دیتے ہیں دھوکہ یہ بازیگر کھلا

نورالامین یوسف شریف

٥ ریاستوں کے حالیہ انتخابات کے جو نتائج سامنے آئیں  ہیں یہ کسی حد تک امید افزا تو ہے لیکن ساتھ ہی مسلمانوںِ ہند، تمام سیکولر افراد اور تمام سیکولر تنظیموں کے لیے ایک انتباہ بھی ہے اور اس میں غور کے کئی اہم پہلو بھی پوشیدہ ہیں۔ تین ریاستوں میں بی جے پی کی شکست کو لے کر عوام میں اور بالخصوص سوشل میڈیا پر اس بات کے چرچے عام ہیں کہ اب ٢٠١٩ میں بی جے پی کی شکست یقینی ہے اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ عوام کہ اس حُسنِ ظن کی لاج رکھ لیں لیکن دشمنوں کی پالیسیوں کو سمجھنا بھی ضروری ہے صرف انتخابی نتائج یا کسی بھی واقعے کے ایک ہی پہلو کو مدنظر رکھ کر نتائج اخذ کرلینا بعید از عقل ہے بی جے پی کی حالیہ شکست ٢٠١٩میں "ہار  کر جیتنے والے کو بازیگر کہتے ہیں” کا مصداق بھی بن سکتی ہے کیونکہ موجودہ حکومت کی عوام مخالف پالیسیوں، اقلیتوں پر پے در پے حملے، اقتصادی گراوٹ ہندو مسلم منافرت پھیلانے یہ اور اس طرح کے کئی اقدامات کی وجہ سے ملک کی اکثر عوام حکومت سے بدظن ہو چکی ہیں اور کسی صورت میں بھی اس کو اقتدار میں دیکھنا برداشت نہیں کر رہی ہے عوام کے غصے اور حکومت سے نفرت کا مشاہدہ نوٹ بندی کے وقت بینک کی قطاروں میں کیا جاچکا ہے ایودھیا میں ہوئی دھرم سبھا کی ناکامی سے بھی یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ملک کی اکثریت حکومتی پالیسیوں اور اقدامات سے نالاں ہیں اس صورتحال میں بی جے پی کو جتنی نشستوں پر کامیابی ملی ہے اس پر ہم حیران ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ بی جے پی کسی بھی ریاست میں خصوصاً راجستھان اور مدھیہ پردیش میں 50 کا عدد بھی پار نہ کرپاتی لیکن معاملہ بلکل برعکس ہے بلکہ یوں کہا جاسکتا ہے کہ مدھیہ پردیش میں ہوئی کانگریس کی فتح اضل میں فٹبال کے میدان میں مخالف ٹیم کی جانب سے ویننگ پنالٹی کا گول کے باہر مارے جانے کے برابر ہے ایم پی میں بی جے پی شکست سے دوچار نہیں ہوئی بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ کانگریس ہارتے ہارتے جیت گئی اور جیت بھی کوئی ایسی قابل تعریف نہیں ہے مشکل سے ١٠ سیٹوں کا بھی فرق نہیں ہے اور یہ بھی شاید اس لیے ممکن ہوا کہ جیسے ہی وہاں کئی مقامات پر ووٹوں کی گنتی سے قبل EVM کی چھیڑ چھاڑ سے متعلق کئی واقعات منظر عام پر آئیں فوراً کانگریس کے اراکین نے بذات خود وہاں نگرانی کی ورنہ  مدھیہ پردیش میں ای وی ایم نے بی جے پی کو فتح کے قریب کردیا تھا۔

