راج ببر بھی شوق پورا کرکے دیکھ لیں!

حفیظ نعمانی

قانونی طور پر ہمارا تعلق نہ کبھی کانگریس سے رہا اور نہ سماج وادی پارٹی سے بلکہ کسی بھی سیاسی پارٹی کی ممبر شپ یا عہدے یا ذمہ داری کا کوئی تعلق نہیں رہا۔ لیکن کانگریس کے حق میں بھی بہت کچھ لکھا اور کہا اور اس کی مخالفت میں بھی اگر حالات کا تقاضہ ہوا تو گھوڑے دوڑائے۔

2017 ء کا الیکشن کتنا نازک تھا اس کا اندازہ آج ہر اس آدمی کو ہورہا ہوگا جو بی جے پی کی سیاست کو غلط سمجھ رہا تھا۔ اور یہ بھی اسے اندازہ ہورہا ہوگا جو وہ اب دیکھ رہا ہے کہ یہ تو سوچا بھی نہیں تھا۔ مس مایاوتی اگر خود فریبی میں مبتلا نہ ہوتیں اور گٹھ بندھن میں شریک رہتیں تو آج وہ وزیر اعلیٰ نہ بننے کے بعد بھی بہت کچھ بن جاتیں اور یہ حشر نہ ہوتا کہ آج وہ سارا غصہ نسیم احمد صدیقی پر اتار رہی ہیں جو ان کی سیاسی زندگی کے سب سے زیادہ وفادار ساتھی ہیں ۔

کانگریس نے نہیں ، راہل نے اکھلیش سے ہاتھ ملایا تھا شیلا دکشت جو مہارانی بننے کے ارمان لے کر آئی تھیں وہ سب سے پہلے منھ پھلاکر چلی گئیں کہ مجھے وزیر اعلیٰ بنانے کے لئے لایا گیا تھا۔ اور ایک صوبہ میں دو وزیر اعلیٰ نہیں ہوا کرتے۔ یہ بات تو وہ اس وقت کرتیں جب وہ تخت چھوڑکر آتیں ؟ ان کی حیثیت تو یہ تھی کہ وہ اس دہلی سے آرہی تھیں جہاں کانگریس کا ایک ایم ایل اے بھی نہیں ہے۔ اور خود ایک نئے کھلاڑی اروند کجریوال سے مقابلہ میں ہارکر آئی تھیں ۔ اور عوام نے انہیں اس لئے ٹھکرایا تھا کہ وہ ایک ایسی وزیر اعلیٰ تھیں کہ جنہوں نے کامن ویلتھ کھیلوں میں ممتاز مہمانوں کے لئے ایک پل بنوایا تھا جس کے اوپر سے آکر وہ سب اپنے صوفوں پر بیٹھ جائیں ۔ اور وہ پل چند دن کھڑے کھڑے اتنا تھک گیا کہ زمین میں بیٹھ گیا۔ اور وزیر اعلیٰ نے نہ کسی سے استعفیٰ لیا اور نہ خود ذمہ داری قبول کرکے استعفیٰ دیا اور ہزاروں کروڑ کی بے ایمانی پر راکھ ڈال دی۔ ان کارناموں پر اتنے نخرے کہ وزیر اعلیٰ نہیں بنیں تو پھر پارٹی کی خدمت نہیں کریں گی؟

اور غلام نبی آزاد جنہیں الیکشن انچارج بناکر لایا گیا تھا پورے الیکشن میں وہ کہیں نظر نہیں آئے۔ جبکہ انہیں معلوم تھا کہ کانگریس کے ماں بیٹے مٹھیاں بھربھرکر نوٹ پھینکنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں یہ ان کی مصلحت ہے یا مجبوری کہ اترپردیش میں انہوں نے 105  سیٹوں پر لڑنا قبول کرلیا۔ شیلا دکشت، غلام نبی آزاد اور راج ببر کی ذمہ داری تھی کہ وہ 105  سیٹوں پر ہی اپنی صلاحیتوں کو لگاتے اور ان میں سے کم از کم 50  سیٹیں جیت کر دکھا دیتے۔ اور یہ کمزوری کس کی ہے یہ ہم نہیں جانتے کہ پرینکا گاندھی کے بارے میں بار بار کہا تھا کہ وہ ہر سیٹ پر جائیں گی۔ اور یہ شہرت بھی تھی کہ روڈشو راہل اور اکھلیش کریں گے اور دوسرا پرینکا اور ڈمپل یادو کریں گی۔ ہمیں یاد ہے کہ ہم نے خود بھی لکھا تھا کہ ان دونوں کے کھل کر ساتھ آنے سے حالات کچھ کے کچھ ہوجائیں گے۔

