رب کے دَر پر

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

اللہ تعالٰی کا کتنا شکر ادا کروں کہ مجھے عمرہ کی سعادت حاصل ہوئی _ اس طرح ایک دیرینہ خواہش کی تکمیل ہوئی _ اہلیہ بھی ساتھ تھیں اور ہمارے ہم زلف مولانا جبریل امین صدیقی فلاحی بھی اپنی فیملی کے ساتھ عازمِ سفر تھے _ 25 دسمبر 2017 کی شب میں دہلی سے روانگی ہوئی _ایک ہفتہ مکہ مکرمہ میں اور ایک ہفتہ مدینہ منورہ میں قیام کے بعد 9 جنوری 2018 کی شب میں واپسی ہوئی _

جدّہ ہوتے ہوئے صبح سویرے ہم مکہ مکرمہ پہنچ گئے _ احرام دہلی ایرپورٹ پر ہی باندھ لیا تھا _ ہوٹل میں سامان رکھ کر اور ذرا دیر سُستا کر لبیک کہتے ہوئے حرم کی جانب روانہ ہوگئے _ اہلیہ کی ریڑھ کی ہڈّی میں تکلیف کے سبب انھیں چلنے میں دشواری ہورہی تھی، اس لیے حرم پہنچ کر جبریل بھائی نے ایک وہیل چِیَر حاصل کرلی _ اب ہم عمرہ کے لیے بالکل تیار تھے _

خانہ کعبہ کو اپنی نگاہوں کے سامنے دیکھتے ہی زبان پر یہ کلمات جاری ہوگئے : اللھُمَّ زِدْ ھذا البَیتَ تَشْریفاً وَّ تَعظِیماً (اے اللہ! اس گھر کے شرف اور عظمت کو اور بڑھادے) _ اس وقت دل پر جو کیفیت طاری ہوئی وہ بیان سے باہر ہے _ قلم احساس کی تعبیر سے عاجز ہے _ وہ کعبہ جس کی طرف رخ کرکے بچپن سے نماز پڑھتے آئے تھے، نگاہوں کے سامنے تھا _ جس کی تصویر ہزاروں بار دیکھی تھی اور ہر بار یہ حسرت دل میں پیدا ہوئی تھی کہ کاش اسے اپنی آنکھوں سے بھی دیکھ پاتے، اب یہ حسرت پوری ہو رہی تھی _

انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر اس کا طواف کررہا تھا _ ننھے منے بچے (پہیے والے جھولوں پر)، نوعمر، بچے، بچیاں ، نوجوان، دوشیزائیں ، مرد، عورتیں ، جوان، ادھیڑ عمر، بوڑھے، کھوسٹ، ہٹّے کٹّے، معذور، صحت مند، مریض، پھرتیلے، سست، اپنے پیروں پر چلنے والے، وہیل چِیَر کا استعمال کرنے والے، زمین پر گھسٹنے والے، سب طواف میں ایسے مست تھے کہ کسی کو دوسرے کی خبر نہیں تھی _ ہم بھی اس سمندر کا ایک قطرہ بن گئے _جب عام دنوں کا یہ حال تھا تو ایامِ حج میں کتنی بھیڑ ہوتی ہوگی _

تھوڑی دیر کے بعد احساس ہوا کہ اہلیہ زار و قطار رو رہی ہیں _ دیکھا تو ان کے ہاتھ دعا کے لیے اٹھے ہوئے تھے _ یہ آنسو تکلیف کے نہیں ، بلکہ خوشی کے تھے _ وہیل چِیَر ڈھکیلتے ہوئے میرا طواف بھی ہو رہا تھا اور اہلیہ کا بھی _ مجھے جو دعائیں یاد تھیں ان کا ورد کرتا رہا، اہلیہ نے دعاؤں کی کتاب نکال لی، پھر تو مانگنے کے لئے کوئی کمی نہ تھی _ ہر چکّر مکمل کرکے ہم تھوڑی دیر رکتے، دو رکعت نفل پڑھتے، دعائیں کرتے، پھر اگلا چکّر شروع کردیتے _ طواف کرتے ہوئے ہر وقت نگاہیں خانہ کعبہ کی طرف اٹھی رہتیں _ اسے اپنے سے اتنا قریب پاکر اور اتنا قریب دیکھ کر بے خودی سی طاری ہو رہی تھی _ بیت اللہ سے قربت خود اللہ سے قربت کا احساس دلا رہی تھی _

میرا طواف جاری تھا، دعائیہ کلمات بھی زبان پر تھے، لیکن انہماک پیدا کرنے کی کوشش کے باوجود دماغ پر قابو نہ ہو رہا تھا _ وہ بار بار ماضی کے جھروکوں سے جھانکنے لگتا تھا _ لق و دق صحراء ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی بیوی اور ننھے بچے کو لے کر آئے ہیں ، انھیں چھوڑ کر جا رہے ہیں ، کچھ کچھ آبادی ہونے لگی ہے، حضرت ابراہیم نوجوان اسماعیل کے ساتھ مل کر کعبہ کی تعمیر کر رہے ہیں ، بیٹا پتھر اٹھا اٹھا کر دے رہا ہے، باپ انھیں دیوار پر چن رہا ہے، حضرت ابراہیم رب کے حکم پر حج کی منادی کررہے ہیں ، ان کی آواز اتنی بلند ہے کہ 5 ہزار برس گزر جانے کے بعد اب بھی دنیا کے کونے کونے میں سنائی دے رہی ہے _ صدیوں کا فاصلہ سیکنڈوں میں سِمَٹ رہا تھا _ حرم میں سیکڑوں بت رکھے ہوئے ہیں ، ہر قبیلہ کا بت جدا ہے، ہر قبیلے کے سردار کی مسند الگ ہے _ الله کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم حرم میں قرآن مجید کی آیات سنا رہے ہیں ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آواز سنائی دیتی ہے کہ ہم حرم میں اجتماعی طور پر علی الاعلان اللہ واحد کی عبادت کریں گے، کسی کی مجال نہیں کہ ہمیں روک سکے _

عمرۃ القضاء میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم صحابہ کرام کے ساتھ تشریف لائے ہیں اور طواف کررہے ہیں _ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا حرم میں فاتحانہ داخلہ ہو رہا ہے _ آپ جَاءَ الحَقُّ وَ زَھَقَ البَاطِلُ پڑھتے ہوئے اپنی چھڑی سے ایک ایک بت کو گرا رہے ہیں _ حضرت بلال رضی اللہ عنہ خانہ کعبہ پر چڑھ کر اذان دے رہے ہیں _ غرض طواف کرتے ہوئے دماغ کی اسکرین پر وہ تمام مناظر فلم کی طرح تیزی سے نمودار ہورہے تھے جو میں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت میں پڑھ رکھے تھے _

طواف سے فارغ ہو کر صفا و مروہ کے درمیان سعی کی _ اس مقام پر جہاں کچھ تیز رفتار سے چلنا ہوتا ہے (مِیلین اخضرین) یہ احساس کہ اس جگہ حضرت ہاجرہ تیز چلی تھیں ، جذبات کو برانگیختہ کردیتا تھا، دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی تھی اور آنکھیں نم ہوجاتی تھیں _

سعی سے فارغ ہونے کے بعد حلق کرایا (سر منڈایا) _ اب ہمارا عمرہ مکمل ہوگیا تھا _

تبصرے بند ہیں۔