رحم مادر کی پیوندکاری اسلام کی نظر میں (دوسری قسط)

مقبول احمدسلفی

برتھ کنٹرول اور یوٹرس ٹرانسپلانٹ کا تصادم:

ماہرین طب نے خوشحالی، تعلیم، ترقی اور صحت کا نعرہ لگاکر خوشنما طریقے سے برتھ کنٹرول کرنے اور خاندان چھوٹابنانے کا منصوبہ دیاجسے خاندانی منصوبہ بندی کانام دیا جاتاہے،علمائےطب کی اس تجویزومنصوبہ سے سماج پر مہلک اثرات مرتب ہوئے، اقساط حمل اور ضبط ولادت کے مختلف طریقے اپنائے گئےحتی کہ نس بندی اور چھوٹا خاندان فخر کا باعث بن گیا۔ آج عوام تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی ہے۔ ماں کے پیٹ میں معصوم بچیوں کا قتل کوئی گناہ نہیں سمجھاجاتاحتی کہ وضع حمل کے بعد بھی زندہ بچیوں کو کوڑے دان میں پھیک دیا جاتا ہے کوئی مردہ لاش کو بھی اس طرح نہیں پھینکتا،اس وقت سومیں چند عورت ہی برتھ کنٹرول سے بچ پاتی ہوں گی۔ اسپتالوں میں بچہ جنم دینے والی بہت سی خواتین رحم مادر کٹوا کر نکال دیتی ہیں، ہندوستانی حکومت نے اس کی فری سروس گاؤں گاؤں تک مہیا کردی ہے۔ خاندانی منصوبہ بندی کی ایک طرف ایسی تباہی تو دوسری طرف یہی ماہرین رحم مادرکودوبارہ جوڑنے کا کام کررہی ہے۔ خاندانی منصوبہ بندی کے خوشنما نعرے اور عملی اقدام نے کتنے معصوم بچوں کی جان لی، کتنی جانوں کو دنیا میں آنے سے روکا اور کتنی خواتین کواس مہلک راستے سے گزرنے میں اپنی جان گنوانی پڑی۔ دراصل برتھ کنٹرول نے بے اولادی اور بانجھ پن میں اضافہ کیا، حمل وتولید روکنے کے غیرفطری طریقے اپنانے سے رحم مادر(یوٹرس) میں خرابیاں پیدا ہوئیں اور عورتوں میں بانجھ پن کی وبا عام ہوئی۔ ضبط ولادت کا نعرہ لگانے والے لوگ ہی اصل مجرم ہیں جوپہلے بانجھ پن کا مرض پھیلاتے ہیں پھر اس کا علاج کرتے ہیں۔ مراکز صحت میں ایسا گھناؤنا کھیل بہت ہوتا ہے، مال وزر کی ہوس میں صحت مندوں کو بیمار قرار دے کر اس کا مہنگے سے مہنگا علاج کیا جاتا ہے، جسے آپریشن کی نوبت نہیں اسے آپریشن کیا جاتا ہے، حد تو یہ ہے محض پیسے کے لالچ میں مریض کی وفات ہونے کے باوجود اس کا علاج کیا جاتا ہے۔

میاں بیوی میں توالد کی کمزوری کا جائز حدود میں رہ کر علاج کرنا کوئی غلط نہیں ہے مگر قدرت کے فطری نظام کے ساتھ کھلواڑ کرنا حیوانیت اور درندگی ہےخواہ ضبط نسل کے تحت ایسی حیوانیت سوز حرکت کی جائے یا افزائش نسل کے نام پر۔ اسلام میں مجبوری کی بنیاد پر عارضی منصوبہ بندی کرنا جائز ہے اور اگر ضرورت کے تحت یوٹرس کاٹنا پڑے تو اس کی بھی گنجائش ہے مگر محض شوق میں یا کم بچے کی چاہ میں یا اچھی پرورش اور بہتر تعلیم کے نام پر برتھ کنٹرول کرنا حرام ہے۔

افزائش نسل کے جدید طریقے اور ان کا شرعی حکم:

