دوخبریں، دو کہانیاں اور الیکٹرانک مفکرین کی گل افشانیاں!

نایاب حسن

9؍مئی کوجمعیت علماے ہند(م)کی نمایندگی میں ایک وفد نے پی ایم مودی سے ملاقات کی،مودی وزیر اعظم ہیں تو ان سے ملناملانا کوئی انوکھامعاملہ نہیں ہونا چاہیے تھا،مگر بعض اسباب ایسے تھے کہ جن کی وجہ سے اس ملاقات پر سوالات اٹھنایقینی تھا۔ویسے سوالات کرناکوئی قابلِ اعتراضـ بات نہیں ہونا چاہیے،سوالات سے ہی انسان کا ذہن کلیئر ہوتااور شکوک و شبہات ختم ہوتے ہیں ۔فی الوقت میرے پیش نظرملاقات کی مثبت یا منفی توجیہ نہیں ہے،ملاقات کے بعد منظرِعام پر آنے والی دوخبریں میرے پیشِ نظرہیں ،جن کی وجہ سے سوشل میڈیاسمیت زمینی سطح پرباشعور حلقوں میں بھی ایک ہنگامہ خیز کیفیت پیدا ہوئی۔پی ایم اوسے اس ملاقات پر ایک پریس نوٹ جاری کیاگیا،جس میں متعددایشوزپروفدکے (مبینہ)خیالات کی ترجمانی کی گئی،اس پریس نوٹ میں کہاگیا کہ وفدنے ہندوستان کے ترقیاتی سفر میں مسلمانوں کی شمولیت کا یقین دلایا،قومی سطح پر مودی کی مقبولیت کا اعتراف واقرارکیا،ان کی حکومت میں ملک کے تمام طبقات کی ترقی و خوشحالی کے یقین کا اظہار کیا،دہشت گردی کو دنیااور ہندوستان کا سب سے بڑا خطرہ مانتے ہوئے ہندوستانی مسلمانوں کی جانب سے یہ عہد کیاگیا کہ وہ اپنے ملک کی سلامتی کے حوالے سے کوئی سمجھوتانہیں کریں گے اورنہ ایسی کوئی سازش کامیاب ہونے دیں گے،جوملک کی سلامتی کے لیے نقصان دہ ہو.

کشمیر کی صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انھوں نے کہاکہ صرف مودی مسئلۂ کشمیرکاکوئی حل نکال سکتے ہیں (Expressing concern at the situation in Kashmir valley, members of the delegation said that only Prime Minister Narendra Modi can resolve the issue)تین طلاق کے معاملے پر اس وفد نے مودی کے موقف کی تایید کی(They appreciated the Prime Minister’s stand on the issue of Triple Talaq)بعض تعلیمی اداروں کے سربراہ ممبرانِ وفد نے حکومت کے منصوبوں اور اقدامات کے تحت ان کے تعلیمی اداروں کوحاصل ہونے والے فائدوں کا ذکر کرتے ہوئے مودی کے کیش لیس ٹرانزیکشن،اسٹارٹ اپ انڈیااور ہیکاتھون جیسی اسکیموں کی تعریف و تحسین کی، وفد نے موجودہ وفاقی حکومت کے ذریعے اقلیتوں کی فلاح و بہبود کے لیے کیے جانے والے اقدامات کے تئیں بھی اطمینان کا اظہار کیا،اس سرکاری پریس نوٹ کے اخیر میں مودی کے حوالے سے لکھاگیاکہ انھوں نے ہم آہنگی اور باہمی میل ملاپ کو جمہوریت کی طاقت قرار دیتے ہوئے اس بات پر زوردیاکہ حکومت  اپنے شہریوں کے مابین کسی قسم کی تفریق و جانب داری کا معاملہ نہیں کر سکتی،انھوں نے یہ بھی کہاکہ کثرت میں وحدت ہندوستان کی خصوصیت ہے،انھوں نے کہاکہ ہندوستان کی نئی جنریشن کو عالمی سطح پر ابھرنے والے شدت پسندی کے رجحان سے ہرگزمتاثر نہیں ہونا چاہیے،سرکاری پریس نوٹ میں دوسری باربھی تین طلاق کا ذکر ہے اور کہاگیاہے کہ پرائم منسٹر نے زوردیتے ہوئے کہاکہ مسلمان تین طلاق کے مسئلے کو سیاسی مسئلہ نہ بننے دیں اور وفد کے ارکان سے کہا کہ وہ اس سمت میں اصلاحی اقدامات کے لیے کمربستہ ہوجائیں ۔

