دور تک اندھیرا ہے!

حفیظ نعمانی

ہر کسی کے کام کرنے کا اپنا طریقہ ہوتا ہے۔ وزیر اعلیٰ یوگی کا بھی اپنا طریقہ ہے وہ جب سے آئے ہیں انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ اکھلیش یادو، مایاوتی اور ملائم سنگھ نے اترپردیش میں کیا نہیں کیا؟ بلکہ یہ دیکھا کہ جو کیا اس میں کتنا گھپلا ہوا ٹھیکیداروں نے کیا کھایا، انجینئروں نے کتنی بے ایمانی کی اور منتری یا مکھ منتری نے کیا لیا؟ اس کے لئے تین تین ماہروں کی کمیٹیاں بنا رہے ہیں اور لاکھوں روپئے خرچ کرکے یہ معلوم کریں گے کہ اس کام میں کتنا خردبرد ہوا؟ ہم کسی بھی رپورٹ سے پہلے مانے لیتے ہیں کہ خرد برد ہوا اور سب نے بے ایمانی کی تو کون ہے جو پھانسی لگائے گا؟ ایسے کاموں کو اور ایسے الزامات کو جب عوام تسلیم کرلیتے ہیں تو حکومت بدل دیتے ہیں ۔ اور بے ایمانی کے الزام میں 2014 ء میں کانگریس کی حکومت ختم کرکے مودی سرکار بنادی تھی اسی طرح اترپردیش میں اکھلیش حکومت ختم کرکے یوگی سرکار بن گئی۔

مودی جی نے بھی یہی کیا کہ جن الزامات کے کھٹولے پر بیٹھ کر کانگریس سے حکومت لے لی لیکن تین برس ہوگئے کسی کو نہ سزا دلائی اور نہ جرمانہ کرایا بلکہ تحقیقاتی کمیشنوں پر لاکھوں روپئے خرچ کردیئے یا یوں کہا جاے کہ اپنے دوستوں کو تحقیقاتی کمیشن کا ذمہ دار بناکر انعام دے دیا۔ یہی ان کے چیلے یوگی کررہے ہیں کہ سنگھ پریوار کے پڑھے لکھے دوستوں کو کمیشن بنا بناکر دے رہے ہیں اور دوستی کا حق ادا کررہے ہیں ۔

وزیر اعلیٰ نے سب سے پہلے حلف لے کر گومتی کے وہ کنارے دیکھے جن کو اکھلیش یادو نے الیکشن سے پہلے ٹی وی کے ذریعہ عوام کو دکھایا تھا کہ دیکھو جہاں گندگی کوڑے کے ڈھیر تھے، جہاں سے آدمی ناک پر رومال رکھ کر گذرتا تھا ہم نے اسے لکھنؤ میں تفریح کا سب سے بڑا اور خوبصورت مرکز بنا دیا اور واقعہ یہ ہے کہ ہمارے بچوں نے ہم سے کہا کہ ایک شام کو آپ کو لے جائیں گے اور دل بہلائیں گے۔

وزیر اعلیٰ نے وہاں جاکر کرسی بچھائی اور حکم دیا کہ تحقیق کی جائے کہ اس میں سرکار کا کتنا روپیہ خرچ ہوا اور معلوم کیا جائے کہ یہ کام کتنے خرچ میں ہوسکتا تھا؟ اور نتیجہ وہی نکلے گا کہ رپورٹ میں بتا دیا جائے گا کہ اس بے فیض کام میں پانچ کروڑ روپئے زیادہ خرچ ہوئے۔ اور حاصل صرف یہ ہوگا کہ تحقیقات کرنے والے کمیشن پر 50  لاکھ روپئے خرچ ہوجائیں گے۔ یہی کام یوگی جی نے قبرستان کی حدبندی کا جائزہ لینے کے لئے کیا ہے کہ تین دوستوں کو پورے صوبہ کی تحقیقات سپرد کردی اب وہ سرکاری گاڑیوں پر شہر شہر قصبہ قصبہ گائوں گائوں جائیں گے یا بغیر گئے ڈاک بنگلہ یا پانچ ستارہ ہوٹل میں بیٹھ کر رپورٹ بنادیں گے کہ کتنا روپیہ خرچ ہوا اور کتنے روپئے میں اس سے اچھی دیوار یں بن سکتی تھیں ؟

