۔

افسوس تو اس بات پر ہے، دکھ تو اس بات کا ہے بلکہ سب سے بڑا المیہ تو یہ ہے کہ اسلامی مما لک ان حقائق سے آگاہ ہونے کے باوجود اپنے ذاتی، سیاسی و ملکی مفادات کی خاطر ان تباہیوں پر راضی ہیں ۔مظلوموں کی مدد کرنے کے بجائے ظالموں کا ساتھ دے رہے ہیں ۔ اسلامی ممالک اپنی ہی قوم کے قاتلوں سے رشتے استوار کر رہے ہیں ۔ کہیں کوئی نام نہاد اسلامی ملک کسی اسلام دشمن طاقت کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اپنے رب کی پاکیزہ سر زمین پر گرجاو منادِر بنا کر دے رہا ہے تو کہیں ان کے لیے بستیاں بسائی جارہی ہیں تو کہیں کوئی اسلام مخالف لیڈران کو اپنی زمین پر دعوتیں دے کر بلارہا ہے اور ان سے سیاسی اور معاشی رشتے قایم کر رہا ہے توکہیں کوئی اسلامی ملک مسلمانوں پر حملے کے لیے اپنی زمین اوراپنا سرمایہ پیش کر رہا ہے اور کہیں کوئی اسلام کے سخت ترین دشمنوں سے دوستانہ تعلقات بنانے اور بڑھانے میں لگا ہوا ہے۔

یہ بدترین صورتِ حال عرب دنیا کے اُن اسلامی ممالک ہی کی نہیں جہاں اسلام مخالف طاقتیں مظالم کی لرزہ خیز تاریخ رقم کر رہی ہیں بلکہ دنیا کے ان ملکوں کا بھی حال اس سے مختلف نہیں جو خود کو جمہوری ملک کہلواتے ہیں اور اپنی سرزمینوں پر بلا امتیاز تفریق مذہب و ملت انسانوں کے جینے کے حق کی حمایت کرتے ہیں ، ان ممالک میں بھی مسلمانوں کے خون ناحق سے ہولیاں کھیلے جانے کا سلسلہ جای ہے۔ ان جمہوری ملکوں میں مسلمانوں کی منظم نسل کشی کے خوفناک واقعات وقفے وقفے سے رونما ہوتے رہتے ہیں ۔ غرض کہ پوری دنیا کے نقشے پر فقط قوم مسلم ہی ایک ایسی قوم ہے جو دنیا بھر کے اسلام دشمن عناصر کے لیے تختۂ مشق بنی ہوئی ہے۔ عالمی سطح پر مسلمان اِن ہولناک تباہیوں سے دوچار ہونے کے باوجود اجتماعیت اور اتحاد کے لیے آمادہ نہیں ۔

 آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم مسلمانان عالم عالمی سطح پر اپنے سیاسی، ملکی اور ملی مفادات طے کرتے ہوئے اپنی صفوں میں یکجہتی کی فضا ہموار کریں ۔ جہاں تک مذہبی اختلافات کا تعلق ہے تو یہ صبح قیامت تک ختم نہ ہوں گے کہ ان کی خبر حضور نبیٔ کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان فرمائی ہے سو جو فرمادیا گیا اس سے سرِ مو خلاف ہر گز نہ ہوگا لہٰذا مذہبی اتحاد کے بجائے ’’ اتحاد بنا م اسلام ‘‘ برائے مفادات اسلام و ملت، برائے تحفظ شریعت و شعاراسلام قایم کرنا ہوگا۔ آج ہم دنیا بھر میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف مگر مچھ کے آنسو کے مثل ان کے زخموں اور دردوں پر بطور اظہار ہمدردی’’ یوم دعا‘‘مناکر، میمورنڈم دے کر خود کو جھوٹی اور سستی شہرت پانے والی تسلیاں دے رہے ہیں ۔ اگر ہمیں قوم مسلم کی اس تباہی و بربادی اور جاں سوز ہلاکتوں کا حقیقی غم ہوتا تو ہم مسلمانان عالم    علی الاعلان عالمی اتفاق رائے قائم کر کے اظہار یکجہتی ظاہر کرتے۔ اور مغربی دنیا پر بالخصوص مسلم مخالف طاقتوں پر اپنے اتفاق و اتحاد اور یکجہتی کے ایسے اثرات مرتب کرتے کہ وہ خود کو یکہ و تنہا اور بے بس محسوس کرتیں حتیٰ کہ ہم اپنی قوم کو ان کے شر سے محفوظ کرالیتے۔

