دوسروں کے کاندھوں پر صرف جنازے اٹھتے ہیں 

مدثر احمد

کہتے ہیں کہ ہر دس سالوں میں ایک مہان شخص کی پیدائش ہوتی ہے اسی طرح سے 2006میں ایک مہان شخص نے ہندوستان کی سب سے مظلوم قوم مسلمانوں کو انکے حقوق دلانے کی خاطر اپنے معاونین کی مدد سے جو رپورٹ تیار کی تھی اسے جسٹس سچر کمیٹی کی رپورٹ کہا جاتاہے۔ جسٹس سچر کی قیادت والی کمیٹی نے ہندوستانی مسلمانوں کے حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ معاشی و اقتصادی طورپر کمزور مسلمانوں کے لئے جب تک بنیادی سہولیات نہیں دی جاتی ہیں اس وقت تک مسلمانوں کی ترقی ناممکن ہے۔ کمیٹی نے سفارشات میں سب سے اہم بات یہ رکھی تھی کہ مسلمانوں کو تعلیمی، اقتصادی اورمعاشی میدانوں میں ریزرویشن دیا جائے تاکہ مسلمان دوسری قوموں کے برابر ہوجائیں۔ جسٹس سچر نے تو اپنا کام کردیا لیکن جن لوگوں کوانکی سفارشات پر عمل کرنا تھا انہوںنے پورے 8سالوں تک انکی رپورٹ کو لے کر مسلمانوں کو بہلاتے رہے۔ اسمبلی سے لے کر پارلیمانی الیکشن تک مسلمانوں کو للچاتے رہے کہ اب کی بار تو مسلمانوں کو حقوق دے ہی دئے جائینگے۔

پچھلے دنوں مہاراشٹرا حکومت نے مراٹھا ذات کو 16فی صد ریزرویشن دیتے ہوئے ہندوستان میں ایک تاریخ رقم کی ہے۔ جبکہ مسلمانوں کو ریزرویشن دینے کے لئے جسٹس سچرکمیٹی نے 12سال پہلے ہی سفارش کردی تھی، اس وقت مہاراشٹرا اور مرکز میں کانگریس کی ہی حکومت تھی لیکن کانگریس پارٹی نے اس سمت میں کسی بھی طرح کی پہل نہیں کی البتہ جب اقتدار میںبی جے پی آئی تو مسلمانوں کو ریزرویشن دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی رکھنے کا ثبوت دینے کی کوشش کی لیکن اس کوشش پر بی جے پی نے یہ کہہ کر پانی پھیردیا کہ جب آپ اقتدار میں تھے تو کیوں نہیں مسلمانوں کو ریزرویشن نہیں دیا۔ یہ بات سوچنے کی ہی ہے کہ جب اقتدار میں  تھے اس وقت مسلمانوں کو ریزرویشن نہیں دیا اور جب آج مسلمانوں کی حریف جماعت اقتدار میں ہے تو ان سے ریزرویشن دینے کا مطالبہ کیا جارہاہے۔

بات یہیں نہیں ختم ہوئی، ہندوستان میں مسلمانوں کی قیادت کرنےوالی درجنوں ملی و سماجی تنظیمیں ہیں اور ان تنظیموں کے کئی ایسے سربراہان بھی ہیں جنہوںنے پارلیمنٹ میں اپنی عمر کے پانچ دس سال بھی گزارے ہیں، مگر کبھی بھی ان لوگوں نے مسلمانوں کے سماجی، اقتصادی اورتعلیمی حقوق کے لئے آواز بلند نہیں کی ہے۔ اسکے علاوہ عام مسلمانوں نے بھی کبھی اس تعلق سے نہیں سوچا کہ ہمیں اپنے قائدین پر اس تعلق سے دبائو بنائے رکھنا چاہئے۔ ۔ ہم نے اپنے قائدین سے ہمیشہ ان چیزوں کو مطالبہ کیا ہے جو نہ مانگنے پر بھی ملے خصوصََا مسلمان اپنے لئے قبرستانوں کا مطالبہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں یا پھر درگاہوں و آستانہ کے لئے سہولیات مانگتے رہتے ہیں۔ جو جاچکے ہیں انکے لئے سہولیات مانگنے سے زیادہ جو زندہ ہیں یا پھر پیدا ہونے والے ہیں انکے لئے سہولتیں مانگی جائیں تو یقینََا اسے معنی خیز مانا جاسکتاہے۔ ضروری نہیں ہے کہ مسلمان اپنے حقوق کے مطالبوں کے لئے کسی سیاسی جماعت پر ہی منحصر ہوں اگر واقعی میں سیاسی جماعتوں میں مسلمانوں کے لئے کچھ کرنے کا جذبہ ہوتا تو وہ بغیر دبائو کے ہی مسلمانوں کے حقوق دیتے، جسٹس سچر کمیٹی کی سفارشات اگر ہندوستان میں نافذ کی جاتیں تو آج کم از کم ہندوستان کے مختلف علاقوں میں سرکاری عہدوں پر مسلمانوں کی تقرری کی شرح میں اضافہ ہوتا، ہمارے بچے ڈاکٹر، انجنیر بن کر غیر ملکوں کا رخ کرنے کے بجائے اپنے ہی ملک میں خدمات انجام دیتے۔ لیکن ہمیں اس کی فکر نہیں ہے۔

ہمارے نوجوانوں کے پاس کرکٹ کی فکر ہے تو بزرگوں کے پاس گلی کے نکڑوں اور چائےکی دکانوں پر غیرضروری بحث و مباحثوں میں وقت گزارنے کا جوش، عورتوں کے پاس ٹی وی سیریلس دیکھنے سے فرصت نہیں تو طلباء کے پاس موبائل پر ویڈیوگرافی کرتے ہوئے نوٹنکی کرنے کا جذبہ ہے جس کی وجہ سے پوری قوم زوال کی جانب جارہی ہے۔ اب بھی اگر مسلمان چاہیں تو اپنے اپنے علاقوں میں دس۔ بیس افراد پرمشتمل عارضی کمیٹیوں کی تشکیل دے کر اپنے اپنے ڈپٹی کمشنر وں، تحصیلداروں کے ذریعے سے حکومتوں کو باآور کرواسکتے ہیں کہ ہم زندہ ہیں اور ہمیں حقوق دیں۔

اس کام کو فوری طور پر انجام دینے کی ضرورت ہے ورنہ ہاتھ ملنے کے سواء اور کوئی چارہ نہیں رہے گا۔ ویسے بھی دوسروں سے زیادہ امیدیں نہیں رکھنا چاہئے کیونکہ دوسروں کے کندھوں پر صرف جنازے اٹھتے ہیں اور اپنے کندھوں پر جو بوجھ ڈال کرکام کیا جاتاہے وہی زندہ دلی اور ہمت والا کام کہلاتا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