جدید سائنسی ترقیات میں تولید کے جدید سے جدید طریقے ایجاد ہوئے اور ہورہے ہیں، مستقبل میں یہ قدم کہاں تک پہنچے تک کچھ کہنا مشکل ہے۔ ابھی تک مصنوعی تخم ریزی(Artificial Insemination)، نلکی بارآوری(Test Tube Fertilization)، سروگیسی (Surrogate Mother )اور کلوننگ (Cloning)وغیرہ مختلف اقسام پائے جاتے ہیں، کئی سالوں سے یوٹرس ٹرانسپلانٹ پہ تجربہ جاری تھا، اس میدان میں اکادکا کامیابی ملنے پر اب یہ بھی تولید کا ایک طریقہ مانا جارہاہے۔

مصنوعی تخم زیری کا طریقہ: مرد سے جلق وغیرہ سےانزال کراکے کثیر مقدارمیں حاصل شدہ مادہ تولید بذریعہ بذریعہ انجکشن عورت کے پیٹ کے زیریں حصہ (Pelvic Cavity) میں پہنچادیا جاتا ہے جہاں سے قاذفین نامی نالی میں پہنچ کر پہلے سے موجود بیضہ انثی بارآور بنانا دیتا ہے پھر نیچے رحم میں اترکر تخلیق کے مراحل مکمل کرتا ہے۔ اس طریقہ تولید میں جائز پہلو یہ ہے کہ صرف شوہر کا نطفہ لیکر بیوی کے رحم میں ڈال سکتے ہیں۔

ٹسٹ ٹیوب بے بی یا نلکی باآوری کا طریقہ : یہ طریقہ تخم ریزی سے مختلف ہے، اس میں مردوعورت کا نطفہ حاصل کرکے ایک شیشے میں رکھ کر اختلاط کرایا جاتا ہے، جب وہاں مادہ بارآور ہوجاتا ہے تو اسے مزید کچھ نمو کے مراحل طے کراکر یوٹیرس میں ڈال دیا جاتا ہےجہاں سے ارتقائی مراحل طے کرکے توالد ہوتا ہے، یہاں قاذفین کی نالی کی ضرورت نہیں رہ جاتی ہے۔ اگر میاں بیوی کا نطفہ لیکر، اسے بارآور کرکے بیوی کے رحم میں ڈالا جائے تو یہ صورت جائز ہے۔

مصنوعی تخم ریزی اور ٹسٹ ٹیوب کے غیر شرعی طریقے : مصنوعی تخم زیری اور نلکی بارآوری میں جوجائز طریقے ہیں انہیں بیان کردیا گیا ہے،ان کے علاوہ  بہت سارے ناجائز طریقے ہیں، ان طریقوں سے بچہ پیدا کرنا کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے۔

(1) شوہر کی منی اور دوسری عورت کا بیضہ لیکر بیوی کے رحم میں ڈالا جائے۔ (2) دوسرے مرد کی منی اور بیوی کا بیضہ لیکر بیوی کے رحم میں ڈالا جائے۔

(3) شوہر کی منی اور بیوی کا بیضۃ لیکر دوسری عورت کے رحم میں ڈالا جائے۔ (4) اجنبی مرد کی منی اور اجنبی عورت کا بیضہ لیکر بیوی کے رحم میں ڈالا جائے۔ (5) شوہر کی منی اور پہلی بیوی کا بیضہ لیکر دوسری بیوی کے رحم میں ڈالا جائے۔

سروگیٹ مدرہوڈ کا طریقہ: میاں بیوی کا نطفہ حاصل کرکے اسے مصنوعی طریقہ سے باآور کرکے کسی دوسری عورت کے رحم میں رکھا جاتا ہے گویا ایک عورت کی کوکھ کرایہ پر ہوتی ہے جبکہ اس کوکھ میں نطفہ میاں بیوی کا ہوتا ہے۔ یہ سراسر حرام ہے۔

