دیکھنے میں پھول حقیقت میں پتھر

حفیظ نعمانی

کانگریس کے جن پرانے کھلاڑیوں نے یہ سمجھا تھا کہ وہ اپنی پوری طاقت پرینکا گاندھی کے روڈشو میں جھونک کر انہیں اپنی کارگذاری سے مرعوب کرلیں گے ان سب کو ملاقات اور روبہ رو گفتگو کرکے اندازہ ہوگیا ہوگا کہ مسز اندرا گاندھی کی پوتی ہونے پر فخر کرنے والی شہزادی چندن کے پالنے میں جھول کر اور چاندی کی لٹیا سے دودھ پی کر گرمی میں ٹھنڈے کمروں اور سردی میں گرم کمروں میں زندگی گذارکر جب سامنے آئی تو اس طرح گفتگو شروع کی جیسے برسوں سے ملاقات ہے۔ اور جو سوال کئے اس سے اندازہ ہوا کہ اپنے علاقے سے جتنا ہم واقف ہیں اس سے کہیں زیادہ شہزادی واقف ہیں۔

یہ غلط فہمی صرف کانگریس کے لوگوں کو ہی نہیں ان کے سب سے بڑے مخالف وزیراعظم نریندر مودی کو بھی ہے وہ بھی پریوار پریواد کی رٹ لگاکر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ راج کمار اور راج کماری راہل اور پرینکا کیا جانیں، زمین سے جڑنے کی حقیقت کیا ہوتی ہے؟ اور جسے راج کماری کہا جارہا تھا اس نے 9 گھنٹے 18  کلومیٹر کا روڈشو بس کی چھت پر کھڑے ہوکر یا پالتی مارکر بیٹھ کر کیا اور اپنے آفس میں رسمی ملاقات کرکے اپنے شوہر سے ملنے جے پور روانہ ہوگئی جو سونیا گاندھی کے داماد ہونے کی قیمت ادا کررہا ہے۔ اور وہاں بس اتنی دیر رہیں جتنی دیر مسئلہ کو سمجھنے اور سمجھانے کیلئے ضروری تھا اس کے فوراً بعد لکھنؤ آگئیں۔

پرینکا گاندھی نے پہلے دن ہی اپنا چار دن کا پروگرام بتا دیا تھا کہ وہ پورب کے ہر ضلع کے کانگریسیوں سے مل کر پارٹی کے بارے میں معلوم کریں گی۔ اور جس جس لیڈر سے یہ سوال کیا کہ گذشتہ لوک سبھا اور 2017 ء کی اسمبلی کیلئے جب الیکشن لڑا گیا تو آپ کا بوتھ کون سا تھا اس کا نمبر کیا تھا اور اس پولنگ اسٹیشن پر کانگریس کو کتنے ووٹ ملے؟ ہمیں نہیں معلوم کہ کس نے کیا جواب دیا لیکن یقین ہے کہ کسی ایک نے بھی اس کا صحیح جواب نہیں دیا ہوگا۔ اب تک ٹکٹ کے اُمیدواروں سے عام طور پر یہ معلوم کیا جاتا تھا کہ آپ کے جیتنے میں کن کن فرقوں اور ذاتوں کا حصہ ہوگا اور وہ آپ کو کیوں کامیاب کرائیں گے؟ اس کے جواب میں ہر پیشہ ور اُمیدوار ایک رٹا رٹایا سبق سنا دیتا تھا اور فیصلہ کرنے والے فیصلہ اپنی مرضی سے کردیتے تھے۔ ان ملاقاتوں کا سلسلہ دو بجے دن سے شروع ہوا اور پوری رات اسی طرح چلتا رہا اور پانچ بجے صبح کے بعد ضروریات زندگی پوری کرکے گیارہ بجے پھر کلاس لگ گیا۔

پرینکا گاندھی صرف صورت، رفتار، گفتار، آواز اور حاضر جوابی میں ہی دادی کی کاپی نہیں ہیں بلکہ جنرل سکریٹری بن کر پہلے دن ہی دکھا دیا کہ وہ موم کی گڑیا نہیں پتھر کی مورتی ثابت ہوں گی۔ اور اب کانگریس کا ٹکٹ نہ قصیدہ سے ملے گا اور نہ سفارش سے آپ کو ثابت کرنا پڑے گا کہ اپنے حلقہ میں بڑے چھوٹے ہر گائوں کا نام آپ کو معلوم ہے اور ہر گائوں کے دوچار ذمہ دار آدمیوں کو آپ اور آپ کو گائوں کے لوگ جانتے ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وقت پڑنے پر آپ ان کی مدد کریں گے۔

یہ قسمت کی بات ہے کہ ہم نے آج تک خود کوئی الیکشن نہیں لڑا لیکن نہ جانے کتنے الیکشن سنجیدگی سے لڑائے۔ اس وقت ہی یہ تجربہ ہوگیا تھا کہ الیکشن میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر شہر ہے تو چھوٹے سے چھوٹے محلہ سے آپ واقف ہوں اور وہاں کے دو چار آپ سے اور آپ ان سے واقف ہوں۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پیسے سے ہر کام ہوسکتا ہے۔ آپ نوٹوں کی گڈی لے کر بیٹھ جاتے اور دلالوں کے ذریعہ ووٹ خرید خریدکر جیت بھی جائیں۔ لیکن اس طرح آپ ایک الیکشن جیت سکتے ہیں اگر آپ یہ چاہیں کہ کسی حلقہ کو اپنا بنانا ہے تو پھر حلقہ کے چپہ چپہ سے آپ کو واقف ہونا پڑے گا اور کامیاب ہونے کے بعد اپنا زیادہ وقت حلقے میں گذارنا پڑے گا اور ضرورتمندوں کے ضروری کام اگر آپ کراتے رہے تو پھر وہ حلقہ آپ کی جاگیر بن جائے گا۔

جو لوگ ایک حلقہ سے جیت کر دوسرے حلقہ کی تلاش شروع کردیتے ہیں وہ حرام خور ہیں اور وہ صرف الیکشن جیت کر پانچ سال کمانا چاہتے ہیں۔ اور اب یہ وبا عام ہوگئی ہے۔ پرینکا اور راہل گاندھی لوک سبھا کے اس الیکشن کو تو سیڑھی بنائیں گے اور ان کا نشانہ 2022 ء کا اسمبلی الیکشن ہوگا اور یہ بات نہ اکھلیش کو ہضم ہوگی نہ مایاوتی اور اب بی جے پی بھی دعویدار بن گئی ہے اس کو ہونا تو وہ ہے جو پروردگار چاہے گا لیکن اس تنائو میں ایسا نہ ہو کہ امت شاہ کے چہرہ پر مسکراہٹ آجائے اس کے لئے ضروری ہے کہ لوک سبھا کا الیکشن کانگریس سنجیدگی سے نہ لڑے اور صرف ان امیدواروں کو میدان میں اتارے جن کو لڑاسکے۔ خبر یہ بھی ہے کہ اکھلیش یادو سے مسلمان بات کررہے ہیں لیکن یہ کیوں سوچ لیا گیا ہے کہ مایاوتی کو نہ چھوا جائے جبکہ وہ خود مسلمانوں کے ووٹ کی دعویدار ہیں وہ مسلمانوں کے ووٹ لیں مگر ان کی سب سے اہم ضرورت بی جے پی کو روکنے میں ان کی مدد کریں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