ذہنی غلامی

محمد اعظم قوی

تاریخ میں ایسا بار بار ہوا ہے کہ اپنے وقت کی طاقتور قومیں کمزور قوموں کو فتح کرکے انکو اپنا غلام بناتی رہی ہیں  اور آج کے اس دورِ جدید میں دجالی ایجنٹ اُمّت پر بہت پوشیدگی سے مختلف قسم کے یلغار کر رہے ہیں ان میں سے ایک ذہنی غلامی ہے۔  اگر دیکھا جائے تو ذہنی غلامی کے نسبت جسمانی غلامی اتنی نکساندہ نہیں ہے۔۔ کیونکہ اگر کسی قوم کی فکر و سوچ آزاد ہو تو وہ کبھی بھی شکست تسلیم نہیں کرتی اور موقعہ پاتے ہی خود کو آزاد کرا لیا کرتی ہے۔۔ لیکن ذہنی غلامی کی شکار قومیں نہ اپنے ذہن سے کچھ سوچتی ہیں نہ حالات کو اپنے نظر سے دیکھتی ہیں بلکہ انکے حکمراں جس طرف چاہتے ہیں  اُنہیں موڑ دیتے ہیں۔۔   ذہنی غلامی کی سب سے بڑی نحوست یہ ہوتی ہے کہ ذہنی طور پر غلام قومیں اچّھے کو برا، برے کو اچھا، دوست کو دُشمن اور دشمن کو دوست سمجھتی ہیں اور اپنے دین و ایمان، اپنے افکار و تخیلات، اپنی تہذیب و شائستگی اپنے اخلاق و آداب، سب کو وہ اسی کے حکمراں کے معیار پر جانچنے لگتی ہیں۔ اسی ذہنی غلامی کے زہریلے اثرات نے مسلمانوں کے ذہنوں سے تدبّر و فکر کی صلاحیت کو چھین کر ان پر حکمراں ہو گئی اور یہ بات  انکے دل میں بیٹھا دی ہے کہ اس دور میں اسلامی خلافت و تہذیب کی کوئی ضرورت نہیں اب تو جمہوریت کا بول بالا ہے اور اسی طرح جمہوریت کو اسلامی خلافت كا بِلّا قرار دیا گیا ہے۔

اسی ذہنی غلامی نے مسلمانوں کو قرآن و احادیث کے مطابق سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے دور کر دیا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طاقت کو سپر پاور ثابت کرنے کے بجائے ہم نے کسی غیر مسلم ملک کو سپر پاور مان لیا ہے۔

آج ماحول ایسا بنا دیا گیا ہے کہ اسلامی نظام کو درکار نہ سمجھتے ہوئے  دورِ جدید میں اسلام کو جمہوریت کا غلاف پہنا کر اسلامی شعائر کو بنیاد پرست اور انتہا پسندی کی علامت سمجھا جانے لگا ہے، اور شانوں شوکت کے مظاہر کو عزت اور ترقّی کی علامت سمجھا جاتا ہے اور کامیابی اعمال میں نہیں مال میں سمجھی جاتی ہے۔۔ اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کو غلامی اور اپنی مرضی کی زندگی کو آزادی سمجھی جاتی ہے۔

اس وقت کوئی اسلامی آبادی ایسی نہیں ہے جو صحیح معنوں میں ذہنی اعتبار سے پوری طرح آزاد ہو آج اکثر پڑھے لکھے لوگ بھی مغربی ذہنی غلامی کا شکار ہیں  آج ہمارے  اوپر مغرب کے فكروافکار علوم و فنون حکمراں ہیں۔۔

خدا را ہر رہزن کو رہبر سمجھکر اسکے پیچھے چلنا بند کریں، اگر حالات کو درست کرنا چاہتیں ہیں تو  اپنے اصول و بنیاد کی طرف لوٹیں، اپنے غورو فکر سے حالات کو قران و حدیث سے سوچنے کی کوشش کریں کیونکہ جو قوم  تدبّر و تفکّر اور علمی تحقیق کی راہ میں پیش قدمی نہیں کرتی تو انکا زوال یقینی ہے کیونکہ انکے افکار میں وہ قوت باقی نہیں رہتی کہ وہ اپنے ذہنوں پرتسلط قائم رکھ سکیں۔۔   مسلمان جب تک تحقیق و اجتہاد کے میدان میں آگے بڑھتے رہے تو ترقّی کی بلندیوں پر نظر آتے رہے اسی طرح اگر مسلم دنیا پر نظر دوڑائیں تو ہمیں ابن سینا، ابونصر الفارابی، ابو حامد الغزالی، فخر الدین الرازی، ابن خلدون، ابن طفیل، علامہ اقبال و دیگر موفکرین یہ تمام لوگ بھی تدبّر و فکر  علوم و فنون کی ہی وجہ سے تاریخ کے روشن ستارے ہیں۔ خدا را اپنے فکری اجتہاد اور علمی تحقیق کی راہ کو وسیع کریں۔ اُمتوں کے عروج و زوال کی ساری داستان تاریخ کے صفحات پر بکھری پڑی ہے۔

قوموں کی ترقّی اور بقاء کن اصولوں کے تحت ہوتی ہے۔ ملکوں کا عروج و زوال کیسے ہوتا ہے۔ نسلیں کیسے بنتی اور بگڑتی ہے سلطنتوں اور حکمرانوں پر کب اور کیسے فراری طاری ہوتی ہے ان سارے سوالوں کے جواب  تاریخ کے سفید صفحات پر سرخرو ہے۔ انسانی تاریخ میں انسانی، قومی، انفرادی انقلاب اگر آیا تو اسکی سب سے بڑی وجہ تعلیم ہے وہ تعلیم جو آپکو سوچنا سکھائے۔

تبصرے بند ہیں۔