بعض علماء نے سروگیسی میں جواز کا ایک پہلو نکالاہے کہ ایک شخص کو دو بیویاں ہوں تو ایک بیوی اور شوہر کا نطفہ دوسری بیوی کےرحم میں اس کی اجازت سے رکھا جاسکتا ہےمثلا بانجھ بیوی کا بیضہ اور شوہر کا نطفہ لیکراولادجننے والی  بیوی کے رحم میں رکھا جائے یا اولاد جننے والی  بیوی کا بیضہ اور شوہرکا نطفہ لیکر بانجھ بیوی کے رحم میں رکھاجائے۔ حقیقت میں جواز کافتوی غلط ہے اور کسی کے لئے ایک بیوی کا بیضہ دوسری بیوی کے رحم میں رکھنا جائز نہیں ہے۔ اس مسئلہ پہ رابطہ عالم اسلامی کی اسلامک فقہ اکیڈمیکا سیمینا رہوچکاہےجس کا خلاصہ الاسلام سوال وجواب کے فتوی نمبر 23104میں مذکور ہے۔

انسانی کلوننگ کا طریقہ:

انسانی کلوننگ کا معنی کسی انسان کی ہوبہو نقل اتارنا ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ دوالگ الگ جاندار جسموں سے غیرجنسی خلئے حاصل کرکے ان کا اختلاط کرایا جاتا ہے، ایک خلیہ کا مرکزہ نکال کر دوسرے خلیہ کے مرکزہ میں رکھ دیا جاتا ہےپھر بارآور خلئے کو کچھ دنوں بعد لئے گئے خلئے والے جسم میں یا کسی تیسرے جسم میں تخلیق کے باقی مراحل طے کرنے کے لئے رکھ دیا جاتا ہے۔ دو الگ الگ جسموں سے غیرجنسی خلئے کا حصول کبھی نرومادہ سے ہوتا ہے توکبھی دوالگ الگ مادہ سے تو کبھی ایک ہی مادہ کے دو مختلف خلئے سے۔

انسانی کلوننگ میں جائز شکل صرف یہ ہے کہ میاں بیوی کے خلئے بیوی کے ہی جسم میں رکھ کر کلوننگ کیا جائے، باقی مندرجہ ذیل طریقے غیرشرعی اور ناجائز ہیں۔

(1) میاں بیوی کے علاوہ دوالگ جسموں کے خلئے سے انسانی کلوننگ کرنا۔ (2) دوالگ الگ عورت کے خلئے سے انسانی کلوننگ کرنا۔ (3) ایک ہی عورت کے دومختلف خلئے سے کلوننک کرنا۔ (4) میاں بیوی کے خلئے کو تیسرے جسم سے تولید کرانا۔

رحم مادر کی پیوندکاری کا طریقہ : اوپر اس کا طریقہ بتلادیا گیا ہے کہ ایک عورت میں دوسری عورت کی بچہ دانی نصب کی جاتی ہے پھر اس مردوعورت کے نطفہ کا حصول کرکے لیباٹری میں بارآورکیاجاتا ہے پھر اسے رحم میں ڈالا جاتا ہے۔ اس طریقہ تولید میں متعدد شرعی خامیاں ہیں۔

رحم مادرکی پیوندکاری میں شرعی خامیاں:

پہلی خامی: اس میں پہلی خامی مردوعورت کا بے پردہ ہونا ہے۔ ڈونر، شوہر اور بیوی تین افراد نہ جانے کتنے ڈاکٹروں کے پاس باربار اپنا ستر ظاہر کرتے ہیں، تاہم مجبوری میں آدمی اپنا ستر دوسرے کے سامنے کھول سکتا ہے۔

دوسری خامی: اسلام نے انسان کو محترم بنایا ہے، حفظان صحت کے سنہرے اصول بتلائے تاکہ انسانی جسم کو ہلاکت سے بچائے جائے۔ حفظان صحت کی رو سے کسی کے لئے اپنے جسم کو تکلیف دینا، کوئی عضو کاٹ کر الگ کرنا جائز نہیں سوائے اضطراری حالت کے۔ رحم مادر کاٹ کر جسم سے الگ کرنا ماسوا ضرورت کے جہاں فطرت سے بغاوت اور مثلہ کے حکم میں ہے وہیں حفظان صحت کے خلاف بھی ہے کیونکہ اس کے بڑے مفاسد ہیں۔

