دوسروں کے عیبوں کو چھپایا کرو

سیدہ تبسم منظور ناڈکر

’’اے ایمان والو! بہت بد گمانیوں سے بچو۔ یقین مانو کہ بعض بد گمانیاں گناہ ہیں اور بھید نہ ٹٹولا کرو اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے ۔کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے؟ تم کو اس سے گھن آئے گی اور اللہ سے ڈرتے رہو ، بیشک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے‘‘ ۔سورہ الحجرت – آیات 12

  جب اللہ نے ہمارے بے شمار عیبوں پر پردہ ڈال رکھا ہے تو کیا ہمیں یہ بات زیب دیتی ہے کہ ہم دوسروں کی جاسوسی کرتے پھریں ۔۔۔۔ان کے نقص اور عیب تلاش کریں اور پھر انہیں معاشرے میں بے عزت کریں۔ ذرا سوچیے! اگر عزت وذلت کا معاملہ اللہ نے انسانوں کے ہاتھ میں دیا ہوتا تو ہم میں سے کوئی بھی شخص اپنے مقابل کسی کو کبھی باعزت زندگی گزارنے ہی نہ دیتا۔۔۔ اور شاید ہر شخص ذلت کی زندگی گزار رہا ہوتا۔  اس ربِ کریم کی شان  ہے کہ اس نے عزت اور ذلت اپنے ہاتھ میں ہی رکھی ہے ۔

   جو بندہ دنیا میں کسی بندے کے عیب چھپائے گا قیامت کے دن اللہ اس کے عیب چھپائے گا۔(صحیح مسلم:6490)

 اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا ، ’’اگر تم لوگوں کی پوشیدہ باتوں کے پیچھے پڑو گے، تو تم ان میں فساد پیدا کر دو گے یا قریب قریب فساد کے حالات پیدا کر دوگے۔‘‘(ابوداود 4888 صحيح)

آج ہمارا حال یہ ہے کہ کسی کے اخلاق وعادات سے متعلق اگر کوئی بری یا غلط بات ہمیں معلوم ہوتی ہے تو ہم اسے فوراً پورے معاشرے میں پھیلا دیتے ہیں۔ اگر اس شخص نے کوئی غلطی کی ہے تو اس کی غلطی کا پرچار کرکے ہم بھی تو گناہِ عظیم کررہے ہیں۔اور یہ تو ایسا عمل ہے کہ اس کا عذاب آخرت کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دوسروں کے عیب تلاش کرنے اور جاسوسی کرنے سے ہماری شریعت میں سختی سے منع کیا گیا ہے۔

 ہرایک انسان کی زندگی کی کتاب میں کچھ نہ کچھ ایسے صفحات ضرور ہوتے ہیں جنہیں وہ کبھی بھی کسی کے سامنے لانا پسند نہیں کرتے ۔ہم انسان ہیں۔۔۔کوئی فرشتے نہیں اور انسان تو غلطیوں کا پتلا ہے۔دنیا میں ایسا کوئی انسان نہیں ہے جس نے غلطی نہ کی ہو یا غلطی ہوئی نہ ہو۔   جو عیبوں سے پاک ہو۔ ہر کسی سے کوئی نہ کوئی گناہ۔۔۔ خطا ضرور سرز ہوتی ہے۔ کوئی  کھلے عام گناہ کرتے ہیں اور اسے برا بھی نہیں سمجھتے۔ کوئی گناہوں کے لیے پوشیدہ طریقے استعمال کرتاہے۔کوئی بھی اس جہاں میں معصوم نہیں۔  اس کے علاؤہ دوسروں پر ا نگلی اٹھانا یا کیچڑ اچھالنا یابرا بھلا کہنا کون سا نیکی کا کام ہے؟

 خود کے اعمال کو صحیح کرنے کی بجائے ہم دوسروں پر انگلیاں اٹھانےاور دوسروں کےگریبانوں میں جھانکنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔۔!

ہر مسلمان پر یہ فرض ہے کہ دوسروں کی عیبوں کی پردہ پوشی کرے اور انہیں گناہوں کو روکنے میں مدد کریں۔ مگر افسوس ہوتا ہے یہ دیکھ کر کہ ہم کسی کی پردہ پوشی کرنا تو دور کی بات ہے کسی کی معمولی سے معمولی غلطی کوبھی چھپاتے نہیں بلکہ مزے لے لے کر بیان کرتے ہیں۔۔۔۔۔اور تو اور ۔۔۔ موجودہ چلن تو یہ ہے کہ ہم اسے سوشل میڈیا پر پھیلانے میں اپنی شان سمجھتے ہیں۔افسوس صد افسوس  ۔۔۔۔۔۔ ہم کسی بھی بات کو جانے سمجھے بنا۔۔۔ تصدیق کئے بنا ہی پھیلانا شروع کردیتے ہیں ۔ اللہ تعالی سورہ الحجرت آیت نمبر 6میں فرماتا ہے، ’’اےمسلمانو! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو۔ ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دو پھر اپنے کیے پر پشیمانی اٹھاؤ۔‘‘

دوسروں کے عیبوں کو جان کر انہیں سامنے لانا۔۔۔۔ انہیں اچھالنا تو ایک شعوری کوشش ہوتی ہے جس کا گناہ واجب ہے اور عبرتناک سزائیں ہیں۔ مگر آج کل تو شوشل میڈیا نے غیبت، چغلی اور لوگوں کی عیب جوئی کو الگ رنگ میں ہی پیش کردیا ہے۔ اب تو یہ غیر محسوس طریقے سے وہ تمام کام ہم کرجاتے ہیں جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے اور ہمیں اس کا پتہ بھی نہیں چلتا بلکہ محسوس بھی نہیں ہوتا کہ ہم سے کتنی بڑی غلطی ہوگئی ہے۔