میں نے جوکچھ لکھاہے ،وہ اسی پی ایم اوکے پریس نوٹ کی ترجمانی یامفہوم ہے،جسے براہِ راست http://www.pmindia.gov.in/en/news_updates/leaders-of-jamiat-ulama-i-hind-call-on-pmپردیکھاجاسکتاہے،مذکورہ سائٹ پر یہ خبر 9؍مئی کو ہی اپ لوڈ کی گئی،جبکہ10؍مئی کو ملک بھر کے ہندی و انگریزی کے اخبارات میں اسی خبریا اس کے ترجمے کو چلایاگیا،اردووالوں نے اپنے اپنے حسبِ منشااس خبر میں ’’کتربیونت‘‘ کرکے چھاپا۔دوسری طرف ملاقات کے بعد جمعیت کی جانب سے بھی پریس نوٹ جاری کیاگیا،ساتھ ہی اہم ایشوزپر وزیر اعظم کوایک مکتوب بھی دیاگیا،مگر حیرت کی بات ہے کہ یہ والاپریس نوٹ(اورخط) پی ایم اوکے پریس نوٹ سے خاصا الگ تھا اور بعض باتیں ایسی تھیں ،جن کا سرکاری خبر میں کوئی ذکر ہی نہیں تھا۔مثلاً تین طلاق کے حوالے سے جمعیت کے پریس نوٹ میں یہ لکھاگیاکہ ’’وزیر اعظم نے وفد کے اس موقف کی تایید کی کہ تین طلاق مسلمانوں کا اندرونی معاملہ ہے اور اس سلسلے میں خود مسلمانوں کو اصلاحی اقدامات کرنے چاہئیں ‘‘۔جمعیت کے مطابق وزیر اعظم گئورکشاکے نام پر ملک میں نفرت پھیلانے کے ماحول پر دکھی تھے اور انھوں نے اس عزم کا اظہار کیاکہ وہ ایسے عناصر کو پنپنے نہیں دیں گے؛حالاں کہ پی ایم اوکی خبر میں دوردورتک گئورکشاکے نام پر ہونے والی دہشت گردی کا کوئی ذکر نہیں ہے،البتہ اس کی جگہ مذہبی شدت پسندی یا دہشت گردی کا ذکر ہے اوراس ضمن میں ٹارگیٹ مسلمان ہی ہیں ۔پی ایم اوکے پریس نوٹ میں ذکرہے کہ وفد نے مرکزی حکومت کی جانب سے اقلیتوں کے لیے چلائی جانے والی فلاحی اسکیموں کے تئیں اطمینان کا اظہار کیا،جبکہ جمعیت کے پریس نوٹ میں ایسی کوئی بات مذکورنہیں ہے۔

 اب عام آدمی تو ان دونوں پریس نوٹس کودیکھ کر چکرائے گاہی نا!میرا ماننا یہ ہے کہ مودی نے جمعیت کے وفد کی پھرکی لی اور ان لوگوں نے باہر آکراپنے لوگوں کی پھرکی لی۔تین طلاق کا مسئلہ اس وقت ہندوستانی سیاست و میڈیاکے لیے ’’ہاٹ کیک‘‘بناہواہے،مودی اینڈکمپنی نے بڑی چابک دستی سے جمعیت کے سروہ بات منڈھ دی ہے،جو یقیناً انھوں نے نہیں کہی ہوگی؛کیوں کہ اس کا موقف بھی تین طلاق کے ہونے کاہے،نہ کہ نہ ہونے کا۔جمعیت پر اشکال و اعتراض کے لیے سب زیادہ پی ایم اوکے پریس نوٹ کے اسی حصے کوبنیاد بنایاجارہاہے۔اصل بات کیاہے؟مودی -جمعیت میٹنگ میں کیاباتیں ہوئیں ،کن امور پر تبادلۂ خیال ہوااور کن منصوبوں پر عمل کرنے کی باتیں کی گئیں ،اس تعلق سے اگر جمعیت کے وفداور پی ایم او کی طرف سے مشترکہ پریس اعلامیہ جاری ہوجاتا تومعاملے کو صحیح طورپرسمجھا جاسکتاتھا،مگرچوں کہ ایسا نہیں ہوااور دونوں طرف سے ایک ہی میٹنگ کی دوبالکل علیحدہ علیحدہ خبریں جاری کی گئیں ،تو لوگوں کا کنفیوژڈیا بدظن ہونا یقینی ہے۔یہ ذمے داری جمعیت کی ہے کہ اگر وہ’’بزعمِ خویش‘‘تمام ہندوستانی مسلمانوں کی نمایندگی اور حکومت کے ساتھ مسلمانوں کے لیے ڈائیلاگ کا دروازے کھولنے گئی تھی، تواس پیچ کو سلجھائے، واضح کرے کہ میٹنگ میں کیاباتیں ہوئی تھیں ،پی ایم آفس سے ریلیزہونے والی خبر سچی ہے یا جمعیت کی پریس ریلیز،اسے بہرحال صاف ہونا چاہیے۔