اس ملک کی موجودہ صورت حال میں یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ٢٠١٩میں میں بی جے پی کو شکست یقینی ہے اور شکست بھی چاروں خانے چت والی لیکن شرط یہ ہے کہ ای وی ایم  کو ہٹا دیا جائے کیونکہ ای وی ایم نہ کبھی محفوظ تھی نہ ہے نہ ہو گی ایک انجینئر ہونے کے ناطے راقم الحروف یہ بات ڈنکے کی چوٹ پر کہہ سکتا ہے کہ الیکٹرونک مشینوں کا محفوظ ہونا ممکن ہی نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حکومت کسی بھی صورت میں ای وی ایم کے ذریعے حاصل کی جانے والی اعانت سے دستبردار نہیں ہونا چاہتی کیونکہ وہ جانتی ہے کہ اگر انتخابات کا فیصلہ مکمل طور پر عوام کے حوالے کر دیا جائےاور ای وی ایم کو ہٹا دیا جائے تو ٢٠١٩کے انتخابات میں فتح حاصل کرنا ناممکن ہے۔ اب رہا سوال یہ کہ حالیہ انتخابات میں کیوں ای وی ایم نے بی جے پی کا ساتھ چھوڑ دیا؟ تو اس کی ایک وجہ یہ بھی ہع سکتی ہے کہ چونکہ آئے دن ای وی ای ایم کی شفافیت پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں اس لیے فیصلہ یہ کیا گیا ہوں کہ اس وقت شکست تسلیم کرلینے سے ای وی ایم کی طرف سے لوگوں کا ذہن ہٹ جائے گا اور شکست کی وجہ سے یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اگر بی جے پی کی فتح کا دارومدار ای وی ایم پر ہی ہوتا تو وہ  راجستھان اور مدھیہ پردیش میں شکست کیوں کھاتی جبکہ دونوں ریاستیں اس کی ناک کا مسئلہ تھی  دوسری قابل غور بات یہ ہے کہ  مدھیہ پردیش میں ہوئی شکست کو گجرات میں ہوئی شکست سے بھی کافی مماثلت ہے تو ممکن ہے بلکہ اس کے قوی امکانات ہیں کہ یہ شکست منصوبہ بند ہے اور ٢٠١٩ میں فتح پانے کے لئے کھیلی گئ ایک سوچی سمجھی چال کیونکہ یہود کے دھوکے ایسے ہی ہوتے ہیں اور بی جے پی جن کے زیر دست کام کرتی ہے وہ بھارتی یہود ہی ہیں۔ جو تنظیم تقریبا سو سال سے اپنے مقصد کے حصول کے لئے روزوشب مسلسل کوششیں کر رہی ہو وہ کیسے اتنی آسانی سے شکست گوارا کرلے گی ٢٠١٩ میں فتح حاصل کرنے کے لیے تو وہ اپنی پوری توانائی صرف کر دیں گی کیونکہ اس کے بعد فتح اور شکست کا سوال ہی ختم ہونے والا ہے وہ اس لئے کہ جب جمہوریت کا جنازہ اٹھ جائے گا اور منوسرتی کو نافذ کردیا جائے گا تو پھر کون سے انتخابات اور کہا کی فتح و شکست ہوسکتا ہے راقم لحروف کی اس بات سے کچھ لوگوں کو اختلاف ہو سکتا ہو اور وہ یہ کہیں گے کہ بھارت جیسے جمہوری ملک میں منوسمرتی کا نفاذ ہونا ناممکن ہے اور بھارت کو ہندو راشٹر بنانا اتنا آسان نہیں ہے  تو ان حضرات کی خدمت میں یہ عرض ہے کہ گزشتہ چار سالوں میں ملک میں ہوئے انتہائی اہم واقعات پر نظرثانی کیجئے جن میں عدلیہ میں حکومت کی بےجا مداخلت جسکی وجہ سے ججوں کو پریس کانفرنس کرنی پڑی، تین طلاق کے خلاف غیر قانونی آرڈیننس کا پاس کیا جانا، سی بی آئی کا حالیہ واقعہ اور آر بی ای میں حکومت کی دخل اندازی جس سے مجبور ہو کر آر بی آی  گارنر کو آخر کار اپنا استعفیٰ پیش کرنا پڑا جو کہ مرکزی حکومت کی خواہش کے عین مطابق ہے تاکہ اس کرسی پر ایسے شخص کو براجمان کیا جائے جس کا شمار بھکتوں میں کیا جاتا ہو اس طرح کے پچاسوں واقعات ان چار سالوں میں پیش آچکے ہیں جس سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کے ٢٠١٩ میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد ٢٠١٤تک یا اس کے کچھ عرصے بعد بھارتی یہودی اس ملک کو برہمن راشٹر بنا دیں گے اس بات سے دانشوروں نے قوم و ملت، کئی سینئر صحافی، قلمکار اور علماءکرام اتفاق رکھتے ہیں۔