دراصل شوشل میڈیا کی وجہ سے بے شمار غیر اہم افراد بھی اپنے آپ کوسماج کا اہم حصہ سمجھنے لگے ہیں۔ رات دن شوشل میڈیا سے جڑے رہنا، ہر اہم غیر اہم بات کو پھیلانا، لوگوں کے بیچ اہم بننے کے چکر میں بلا سوچے سمجھے کچھ بھی ایک دوسرے کو میسج بھیج دینے کے عمل نے سماج میں ایک انتشار پیدا کردیا ہے۔ ہمیں تو حکم ہے کہ بلا تحقیق کسی بھی موضوع پر بات بھی نہ کریں اور کہاں تو یہ کہ دماغ کی بتی بجھا دی گئی ہے اور کیپیڈ پر انگلیاں چل رہی ہیں۔ کچھ سوچ سمجھ نہیں رہ گئی ہے کہ کون سی بات پیش کرنا چاہئے یا کون سی بات آگے بڑھانا چاہئے۔ سچ ہے کہ آجکل سوشل میڈیا پر خبریں پھیلانے یا شیئر کرنے کی ہوڑ لگی ہوئی ہے۔کوئی بھی خبر سامنے آئے تو ہر کوئی اسے اپنے اپنے طریقے سے پیش کرنے اور جلد سے جلد شوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنا چاہتا ہے۔ کئی لوگ کیسے کیسےویڈیو بناتے رہتےہیں ۔کوئی نماز پڑھ رہا ہے اس کی ویڈیو ۔۔۔۔ کوئی قرآن پڑھ رہا اس کی ویڈیو۔۔۔ کہیں میت ہوگئی۔۔۔۔ کوئی کھانا کھلا رہا ہے۔۔۔۔کوئی پانی پلا رہا ہے ۔۔۔۔کوئی کپڑے بانٹ رہا ہے۔۔۔ چھوٹے بچوں کے ہاتھوں میں قرآن دے کر اور نہ جانے کئی طرح سے ویڈیو بناتے ہیں ۔کیا یہ سب لوگوں کو دکھانے کے لئے کرتے ہیں یا اللہ کی رضا کے لئے کرتے ہیں؟ نیکی کے کام تو چھپا کر کئے جاتے ہیں نا!

پچھلے دنوں شوشل میڈیا پر کچھ تصویریں وائرل ہوئی تھیں۔ ہمارے مذہب میں لڑکا لڑکی کا ملنا قطعی جائز نہیں اور اس کی اسلام میں بالکل اجازت نہیں دی ہے۔لیکن دور حاضر جس ماحول میں ہم سانس لے رہیں ہیں وہاں لڑکے لڑکیوں کا کالج ساتھ آنا جانا۔۔۔۔۔گھومنا پھرنا عام ہوگیا ہے اور شاید اس سے کسی کا بھی گھر محفوظ نہیں۔ایسے ہی کچھ شرپسند لڑکوں نے برقے پہن کر ویڈیو بنائی اور وائرل کردی۔ اب ہم انہیں کوس رہے ہیں۔ اپنے اکابر پر تنقید کررہے ہیں۔ وہ تو اچھا ہوا کچھ نوجوانوں نے حقیقت کا پتہ لگایا اور سچ کو سامنے لایا۔

کچھ دنوں سے ایک عجیب بات اور بھی نظر آئی ۔  بچوں کو شوشل میڈیا کے توسط سے درس دینا۔ اگر بچے غلطیاں کرتے ہیں تو ہمیں انہیں اکیلے میں سمجھانا چاہئے ،ان کی غلطی کا احساس دلانا چاہئے نہ کہ ان کی تصویریں ان کی غلطیاں سرعام کر کے انہیں رسوا کرتے ہوئےباغی بنادیا جائے۔ ہم کہتے ہیں۔۔۔ لکھتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سنتے ہیں کہ ماں باپ کو اپنے بچوں کو صحیح تعلیم و تربیت دینی چاہیے۔۔۔۔ ضرور دینی چاہئے اور ذمہ دار والدین دیتے بھی ہیں ۔۔۔۔ کوئی بھی ماں باپ اپنے بچوں کو غلط راہ پر نہیں دھکیلتے یا بری تربیت نہیں دیتے۔ لیکن جب بچے بڑے ہو جاتے ہیں تو ہر وقت ماں باپ ساتھ تو نہیں رہتے!

  باہر بچے دوستوں سے ملتے ہیں۔۔۔۔ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں۔دوستی ہو جاتی ہے۔یہاں بچوں کو بھی سمجھنا چاہئےحد سے زیادہ آگے نہ بڑھیں ۔ بچے اپنے فرائض کو سمجھے۔غلطیاں بچوں سے ہوتی ہے الزام ماں باپ پر آتا ہے کہ ماں باپ نے صحیح تربیت نہیں کی۔لوگوں کو بھی سمجھنا چاہئے کہ آج ہم کسی لڑکی کی عزت اچھالیں تو کل یہ ہمارے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔جانے انجانے خود ہم اپنے بچوں کو بدنام کررہے ہیں ۔ ایسی ویسی تصاویر شیئر کرنے کے بجائے وہیں پر ختم کی جائیں۔ والدین بھی اپنی ذمے داری نبھائیں اپنے بچوں کو دینی تعلیم دیں۔۔۔اچھے برے کی پہچان کروائیں۔

ہمارا معاشرہ، والدین، بچے اگر اپنے اپنے فرائض کو بخوبی انجام دیں تو تھوڑا بہت ان مسائل پر قابو پا سکتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