     اس ملاقات کے سلسلے میں مسلمانوں کے معروف انگریزی اخبار ’’ملی گزٹ‘‘نے ایک اہم امر کی طرف توجہ دلائی ہے۔اخبار لکھتاہے کہ مودی کے حکومت میں آنے کے بعدکے ابتدائی دنوں میں جمعیت (م)کے ہیڈکوارٹرمیں کم ازکم تین اعلیٰ سطحی میٹنگز ہوئی تھیں ،جن میں متفقہ طورپر یہ طے کیاگیا تھاکہ ایسے شخص سے کوئی بھی مسلم جماعت نہیں مل سکتی،جو نہ صرف گجرات فسادات کا ملزم ہے؛بلکہ گجرات میں فرضی انکاؤنٹرس اور ملک میں نفرت انگیز ماحول بنانے میں بھی اس کا اہم رول ہے،مگر اب انھوں نے ضرورت محسوس کی کہ پی ایم سے ملنا چاہیے؛چنانچہ ایک وفد لے کر ملنے کا فیصلہ کیا؛لیکن اس وفد میں ہندوستان بھر کی دوسری کسی بھی نمایندہ مسلم تنظیم مثلاً مسلم مجلسِ مشاورت،جماعتِ اسلامی ہند،مرکزی جمعیتِ اہل حدیث یادوسرے ادارے مثلاً مسلم پرسنل لابورڈیا دارالعلوم دیوبند وغیرہ کو شامل نہیں کیا گیا۔ (http://www.milligazette.com/news/15599-jamiat-s-mahmood-madani-group-meets-narendra-modi-breaks-muslim-ranks)  یہ ایک اہم بات ہے،ظاہر ہے کہ ہندوستانی مسلمان کئی خانوں میں بٹے ہوئے ہیں اور ہرخانے کے اپنے نمایندے ہیں ،توکسی ایک تنظیم کی طرف سے یہ دعویٰ کیسے کیاجاسکتا ہے کہ وہ تمام ہندوستانی مسلمانوں کی نمایندگی کرتی ہے،ملناہی تھا،توپہلے مذکورہ اہم اداروں کے ذمہ داران سے تبادلۂ خیال ہونا چاہیے تھا،ایک مضبوط ایجنڈہ بناناتھا اور پھر ملنا تھا۔ایک چیزاور سمجھ نہیں آئی کہ یہ وفد جب پی ایم سے ملنے گیا تھا،تواس میٹنگ میں قومی سلامتی کے مشیراجیت ڈوبھال کیوں موجودتھے اوراتناہی نہیں ،انھوں نے وفدکو ایڈریس بھی کیا۔

 پی ایم اواور جمعیت کی خبروں میں واضح تضاد کی وجہ سے قارئین کواپنی رائے قائم کرنے میں بھی سخت مشکل کا سامنا کرنا پڑا اور زیادہ تر لوگوں نے پی ایم او کی خبر(جومین اسٹریم میڈیاکے تمام مطبوعہ و برقی ذرائع پر نشر ہوئی تھی)کی بنیاد پر جمعیت کو اپنی زبان و قلم کی زدپرلینا شروع کردیا،نوبت یہاں تک پہنچی کہ اعتراض الزام میں بدلااور الزام اتہام میں تبدیل ہوتا چلا گیا،وہ لوگ،جو اعضاوجوارح سے اپنی بہادری،غیرت اور حمیت کا مظاہرہ نہیں کر سکتے،انھوں نے سوشل میڈیاپر اپنی انگلیوں کے سہارے مولانامحمودمدنی اور ان کے خیمے کو اُدھیڑنے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی،دوسری طرف خودان کے عقیدت کیش وارادت مندلوگ بھی فیس بک ،واٹس ایپ وغیرہ جیسے ہتھیاروں سے اپنے مخالفین کی ایسی تیسی کرتے نظرآئے،کچھ لوگوں نے اس کے پردے میں نظریاتی بغض نکالا،توکسی نے خاندانی وادارہ جاتی اختلافات کے ذہنی پس منظرمیں لاف زنی کی،وہ لوگ بھی مدح خوانی یا ہرزہ سرائی کی انتہاؤں پر نظرآئے ،جنھیں اپنے بارے میں سنجیدہ و حقیقت پسند ہونے کاگمان ہے اور یہ باور کراتے پھرتے ہیں کہ ہم  اعتدال پسندہیں ،حیرت کی بات ہے کہ سوشل میڈیاکے بعض ’’جیالے اور جیالیوں ‘‘نے محمودمدنی کی اس ملاقات کا سراجمعیت کی پوری سوسالہ تاریخ سے ملادیااور یہ کہاگیاکہ جمعیت کی تاریخ ہی کانگریس کی حاشیہ نشینی و کاسہ لیسی کی رہی ہے وغیرہ۔

