رزرویشن کا مسئلہ

ممتاز میر 

ابھی چند دنوں پہلے اخبار میں سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ رزرویشن پر نظر سے گزرا۔ جسٹس آر بھانو متی اور جسٹس اے ایم کھانولکر کی بنچ نے  اپنے فیصلے میں کہا کہ رزرویشن زمرے کے امیدوار کو اسی زمرے میں نوکری ملے گی چاہے اس نے جنرل زمرے کے امیدوار سے کتنے ہی زائد نمبر حاصل کئے ہوں ۔مذکورہ بنچ نے مزید کہا ہے کہ ایک بار زرو کوٹے میں درخواست دے کراس میں چھوٹ اور دیگر رعایتیں لینے کے بعد امیدوار رزرو کوٹے کے لئے ہی نوکری کا مستحق ہوگا۔اسے جنرل زمرے میں ایڈجسٹ نہیں کیا جا سکتا۔

ہم نہیں کہہ سکتے کہ یہ فیصلہ مناسب ہے یا غیر مناسب ،مگر ہماری چھٹی حس گڑ بڑ کی نشاندہی کرتی ہے۔خاص طور پر آر ایس ایس کے مہارتھیوں کے رزرویشن کے تعلق سے بیانات ذہن میں گونجتے ہیں ۔اس میں بھی بطور خاص20 ستمبر 2015 کا آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت کا وہ بیان جس میں انھوں نے کہا تھا کہ رزرویشن پر نظر ثانی کی جانی چاہئے۔حالانکہ دو ہفتے بعد آر ایس ایس کے دوسرے اعلیٰ عہدیدار سریش بھیا جی جوشی نے رانچی کی آر ایس ایس کی میٹنگ میں موہن بھاگوت کے بیان کی لیپا پوتی کردی تھی ۔مگر چانکیائی نیتی پر عمل پیرا ان لوگوں کا کوئی بھروسہ نہیں ۔ان حضرات سے پہلے بھی 30۔اگست 2015 آر ایس ایس کے ہی جناب ایم جی ویدیا کہہ چکے ہیں کہ

اب caste based رزرویشن کی ضرورت نہیں (یہ بات ہم بھی مانتے ہیں )کیونکہ اب کوئی جاتی بیک ورڈ نہیں رہی ۔آر ایس ایس کا
ایک موقف یہ بھی ہے کہ دولتمند یا معاشی اعتبار سے خوش حال لوگوں کو رزرویشن نہ دیا جائے بلکہ رزرویشن انھیں دیا جائے جو معاشی اعتبار سے کمزور ہوں ۔مگر یہ منافق لوگ ہیں ۔مسلمان جو سند یافتہ غریب کمزور اور ٹوٹے پھوٹے لوگ ہیں پھر انھیں رزرویشن دیتے وقت ان کی نانی کیوں مرتی ہے ؟جہاں جہاں بھی مسلمانوں کو رزرویشن دینے کی کوشش کی گئی ہمیشہ ان کی ٹانگ ہی آڑے آئی ہے۔۔۔بہرحال ہمیں یہ اندیشہ ستا رہا ہے کہ سپریم کورٹ کا یہ تازہ فیصلہ کہیں آر ایس ایس کے خوابوں کی تکمیل کی طرف پہلا قدم تو نہیں ؟

ہم وی ٹی راجشیکھر کی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اس ملک میں ہندو صرف 15 فی صد ہیں ۔اور اس میں بھی برہمن صرف تین فی صد ۔ہمارے نزدیک سپریم کورٹ کا مذکورہ فیصلہ باعث خوشی اس وقت ہوگا جب برہمنوں کو 3 نہیں 4 فی صد رزرویشن دے کر (جو ان کی بڑی  پرانی خواہش ہے )یہ فیصلہ ان پر بھی سختی سے لاگو کیا جائے۔مگر اس ملک میں ایسا کبھی نہیں ہوگاچاہے جس پارٹی کی حکومت آجائے۔کیونکہ ہر شاخ پہ ۔۔۔کہنے والے کہہ سکتے ہیں کہ اگر مایا وتی آگئیں تو دنیا بدل جائے گی ۔یقین کیجئے ایسا کچھ نہیں ہوگا۔منہ سے 4 کیا 40 جوتے بھی مارلیں مگر ہیں وہ بھی ذہنی غلام۔اور اب تو کھلم کھلا انھوں نے بھی برہمنوں کو گلے لگا لیا ہے۔

