راہل کو اب شادی کرلینا چاہیے

حفیظ نعمانی

الیکشن کے پروگرام کا اعلان ہوتے ہی ہر لیڈر نے اپنا فرض ادا کرتے ہوئے بیان دے دیا، کانگریس کے صدر راہل گاندھی نے کہا کہ ’’انتخابی جنگ کا بگل بج گیا ہے اب عوام کی باری ہے- جھوٹ سے لڑنے کی پرزور تیاری ہے جھوٹوں کی اس حکومت کو ہم دیں گے مات کمر کسی ہے ہم نے اب کی جیت ہماری ہے۔‘‘

ہمارا کانگریس سے کوئی تعلق نہیں بس اتنا ہی تعلق ہے کہ اگر کسی موڑ پر اس کی ضرورت محسوس ہو تو اس سے کام لے لیا جائے اور اگر وہ کوئی اچھا کام کرنے جارہی ہو تو اسے تعاون دے دیا جائے۔ گذرے ہوئے مہینے میں سب کو معلوم تھا کہ مارچ آدھا ہونے سے پہلے الیکشن کی تاریخوں کا اعلان ہوجائے گا۔ دور سے بیٹھ کر ہم نے تو یہ دیکھا کہ کانگریس نے اس مہینہ کے پل پل کو وصول نہیں کیا اور پورے مہینے میں جو ہم نے دیکھا وہ صرف یہ تھا کہ راہل گاندھی نے اپنی بہن پرینکا اور نوجوان لیڈر سندھیا کو جنرل سکریٹری بنایا اور ایک روڈشو کرکے کانگریس کے زندہ ہونے کا ثبوت دیا لیکن لاکھوں روپئے کے اس خرچ کے بعد جو ہونا چاہئے تھا کہ مایاوتی اور اکھلیش یادو سے مذاکرات ہوتے اور 10  مارچ سے پہلے اعلان کردیا جاتا کہ اترپردیش میں چار پارٹیاں مل کر بی جے پی کو سرحد پر ہی روک دیں گی۔

پورے ملک نے یہ دیکھا ہے کہ فرعونیت کی لعنتوں کا ہار گلے میں ہر وقت ڈالے رہنے والے نریندر مودی نے 2019 ء کے الیکشن کو جیتنے کے لئے اپنے گھٹنے پیٹ سے ملالئے۔ بہار میں اس نتیش کمار کو اپنی برابر 17  سیٹیں دے دیں جو صرف لالو یادو کی مہربانی سے وزیراعلیٰ بنا اور اتنی سیٹیں جیتیں کہ دوسرے نمبر پر آیا۔ اور وہ پاسوان جو 2015 ء میں بھیک کی طرح ٹکٹ مانگ رہا تھا اس نے چھ سیٹیں لے لیں اور اپنے لئے راجیہ سبھا کی سیٹ کا وعدہ لے لیا یعنی اب بیٹا چراغ پاسوان اپنی پارٹی کا صدر ہوگا۔ دوسرا معاہدہ شیوسینا سے کیا، مہاراشٹر میں بھی وہ تیور نظر نہیں آئے جو مودی کی پہچان ہیں اور یہ تو سب نے دیکھا کہ امت شاہ اپنا لشکر لے کر اودھو ٹھاکرے کے در پر پیشانی جھکانے جاتے تھے ٹھاکرے ایک بار بھی امت شاہ کے دفتر نہیں گئے۔ اور ٹھاکرے نے اسمبلی کی آدھی سیٹیں اپنے لئے مخصوص کرلیں اور کہہ دیا کہ وزیراعلیٰ ان کا ہوگا۔ گذارش کا مقصد یہ ہے کہ جو مودی سب کو اپنے قدموں میں جھکاتے تھے وہ ضرورت کی وجہ سے قدموں میں گررہے ہیں۔ یہی انہوں نے تمل ناڈو میں اناڈی ایم کے سے کیا۔

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ راہل گاندھی کو اب شادی کرلینا چاہئے۔ ہمارا مشاہدہ ہے کہ جو لوگ شادی نہیں کرتے اور صاحب اولاد نہیں ہوتے ان کا بڑھاپے تک بھی پورا بچپن نہیں نکلتا۔ ہم نے ایک کو نہیں بہت بڑے بڑے بہت لوگوں کو دیکھا ہے۔ اور راہل کا یہ وہی بچا ہوا بچپن ہے جو مصلحت کے باوجود دوسرے کی طرف ان کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو روک لیتا ہے۔ اور یہ وہی بچپن کے اثرات ہیں جو اسے معاف نہیں کرنے دیتے جس نے انہیں ہرایا ہو۔ دہلی کی سات سیٹیں کیا آج کی جنگ میں ایک سیٹ بھی بہت اہم ہے۔ اگر کجریوال سے معاہدہ کرنے میں انہیں ایک سیٹ بھی نہیں ملتی مگر بی جے پی کی تین سیٹیں کم ہوجاتیں تو یہ کیوں نہیں سمجھا کہ یہ بھی راہل کی جیت ہے۔

