دہشت گردی ۔ وحشیانہ اور بزدلانہ عمل

عبدالعزیز
ترکی کے استنبول میں ہو یا کسی اور مقام یا ایئر پورٹ پر ہو دہشت گردی کا ننگا ناچ، انتہائی وحشیانہ اور بہیمانہ ہے اور جو لوگ اس میں ملوث ہیں انھیں انسان کہنا تو انسانیت کیلئے حد درجہ شرمناک ہے ایسے لوگ حیوان کہلانے کے بھی لائق نہیں ہیں۔ معصوموں اور بے گناہوں کا جان لے کر ایسے ظالموں کو کیا حاصل ہوتا ہے انہی کو معلوم ہے۔ کوئی اور ان کی منطق اور مقصد کونہیں سمجھ سکتا۔ ایسا لگتا ہے کہ انسانوں کی بستیوں میں خونخوار اور خوفناک قسم کے جانور آباد ہوگئے ہیں یا داخل ہوگئے ہیں جو وقتاً فوقتاً کہیں نہ کہیں خود کش حملے کرکے انسانی بستیوں کو تباہ و برباد کرتے ہیں۔
میری سمجھ سے یہ مسئلہ زیادہ سنگین اس لئے بھی ہے کہ جو لوگ یا جو حکومتیں مسئلہ کا حل ڈھونڈ رہی ہیں ان میں زیادہ تر تو وہ ہیں جنھوں نے دہشت گردی کا نہ صرف بیج بویا ہے بلکہ دنیا میں ان کی کوششوں اور ان کی آبیاری سے دہشت گردی کے جنگل کے جنگل نظر آرہے ہیں۔قاتل جب منصف ہوگیا تو پھر انصاف اور امن کا سوال کہاں پیدا ہوتا ہے ۔ ان کا حال اس وقت کچھ اس طرح ہے کہ ؂
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ ۔۔۔ تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
دہشت گردی کا جو بیج آج پھل پھول رہا ہے وہ امریکہ، روس اور برطانیہ کا بویا ہوا ہے۔ یہی لوگ آج بھی اقوام متحدہ میں امن و انصاف کے علمبردار بنے ہوئے ہیں۔ 1948 ء میں اسرائیل کی ریاست کو بناکر برطانیہ اور امریکہ نے دہشت گردی کا بیج بویا جس کی کھیتی آج جنگل نما ہوگئی ہے۔ ادھر امریکہ نے پہلے عراق اور پھر افغانستان کو اپنی جنگ کا ہدف بناکر دنیا کو دہشت گردی میں جھونک دیا۔ بش اور بلیئر کی دہشت گردی کا نام War on Terror (دہشت گردی کے خلاف جنگ) پہلے ان بزدلوں کا ہدف افغانستان اور عراق بناتھا پھر ایران، سعودی عرب اور پاکستان تھا۔ صدر بش کے وہ مشیر جن کا اسرائیلی لابی یا نیوز کونز (Neo – Cons) سے ہے وہ پہلے دن سے یہ بات کہہ رہے ہیں بلکہ تھنک ٹینک اپنے اپنے انداز میں 1999ء سے اب تک یہ بات کہتے رہے ہیں کہ مشرق وسطیٰ کے پورے سیاسی نقشے کو تبدیل کرنا اور خاص طور سے پاکستان کو اس نقشے سے مٹا دینا امریکہ کا ہدف ہونا چاہئے۔ ہنری کسنجر نے نہایت واضح الفاظ میں کہا تھا :
"War on terror is misnomer becouse terror is a method not a political movement.”
(دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک غلط عنوان ہے، اس لئے دہشت گردی سیاسی تحریک نہیں، ایک طریق کار ہے)۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ پھر امریکہ جس جنگ میں مصروف ہے اس کی ہدف کیا ہے؟ تو ان کا جواب تھا :Radical Islam مزید سوال ہوا کہ ریڈیکل اسلام کیا ہے؟ تو ارشاد ہوا That Which is Secular (جو سیکولر نہیں ہے) ۔
امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کا مقصد القاعدہ یا طالبان نہیں ہے۔ مسلم دنیا کے نقشے کی تبدیلی اور مسلم دنیا کو محکومی مغلوبی پر مجبور کر دینا ۔ آج پاکستان میں جہاں فوج اپنے لوگوں پر حملہ کر رہی ہے اور امریکہ سے حملہ کروا رہی ہے جس کی وجہ سے پاکستان دہشت گردی کا اکھاڑا بن گیا ہے۔ یہ اللہ کا کرم ہے کہ امریکہ کو منہ کی کھانی پڑ رہی ہے۔ عراق میں اسے ہار ماننی پڑی۔ افغانستان سے بھی اپنی فوجوں کو نکالنے پرمجبور ہوا۔ اب پاکستان اس کا ہدف ہے۔ اندر سے دور سے اس پر پاکستان کے غلط حکمرانوں کی وجہ سے آج امریکہ حملہ آور ہے۔ امریکہ ہی ہے جو ہندستان اور پاکستان کی دوستی یا تعلق کو مضبوط ہونے سے پہلے ختم کر دیتا ہے۔ دونوں ملکوں کے حکمرانوں کو امریکہ ہی بیوقوفی اور جہالت کی تعلیم واشنگٹن اور نیو یارک میں بلاکر دیتا ہے۔ ہمارے خطے کے حکمرانوں کو کب عقل آئے گی یہ اللہ ہی جانتا ہے۔ دونوں مل کر اپنے مسئلہ کو حل کر سکتے ہیں مگر دونوں امریکہ کی طرف دیکھتے ہیں جو دنیا پر ظالم حکمرانی کا خواہاں ہے۔
ترکی جہاں اسلامی تہذیب اور اسلامی روایات کو بالکل ختم کر دیا گیا تھا اب وہاں اسلام کو زندگی مل رہی ہے۔ اسلامی تہذیب و تمدن کے برگ و بار نظر آرہے ہیں۔ ظالم حکمراں ترکی کی اس زندگی نو کو بھی نہ صرف نظر بد سے دیکھ رہے ہیں بلکہ اسے بھی پاکستان، افغانستان اور عراق بنانے کے فراق میں ہیں۔ شام، عراق کا خطہ جو آج جل رہا ہے، اس میں جہاں غیروں کی عیاری ہے وہاں اپنوں کی بیوقوفی اور بدعقلی کو دخل ہے ۔ شام میں بشار الاسد حکومت کو بچانے کیلئے ایران جیسا سوجھ بوجھ والا ملک اور وہاں کے حکمراں روس کا ساتھ دے رہے ہیں، محض تعصب کی بنیاد پر۔ بشار الاسد اور ان کا خاندان زبردستی شام پر ایک عرصہ سے آمرانہ اور ظالمانہ حکمرانی کر رہا ہے۔ آزاد فضا اور جمہوری ماحول میں وہاں کبھی الیکشن ہی نہیں ہوا۔ مصر جو شام کی سرحد سے قریب ہے جہاں آزادانہ فضا میں الیکشن ہوا اور محمد مرسی صدر منتخب ہوئے تھے ایک سال کے اندر امریکہ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی مدد سے حکومت کا تختہ الٹ دیا او اسرائیل اور امریکہ نواز السیسی کو کرسی پر اپنے لوگوں کی قتل و غارت گری کیلئے بٹھا دیا۔ امریکہ اور روس کو مسلم ملکوں میں جمہوریت کے بجائے فوجی آمریت زیادہ مطلوب اور محبوب ہے۔
ترکی اس وقت ان کے نشانے پر ہے کیونکہ فوج کو اکسانے اور بغاوت کرانے پر امریکہ، برطانیہ اور روس کامیاب نہیں ہورہا ہے۔ یہ مسلم دشمن ممالک ترکی کو بھی مصر بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ ترکی کے اندر ایک طرف کردوں کے ایک حصہ کی بغاوت ابھار دی گئی ہے۔ دوسری طرف دہشت گردانہ حملہ غیروں کی ایما پرجاری ہے۔ داعش تنظیم جو امریکہ کی پیدا کر دہ ہے اس کا بھی نشانہ ترکی پر ہے۔ ترکی کے حکمرانوں کو جمہوری فضا اور ماحول باقی رکھتے ہوئے کام کرنے کی ضرورت ہے جب ہی وہ اپنے دشمنوں کو شکست دینے میں کامیاب ہوسکتا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