دیہی علاقوں کی عوام کو پینے کا صاف پانی بھی میسرنہیں

سرفراز احمد ٹھکر

(پونچھ ) 

 ہر گھر میں نل اور ہر گھر میں جل کا انتظامیہ کا خواب زندہ تعبیر ہوگا۔لیکن کب تک عوام اس سے فیضیاب ہوسکیں گی؟اس خواب کی تعبیر جموں وکشمیر کے دیہی علاقوں میں صرف کاغزی ریکارڈ تک ہی محدد ہے۔ سرحدی ضلع پونچھ کی تحصیل منڈی کے کئی علاقے آج بھی مختلف بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ وہیں یہاں کے متعدد گاؤں ایسے ہیں جو ترقی کے اس دور میں بھی پینے کے صاف پانی کی سہولیات سے بھی محروم ہیں۔ ضلع پونچھ کی منڈی تحصیل کا ہی ایک گاؤں ‘چکھڑی بن’ سب سے اہم ہے۔ یوں تویہ گاؤں تحصیل ہیڈکوارٹر سے محض چند کلومیٹر کی دوری پر ہے مگر اس کے کچھ علا قے سڑک کی سہولت میسر نہ ہو نے کی وجہ سے ابھی بھی بہت ہی پسماندہ ہیں۔

‘بن اول’، ‘بن دوم’، ‘بن سوم’، ‘ناگاناڑی’، ‘ کھیتاں ‘ ککن والی وغیرہ کے لوگ پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔یہاں تک کہ یہاں کے سرکاری اسکولوں میں بھی پینے تک کا پانی میسر نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ گاؤں میں قدرتی آبی ذخائر موجود ہیں۔ مگر یہ ذخائر آبادی سے کافی دوری پرموجود ہے۔ جہاں تک جانے کے لئے کئی کلومیٹر کی مسافت طے کرنی پڑتی ہے اور جنگل کے متصل ہونے کی وجہ سے جنگلی جانوروں خاص کر ریچھ وغیرہ کا خطرہ ہمیشہ ہی سر پر منڈلاتا رہتا ہے۔ گاؤں میں ایسی کئی ایک وارداتیں ہو چکی ہیں جہاں بہت سے لوگ ریچھ کے حملے میں زخمی بھی ہوئے ہیں۔چونکہ پانی وغیرہ لانے کے لئے زیادہ تر لڑکیوں کو ہی جانا پڑتا ہے۔ اس لئے ان کو مزید مشکل ہو جاتی ہے۔اس سلسلہ میں ڈگری کالج، پونچھ میں زیرِ تعلیم ایک مقامی طالبہ عائشہ سوال کرتی ہیں کہ، ”ایک طرف ہماری سرکار ”بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ” کے نعرے لگاتی ہے وہیں دوسری طرف جب کوئی بیٹی اپنے سر پر گھڑا لئے کئی کلومیٹر پیدل سفر کر کے پانی لانے جائے تو وہ کیسے بچ پائے گی؟ جہاں جنگلی جانوروں کا خوف کھنڈرات اور حساس راستوں کا ڈر بھی ہو،پھر کیسے پڑھ پائے گی؟ ”

بن دوم کے مکین اپنی روئداد بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ” اسے ہم امتحان خدا وندی کہیں یا محکمہ کی غفلت شعاری کہ آج تک کوئی بھی ہمارا پرسانِ حال نہ ہوا۔برف باری کے موسم میں جب درجہ حرارت نقطہ انجماد سے نیچے چلا جاتا ہے تو یہ آبی ذخائر پوری طرح منجمد ہو کر رہ جاتے ہیں۔ مجبوری کے عالم میں اس وقت برف کو پگھلا کر وہی پانی ہم خود استعمال کرتے ہیں اور وہی پانی مال مویشیوں کو بھی پلاتے ہیں، اور گرمیوں میں جب زیادہ دیر تک موسم خشک رہے تو بھی یہ آبی ذخائر سکڑ کے رہ جاتے ہیں۔ تب ہم پانی کی بوند کو ترس کے رہ جاتے ہیں۔ بن بالا کی ایک مقامی خاتون شمیم اختر کا کہنا ہے کہ” ہمارے محلے میں پانی کا ایک ہی چشمہ ہے جس پر اتنی بھیڑ ہوتی ہے کہ ہمیں پانی بھرنے کے لیے راتوں کو جاگنا پڑتا ہے ”۔جمیل احمد نامی ایک مقامی طا لب علم نے محکمہ جل شکتی کی کارکردگی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ”آخر کب محکمہِ جل شکتی کی شکتی اپنے جلوے دکھائے گی اور یہاں کے نہتے اور سادہ لو ح عوام کو اپنی موجودگی کا احساس دلاے گی؟”

چکھڑی بن کے سماجی کارکن سید محمد یاسین شاہ نے بھی محکمہ جل شکتی کے ملازمین کے خلاف اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ پانچ چھ سالوں سے چکھڑی بن، ناگاناڑی کھیتاں بلیدہ ودیگر موڑاجات میں پانی کی پائیپوں کی خستہ حالت ہے۔ لوگ برف باری کے دوران بھی دور دور سے پانی لانے ہر مجبور ہوتے ہیں۔ متعدد بار محکمہ کے جونیر انجینیرسے گزارشات کرنے کے باوجود کوئی بہتر نتیجہ آج تک نہیں نکلا ہے۔ گزشتہ سالوں میں پانی کے لئے بناے گئے ٹنک خالی پڑے ہیں۔ایک لائین مین ہے جو ناکافی ہے۔انہوں نے کہا کہ ایسے میں جب دور جدید میں دنیا پرواز کررہی ہے، ملک کو تر قی یافتہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے وہیں دوسری جانب چکھڑی بن کے تمام علاقے اور ان کے جیسے متعدد دیہی علاقے اب بھی پانی، بجلی، سڑک اور صحت کے مسائیل کے واسطے گزارشات کررہی ہے۔جو کہ افسوس کن ہے۔