رحم مادر کاٹ کر جسم سے الگ کرنے کے نقصانات میں وزن میں کمی یا زیادتی ہونا، شرمگاہ میں سکڑپن پیدا ہونا، پیشاب میں انفیکشن، آنتوں کا سکڑنا، خون کا جمنا، ہڈیوں کا بھر بھرا ہونا، بیضہ دانیوں میں رسولی پیداہونا وغیرہ ہے۔ اگر رحم مادر کے ساتھ اوریز بھی ہٹا دی جائیں تو اکثر خواتین ذہنی تناؤ، جذباتی عدم توازن، تنہائی پن اور احساس کمتری کا شکار ہوجاتی ہیں، ساتھ ہی ایسٹروجن لیول کم ہوجانے سے دل کے امراض پیدا ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ایک طرف رحم مادر کٹوانے والی کے لئے بہت سارے جسمانی نقصانات ہیں تو دوسری طرف پیوندکاری کے بھی بھیانک نتائج مرتب ہوتے ہیں جیساکہ اس سے پہلے پیوندکاری کی ہلاکت خیزیاں واضح کی گئی ہیں۔ اسلام اس قسم کے نقصان دہ کاموں کی اجازت نہیں دیتا۔

تیسری خامی : مرد سے غیر فطری طریقے سے انزال کرایا جاتا ہےاوربذریعہ آپریشن عورت کی بیضہ دانی سے بیضہ حاصل کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالی نے ہمیں تولید کا فطری طریقہ دیا ہے اس طریقہ کو بروئے کار لاتے ہوئے ہم فطری طریقہ پر عورت کی شرم گاہ میں انزال کرتے ہیں جبکہ یوٹرس ٹرانسپلانٹ کے لئے عموما جلق کے ذریعہ کثیرمقدار میں مرد کی منی حاصل کی جاتی ہےجس سے کئی نطفے بناکر منجمد کردئے جاتے ہیں۔ اضطراری حالت میں یہ صورت بھی جائز ہوگی۔

چوتھی خامی : رحم مادر کی پیوندکاری میں عطیہ دینے والی ایک عورت کی ضرورت ہوتی ہے جواپنا یوٹرس عطیہ کرسکے۔ خون کا عطیہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ یہ پھر میں بدن میں تیارہو جاتا ہے مگر ایسے عضو کا عطیہ کرنا جو خود اپنے جسم کی ضرورت اور مصلحت ہے(بغیر ضرورت ومصلحت کے اللہ نے جسم میں کوئی چیز نہیں رکھی ہے) دوسرے کو عطیہ کرنا جائز نہیں ہے اس حال میں کہ اس کے نکالنے سے بڑے نقصانات کا خطرہ ہوبلکہ اکثر علماء نے جسم کا کوئی بھی عضو عطیہ کرنا جائز نہیں قرار دیا ہے، نہ زندگی میں اور نہ ہی موت کے بعدکیونکہ خون عطیہ کرنے سے جسم میں اس کی بھرپائی ہوجاتی ہے جبکہ کسی بھی عضو کو نکالنے سے اس کی تلافی نہیں ہوسکتی اور اس وجہ سے بھی کہ یہ مثلہ کے زمرے میں ہےجبکہ کسی عضو کا فروخت کرنا تومتفقہ طورپر حرام ہے۔ کینسر یا دیگرا مراض لاحق ہونے کی وجہ سے نکالے گئے یوٹرس پیوندکاری میں مفید نہیں ہے، لازما اس کے لئے ضرورت ہےکہ صحت مند یوٹرس حاصل کیا جائے اس کے لئے ڈونر کا آپریش بھی لازم ہے، ایسا بھی ممکن ہے کہ چائلڈ آپریشن کے وقت یوٹرس حاصل کیا جائے۔ ان ساری صورتوں میں یوٹرس کاٹنا بغیر ضرورت کے ہے جوکہ جائز نہیں ہوگا۔ جس کو یوٹرس چاہئے اس کی زندگی کو کوئی خطرہ نہیں ہے محض حصول اولاد کی خواہش کے لئے عضوبندی ہوتی ہےاور محض اس غرض کی وجہ سے کسی زندہ انسان کا عضو کاٹنا اور دوسرے میں نصب کرنا جائز نہیں ہوگا۔