وزیر اعلیٰ نے یہ کہا ہے کہ وزیر اعظم نے الیکشن کے موقع پر اپنی تقریروں میں کہا تھا کہ دیواروں کے نام پر کسانوں کی زمین قبرستان میں شامل کرلی گئی ہے۔ جبکہ وزیر اعظم نے ایک تقریر میں بھی یہ نہیں کہا تھا انہوں نے ہر جگہ یہ کہا کہ جب قبرستان کو زمین دے رہے ہو تو شمشان کو بھی دو جب رمضان میں بجلی دے رہے ہو تو دیوالی میں بھی دو۔ یہ تو ہم نے اور ہم جیسوں نے لکھا تھا کہ ایک اِنچ زمین بھی کسی قبرستان کو نہیں دی گئی اور آج نہیں آزادی کے بعد دہلی کے بارڈر پر تو ایک قبرستان نوئڈا اور گریٹر نوئڈا کی آبادی کے لئے بنایا گیا ہے۔ ورنہ جتنے بڑے قبرستان ہیں ان کا ریکارڈ وقف بورڈ میں ہے اور اب تحقیقاتی کمیٹی بنانے کے بجائے محسن رضا صاحب سے معلوم کرالیا جاتا کہ ملائم، مایا اور اکھلیش کے زمانہ میں قبرستان کی زمین ہندو ٹھیکیداروں نے ہضم کی یا مسلمانوں کے قبرستان کو دی گئی اس سے دودھ اور پانی سامنے آجاتا۔ اب اس بات کی تصدیق محسن رضا صاحب سے کرانے کے بجائے اپنے تین دوستوں کو تحقیقات کے نام پر لاکھوں روپئے دینے کی کیا ضرورت تھی؟

وزیر اعلیٰ اگر اپنے شہر میں دیکھنا چاہیں تو گورکھ پور میں دیکھ لیں اور لکھنؤ میں دیکھنا چاہیں تو محسن رضا صاحب کو ساتھ لے کر اور وقف کا رجسٹر ساتھ رکھ کر دیکھیں کہ عیش باغ کا قبرستان کتنی زمین میں وقف تھا اور کتنی زمین پر ہندو بھائیوں نے قبضہ کرلیا ہے اور گومتی نگر کے گنج شہیداں کی کتنی زمین پر مکان بن گئے ہیں ۔ مودی جی نے تو الیکشن جیتنے کے لئے بالکل صاف جھوٹ بولا تھا وہ صرف ہندوئوں کو یہ بتانا چاہ رہے تھے کہ اکھلیش نے صرف مسلمانوں کے ووٹ کیلئے زمین بھی ان کو ہی دی اور بجلی بھی ان کو ہی دے رہے ہیں ۔ قبرستان کی زمین تو دور ہے رمضان کا مہینہ چل رہا ہے۔ وزیر اعلیٰ دیکھیں کہ کتنے مسلمانوں نے بجلی مانگی اور کون سی مسجد ایسی ہے جس پر اتنی روشنی خرچ ہورہی ہو جتنی دیوالی میں ہر مندر پر ہوتی ہے؟ مودی جی نے صرف جھوٹ پر اترپردیش کا الیکشن لڑا اور صرف اکھلیش یادو کو مسلم نواز بتایا۔ اور یہ اس کا ہی نتیجہ ہے کہ اکھلیش کو کہنا پڑا کہ میں بھی تو ہندو ہوں ۔ ایک وزیر اعظم نے یہ نہیں دیکھا کہ ایک ہندو وزیر اعلیٰ اکھلیش نے مسلمانوں کے ساتھ کتنی ناانصافی کی اور ان پر ظلم کرنے والوں کا ہر جگہ ساتھ دیا۔ اس کے بجائے اسے ہی مسلمان بنا دیا۔ جاہل اور ناسمجھ ہندو نے یہ نہیں دیکھا کہ مودی کیا کہہ رہے ہیں جس نے یہ دیکھا کہ وزیر اعظم کہہ رہے ہیں اور اسے سچ مان لیا اور ہندو حکومت بنوا دی۔