اس حوالے سے جونیر انجینیرمحمد حنیف سے بات کی گئی تو ان کا کہناتھاکہ گزشتہ تین سالوں سے اسکول بند ہونے کی وجہ سے جہاں تعلیمی نظام متاثر رہاہے۔وہی اسکولوں میں لگی پائیپ لائنیں بھی دھرم بھرم ہوچکی ہیں۔اب جبکہ اسکول کھلے ہیں تو چند ہی ایام میں اسکولوں میں پانی کا پایپ ٹھیک کیاجاے گا۔یہی سوال جب ایگزیٹو انجینیرعبدل قیوم سے کیا گیا تو ان کا کہناتھاکہ درمیانہ بن کے اسکول کی پائیپیں بھیج دی گئی ہیں۔ ایک ہفتہ کے اندر اسکولوں میں پانی مکمل کردیاجایگا۔ باقی جہاں ابھی تک پانی نہیں لگاہے یا پائپوں کی حالت خستہ ہے وہاں جل جیون شکتی میشن کے تحت ٹھیکداروں کو ٹینڈر دیا جاے گا۔تب تک پرانی پائیپوں کو ہی کسی طرح چلانے میں عملہ متحرک کیاجایگا۔

 یہی سوال جب لائین مین کی تلاش کرتے ہوے غلام قادر بیگ سے پوچھا گیا تو ان کا کہناتھاکہ درمیانہ بن اور اول بن کے دونوں اسکولوں میں پانی نہیں ہے۔ اور بن بالا مڈل اسکول کی پائیپیں ابھی لگی ہی نہیں ہیں۔ گروٹی میں بنیادی مقام پر برف ہے جسکی وجہ سے پانی نہیں آرہاہے اور یہاں کوئی بھی لائین مین بھی تعینات نہیں ہے۔ جہاں اسکولوں کو پانی بند ہے و ہی لوگوں کا پانی بھی بندہے۔ پرائمری اسکول درمیانہ بن کی پائیپ لائین کے لئے پائیپیں دی گئی تھیں وہ لگادی گئی ہیں۔سپر وائیزر جہانگیر احمد سے جب بات کی تو انہوں نے سارے معاملہ سے لاعلمی کا اظہار کرتے کہاکہ یہاں کوئی لائین مین ہی نہیں ہے۔ محکمہ جل شکتی کے ذمہ دار کہتے ہیں کہ کہیں پائیپیں دے دی ہیں کہیں پائیپیں لگ چکی ہیں۔ کہیں چند دنوں میں لگ جانے کا امکان ہے۔

 ان سارے سوالوں کے حوالے سے 16اپریل 2022کو ضلع ترقیاتی کمیشنر،پونچھ کے چکھڑی میں عوامی دربار کے دوران جواب طلب کئے گئے۔ مگر جواب میں خاموشی ہی رہی۔ اس حوالے سے بات کرتے ہوے مقصود شاہ جن کی عمر قریب 40سال ہے۔ انہوں نے بات کرتے ہوے کہاکہ ضلع ترقیاتی کمشنر پونچھ اندرجیت سنگھ نے عوامی دربار میں جل شکتی کے حوالے سے کسی بھی سوال کا جواب دینے سے خاموشی اختیار کی۔ جبکہ صرف چکھڑی بن علاقہ میں پانی کے لئے پانچ نئے واٹر ٹنک بنائے گئے ہیں۔ جن میں پچھلے کئی سالوں سے پانی نہیں ڈالا گیا۔اور اب بھی ان ٹنکوں اور دیگر لائینوں کے حوالے سے بات کو ٹال دیاگیا۔ شائید اسی حاموشی کی وجہ سے محکمہ کے آفیسران ملازمین اپنی ذمہ داری سے کام نہیں کرتے ہیں۔جس کی پشت پناہی ضلع انتظامیہ ہی تو کررہی ہے۔دراصل حقیقت یہ ہے کہ یہاں نہ ہی کوئی لائین مین ہے اور نہ ہی کوئی آفیسر اس دوردراز علاقہ میں ابھی تک پہونچاہے۔سب اندازے سے تیر چلاکر اپنا پلو چھڑا لیتے ہیں۔

 ضلع ترقیاتی کونسل ممبر، لورن چوہدری ریاض احمد ناز نے چکھڑی بن پانی کے حوالے سے بتایاکہ سینکڑوں بار محکمہ جل شکتی کو پینے کے پانی کو لیکر بات چیت ہوئی۔ لیکن انہیں ذرا بھی احساس نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ تمام ملازمین جونیر انجینیر،ایکزیکٹیو  ایسیسٹں نٹ یہاں تک کہ XEN بھی سو رہے ہیں۔انہیں عوام کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔جہاں ضلع ترقیاتی کمیشنر خاموش ہیں وہیں عوامی نمائیندہ بے بس نظر آتے ہیں۔ ایسے میں عوام کا کیا حال ہوگااس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ جب سرکاری اسکولوں میں پانی کی اس طرح کی خستہ حالی ہووہاں گھروں کا عالم کیا ہوگا؟(چرخہ فیچرس)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