پانچویں خامی: ایک مسلمان کا ایمان ہو کہ اولاد دینے والا اللہ ہے، اگر شادی کے بعد کچھ سال اولاد نہ ہو تو مایوس نہیں ہونا چاہئے، نہ اللہ پر توکل کم کرے۔ اولاد نہ ہونے کے نتیجہ میں مزاروں پہ جانا، غیراللہ سے اولاد مانگنا، تعویذ وشرکیہ افعال کرنا یا فطری نظام میں مداخلت کرتے ہوئے دوسری عورت کا رحم پیوند کرنا سب توکل کے خلاف ہیں، ہا ں حصول اولاد کے لئے جائز اسباب اپنانا توکل کے منافی نہیں ہے۔

ہمیں صبر سے کام لینا چاہئے، اولاد کے حصول کے لئے اللہ سے دعائیں کرنی چاہئے، علاج کی ضرورت ہو تو مباح طریقے سے علاج کرنا چاہئے اور اللہ کے فیصلے پر راضی ہوکر اس کی طرف سے اولاد کا انتظار کرنا چاہئے۔ اس نے ہمارے نصیب میں اولاد لکھ رکھی ہے تو ایک نہ ایک دن ضروراولاد ہوگی، لہذا حصول اولاد کے اپنا ایمان ضائع نہ کریں۔ یاد رکھیں زندگی کااصل مقصد بچہ پیدا کرنا نہیں ہے آخرت کی تیاری کرنی ہے۔

چھٹی خامی : اللہ تعالی نے عورت کی شرمگاہ کو نکاح کے ذریعہ مرد کے لئے حلال کیا ہے۔ رحم مادر شرمگا ہ کا حصہ ہے جہاں ایک شوہر کو ہی مجامعت کےذریعہ انزال کرنے کا حق ہے۔ دوسری عورت کی بچہ دانی میں کسی غیرمرد کا نطفہ داخل کرنا صریح زنا تو نہیں ہے مگر شبہ زنا ضرور کہلائے گا۔ جس طرح سروگیٹ مدرہوڈ ناجائز ہے اسی کی یہ دوسری شکل ہے کہ سروگیسی میں بھی میاں بیوی کا نطفہ دوسری عورت کے رحم مادر میں ہوتا ہے اور یوٹرس ٹرانسپلانٹ میں بھی میاں بیوی کا نطفہ دوسری عورت کے رحم میں ہے۔ کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ رحم مادر کی پیوندکاری کرنے سے اب یہ اس عورت کاعضو ہوگیا کوئی بعید نہیں کل یہی سائنس داں پیدائشی طورپر فرج(عورت کی شرمگاہ) نہ رکھنےوالے میں کسی عورت کی شرمگاہ سیٹ کردے کیااس میں وطی کرنا حلال ہوگا؟

ساتویں خامی: آج کل اسپتالوں میں بلڈ بنک کی طرح منی بنک(Semen Bank) قائم ہے جہاں ہزاروں لوگوں کے نطفے منجمد کرکے رکھے ہوئے ہوتے ہیں بلکہ خون کی طرح منی عطیہ کی جاتی ہے، ایک شخص سے وافر مقدار میں منی لیکر کئی کئی نطفہ منجمد کرکے رکھے جاتے ہیں اور پھر ان سارے نطفوں سے کالابازاری کی جاتی ہے۔ چاہے جو نطفہ جس مریض میں فٹ ہوجائے استعمال کرلیا جاتا ہے مقصد کام چلانا اورپیسہ کمانا ہوتا ہے حتی کتنے لوگ مرچکے ہوتے ہیں اور ان کا نطفہ لیباٹری میں موجود ہوتاہے، ظاہر سی بات ہے یہ نطفے کسی نہ کسی پر استعمال کئے جائیں گے، اس میں سے مسلم خاتون بھی ہوسکتی ہےاس لئے ہمیں اس چالبازی سے باخبر رہناہے۔ چالبازی کے علاوہ نطفوں میں اختلاط کا بہت احتمال ہوتا ہے کیونکہ لیباٹری ٹسٹ کے لئے منی بہت پہلے لے لی جاتی ہے اور ایک مدت کے بعدنطفہ تیار کرکے اسے منجمدکرکے، نمو کے کچھ مراحل طے کراکر پھر رحم مادر میں نصب کیا جاتا ہے۔ رحم مادر میں دیر سے مادہ رکھنے پر علماء نے اس تقلیح سے منع کیا ہے کیونکہ اس میں غلطی کااحتمال پایا جاتا ہے۔ منی بنک، حرام بنکنگ ہے۔ ایک شخص کا خون دوسرے کسی بھی انسان میں لگاسکتے ہیں مگر منی کا معاملہ باکل برعکس ہے، میاں بیوی کے نطفہ کو بارآورکراکر صرف بیوی کے رحم میں نصب کیا جائے گا۔ اب آپ غور کریں کہ مادہ پرستی کے طور میں شہرت، لالچ اور روپیہ کے لئےمنی بنک والے کیا کچھ نہیں کرسکتے ہیں ؟۔