وزیر اعلیٰ کے اس برتائو کے بعد جگہ جگہ قبرستانوں کی دیواریں توڑی جانے کی خبریں آئیں گی اور لوگ اینٹیں اٹھاکر اپنے گھر لے جائیں گے۔ پولیس تو ظاہر ہے کہ کسی ہندو سے بول نہیں سکتی اور جس حرکت کو روکنے کے لئے ہر بڑے قبرستان کی چہار دیواری بنوائی جارہی تھی کہ قبرستان کی زمین پر ناجائز قبضہ نہ ہو۔ وہ اب ہر جگہ ہوگا اور کوئی روکنے والا نہیں ہوگا۔ اس لئے کہ زبان سے تو یوگی جی قانون اپنے ہاتھ میں لینے سے منع کرتے رہیں گے لیکن جو ہاتھ میں قانون ملے گا اس کا ہاتھ توڑنے کا حکم نہیں دیں گے۔ اس کا نتیجہ کیا ہوگا یہ سب کو معلوم ہے۔ وزیر اعلیٰ کو کسی نے بتا دیا کہ اگر سڑکوں کے گڈھے بھردیئے جائیں تو نیک نامی ہوگی۔ انہوں نے 15  جون تک ہر سڑک کے گڈھے بھرنے کا حکم دے دیا اور 16  جون کو سڑکوں کے وزیر نے اعلان کردیا کہ اتنے فیصدی گڈھے بھر گئے۔ کیا ایک تین رُکنی کمیشن اس کے لئے بھی بنایا جائے کہ وہ دیکھ کر آئے کہ کتنے گڈھے بھرے اور جو بھرے ہیں وہ بالو سیمنٹ تارکول سے بھرے یا بھٹہ کی راکھ سے بھردیئے؟ جس نے یہ گڈھے بھرنے کا ٹھیکہ دیا اس نے کتنا کھایا اور جس نے بھرے اس نے کتنا کھایا؟

کیا کرنے کا کام صرف یہ تھا کہ اقتدار ہاتھ میں آتے ہی پانی بعد میں پیا سلاٹر ہائوس پہلے نیست و نابود کردیئے گوشت کی ہر دُکان پر تالا لگا دیا اور 77  دن میں ایک بار بھی زبان پر نہیں آیا کہ جو لاکھوں بے روزگار ہوگئے ہیں ہم ان کے لئے کیا سوچ رہے، یا کیا کررہے ہیں ؟ بات صرف مسلمانوں کی نہیں وہ لاکھوں مزدور جو روز مزدوری کرتے تھے اور بچوں کا پیٹ بھرتے تھے، وہ ہزاروں مستری، معمار، بڑھئی اور لوہار جو مکان،دُکان اور ہر چیز بناتے ہیں ۔ اور جن میں اکثر ہندو ہیں وہ ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے ہیں کیونکہ مورنگ مافیا اور بالو مافیا جو کام کررہے تھے وہ ہاتھ نہیں آرہے اور زعفرانی مافیا نے ابھی یہ کام سیکھا نہیں ۔ سب سے زیادہ زور سے ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ کا نعرہ لگانے والے صرف ہندو کا ساتھ اور سب کا ستیاناس کررہے ہیں ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بابا گورکھ ناتھ مندر کو سجانے اور آر ایس ایس کی شاکھا لگوانے کے علاوہ کسی کام سے دلچسپی ہی نہیں ۔ شراب کی دُکانوں کے بارے میں بڑے بڑے اعلان کئے تھے لیکن وہ سارا کاروبار دولتمند ہندوئوں کے ہاتھ میں ہے اس لئے ایک دُکان کو بھی اِدھر سے اُدھر نہیں کیا۔ اب آپ ہی بتایئے کہ سمجھنے والے کیا سمجھیں کہ کس کی سرکار ہے؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