سپریم کورٹ کے اس تازہ فیصلے سے لوگ عموماً اتفاق کرتے نظر آتے ہیں ۔ان کا موقف یہ ہے کہ اس طرح اہل لوگوں کو ہی نوکریا ں ملیں گی  یہ موقف بظاہر درست بھی ہے ۔مگر اہلیت بذات خود کوئی اٹل چیز نہیں ۔اہل ماں کے پیٹ سے بھی پیدا ہو سکتا ہے اہل بنایا بھی جا سکتا ہے  اور اہلیت حاصل بھی کی جا سکتی ہے۔دنیا یہ سمجھتی ہے کہ محمد رفیع ماں کے پیٹ سے ہی گلو کار پیدا ہوئے تھے جبکہ کشور کمار نے ریاض یا پریکٹس کر کر کے یہ اہلیت حاصل کی تھی۔رزرویشن دیا ہی انھیں جاتا ہے جو اپنے مخصوص حالات کی بنا پر نا اہل ہوتے ہیں اور اصلاً حکومت کی  نیت یہ ہونی چاہئے کہ (کاغذپر تو ایسا ہی ہوتا ہے) کچھ عرصے بعد یہ نا اہل لوگ اہل حضرات کی صف میں شامل ہو جائیں ۔

مگر ایمان سے کہئے کیا روز اول سے حکمرانان ہند کی یہ نیت رہی ہے کہ دلت یا سماج کے یہ دبے کچلے طبقات ہندؤں کی اونچی جاتیوں کے برابر اہلیت؍ صلاحیت حاصل کرلیں ۔جو لوگ اس جدید دور میں بھی ،ٹی وی کمپیوٹر اینڈرائڈ موبائل اور وہاٹس ایپ کے دور میں بھی اپنے ہی مذہب کے کچھ طبقات کواپنے کنؤوں سے پانی نہ دیتے ہوں ۔اپنے مندروں میں پوجا پاٹ نہ کرنے دیتے ہوں ،اپنے سامنے دولہے کا گھوڑی پر بیٹھنا برداشت نہ کر سکتے ہوں وہ ان طبقات کا اپنی ہمسری کر لینا برداشت کرپائیں گے ۔کسی کو ہو تو ہو ہمیں یقین نہیں ہے۔آج آر ایس ایس صد فی صد ملک کے سیاہ و سفید کی مالک بن چکی ہے ۔کیا یہ ممکن ہے کہ وہ دلتوں اور بیک ورڈ یا دیگر دبے کچلے طبقات کو ہندؤں کی اونچی جاتیوں کا ہمسر بنانے کی کوششوں کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرے ۔اہلیت ایسی کوئی چیز نہیں جسے حاصل نہ کیا جا سکے ۔ہم نے پریکٹس یا ریاضت کی مثال دی ہے اور ہم کیا دنیا کہتی ہے Practice makes a man perfect آج IAS/IPS/IFS کوچنگ کلاسس کی جو سہولت اونچی جاتیوں کو حاصل ہے کیا وہی سہولت رزرویشن کیٹیگری والوں یا مسلمانوں کو حاصل ہے۔

مسلم بچوں نے کئی بار صرف اور صرف اپنے دم پر مختلف مقابلہ جاتی امتحانات میں وطن عزیز میں ٹاپ کیا ہے۔اگر مسلمانوں کے لئے اور دیگر دبے کچلے طبقات کے لئے ویسی ہی سکول کالج اور مقابلہ جاتی امتحانات کے کوچنگ سنٹر مہیا کردئے جائیں جیسے اونچی ذاتوں کو میسر ہیں تو ہمیں یقین ہے کہ کہ چند ہی سالوں میں رزرویشن کی بیساکھیوں کو ہٹا لینا پڑے گا ۔مگر مسئلہ ہے نیت کا ۔ہمارے حکمرانوں کی نیت بالکل انگریزوں کی طرح ہے ۔پہلے کالے انگریزوں کی غلامی کرنے کے لئے پڑھتے تھے اب اونچی ذاتوں کی غلامی کرنے کے لئے پڑھایا جا رہا ہے۔ملک میں دھیرے دھیرے دو سسٹم آف ایجو کیشن کو رواج دیا جا رہا ہے ۔جہاں ہمارے بچے پڑھیں گے وہاں امتحانات ہی نہیں ہونگے۔سب پاس ۔کتنا خیال ہے حکومت کو ہمارے بچوں کا۔ظاہر ہے اس طرح کے بچے عملی زندگی میں کہاں اور کس کا مقابلہ کر سکیں گے .