مگر افسوس ! صد افسوس ! آج ہماری بڑی مسلم طاقتیں اسلام مخالف طاقتوں سے سفارت اورسیاسی و معاشی تعلقات استوار کرنے میں مگن ہیں ۔ انھیں اپنے ملکوں میں بلا کر دعوتیں کھلائی رہے ہیں ، اورانھیں اعزازات سے نوازا جارہا ہے، انھیں تحفے تحائف دیے جارہے ہیں ۔ وہ ممالک جو ہماری قوم کا خون بہارہے ہیں ہم ان ہی سے تیل کا معاہدہ کر رہے ہیں ، وہ ممالک جو ہماری قوم کو تباہ و برباد کر رہے ہیں ہم ان ہی سے تجارتی معاہدے کر کے انھیں تقویت پہنچا رہے ہیں ۔ اسی پر اکتفا نہیں بلکہ مسلم دنیا میں ہو رہے ان مظالم پر چشم پوشا ں اور زبانیں گنگ کیے بیٹھے ہیں ۔ اُن کی امداد کے لیے اپنا خزانوں کے دروازے مقفل کر رکھے ہیں ، ان کے تحفظ کے لیے اپنی زمینی سرحدیں بند کر رکھی ہیں اور بالخصوص خود کو خادمین اسلام و مسلمانان عالم کہلانے والے کرسیٔ سلطنت سے چمٹے ان قاتلان امت کے خلوت میں مدد گار اور جلوت میں یار بنے ہوئے ہیں ۔

 اب ان حالات میں اس امت کے پاس ایک ہی راستہ بچ جاتا ہے اور وہ یہ کہ علمائے اسلام اپنا فریضہ منصبی ادا کریں ۔ علماء اور ان کی اقتدا میں عوام الناس آپسی اختلافات کے باوجود ایک ایسی مثالی اتفاق رائے قایم کریں جو نہ صرف ملکی بلکہ عالمی سطح پر ملت اسلامیہ کے تحفظ کو یقینی بنائے اور ہم اس اجتماعیت کے ساتھ ملی، سماجی، فلاحی، معاشی، اور سیاسی مفادات کے پیش نظر شریعت اسلامیہ کی روشنی میں ایک ایسا اتحادی محاذ قایم کریں جس سے ہمیں عالمی سطح پر ہمارے سبھی حقوق بآسانی حاصل ہوسکیں ۔ یہ کوئی ناممکن یا مشکل کام نہیں جس کی کوئی صورت نہ ہو۔ ہم سیاست میں ، تجارت میں ، ہرقسم کے ذاتی مفادات میں بالخصوص فرقہ وارانہ نازک حالات میں بلا امتیاز تفریق اس اتحاد و یکجہتی کا عملی مظاہرہ کرتے چلے آئے ہیں بس بات اتنی ہے کہ ہم نے کبھی اس یکجہتی و اتحادکے لیے منظم اور عملی عمداً قدم نہیں اٹھایا اور یہی وہ وقت ہے جب ہمیں اس سلسلے میں عمداً منظم اور عملی قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔

 ہم نے چیچنیا اور بوسینیاکے شہیدوں اور مسلمانوں کے لیے دعائیں مانگیں ، ہم نے عراق و افغانستان کے شہیدوں اور مسلمانوں کے لیے دعائیں مانگیں ، ہم نے لبنان و شام کے شہیدوں اور مسلمانوں کے لیے دعائیں مانگیں ، ہم نے روہنگیا کے شہیدوں اور مسلمانوں کے لیے دعائیں مانگیں ، اور اب ہم سیریا کے شہیدوں اور مسلمانوں کے لیے دعائیں مانگ رہے ہیں ۔ کیا ہم نے کبھی اپنی دعاؤں میں مسئلکوں کا لحاظ کیا ؟ ہم نے روہنگیا کے مسلمانوں کی مالی امداد کی کیا ہم نے کبھی اپنے مسئلکوں کا لحاظ کیا ؟ ہم نے اپنے ملک میں بارہا فرقہ وارانہ ماحول میں جانی و مالی امداد پیش کیں کیا ہم نے کبھی اپنے مسئلکوں کا لحاظ کیا ؟ نہیں کیا۔ جی! بالکل نہیں کیا۔ کرتے بھی نہیں ہیں اور کرنا بھی نہیں چاہیے کہ ہمارا دین، ہمارا مذہب، ہمارا رب، ہمارے نبی نے انسانیت کی دعوت، انسانیت کا پیغام اور انسانیت کا حکم دیا ہے۔ بس اسی جذبے کو یاد کرکے، ان ہی حالات کو یاد کر کے اس ضمن میں ہمیں آج مثبت قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اگر آج ہم متحد نہیں ہوئے تو شایدہم پھرکبھی متحد نہیں ہو پائیں گے۔

 یقینا بالیقین ! اسلام ایک آفاقی دین ہے کہ اس میں ان تمام امور کے شرعی احکام موجود ہیں جو صرف نہ قوم مسلم بلکہ اس دنیا کے جملہ تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

اے کاش! کچھ ایسا ہو جائے کہ کثرت میں وحدت پیدا ہوجائے۔

تبصرے بند ہیں۔