اس لیے پانچ ریاستوں میں ہوئی بی جے پی کی شکست کو ٢٠١٩ کے انتخابات کی شکست نہیں سمجھنا چاہیے اور نہ ہی بی جے پی کے زوال کی شروعات اور نہ ہی یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ  کانگریس کے کھوئے ہوئے وقار کی بحالی ہے۔ اس ملک کے اقلیتوں کو اور خصوصا مسلمانوں کو یہ ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ کانگریس اور بی جے پی ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں بابری مسجد میں مورتیاں رکھے جانے سے لے کر اس کی شہادت تک ہر چیز کی ذمہ دار براہ راست کانگریس ہی ہے اس لیے کانگریس کی تائید قطعاً نہیں کی جاسکتی کانگریس صرف ایک مجبوری ہے اور اس کا علاج ہے تمام سیکولر پارٹیوں کا ایک متحدہ محاذ قائم کرنا جو اس وقت ملک کی اہم ترین ضرورت ہے۔

 تمام سیاسی پارٹیاں جو اس وقت بی جے پی کے خلاف برسرپیکار نظر آ رہی ہیں اور یہ  دعوے کررہی ہیں کہ ہم ملک کے جمہوری نظام کی حفاظت کے لئے متحد ہو رہے ہیں ان میں سے اکثر پارٹیاں کذب بیانی سے کام لے رہی ہے اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ اپنی بقاء کے لیے اور اپنی پارٹی کے وجود کو بچانے کے لئے اتحاد کا حصہ بن رہی ہے کیونکہ بی جے پی کے ای وی ایم گپھلے بازیوں کی وجہ سے ان پارٹیوں کا اپنا وجود خطرے میں آچکا ہے اس لیے  ٢٠١٩کے انتخابات سے قبل ای وی ایم پر پابندی عائد کیا جانا انتہائی ضروری ہے جس کے کوئی امکانات نظر نہیں آرہے ہیں اس صورتحال میں ملک کی عوام کو متحد ہو کر ٢٠١٩ کے انتخابات میں سیاسی حکمت و بصیرت کا مظاہرہ کرنا ہوگا خصوصا مسلمانوںِ ہندکو واضح حکمت عملی مرتب کرکے عملی میدان میں آنا ہوگا اس ملک کے جمہوری نظام کو محفوظ کرنے کے لیے ہی نہیں بلکہ ہمارے دینی تشخص کے بقا کے لئے بھی یہ انتہائی ضروری ہے ہم اس کو صرف اپنے ملک کا مسئلہ نہ سمجھے بلکہ اس کو بین الاقوامی طور پر ہونے والی تبدیلیوں کے تناظر میں دیکھیں قرب قیامت سے قبل ہونے والے واقعات میں اس ملک کو بھی ایک خاص اہمیت حاصل ہے اور قوم یہود اس بات کو بخوبی جانتی ہے اسی لئے اس ملک کو ایک منصوبہ بند طریقے سے برہمن یہودیوں کے ہاتھوں میں ڈالنے کی منظم کوشش کی جا رہی ہے اور مستقبل میں بھی کی جاتی رہے گی  کیونکہ یہود جانتے ہیں آخری وقت میں ملک بھارت سے ہی وہ لشکر حضرت عیسی علیہ السلام کی خدمت میں جائے گا جس کا ذکر احادیث میں کیا جاچکا ہے اس لئے قوم یہود نے ملک بھارت کی باگ ڈور برہمن یہود کے ذریعے اپنے ہاتھ میں لینے کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے اور ملک بھارت میں ہونے والی یہ تبدیلیاں اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