دنیا کی نظر کرناٹک پر

مدثر احمد شیموگہ

ملک کے مختلف مقامات پر ہونے والے انتخابات میں جس طرح سے بھگوا پارٹی بی جے پی نے اقتدار حاصل کیا ہے اور اس پارٹی کے ذریعے چلائی جارہی حکومتوں کے نتائج دیکھے جارہے ہیں اس کاخمیازہ نہ صرف لک کے پسماندہ، دلت اور اقلیتوں کو اٹھانا پڑ رہاہے بلکہ ملک کی 85 فی صد سیکولر عوام کو بھی ہورہاہے اور سارے ملک میں ایک طرح سے تبدیلی کی مانگ ہورہی ہے۔ ملک کی عوام اب جمہوریت کو بچانا چاہ رہے ہیں اور عوام کی پوری کوشش ہے کہ آنے والی حکومتیں ملک کی بقاءکے لئے قائم ہوں نہ کہ مذہب اور گروہوں کی بنیادوں پر بنی رہیں۔ اس کے باوجود بھی کہیں کہیں عوام کسی نہ کسی طرح کے بہکاوے میں آکر ملک کی سالمیت کو بچانے میں ناکام ہورہی ہے۔

فی الوقت ہندوستان میں جو نظام قائم ہے وہ ماضی میں جرمنی کے دورے کی طرح ہے جس میں اڈولف ہٹلر نے سارے جرمنی پر قبضہ جماتے ہوئے دنیا کی تباہی کا سبب بنا ہوا تھا بالکل اسی طرح آج جو فاشسٹ حکومتیں ملک میں حکومتیں چلائی رہی ہیں وہ ملک کو تباہی کے دہانے پر لے جارہے ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ اڈولف ہٹلر آمریت کا علمبردار تھا جبکہ ہندوستان میں منتخب شدہ نمائندے ہیں۔ مگر ہر دور میں فرعون آئے ہیں، شداد کا زمانہ بھی گزرا ہے لیکن ہمیشہ حق نے باطل پر فتح حاصل کی ہے۔ باطل پر حق کو فتح دلوانے کے لئے کسی بھی دور میں صرف خدائی مدد نازل نہیں ہوئی بلکہ خدا کے بندوں نے بھی اپنے آپ کو حرکت دی اور جنگ، حکمت اور طاقت کا سہارا لیا ہے۔ اب سارے ہندوستان کی عوام کے سامنے بھی اسی طرح کے حالات پیدا ہوئے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو سکت دیں اور باطل کے خلاف محاذ آرا ہوجائیں۔

ملک میں اگلے اہم انتخابات کر ناٹک کے ہیں اورکرناٹک اسمبلی انتخابات میں بی جے پی اپنا سکہ جمانے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے، کرناٹک کے انتخابات پر نہ صرف ہندوستانیوں کی نظر یں جمی ہوئی ہیں بلکہ یہ انتخابات بین الاقوامی اہمیت کے حامل ہیں، بین الاقوامی تجزیہ نگار، سیاسی ماہرین اور مبصرین کے علاوہ دیگر ممالک کے حکمران اس بات کو دیکھنا چاہتے ہیں کہ کیا واقعی میں بی جے پی ہندوستانیوں کی پہلی پسند ہے ؟یا پھر وہ اس بات کو جائزہ لینا چاہ رہے ہیں کہ کیا کرناٹک کی عوام سیکولر جماعتوں سے زیادہ فاشسٹ یعنی فسطائی حکومتوں کے ساتھ جڑنا چاہتی ہے۔ ایک طرف سے سب کی نظر کرناٹک کے اسمبلی انتخابات پر ہیں تو دوسری جانب بی جے پی کرناٹک کی سیکولر عوام کے جذبات کے ساتھ کھلواڑ کرنے کے لئے ہر طرح سے کوششیں کررہی ہے جس کے تحت وہ نہ صرف دھن اور سنگھ کا استعما ل کررہی ہے بلکہ انتخابی میدان میں یم ای پی جیسی سیاسی جماعتوں کو بھی اتاررہی ہے۔

