دیکھیں کیا گذرے ہے قطرہ پہ گہر ہونے تک

مہاراشٹر خصوصیت کے ساتھ ممبئی میں شیوسینا اور بی جے پی برسوں سے ا یک دوسرے کے مقابلہ پر آتی رہی ہیں ۔ شیوسینا کے بانی بالا صاحب ٹھاکرے اور بی جے پی کے پرمود مہاجن کے زمانہ میں بھی ا ور اس سے پہلے اور اس کے بعد بھی دونوں کے درمیان بڑے اور چھوٹے بھائی کا مقابلہ رہا ہے۔ پہلے تو یہ دونوں ایک طرف ہوتے تھے اور کانگریس دوسری طرف پھر شرد پوار کے الگ ہوجانے کے بعد کبھی کانگریس اکیلی اور کبھی شرد پوار کے ساتھ ان دونوں سے مقابلہ کرتی رہی ہیں لیکن 2014ء میں لوک سبھا کے الیکشن اور اس کے بعد صوبائی الیکشن میں کانگریس اور پوار کانگریس کا صفایا ہوجانے کے بعد اب بی جے پی شیو سینا کو اپنا چھوٹا بنا کر رکھنا چاہتی ہے اور شیو سینا کے کرتا دھرتا ڈرتے ہیں کہ اگر وہ نرم پڑے تو بی جے پی انہیں کھا جائے گی۔ اس وجہ سے وہ مرکز میں بھی ساتھ ہیں اور صوبہ میں بھی ساتھ ہیں لیکن شیوسینا اپنے اخبار کے ذریعہ اور بیانات میں اپنے الگ وجود کا ثبوت دیتی رہی ہے۔

اس وقت ممبئی کارپوریشن کا نتیجہ سا منے ہے تقدیر نے دونوں کو سب کچھ دینے کے بعد بھی بھکاری بنادیا ہے۔ الیکشن اس طرح لڑا گیا ہے کہ شیو سینا اور بی جے پی کے وزیر اعلیٰ بدترین دشمنوں کی طرح لڑ رہے تھے۔ وزیر اعلیٰ فڑنویس نے تو یہاں تک کہہ دیاتھا کہ بی جے پی ہاری تو میں ذمہ داری قبول کروں گا یعنی استعفیٰ دے دوں گا۔اور یہی لہجہ ادھو ٹھاکرے کا تھا۔ اور کہیں سے کہیں تک کانگریس سی پی ایم یا سماج وادی کا ذکر نہیں تھا لیکن وہ ہوا کہ جس کا کسی کو گمان بھی نہیں تھا کہ دونوں جیت بھی گئے اور دونوں ہار بھی گئے۔ بی جے پی کو 82 اور شیو سینا کو 84 سیٹیں ملیں جبکہ جیتنے کے لیے 114کی ضرورت ہے۔ اور وہ کانگریس جس کا کہیں ذکر نہیں تھا وہ 31 سیٹوں پر کامیاب ہو کر تیسرے نمبر کی مگر سب سے اہم پارٹی بن گئی ہے۔ اب یا تو وہی ہوگا جو مرکز اور صوبہ میں ہورہا ہے کہ کارپوریشن کا میئر بی جے پی کا بنے گا اور ڈپٹی میئر شیوسینا کا اور اگر شیوسینا اپنا وجود باقی رکھنا چاہتی ہے تو وہ کانگریس کو راضی کرے گی کہ وہ اپنی شرطوں پر حمایت دے دے اور کارپوریشن پر شیوسینا کا قبضہ ہوجائے۔

کانگریس اس وقت اترپردیش میں فرقہ پرست پارٹیوں سے برسر پیکار ہے اور سماج وادی پارٹی کے گلے میں ہاتھ ڈالے ہوئے ہے۔ وہ اگر شیوسینا سے ہاتھ ملاتی ہے تو یوپی کے باقی الیکشن کا کیا ہوگا؟یوں تو اسے یہ کہنے کی گنجائش ہے کہ وہ اس لیے شیوسینا سے ہاتھ ملا رہی ہے کہ بی جے پی بڑا سانپ ہے اور پورے ملک میں ہے جبکہ شیو سینا صرف ایک صوبہ میں ہے اور وہ دس دن پہلے اعلان کرچکی تھی کہ مہاراشٹرکے الیکشن سے فارغ ہونے کے بعد بی جے پی کو ہرانے کے لیے اترپردیش آئے گی اور اترپردیش یا منی پور میں کانگریس کو بی جے پی سے مقابلہ کرنا ہے، اس لیے ممبئی کا میئر شیوسینا کا بنوادینا غلط نہیں ہوگا۔

یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ شیوسینا کو 31 ووٹوں کی ہی ضرورت ہے اگر آزاد اتنے ہوتے تو کروڑوں میں خرید لیے جاتے، لیکن آزاد صرف ۵ ہیں اور دوسرے چھوٹی پا رٹیوں کے ہیں وہ سب مل کر بھی 31 نہیں ہوتے اب صرف اور صرف دو راستے ہیں ۔بی جے پی کے ساتھ کانگریس جا نہیں سکتی۔ اس لیے یا تو بی جے پی شیو سینا کو اپنا میئر بنانے دے اور اگر اسے اپنا میئر بنانے کی ضد ہے تو یا تو الیکشن ہی دوبارہ کرائے جائیں یا باری باری میئر کا فارمولہ اپنایا جائے، کوئی شک نہیں کہ صورت حال وہ ہے کہ شیو سینا کو اگر اپنا میئر بنانا ہے تو کسی ایک کے سامنے جھکنا ہے اگر کانگریس مان جاتی ہے تو سب ٹھیک، نہیں تو بی جے پی کو منانا ہوگا۔ یہ بھی اتفاق ہے کہ مودی جی نے ہر جگہ بوڑھوں کو موقع دیا لیکن مہاراشٹر  میں وزیر اعلیٰ اتنی ہی عمر کے ہیں جتنی عمر کے شیوسینا چیف ٹھاکرے۔

ہندوستان کی سیاست میں صرف حکومت اور اقتدار ہی سب کچھ رہ گیا ہے نہ نظریہ کوئی چیز ہے اور نہ روایت۔ وہ کونسی پا رٹی ہے جو کسی پارٹی سے ٹکٹ نہ ملنے سے ناراض ہو کر دوسری پارٹی میں جانے والے ممبر کو ٹکٹ نہ دے؟ جو کل تک بی جے پی کو گالی دے رہے تھے، اسے فرقہ پرست کہہ رہے تھے وہ جب بی جے پی میں آئے تو انہیں بھی ٹکٹ اور ان کی آل کو بھی ٹکٹ اور کوئی نہیں معلوم کرتا کہ تم نے برسوں بی جے پی کی مخالفت کی ہے۔ تم ایک دن میں کیسے سمجھ گئے کہ بی جے کے نظریات کیا ہیں ؟ اور یہی ثبوت ہے کہ نظریہ صرف حکومت ہے اور حکومت کو سمجھنے میں سبق پڑھنے کی ضرورت نہیں ۔ کہنے کی بات تو یہ ہے کہ ممبئی کے جلسوں میں بی جے نے شیو سینا کو سانپ تک کہا تھا لیکن اس سے بڑی حکومت پرستی کیا ہوگی کہ بی جے پی نے نہ شیو سیناکو حکومت سے الگ کیا نہ شیو سینا حکومت چھوڑ کر باہر آئی۔کیوں کہ مقصد دونوں کا صرف حکومت اور دولت ہے اور دولت سب سے زیادہ حکومت سے ملتی ہے۔

شیوسینا کو دوسری وجہ سے اور کانگریس کو اس کی تکلیف ہے کہ مودی جی ہرجلسہ میں کہہ رہے ہیں کہ ممبئی میں کانگریس صاف ہوگئی اب دونوں کے اتحاد سے اگر میئر شیو سینا کا بنتا ہے تو مودی جی کی بولتی بند ہوجائے گی اور کانگریس دکھاسکے گی کہ وہ صاف ہونے کے بعد بھی ا تنی ہے کہ بی جے پی کو اس نے صاف کردیا ۔ اس لیے کہ اب وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ اور میئر ہی سب کچھ ہوتا ہے باقی تو کھرچن کھاتے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