سونیا گاندھی اور راہل تو نہ جانے کیا سوچ رہے ہیں کہ جیتی ہوئی ریاستوں کو بھی انہوں نے بی جے پی کو دے دیا گوا کے بارے میں یہ کہنا کہ وہاں وزارت اعلیٰ کے پانچ اُمیدوار تھے۔ اگر تھے تو کیا سونیا گاندھی اتنی بے بس ہوگئی ہیں کہ وہ گوا بھی نہیں جاسکتی تھیں ؟ اور کیا اتنی بے اثر ہوگئی ہیں کہ ان کے ہوتے ہوئے بھی ممبر تیور دکھاتے؟ وہ دہلی میں بیٹھی بیٹھی دیکھتی رہیں اور نریندر مودی نے دونوں ریاستوں کو ہزاروں کروڑ میں خرید لیا۔

شیلا دکشت اور غلام نبی آزاد تو الیکشن کے لئے آئے تھے اور لاکھوں روپئے پر پانی پھیرکر چلے گئے۔ غلام نبی آزاد کانگریس کی ضرورت ہیں اور مجبوری ہیں ۔ کشمیر میں سیف الدین سوز بوڑھے بھی بہت ہیں اور اکیلے ہیں ۔ شیخ عبداللہ کے بیٹے پوتے اقتدار کے بھوکے ہیں اور نہرو خاندان سے صرف ضرورت اور مجبوری میں تعلق بناتے ہیں کیونکہ ان کے دل میں کینہ ہے۔ اور وہ غلط بھی نہیں ہے کیونکہ کشمیر میں وہ جو آج کنارے بیٹھے ہیں اس کے ذمہ دار صرف پنڈت نہرو اور اندرا گاندھی ہیں ۔ فاروق اور عمر ہی نہیں ان کی نسل کبھی بھی دل سے معاف نہیں کرسکتی۔ مفتی صاحب کشمیر کیا دنیا چھوڑ گئے اس لئے جموں کے غلام نبی آزاد کانگریس پر سواری کررہے ہیں اور اگر راہل کو کشمیر سے تعلق رکھنا ہے تو وہ غلام نبی آزاد کو ساتھ رکھنے پر مجبور ہیں ۔

اترپردیش کانگریس کے صدر مسٹر راج ببر جو راہل اکھلیش اتحاد سے دلبرداشتہ تھے اور انہوں نے 105  امیدواروں کو کامیاب کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں کیا انتہا یہ ہے کہ ریتا بہوگنا کو بھی جیت جانے دیا وہ تو چھوڑ چھاڑکر جارہے تھے۔ لیکن اب رُکے ہیں تو کارپوریشن کا الیکشن جو آج کل پارلیمنٹ کے الیکشن جیسے اہم ہوگئے ہیں پارٹی کے لڑانے کی باتیں کررہے ہیں ۔

یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ مایاوتی بلدیاتی الیکشن اپنے ہاتھی سے نہیں لڑتیں ۔ اب اگر کانگریس اور سماج وادی پارٹی متحد ہوکر یہ الیکشن لڑلیں تو پھر آر پار کا الیکشن ہوجائے گا اور 2014 ء کا راستہ صاف ہوجائے گا۔ راج ببر بہت زور سے کہہ رہے ہیں ہر شہر کانگریس کے ساتھ ہے۔ شاید یہ زور اس لئے دیا جارہا ہے کہ کہیں اتحاد نہ ہوجائے۔ راج ببر پہلی بار صوبہ کی سیاست میں آئے ہیں ۔ ابھی تک تو بس اس ضلع تک محدود تھے جہاں سے پارلیمنٹ کا الیکشن لڑا کرتے تھے اور اسمبلی کے الیکشن میں وہ منھ پھلائے بیٹھے رہے۔ ہم نہیں جانتے کہ تمام شہروں سے کانگریس کی مقبولیت انہوں نے کہاں دیکھ لی؟

