رخِ مصطفی ہے وہ آئینہ

عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ

ربیع الاول اسلامی سال کا تیسرا مہینہ ہے ؛جو برکتوں کے نزول،سعادتوں کے حصول اور رحمتوں کےہجوم کا خاص مہینہ کہلاتا ہے۔ اس مہینہ میں نبی آخرالزماں حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی،اسی ماہ  آپ صلی الله علیہ وسلم کو چالیس سال کی عمر میں نبوت سے سرفرازکیاگیا اور پھر اسی ماہ63/سال کی عمر میں آ پ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا۔

 رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کا نام مبارک ویسے تو دنیا کے کونے کونے میں ہر وقت لیاجاتا ہے؛لیکن ماہِ ربیع الاول کے آتے ہی آپ ﷺ کاذکر جمیل پوری دنیا میں اور بالخصوص برصغیر پاک و ہند میں اپنے عروج کو پہنچ جاتا ہے،کچھ لوگ ادب و احترام کے دائرے میں اور کچھ حدود و قیود کو تجاوزکرکے رحمت عالم ﷺ کادل چسپ اورایمان افروزتذکرہ کرتےہیں۔

یوں تو نبی آخرالزماں حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کے سب سے بڑے ثناخواں اور مدح سرا تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں ؛جنہوں نےبہ راہ راست مشکوۃ نبوت سے فیض حاصل کیا اور اپنے محبوب صلی الله علیہ وسلم کے کمالاتِ معنوی کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ کے کمالاتِ ظاہری آپ کے حسن وجمال، آپ کی ایک ایک ادا حتیٰ کہ آپ کے حلیہ مبارک، آپ کی رفتار و گفتار، آپ کے اخلاق و کردار غرض آپ سے وابستہ ہر چیز کو بلاکم و کاست محفوظ کرکےملت اسلامیہ پر احسانِ عظیم کردیا۔

اللہ رب العزت نے اپنے پیارے نبی ﷺ کو حسن سیرت کے جملہ اوصاف کے ساتھ ساتھ لازوال اور لاثانی حسن صورت سے بھی متصف فرما کر دنیا میں بھیجا۔ رسول اللہ ﷺ کاحسن سیرت کے ساتھ ساتھ حسن صورت بھی ایک مکمل باب کی حیثیت رکھتا ہے۔ مؤ رخین نے کتب تاریخ و سیرمیں آپ کے باطنی خصائل و خصائص کے ساتھ ساتھ ظاہری حسن و جمال کو بھی موضوعِ سخن بنایا؛جس طرح آقائے دو جہاں ﷺ کاحسن سیرت سراپا معجزہ ہے اسی طرح آپ کا حسن و جمال بھی آپ کا عظیم معجزہ ہے، رسول اللہ ﷺ جیسا دنیا میں نہ کبھی کوئی آیا ہے اور نہ کبھی آئے گا؛ کیونکہ سیرت اور صورت دونوں کا حسن و جمال آپ ﷺ پر منتہی ہوچکاہے۔اب کوئی بھی شخص نہ تو مکمل طور پر آپ کے ظاہر کی عکاسی کرسکتا ہے اور نہ ہی کسی کی باطنی کیفیت آپ ﷺ کے باطن کی طرح ہوسکتی ہے؛یہی وجہ ہے کہ علامہ جلال الدین سیوطیؒ فرماتےہیں : رسول اللہ ﷺ کی ذات ِ مبارکہ پر ایمان کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ کے حسن و جمال پر ایمان لانا بھی ضروری ہے یعنی تکمیل ایمان کے لیے یہ بات بھی شرط ہے کہ ہم اس بات کا اقرار کریں کہ رب کائنات نے حضور ﷺ کا وجودِ اقدس حسن و جمال میں بے نظیر و بے مثال بنایا۔ (الجامع الصغیر)

آئینۂ جمال نبوت :