ہمارا اندازہ ہے کہ 180  سیٹیں وہ ہیں جہاں کانگریس اور بی جے پی کا سیدھا مقابلہ ہے اور ان میں وہ صوبے بھی ہیں جہاں 2014 ء میں بی جے پی کی حکومت تھی اور اب کانگریس کی ہے اگر ہر صوبہ سے پوری نہیں تو زیادہ سیٹیں کانگریس کو لانا چاہئیں اور ایسی ہر ریاست میں پرینکا کا طوفانی دورہ اور سونیا جی کا صرف منھ دکھانے اور ہاتھ لہرانے کے دورے کرائے جائیں۔ اور اترپردیش، بہار اور بنگال جیسے وہ صوبے جہاں علاقائی پارٹیاں بی جے پی کو دھول چٹانے کیلئے کافی ہیں ان ریاستوں میں وہیں کے کانگریسی لیڈروں کو کام کرنے دینا چاہئے اور راہل گاندھی تمل ناڈو، کیرالہ، اُڑیسہ اور شمالی مشرقی ریاستوں اور آسام تک اپنے کو محدود کرلیں۔ اگر آسام میں بدرالدین اجمل سے معاہدہ کرلیں تو ان کے لئے مفید ہی ہوگا۔

2019ء کے الیکشن کو بی جے پی چاہے گی کہ بالاکوٹ میںدفن کردے بی جے پی کی تمام مخالف پارٹیوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ آپس میں نہ لڑیں۔ اور الیکشن کو صرف مودی کے سنہرے خوابوں، جھوٹے وعدوں، نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کی ہلاکتوں کے دائرہ سے نہ نکلنے دیں۔ وہ کروڑوں عوام جو پلوامہ میں 44  جوانوں کی شہادت کے غم میں ڈوبے ہوئے ہیں ان کا فرض ہے کہ وہ وزیراعظم سے معلوم کریں کہ انہوں نے ان 110  بھائیوں کی موت کا سوگ کتنے دن منایا جو نوٹ بندی کی وجہ سے اپنے ہی روپئے بینکوں سے نہ نکال پائے اور مرگئے۔ انہیں تو مسعود اظہر نے نہیں نریندر مودی نے مارا تھا جو نوٹ بندی کے غلط فیصلہ پر آج بھی اڑے ہوئے ہیں۔ اور شہرت ہے کہ ریزرو بینک کی مخالفت کے باوجود نوٹ بندی کی۔

اور یہ تو نیم سرکاری رپورٹ ہے کہ ایک سو دس کروڑ وہ بے روزگار ہیں جن کو نوٹ بندی کی وجہ سے نوکری سے نکال دیا اور وہ بے روزگار جو چمڑے اور لکڑی پر پابندی لگانے کی وجہ سے ہوئے وہ الگ ہیں۔ حکومت مخالف پارٹیاں اگر راہل گاندھی کے کہنے کے مطابق کمر کس لیں تو جو بی جے پی کیلئے ووٹ مانگنے جائے گا اسے مارکر بھگا دیا جائے گا۔ شہر کی سڑکیں آوارہ جانوروں کا گئوشالہ بنی ہوئی ہیں اور لہلہاتے کھیت کی رکھوالی کسان رات رات بھر جاگ کر کرتے ہیں اس کے باوجود نیل گایوں کے جھنڈ اور گھروں سے بھگائے ہوئے جانوروں نے کسانوں کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ اس ماحول میں ایسی حکومت کو ہرانا کیا مشکل ہے؟

سیاست سے دلچسپی رکھنے والے ہر آدمی کو یاد ہوگا کہ 2014 ء میں نریندر مودی نے کہا تھا کہ ہم نے اپنے ورکروں کو ایک منتر بتایا ہے اس کی وجہ سے بی جے پی 280  سیٹیں جیت کر لائے گی اور پانچ سال سے 280  کی وجہ سے ہی مودی راج کررہے ہیں۔ ایسی پیشین گوئی ہر الیکشن میں مودی امت جوڑی کرتی ہے گجرات میں 150  لانے والے تھے کرناٹک میں حکومت بناکر جشن منانے گئے تھے مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ میں کانگریس کا صفایا کررہے تھے لیکن جو ہوا سب کو معلوم ہے۔ یہ تو پچھلے ہفتہ پتہ چلا کہ سید شجاع نے وہ منتر مشینوں میں پڑھ کر پھونک دیا تھا جس کی وجہ سے گھوڑے کو دو گدھے کو دو کتے کو دو بلّی کو دو وہ کمل کے خانہ میں اس وقت تک جاتا رہا جب تک 280  نہیں ہوگئیں۔ اب امت ہوں یا یوگی، راج ناتھ سنگھ ہوں یا ایرانی اترپردیش میں 74  سیٹیں والا منتر پھونک رہے ہیں یہ مخالفوں کا کام ہے کہ وہ دیکھے کہ شجاع تو اترپردیش میں نہیں آیا ہے؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