ایک بار پھر سپریم کورٹ کے مذکورہ فیصلے کی طرف لوٹتے ہیں ۔آئین یہ کہتا ہے کہ رزرویشن کی حد ۵۰ فی صد ہے ۔یعنی اس سے زیادہ رزرویشن نہیں دیا جا سکتا۔سپریم کورٹ کے فیصلے سے یہ مفروضہ جھلکتا ہے کہ ہر طبقے یا ذات کو اس کی آبادی کے مناسبت سے رزرویشن ملا  ہوا ہے جبکہ عملاً ایسا نہیں ہے ۔ہر طبقے کو اس کی آبادی کے لحاظ سے رزرویشن کم ہی ملا ہے۔مثلاً آندھرا پردیش میں مسلم آبادی کا تناسب 7.5% ہے اور رزرویشن3.5% ملا ہے ۔سوال یہ ہے کہ ۴فی صد مواقع کسے دئے جا رہے ہیں ۔ظاہر ہے انھیں جو اپنے آپ کو اپنے وسائل کی بنیاد پر اہل ثابت کر سکتے ہیں ۔اور ایسا بھی نہیں ہے کہ ہر اسٹیٹ میں رزرویشن۵۰ فیصد کی حد کے اندر ہی ہے ۔افراد ہی نہیں ریاستیں بھی ’’دبنگوں ‘‘ کی طرح Behave کرتی ہیں ۔تامل ناڈو میں رزرویشن ۶۰ فی صد سے بھی اوپر ہے مگر کسی مائی کے لال نے آج تک اس کا کچھ نہیں بگاڑا۔شمال مشرقی ریاستوں میں سرکاری ملازمتوں میں ST کے لئے رزرویشن ۸۰ فی صد ہے ۔صرف ۲۰ فی صد ملازمتیں unreserved ہیں ۔ان حالات میں سپریم کورت کا یہ فیصلہ کہاں تک مناسب ہے کہہ نہیں سکتے۔پھر مسلمان یہاں ہر اعتبار سے سب سے زیادہ پسماندہ ہیں ۔مگر انھیں کوئی رزرویشن دینا نہیں چاہتا۔سپریم کورٹ سے گزارش ہے کہ وہ پورے ملک میں یکسانیت نہیں بلکہ انصاف مہیا کرے ۔یہ اس کا اولین فرض ہے اور ملک کے Godfather کہہ رہے ہیں کہ معاشی اعتبار سے پسماندہ اور کمزورلوگوں کورزرویشن دیا جائے۔

ایک غلط فہمی خود ہمارے درمیان یہ ہے کہ اسلام میں رزرویشن نام کی کوئی چیز نہیں ۔اسلئے اگر اسلام آگیا تو یہ سب کچھ ختم ہو جائے گا ۔یہ تو  صحیح ہے کہ اسلام میں رزرویشن اس شکل میں نہ تھا نہ ہوگا۔اسلام میں تالیف قلب کے نام سے ایک مد ہوا کرتی تھی جس نے چند سالوں میں تمام غریب پسماندہ دبے کچلے طبقات کو عام مسلمانوں کے برابر لا کھڑا کیا تھا اور حضرت عمر فاروقؓ نے اسے اپنے دور خلافت میں ختم کر دیا تھا ۔ایسا کیونکر ہوا تھا ۔ہم صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ وہ نیک نیت حکمراں تھے ۔انھیں خوف خدا تھا۔اور ایسا کیسے ہو گیا تھا ؟تو اس کے لئے ان کے طرز حکمرانی کا تالیف قلب کے تعلق سے ان کے اقدامات کا گہرا مطالعہ کرنا ہوگا۔انھوں نے صرف دس بارہ سالوں میں کمزور اور پسماندہ طبقات کو دوسروں کے برابر لا کھڑا کیا تھا ۔اور صرف انھی پر کیا موقوف صدیوں بعد کی اسلامی تاریخ میں یہ بات بڑی مشہور ہے کہ ہندوستان میں ہی نہیں دنیا کے دیگر خطوں میں بھی اسی اسلام نے غلاموں کو بادشاہ بنا دیا تھا جسے دنیا کے موجودہ حکمراں بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں ۔۔۔کاش کچھ میڈیا ہمارے پاس بھی ہوتا۔

ہم مضمون شروع کرنے سے پہلے ہی سے یہ سمجھتے رہے ہیں کہ شاید ہم اس موضوع سے انصاف نہ کر پائیں ۔ہماری غایت تو صرف اتنی ہے کہ ہم سے اہل تر اور موضوع کے ماہر حضرات اس پر خامہ فرسائی کریں ۔ممکن ہے ہم سے غلطی ہوئی ہو اور اس طرح ہماری بھی اصلاح ہو جائے۔اللہ ہمارے دانشورون کو اس طرف متوجہ کرے۔آمین

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