بی جے پی اس بات کو بخوبی جانتی ہے کہ کرناٹک میں مسلمان دوسری بڑی طاقت ہیں اور انہیں کہ ووٹ اکثر علاقوں میں فیصلہ کن ہیں اس وجہ سے وہ مسلمانوں کے ووٹوں کو ہی وہ کچھ خود ساختہ سیاسی جماعتوں کی آڑ میں ووٹوں کا بٹوارہ کررہی ہے، کچھ سیاسی جماعتوں کو خرید کر اور کچھ امیدواروں کو اپنے اشاروں پر میدان میں اتار چکی ہے ایسے میں مسلمانوں کو جذبات سے نہیں بلکہ ہوش سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ یقینا مسلمانوں کے پاس ایسی کوئی مخصوص سیاسی جماعت نہیں ہے جس کے دم خم پر وہ فرقہ پرستوں کا مقابلہ کرسکتے ہیں، اگر ہیں بھی تو یہ ناممکن بات ہے کہ مسلمانوں کی سیاسی جماعت کرناٹک ہی نہیں بلکہ ملک کے کسی بھی علاقے میں اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کرسکے کیونکہ مسلمانوں کی سیاسی جماعت کو مسلمان ہی ووٹ دے سکتے ہیں نہ کہ غیر، اگر ایسا ہوتا تو ہندوستان کی سب سے قدیم سیاسی جماعت مسلم لیگ آج اپنے وجود کی آخری سانسیں نہیں لیتی۔

ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جہاں پر مختلف مذاہب، مختلف ذات اور مختلف خیالات کو ماننے والے ہیں ایسے میں ہم یہ مان کرچلیں گے کہ مسلمانوں کی ہی سیاسی جماعت ہو اور ہم اس کی ہی تائید کرینگے تو یہ سوچ پوری طرح سے غلط ہے۔ اگر واقعی میں مسلمانوں کو اپنے سیاسی وجود کا مظاہرہ کرنا ہوتو اس کے لیے بنیادی سطح سے تیاریاں کرنی ہوگی، جائزہ لیں کہ ہماری قوم کے کتنے لوگ گرام پنچایت، ٹاﺅن پنچایت، تعلقہ پنچایت، میونسپل کاﺅنسل، ٹاﺅن کاﺅنسل اور کارپوریشن میں قیادت کررہے ہیں۔ یہ وہ ادارے ہیں جہاں پر مسلمانوں کو اپنی طاقت اور حکمت کے ذریعے سے بڑی تعداد میں قیادت کے لئے موقعے فراہم کئے جاسکتے ہیں لیکن آج کل یہ دیکھا جارہاہے کہ ہر کوئی یم یل اے اور یم پی بننے کی دھن میں ہے۔ جب ہمارا پایہ ہی مضبوط نہ ہو اور مختلف اداروں کی اینٹوں کو دیواروں کی طرح تیار نہ کیا جائے تو سیدھے یم یل اے اور یم پی کی چھت کیسے بنے گی۔

سب سے پہلے ہمیں بنیادوں کو مضبوط کرنا ہے اور جو سیاسی جماعتیں فرقہ پرستوں کی طاقت کو کمزور کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اسکی تائید کرنی چاہئے ورنہ کرناٹک میں بھی محمد اخلاق کی طرح لوگ مارے جائینگے، مظفر نگر کی طرح ہر شہر میں ظلم و بربریت قائم ہوگی اور ہم صرف افسوس ہی کرتے رہینگے اور یہ کہیں گے کہ کا ش ہم نے صحیح فیصلہ لیا ہوتا اور جذبات سے کام نہ لیا ہوتا۔ اس وقت کی سوچ ہمارے کچھ نہ کا م آئیگی اور ہم مظلوم ہی رہینگے اور ظالم ہم پر مسلط ہوگا۔ کرناٹک سمیت ملک کی تمام عوام ان باتوں پر غور کرتے ہوئے سیاسی حکمت عملی تیار کرے تو یقینا اس ملک کی بقاءممکن ہے اور ہم یہاں سکون سے سانس لے سکتے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