میرے حساب سے جمعیت کی تاریخ کو تین ادوار میں تقسیم کیا جا سکتاہے،ایک دوراس کی تاسیس سے لے کر مولاناحسین احمدمدنیؒ کی وفات اوراس کے بعد1973تک درازہے،اس کے بعدسے مولانااسعدمدنی کا دورِ صدارت شروع ہوتاہے،جوان کی وفات2006)ء( تک کومحیط تھا،اس کے بعدسے اب تک کے دورکوتیسرادور قراردیاجاسکتاہے۔پہلے دورمیں جمعیت کاکردار نہایت روشن،شفاف تھا،آزادیِ ہند کے حوالے سے اس کے رہنماؤں کی قربانیاں بے مثال اور لازوال تھیں ،کچھ لوگ تھے،جو انگریزوں کے لطف و عنایت کے مزے اڑاتے اور مسلمانوں کی ترقی کے لیے فلسفے چھانٹتے تھے،جبکہ دوسری طرف ملک کی آزادی کی خاطر حسین احمد مدنی اور ان کے جیسے دوسرے لوگوں کی جماعت مالٹاکی جیل سے لے کر ہندوستان کے چپے چپے کی خاک چھانتی پھررہی تھی ،انہیں غیروں سے زیادہ اپنوں کی گالیوں ،پھبتیوں اورمظالم کا سامنا کرنا پڑا،پنجاب میں مولانامدنی کی ڈارھیاں نوچی گئیں ، تھپڑمارے گئے، انگریزوں کا ایجنٹ اور ہندووں کاپٹھوتک کہاگیا،حقائق کیاتھے،وہ جاننے والے جانتے ہیں ،جونہیں جانتے ہیں ،انھیں تاریخِ آزادیِ ہند کے ہر پہلوکاگہرائی کے ساتھ مطالعہ کرنا چاہیے۔حسین احمدمدنی اورجمعیت نے کانگریس کے متحدہ قومی نظریے کی حمایت کسی لالچ میں ہرگزنہ کی تھی،لالچ میں کرتے توآزادی کے بعدیقیناً وہ نئی تشکیل پانے والی حکومت میں وزارتوں کے حصول کے لیے اپنے دعوے پیش کرتے ،مگروہ حسین احمدمدنی ہی تھے،جنھوں نے نہ صرف آزادی کے بعد سرگرم سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلی ،درس و تدریس اور ذکروتذکیرمیں مشغول ہوگئے؛بلکہ حکومت کی طرف سے ملنے والے اعلیٰ ترین شہری اعزازکوبھی یہ کہہ کر لینے سے انکار کردیاکہ تحریکِ آزادی میں ان کی شرکت صلہ و ستایش کے حصول کے لیے نہ تھی؛بلکہ وہ اپنے ہم وطنوں کو انگریزی استبداد سے آزاد کرواناچاہتے تھے۔

جمعیت کا دوسرا دورپہلے دور جیسا نہیں تھا، اس دورمیں بہت سی خامیاں اِس ادارے میں گھستی چلی گئیں اور اب تیسرا دورتوہم دیکھ رہے ہیں ،اس کاکچاچٹھابھی ہمارے سامنے ہے،یہ دوردوسرے دورسے بھی زیادہ اندوہناک ہے۔اب جمعیت(م)اور مودی کی ملاقات یا موجودہ دونوں جمعیتوں میں سے کسی پربھی تعریفی یاتنقیدی تبصرہ کرتے وقت موجودہ دورکے حقائق کوہی سامنے رکھنا چاہیے اور انہی کے مطابق تبصرہ کرنا چاہیے ،تبصرہ بھی ایسا ہونا چاہیے کہ وہ تبصرہ ہی کہلانے کا مستحق ہو،مخالفت میں گالیوں کی باڑھ لگانایا تعریف میں آسمان و زمین کے قلابے ملاناتبصرہ ہرگزنہیں کہلاسکتا۔ ایک اسی موضوع کی بات نہیں ہے،کسی بھی علمی یاتاریخی موضوع پر لکھنے یابولنے سے پہلے اس سے کماحقہ آگاہی ضروری ہے،کسی ایک پہلو کو سامنے رکھ کر یاادھ کچری معلومات کی بنیادپر ہم کوئی رائے قائم نہیں کرسکتے،ورنہ سوشل میڈیاپرجہاں تہاں بیٹ کرنے والے توبھرے پڑے ہیں ،انہی میں آپ،ہم بھی شامل ہوجائیں ،توکوئی کیاکرسکتاہے۔ ایک اوربات ،جوبطورِخاص ہم نوجوانوں کوسامنے رکھنے کی ہے،وہ ہے اعتدال پسندی،’’آپ اپنے نظریاتی حریفوں کے ساتھ شدت سے اختلاف کیجیے، مگرگالیاں تونہ دیجیے‘‘۔(جون ایلیا)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