آٹھویں خامی: اس پیوندکاری میں اسراف پایا جاتا ہےبغیر کسی بڑے مرض یا جانی خطرہ کے، اس سے بہت کم پیسوں میں کسی کا بچہ گود لیکر پوس پال کر جوان کیاجاسکتا ہے اور کتنے یتیم بچوں کی پروش کی جاسکتی ہے جس پہ نبی ﷺ کی رفاقت کا وعدہ ہے۔

نویں خامی: اس کا دروازہ کھولنے سے حرامکاری کے بے شمار دروازے کھلیں گے مثلا عورتوں کی عزت کی پامالی، فطرت کے ساتھ چھیڑخوانی، حرامی اولاد کی افزائش، غیرفطری انزال، عمل جراحی سے زنانہ جراثیم کا حصول،نطفوں میں اختلاط، کسب حرام کی افراتفری، اعضائے انسانی کا کاروبار، رحم مادر کی شوقیہ پیوندکاری وغیرہ

دسویں خامی:یہ طریقہ لوگوں کو قلاش بنانے، باطل طریقے سے مال کھانے اور لوگوں کی معیشت تباہ کرنے کا  بہت بڑا ہتھیار ہے بلکہ انسانی اعضاء کی اسموگلنگ کا ذریعہ ہے۔ منی بنک سے کمائی، ٹسٹ ولیباٹری کے نام پر لاکھوں کے چارج، آپریشن کا منہ مانگا دام اور انسانی اعضاء کی ہتک اور گھناؤناکاروبار جیسے  کسب حرام کے بہت سارے حیلے اورناجائز امور ہیں۔ صرف ایک کیس کا پیسہ ایک یتیم خانے کا مہینوں کا خرچہ ہے۔

بانجھ پن کیاہے؟

انسان کا خالق اللہ تعالی ہے، اس نے اپنی حکمت کے ساتھ انسانوں کو اچھے ڈھانچے میں ضرورت کی تمام چیزیں دے کرپیدا فرمایا ہے۔ قدرت نے مرد وعورت کے ملاپ سے افزائش نسل کاسلسلہ جاری کیا ہے۔ خالق نے مردوعورت کا ملاپ صرف نکاح کے ساتھ حلال کیا ہے، بغیر نکاح کے ملاپ کرنا اور اس سےبچہ پیدا کرناحرام ہے ایسی اولاد، اولاد الزنا ہیں۔ کبھی میاں بیوی کےدرمیان جنسی تعلقات قائم ہونے کے باوجود اولاد نہیں ہوتی یہ بانجھ پن کہلاتا ہے۔ افزائش نسل کی طرح بانجھ پن بھی اللہ کی طرف سے ہے۔ سورہ شوری کی مکمل دو آتیں پڑھیں، اولاد اور بانجھ پن پہ حکم ربانی واشگاف ہوجائے گا۔ فرمان الہی ہے:

لِّلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚيَخْلُقُ مَايَشَاءُۚيَهَبُ لِمَ نيَشَاءُإِنَاثًاوَيَهَبُ لِمَن يَشَاءُ الذُّكُورَ (49) أَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا ۖوَيَجْعَلُ مَن يَشَاءُعَقِيمًاۚإِنَّهُ عَلِيمٌ قَدِيرٌ (50)(الشوری)

ترجمہ: آسمانوں کی اور زمین کی سلطنت اللہ تعالٰی ہی کے لئے ہے، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جس کو چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے جسے چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے یا انہیں جمع کر دیتا ہے بیٹے بھی اور بیٹیاں بھی اور جسے چاہے بانجھ کر دیتا ہے وہ بڑے علم والا اور کامل قدرت والا ہے۔

اللہ نے یہاں اپنی قدرت کا بھی ذکر کیا ہے کہ وہ اپنی قدرت کاملہ سے سب کو اولاد دے سکتا ہے مگرکبھی  کسی کو اپنی حکمت کے تحت بانجھ بنادیتا ہے۔

ہمیں معلوم یہ ہوا کہ بانجھ پن اللہ کی طرف سے ایک آزمائش ہے، اس آزمائش پہ مومن کو صبر سے کام لینا چاہئے۔ بانجھ پن مرض بھی ہے، یہ مرض کبھی پیدائشی ہوسکتی تو کبھی اپنے ہاتھوں کی کمائی بھی۔ آج کل زنا عام ہے، شرمگاہوں کی حفاظت نہیں ہے، جب ایک لڑکی زنا کرتی پھرے گی تو پھر اس کے بطن سے جائز اولاد کیسے پیدا ہوگی ؟ اس حرام کاری پہ اللہ کی مار پڑتی ہے۔ اسی طرح یہ گناہ بھی عام ہے کہ شادی کرکے بچے نہیں پیدا کرتے، طرح طرح کی مضر ادویہ استعمال کرکے نسل انسانی کو روکتے ہیں پھر سالوں بعد بچے کی خواہش ہوتی ہے کیا ایسی صورت میں قدرت کی مار نہیں پڑے گی؟ وہ تو اور بھی اللہ کے غضب کے شکار ہوں گی جو لڑکیوں کا اسقاط کراتی ہیں یا بلاضرورت برتھ کنٹرول کراتی ہے۔

پیدائشی طورپرآدمی کو مردانہ کمزوری لاحق ہویا خاتون جنسی مسائل کا شکار ہو تو جائزطریقے سے علاج کرانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ گویا بانجھ پن کبھی اللہ کی طرف سے آزمائش ہوسکتی ہے اس پہ ایک مومن سے صبرجمیل مطلوب ہے اور کبھی پیدائشی مرض ہوسکتا ہے اس کے لئےجائز طریقے سے علاج کرانے میں حرج نہیں اور کبھی یہ قدرت کی مار ہوسکتی ہے اس کے لئے سچے دل سے توبہ کرنا چاہئے اورجائز اسباب اپناکر حصول اولاد کے لئے اپنے رب سے سچے دل سے دعا کرنی چاہئے۔

جسے اولاد نہ ہورہی ہو وہ کیا کرے؟

اللہ نے اپنے تمام بندوں کے ساتھ انصاف کیا ہے، اس کے ساتھ بھی انصاف کیا جس کواولاد دی اور اس کے ساتھ بھی انصاف ہی ہے جسے اولاد نہیں دی اس لئے اولاد نہ ہونے سے ایمان وتوکل اور اعمال صالحہ متاثر نہ ہوں۔ ہر حال میں اللہ کی تعریف بجا لائیں، اللہ نے مومنوں کو نمازاور صبر کے ذریعہ مدد مانگنے کی تعلیم دی ہے۔ یقین جانیں جب اللہ کوئی نعمت چھین لیتا ہے اور مومن اس پرصبر سے کام لیتا ہے تواپنے رب کی طرف سے بڑے اجر کا مستحق ہوتاہے۔ ہم کثرت سے اللہ کی عبادت کریں اور نیک اولاد کے لئے اس سے عاجزی کے ساتھ گریہ وزاری کرتے ہوئے دعا کریں۔ مرد کو دوسری شادی کی طاقت ہو تواولادنہ ہونے پر دوسری شادی کرلینی چاہئے۔ دوسری شادی کرنا مشکل ہو تو اپنے نسبی یا رضاعی یا سسرالی رشتہ داروں میں جس کے پاس زیادہ اولاد ہو ان سے ایک بچہ مانگ کر لے پالک بنالیں، ایک طرف آپ کو اپنے رشتہ دارکی اولاد  گود لینے سے خوشی ہوگی تو دوسری طرف اولاد کی آزرو بھی پوری ہوگی۔ اپنے دلوں کو اولاد کا سکون دلانے کے لئے اپنے سماج میں موجود یتیموں، بیواؤں اور مسکینوں کے بچوں کی حسب استطاعت کفالت کریں، اس پہ اللہ کی طرف سے بڑا اجر ملے گا۔ ساتھ ہی ساتھ اللہ کی لکھی تقدیر پر راضی اور خوش ہوکر ان لوگوں میں غوروفکر کریں جنہیں اللہ نے آپ سے زیادہ آزمائش میں مبتلا کیا ہے حتی کہ اللہ نے بہتوں کو اولاد دے کر بڑی بڑی آزمائشوں میں مبتلا کیا ہے۔

آخری پیغام اور مسلم اطباء کو نصیحت:

آپ اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہیں تو ان کے احکام پر بھی چلنا پڑے گا، طب کا پیشہ محض دنیا پرستی کے لئے ہزگر نہیں اپنائیں۔ اس علم کے ذریعہ جہاں قوم وملت کی خدمت کریں وہیں علاج ومعالجہ کے باب میں اہل علم سے حلال وحرام کی پہلے جانکاری حاصل کریں پھر مباح طریقے سے مریضوں کا علاج کریں۔ یقینا بہت سارےحالات آپ کے پاس ایسے آتے ہوں گے  جہاں ایک حرام کام کرنے سے لاکھوں روپئے مل جائیں گے مگر ایسی حرام کمائی سے پرہیز کریں۔ اللہ کے سامنے پیشگی ہوگی اوراپنے کئے کا مکمل حساب دینا ہوگا۔ جان لیں یہ دنیا اور اس کی لذت وشہوت فانی اور لمحہ بھر کی ہے جبکہ اس کاانجام بھیانک اور دیرپا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ بانجھ پن آج کا بڑا چیلنج نہیں ہے بلکہ چیلنج یہ ہے کہ جن وجوہات پر خواتین میں بانجھ پن پھیل رہاہے یا پھیلایا جارہاہے ان کا سد باب کیا جائے۔ سڑکوں، اسپتالوں، اسٹیشنوں اور کوڑےدانوں میں زندہ بچے پھینکے جاتے ہیں، سیکڑوں کی تعداد میں چھوٹے چھوٹے معصوم بچے مزدوری کرنے پر مجبور ہیں، ہزاروں کی تعداد میں یتیم خانوں میں موت وحیات کی کشمکش میں پل رہےہیں، لاکھوں کی تعداد میں بچیاں طوائف بن رہی ہیں، ان تمام بچوں کا حل تلاش کیا جائے۔ بلاضرورت محض روپئے کے لالچ میں اکثر خاتون کا چائلد آپریشن کردیا جاتا ہے پھر دو سے تین بچوں کے بعد خطرہ بتاکر رحم مادر نکال دیا جاتا ہے اس پہ کنڑول کیا جائے۔ ضرورت مندبچوں کی کثرت پیدائش پہ ان کی کفالت وپرورش کا انتظام اورمحتاج بچیوں کی شادی پہ مکمل امداد حکومتی سطح پہ فراہم کی جائے۔ پیسے کی عدم موجود گی کی وجہ سے جو بچیاں گھروں میں جوان ہورہی، یا زنا کا راستہ اختیار کررہی ہیں یا خودکشی کررہی ہیں ان کی زندگیاں بچائی جائیں۔ یہ ہیں ہمارے سماجی چیلنجز، انہیں نظر انداز کرکے غیرضروری کاموں پہ توجہ دی جارہی بلکہ فطری نظام کے ساتھ کھلواڑ کیا جارہاہے اسے بند ہونا چاہئے۔

اللہ تعالی ہمیں تقوی اختیار کرنے کی توفیق دے اوراپنی توفیق سے  ایمان وعمل صالح پر ہمیشہ گامزن رکھے اور صراط مستقیم پر خاتمہ فرمائے۔

تبصرے بند ہیں۔