اسمبلی الیکشن میں کانگریس کی طرف سے کہا جارہا ہے کہ مسلمان زیادہ تر اکھلیش کے ساتھ چلے گئے۔ کانگریس کس منھ سے مسلمانوں کی بے تعلقی کی شکایت کرتی ہے؟ کانگریس نے پچاس سال یا کم زیادہ جتنی بھی حکومت کی ہے وہ مسلمانوں کے بل پر کی ہے اور کانگریس نے مسلمانوں کی جتنی نسل کشی کی ہے اس کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ کانگریس میں ابتدا سے ایک طبقہ نہرو نواز رہا ہے اور دوسرا پٹیل نواز جس میں گووند ولبھ پنت، مرارجی ڈیسائی، پرشوتم داس ٹنڈن اور لال بہادر شاستری تھے۔ پنڈت نہرو کو سب سے زیادہ مولانا ابوالکلام آزاد کی حمایت حاصل تھی اور مسلمان مولانا اور جمعیۃ علماء کی وجہ سے مار کھاتا رہا اور کانگریس سے جڑا رہا۔ لیکن برداشت کی ایک حد ہوتی ہے۔ جب پنڈت نہرو کے نواسوں نے کھل کر مسلم دشمنی شروع کردی۔ ایمرجنسی میں سنجے گاندھی نے جو کیا وہی کیا کم تھا کہ رہی سہی کسر راجیو گاندھی نے رام مندر کے سامنے شلانیاس کیا اور مسجد کا تالا ایک جج سے کھلوا دیا تو یہ اشارہ تھا کہ جسے جو کرنا ہے کرلے۔ اس تالا کھلوانے پر جن مسلمانوں نے احتجاج کیا ان پر جو ہوا وہی کم نہیں تھا۔ پھر میرٹھ کے مسلمانوں نے ذرا زیادہ احتجاج کیا تو وزیر اعلیٰ ویر بہادر جیسے مہا بے ایمان کو اشارہ کردیا کہ وہ اپنی خباثت دکھادے اور میرٹھ میں جو مسلمانوں کے ساتھ ہوا وہ دنیا میں کہیں بھی ہوا ہو ہندوستان میں نہیں ہوا تھا۔ اور وہ راجیو گاندھی جنہیں مسلمان نہرو کا وارث سمجھتے تھے وہ سردار پٹیل سے بھی مسلم دشمنی میں بڑھ گئے۔ اور شاید قدرت نے جو اُن کے ساتھ کیا وہ ان کا انتقام ہی تھا جن کی دن میں پانچ وقت پروردگار کے سامنے پیشانیاں جھکتی تھیں اور جو ہر سال ایک مہینہ اس کے حکم کی تعمیل میں 16  گھنٹے بھوکے اور پیاسے رہتے تھے۔

لیکن ایک انتقام باقی ہے جو آج تک انصاف کی راہ دیکھ رہا ہے کہ بابری مسجد کی شہادت کے غم میں ممبئی میں جو احتجاج ہوا اس پر ہندو ٹوٹ پڑے اور دو ہزار سے زیادہ مسلمانوں کو شہید کردیا اور ان سے زیادہ کو زخمی۔ اسے روکنے کے لئے کچھ مسلمان لڑکوں نے بم دھماکے کرڈالے جن میں 257  ہندو مرگئے ہندو کی حکومت میں ہندو کیا مرے کہ انصاف کے ترازو کے ٹکڑے کردیئے گئے۔ اور بم دھماکوں کی تحقیقات سی بی آئی کے سپرد کردی گئی جس کے پاس اختیارات بھی تھے اپنی فوج بھی تھی اپنے وکیل اور اپنی عدالت بھی۔ اور دو ہزار مسلمانوں کی موت کے معاملہ کی تحقیقات جسٹس بی این سری کرشنا کے سپرد کردی۔ سی بی آئی نے اپنا کام دکھایا اور 257  کے قتل کے الزام میں کسی کو پھانسی کسی کسی کو عمرقید کسی کو دس سال اور پانچ سال کی سزائیں دے دیں ۔ اور جسٹس سری کرشنا نے جن کے پاس اپنے قلم کے علاوہ کوئی ہتھیار نہیں تھا۔ انہوں نے برسوں کی محنت سے رپورٹ میں لکھ دیا کہ شیوسینا، بی جے پی، وشوہندو پریشد، بجرنگ دل اور مسلح پولیس نے 900  سے زیادہ مسلمانوں کو قتل کیا ہے۔ جج صاحب کے پاس نہ فوج تھی نہ وکیل اور نہ جج۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جج صاحب نے اپنی رپورٹ کے بارے میں لکھا ہے کہ’’دسمبر 1992 ء تا جنوری 1993 ء کے دوران میرے لئے ممبئی کے وہ تجربات خاصے تکلیف دہ رہے جو مجھے فسادات اور پرشدد واقعات تفتیش کے لئے مقرر کردہ انکوائری کمیشن کے ذریعہ ملے۔ میں نے پایا کہ فسادات کے متاثرین کے تئیں واضح بے حسی برتی گئی تھی۔‘‘

جسٹس بی این سری کرشنا

کانگریس حکومت کا یہ امتیاز کہ ہندوئوں کے قاتلوں کی تحقیقات سی بی آئی کرے اور مسلمان جو چار گنا مارے گئے ان کی انکوائری کمیشن، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ سیکڑوں قاتلوں میں سے ایک کو بھی نہ موت آئی نہ ایک دن کی سزا۔ اور یہ ہے وہ کانگریس کا اصلی چہرہ جس کے بعد مسلمان اس سے دور نہیں ہوئے بلکہ اس کے نام سے بھی نفرت کرنے لگے۔ اور شاید کرتے رہیں گے اور راج ببر جب اپنے دم پر کارپوریشن کے الیکشن لڑیں گے تو انہیں معلوم ہوجائے گا کہ جس کانگریس کی بات وہ کررہے ہیں وہ کہاں ہے؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