حضرت امّ معبد خزاعیہ رضی اللہ عنہا ایک بدوی خاتون تھیں، جنہوں نے صحرا میں خیمہ لگا رکھا تھا،ان کے شوہر حضرت ابو معبد رضی اللہ عنہ بھی وہیں تھے۔ چند اونٹ اور بکریاں ان کا کل سرمایہ تھا اور بکریوں کا دودھ ان کی گزر بسر کا اصل ذریعہ تھا۔ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے موقع پر ان کے خیمے کے آگے سے گزرے تو چند لمحے وہاں بھی قیام فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ارشادات سن کر حضرات ام معبد نہایت متاثر ہوئیں، اس وقت ان کے شوہر خیمے میں موجود نہ تھے، وہ آئے تو خالی برتنوں کو دودھ سے بھرے ہوئے پایا اور ام معبد سے پوچھا: یہ دودھ کہاں سے آیا؟ انہوں نے جواب دیا: ایک شخص کی برکت کا نتیجہ ہے جو ابھی ادھر سے گزرا ہے۔ ابو معبدنے تعجب سے سوال کیا: وہ ایسا کون بابرکت شخص ہے، ذرا اس کے بارے میں کچھ بیان تو کرو۔

اس پر ام معبد نے زبان کو حرکت دی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں چند لمحوں میں جو کچھ معلوم ہو سکا تھا، اس طرح بیان کرنا شروع کیا کہ فصاحت و بلاغت کا دریا بہا دیا۔ انہوں نے اپنے ما فی الضمیر کا پوری روانی سے اظہار کیا۔ الفاظ نہایت جچے تلے اور ادب و احترام کے سانچے میں ڈھلے ہوئے تھے۔ ان عربی الفاظ کا ترجمہ ملاحظہ ہو۔

” میں نے ایک معزز شخص کو دیکھا جن کی نفاست نمایاں۔ ۔ ۔  چہرہ روشن اور خلقت و بناوٹ میں حسن۔۔ ۔  نہ موٹاپے کا عیب۔۔ ۔  نہ دبلاپے کا نقص۔۔ ۔  خوش رُو۔۔ ۔ خوبصورت۔۔ ۔ آنکھیں کشادہ اور سیاہ۔۔ ۔ پلکیں لمبی۔۔ ۔ آواز میں کھنک۔۔ ۔ گردن صراحی دار۔۔ ۔  داڑھی گھنی۔۔ ۔ بھویں کمان دار اور جٹی ہوئی۔۔ ۔ خاموشی میں وقار کا مجسمہ۔۔ ۔ گفتگو میں صفائی اور دلکشی۔۔ ۔  سراپا حسن۔۔ ۔  جمال میں یگانہ روزگار۔۔ ۔  دور سے دیکھو تو حسین تر۔۔ ۔  قریب سے دیکھو تو شیریں تر اور جمیل ترین۔ ۔ ۔ بات چیت میں مٹھاس۔۔ ۔  نہ زیادہ باتیں کریں اور نہ ضروررت کے وقت خاموش رہیں۔ ۔ ۔ گفتگو اس انداز کی جیسے پروئےہوئے موتی۔۔ ۔ اگر دو شاخوں کے درمیان ایک شاخ ہوتو وہ دیکھنے میں ان تینوں شاخوں سے زیادہ تروتازہ دکھائی دیں۔ ۔ ۔ قدروقیمت میں سب سے بہتر نظرآئیں۔ ۔ ۔  ان کے کچھ جانثار بھی ساتھ تھےجو انہیں گھیرے ہوئے تھے۔۔ ۔ وہ بولتے تو سب خاموش ہوجاتے۔۔ ۔  کوئی حکم دیتے تو اس کی تعمیل کےلیے ٹوٹ پڑتے۔۔ ۔  سب کے مخدوم سب کے مطاع۔۔ ۔  ترش روئی سے پاک اور قابل گرفت باتوں سے مبرا”۔صلی اللہ علیہ وسلم۔

ابو معبد بولے: خدا کی قسم یہ شخص وہی قریشی معلوم ہوتے ہیں ؛جن کا ذکر میں مکہ میں سن چکا ہوں، میں ارادہ کرچکا ہوں کہ ان کی صحبت کا شرف حاصل کروں۔ اگر کوئی ذریعہ میسر آیا تو ضرور ان کی خدمت میں حاضری دوں گا۔

یہ عرب کی ایک بدوی خاتون کا اندازِ بیان ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ مبارک اور سراپا کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ اندازہ فرمائیے، کیا حسن کلام ہے، کیا فصاحت و بلاغت ہے، کیا ادبیت ہے، کیا زبان کا نکھار ہے۔

بالقصد ترےجمال کوپنہاں رکھا گیا!

حقیقت تو یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا حسن و جمال مکمل طور پر ظاہر ہی نہیں کیا گیا، اگر حضور نبی اکرم ﷺ کا حسن و جمال مکمل طور پر ظاہر کردیا جاتا تو کوئی آنکھ آپ کے رخِ زیبا کی خوبصورتی دیکھنے کے قابل نہ رہتی۔ امام زرقانی علیہ الرحمہ امام قرطبی کا بیان نقل فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ کا حسن و جمال مکمل طور پر ہم پر ظاہر نہیں کیا گیا۔ اگر آقائے کائنات ﷺ کا تمام حسن و جمال ہم پر ظاہر کردیا جاتا تو ہماری آنکھیں حضور ﷺ کے جلووں کا نظارہ کرنے سے قاصر رہتیں۔ (شمائل مصطفیﷺ ) اسی طرح حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ حسن و جمال مصطفی ﷺ کے بیان میں لکھتے ہیں : اگر آپ ﷺ کا حسن و جمال بشر کے لباس میں چھپاہوا نہیں ہوتا تو روئے منور کی طرف دیکھنا ناممکن ہو جاتا۔ ( مدارج النبوۃ) آپ کا حسن و جمال بے مثال تھا، جسم اطہر کی رنگت نور کی کرنوں کی رم جھم اور شفق کی جاذبِ نظر سرخی کا حسین امتزاج تھی۔ آپ ﷺ کے حسن و جمال کو کائنات کی کسی مخلوق سے بھی تشبیہ نہیں دی جاسکتی اور نہ ہی الفاظ میں جلوۂ محبوب ﷺ کا نقشہ کھینچا جاسکتا ہے۔ (شمائل مصطفیﷺ) امام قسطلانی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں کہ اسلاف نے حضورﷺ کے اوصاف کا جو تذکرہ کیا ہے یہ بطور تمثیل ہے ورنہ آپ ﷺ کی ذاتِ اقدس اور مقام بہت بلند ہے۔ (شمائل مصطفیﷺ )

چہرۂ انور کی تابانی :

جب صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخِ زیبا کی طرف نظر کرتے تھےتو کوئی اسےچاند کے مشابہ قرار دیتا، کوئی سورج کاسہارالیتا اور کوئی چاند و سورج سے بھی زیادہ حسین اور خوبصورت بتلاتا تھا۔ چنانچہ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ چاندنی رات میں رسول اللہ ﷺ کو اس حال میں دیکھاکہ آپ پر سرخ رنگ کا دھاری دار حلہ(جوڑا) تھا،میں حضور ﷺ کو بھی دیکھتا اور چاند پر بھی نظر کرتا۔ پس حضور ﷺ میرے نزدیک چاند سے زیادہ حسین تھے۔ (شمائل ترمذی) حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک شخص نے سوال کیا کہ کیاحضور ﷺکا چہرہ مبارک تلوار کی طرح تھا؟ انہوں نے فرمایا نہیں بلکہ چاند کی طرح تھا۔ (بخاری ) کعب بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب میں نے حضور ﷺپر سلام عرض کیا تو چہرہ انور فرحت و سرور سے چمک رہا تھا اور حضور ﷺ جب خوش ہوتے تھے تو چہرہ انور ایسا چمکنے لگتا تھا گویا کہ وہ چاند کا ٹکڑا ہے۔ (بخاری)حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور ﷺ سب سے بڑ ھ کر حسین و جمیل اور خوش منظر تھے۔ جس شخص نے بھی حضور ﷺ کی توصیف وثناء کی تو اس نے چہرۂ انور کو چودہویں رات کے چاند سے تشبیہ دی اور آپ ﷺ کے روئے منور پر پسینے کے قطرے موتیوں کی طرح چمکتے تھے۔ ( المواہب اللدنیہ)

ہموار وحسیں رخسار:

حضرت ہند بن ابی ہالہ ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے رخسار مبارک ہموار اور ہلکے،البتہ نیچے کو ذرا سا گوشت ڈھلکا ہوا تھا۔(شمائل الترمذی)

حضرت علیؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا رنگ گورا سرخی مائل، آنکھیں نہایت سیاہ،بال قدرے خمیدہ،گنجان داڑھی اور آپ ﷺ کے رخسار ہلکے اور ہموار تھے۔(طبقات ابن سعد)

حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے رخسار مبارک ہلکے اور ہموار تھے جن میں ابھار تھا نہ بلندی۔(دلائل النبوۃ)

جسم اطہر کی رنگت:

رسول اللہ ﷺ کی رنگت بھی اتنی حسین اور خوبصورت تھی کہ دیکھنے والا پہلی ہی نظر میں آپ کا اسیر ہوجاتا اور با ربار آپ ﷺ کی زیارت کا مشتاق رہتا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ سفید رنگت والے تھے گویا آپ ﷺ کا جسم مبارک چاندی سے ڈھالا گیا ہو۔ (ترمذی)

حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ کا رنگ مبارک نہ تو چونے کی طرح خالص سفید اور نہ گندمی کہ سانولانظر آئے بلکہ گورا چمکدار تھا۔آپﷺ کے بال نہ زیادہ پیچ دار اور نہ بالکل سیدھے تنے ہوئے بلکہ ہلکا سا خم لئے ہوئے تھے،آپﷺ پر وحی کا آغاز چالیس سال کی عمر میں ہواپھر اس کے بعد دس سال مکہ میں رہے اور دس سال مدینہ میں قیام فرمایا۔وفات کے وقت سر اور داڑھی مبارک میں بمشکل بیس بال سفید تھے۔(صحیح البخاری)

حضرت علی ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کا روئے زیبا سفید ہلکی سی سرخی لئے ہوئے تھا۔(مسند امام احمد)

امام بیہقی ؒ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے جسم مبارک کا وہ حصہ جو دھوپ اور ہوا میں کھلا رہتا تھا وہ سرخی مائل اور جو حصہ کپڑوں میں چھپا رہتا وہ سفید چمکدار تھا۔

متوازن قدو قامت :

آپ ﷺ کے اعضائے مبارکہ کی ساخت اس قدر مثالی اور حسن مناسبت کی آئینہ دار تھی کہ اسے دیکھ کر ایک حسن سراپا پیکرِ انسانی میں ڈھلتا دکھائی دیتا تھا۔ آپ صلی الله علیه وسلم کا قد مبارک درمیانه تھا لیکن آپ میانه پن کے ساتھ کسی قدر طول کی طرف مائل تھے۔آ پ ﷺ کے جسد اطہر کی خوبصورتی اور رعنائی و زیبائی اپنی مثال آپ تھی۔ حضرت برا ء بن عازب بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ میانہ قد تھے یعنی قد نہ ایسا طویل تھا کہ دیکھنے والے کو پسند نہ آئے اور نہ ایسا پست تھا کہ حقیر دکھائی دے۔ جب کسی مجلس میں بیٹھتے تو سب سے بلند نظر آتے۔ جب چلتے تو سب سے اونچے نظر آتے۔

محدثین کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا صحابہ میں لمبا نظر آنا،آپ صلی الله علیہ وسلم کے درازیٴ قد کی وجہ سے نہیں تھا، بلکہ یہ آپ صلی الله علیہ وسلم کامعجزہ تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ کمالاتِ معنوی کی طرح کوئی آپ صلی الله علیہ وسلم سے صورتِ ظاہری میں بھی غالب محسوس نہ ہو۔

زلف معنبر:

 آپ ﷺ کی زلفیں آپ کے مبارک کانوں کو چھوتی تھیں۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گیسوئے عنبریں کی مختلف کیفیتوں کو اُن کی لمبائی کی پیمائش کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بڑے اچھوتے اور دل نشیں انداز میں بیان کیا ہے۔ اگر زلفانِ مقدس چھوٹی ہوتیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کانوں کی لوؤں کو چھونے لگتیں تو وہ پیار سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ’’ذی لمۃ (چھوٹی زلفوں والا)‘‘ کہہ کر پکارتے، جیسا کہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’میں نے کانوں کی لو سے نیچے لٹکتی زلفوں والا سرخ جبہ پہنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر کوئی حسین نہیں دیکھا۔‘‘(بخاری ومسلم)

ایک دفعہ ابو رمثہ تمیمی رضی اللہ عنہ اپنے والدِ گرامی کے ہمراہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے، بعد میں اُنہوں نے اپنے ہم نشینوں سے ان حسین لمحات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زلفِ عنبرین کا تذکرہ یوں کیا :’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک زلفیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کانوں کی لو سے نیچے تھیں جن کو مہندی سے رنگا گیا تھا۔‘‘(مسند احمد )

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ کے موئے مبارک نہایت حسین و جمیل تھے۔ (بخاری)ضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ کی سیاہ زلفوں کے درمیان دو سفید کان یوں لگتے جیسے تاریکی میں دو چمکدار ستارے چمک رہے ہوں۔ (ابن عساکر)

دل کش و سرمگیں آنکھیں :

حضرت علی ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی بڑی بڑی سرخی مائل آنکھیں، پلکیں دراز اور داڑھی گھنی تھی۔(مسند اما م احمد)

حضرت جابر بن سمرہ ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی آنکھیں سرمگیں تھیتم دیکھتے تو کہتے کہ آپ ﷺ نے آنکھوں میں سرمہ لگا رکھا ہے حالانکہ سرمہ نہ لگا ہوتا۔(مسندامام احمد)

حضرت علی ؓ رسول اللہ ﷺ کا حلیہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ کا رنگ گورا،چہرے میں قدرے گولائی، آنکھیں کشادہ،سیاہ اور پلکیں طویل تھی۔(دلائل النبوۃ)

حضرت ام معبد ؓ رسول اللہ ﷺ کا حلیہ بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ آپ ﷺ کی آنکھیں انتہائی سیاہ اور کشادہ تھیں۔ (مستدرک حاکم)

ابروئے خم دار :

آپ ﷺکے دونوں ابرو کمان نما خم دار تھے اوردونوں ابروؤں کے درمیان اتنا کم فاصلہ تھا جو صرف بغور دیکھنے سے محسوس ہوتا تھا،حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے دونوں ابرو کا درمیانی فاصلہ ڈھلی ہوئی خالص چاندی کی طرح سفید اور چمکدار تھا۔(دلائل النبوۃ)

حضرت ام معبدؓ سے مروی حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی پلکیں دراز اور ابرو باریک اور پیوستہ تھیں۔ (لیکن ایک دوسرے سے الگ الگ محسوس ہوتیں )۔(مستدرک حاکم)

حضرت ہند بن ابی ہالہؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ابرو قوس کی طرح خمدار،باریک اور گنجان تھے اور ان کے درمیان ایک رگ کا ابھار تھا جو غصہ آنے پر نمایا ہو جاتا تھا۔(شمائل الترمذی )

حضرت ابو امامہ ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا رنگ گورا، خوبصورت جس میں ہلکی سرخی نمایاں، قدرے خمیدہ بال،قدرتی طور پر سُرمگیں آنکھیں اور پلکیں طویل تھی۔(طبقات ابن سعد)

سُتواں ناک:

حضرت ہند بن ابی ہالہ ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی ناک مبارک بلندی مائل سامنے سے قدرے جھکی ہوئی تھی اس پر نورانی چمک جس کی وجہ سے سرسری نظر میں بڑی اونچی معلوم ہوتی تھی۔(شمائل الترمذی)

حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ رسول اللہ ﷺ کا حلیہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ کی بینی مبارک اعتدال کے ساتھ اونچی تھی۔(حلیۃ الاولیاء)

عدوی قبیلے کا ایک آدمی اپنے دادا سے بیان کرتا ہے (جس نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھاتھا)آپ ﷺ کا حسین سیمابی جسم تھا،کندھوں تک بڑھے ہوئے خوبصورت بال اور ناک سُتواں تھی۔(دلائل النبوۃ)

دہن دل ربا:

آپ ﷺ کا دہن مبارک فراخ،گول،نہایت حسین تھا اور آپ کی آواز اور دبدبہ والی آواز تھی۔ حضرت ابو ہریرۃؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا دہن مبارک بہت حسین اور خوبصورت تھا۔(دلائل النبوۃ)

حضرت یزید الفارسی خواب میں رسول اللہ ﷺ کی زیارت سے شرف یاب ہوئے وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ خندہ رو یعنی مسکراہٹیں بکھیر رہے ہیں (حضرت ابن عباسؓ نے بحالت خواب دیکھے ہوئے حلیہ کی تصویب فرمائی)۔(شمائل الترمذی )

حضرت ابوقرصافہ ؓ رسول اللہ کاحلیہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دیکھتے وقت ایسا معلوم ہوتا گویا آپﷺ کے منہ سے نور کی کرنیں نمودار ہو رہی ہیں۔ (مجمع الزوائد)

لب اقدس:

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لب مبارک سرخی مائل تھے، لطافت و نزاکت اور رعنائی و دلکشی میں اپنی مثال آپ تھے۔جب لب مبارک وا ہوتے تو دہن پھول برساتا۔

 آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدس لب کی لطافت و شگفتگی کے حوالے سے روایت ہے :

’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدس لب اللہ کے تمام بندوں سے بڑھ کر خوبصورت تھے اور بوقتِ سکوت نہایت ہی شگفتہ و لطیف محسوس ہوتے۔( ابن عساکر)

روشن وچمک داردانت:

حضرت ہند بن ابی ہالہ نے دندان مبارک کی خوبصورتی کا نقشہ اس طرح کھینچا : حضور ﷺ کے دانت تبسم کی حالت میں اولوں کے دانوں کی طرح محسوس ہوتے تھے۔ (الطبقات الکبریٰ)

حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کا بیان ہے کہ پہلے پہلے جب مجھے رسول اللہ ﷺ کے متعلق علم ہوا تو میں چچائوں کے پاس مکہ مکرمہ آیا،اہل خانہ نے حضرت عباس بن عبدالمطلب کی طرف مجھے بھیجا،جب میں ان کے پاس آیا تو وہ بئر زم زم سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے،میں بھی ان کے پاس بیٹھ گیا اچانک دیکھتا ہوں کہ باب صفا سے ایک صاحب برآمد ہوئے جن کا رنگ گورا سرخی مائل،قدرے خمیدہ بال،جو کانوں کی لوئوں تک بڑھے ہوئے (ناک بلند آگے سے ذرا جھکی ہوئی)اولوں کی طرح سفید اور آبدار دانت،گہری سیاہ آنکھیں، گھنی داڑھی تھی۔(حلیۃ الاولیاء)

حضرت ہند بن ابی ہالہ ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے دانت باریک خوبصورت اور آبدار تھے ان کے درمیان خوشنما ریخیں تھیں۔ (شمائل الترمذی)

کشادہ سینہ :

نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم فراخ‘کشادہ اور ہموار سینہ والے تھے۔سینہ کا کوئی بھی حصہ دوسرے سے بڑھاہوا نہیں تھا۔امام بیہقی ؒنے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے سینہ مبارک کی بڑی پیاری تعبیر کی ہے:”رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا سینہ اقدس فراخ و کشادہ اور آئینہ کی طرح سخت اور ہموار تھا۔کوئی حصہ دوسرے سے بڑھا ہوا نہیں تھا اور سفیدی میں چودہویں کے چاند کی طرح تھا۔“

شکم مبارک:

حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شکمِ اطہر سینۂ انور کے برابر تھا، ریشم کی طرح نرم اور ملائم، چاندی کی طرح سفید اور چمکدار، حضرت اُمِ معبد رضی اللّٰہ عنہا جنہیں دورانِ ہجرت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی میزبانی کا شرفِ لازوال حاصل ہوا، فرماتی ہیں کہ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیٹ کے بڑا ہونے کے (جسمانی) عیب سے پاک تھے۔‘‘ (حاکم، المستدرک)

حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شکم مبارک اور سینۂ انور برابر تھے۔‘‘ (شمائل  ترمذی )

حضرت اُمِ ہلال رضی اللّٰہ عنہا تاجدارِ کائنات حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شکمِ اطہر کا ذکر کرتے ہوئے فرماتی ہیں : میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بطنِ اقدس کوہمیشہ اِسی حالت میں دیکھا کہ وہ یوں محسوس ہوتا جیسے کاغذ تہہ در تہہ رکھے ہوں۔ ( الطبقات الکبريٰ)

چال و رفتار :

نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم باوقار اور سنجیدہ انداز میں چلتے تھے۔حدیث میں ہے کہ جب آپﷺ چلتے تو ایسا معلوم ہوتا جیسا ڈھلوان کی طرف اتر رہے ہیں۔ “(شمائل ترمذی)

حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کی رفتار مبارک عجز و انکسار اور تواضع وعبدیت پر دلالت کرتی ہے۔آپ صلی الله علیہ وسلم کی رفتار میں غرور یا تکبر کا شائبہ تک نہ ہوتا تھا۔کشادہ کشادہ قدم اُٹھاتے‘سینہ تان کر اکڑکر نہ چلتے‘ نہایت ہی باوقار‘ عزت مندانہ اور پسندیدہ چال چلتے تھے۔“ (شمائل ترمذی)

تبصرے بند ہیں۔