رسول اللہ ﷺ امن و آشتی کے پیغامبر

تحریر: حافظ محمد ادریس… ترتیب: عبدالعزیز

  حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے کبھی کسی کے خلاف جارحیت نہیں کی۔ مکہ معظمہ میں ہجرت سے قبل تو دعوت و تبلیغ اور تربیت و تزکیہ ہی کا دور تھا۔ حکم ربانی تھا: کُفُّوْا اَیْدِیَّکُمْ ؛ یعنی ’اپنے ہاتھ روکے رکھو‘۔ اہل اسلام مظالم برداشت کر رہے تھے مگر صبر و تحمل کے ساتھ! ظلم کی چکی میں پس رہے تھے مگر اللہ تعالیٰ کے حکم کے تابع خاموش تھے!! حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ تلوار نکالی تھی مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نیام میں ڈالنے کا حکم دیا تو سر تسلیم خم کرلیا اور پھر اس وقت تک اسے نیام سے نہ نکالا جب تک اللہ تعالیٰ نے قتال کی اجازت نہ دی۔

مکہ میں حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو کسی نے بتایا کہ کافروں نے اللہ کے نبیؐ کو شہید کردیا ہے۔ حضرت زبیرؓ کے علم میں تھا کہ کفار اس زمانے میں آپؐ کو قتل کرنے کی سازشیں کر رہے تھے۔ خبر سن کر وہ سخت غصے میں آگئے، تلوار نکال لی اور کفار پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا۔ ساتھ ہی خیال گزرا کہ پہلے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر جاکرصورت حال معلوم کرلوں ۔ جب ننگی تلوار کے ساتھ خانۂ اطہر پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو زندہ و سلامت دیکھا۔ جان میں جان آئی اور دل کو سکون مل گیا۔ (الاصابہ فی تمییز الصحابہ، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ج2، ص459، سیرت ابن ہشام المجلد مجموعہ اول، دوم، ص251)۔

  حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جاں نثارؓ اور شیر اسلام کو اس حالت میں دیکھا تو پوچھا: زبیر! تم نے تلوار کیوں اٹھا رکھی ہے؟ عرض کیا کہ میں نے آپؐ کی شہادت کی خبر سنی تھی۔ آپؐ نے فرمایا: اگر مجھے شہید کر دیا گیا ہوتا تم کیا کرلیتے؟ جان بازِ رسالت نے کہا: خدا کی قسم؛ میں سارے مکہ سے بھڑ جاتا اور آپؐ کے خون کا انتقام لئے بغیر چین سے نہ بیٹھتا۔ ظاہر ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے یہ جذباتِ وفاداری و جاں سپاری باعثِ اطمینان تھے مگر آپؐ نے ارشاد فرمایا: زبیر! تجھے معلوم نہیں کہ اللہ نے تلوار اٹھانے سے ہمیں روک رکھا ہے۔ جب تک اللہ اِذن نہ دے ہم تلوار کا استعمال نہیں کریں گے۔ (ایضاً)، اسی طرح کا واقعہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے متعلق بھی الاصابہ ج 2، ص62 پر اور سیرت ابن ہشام ، ص263پر بیان ہوا ہے کہ انھوں نے ایک مرتبہ اسلام کا استہزا کرنے والے کافروں پر حملہ کر دیا تھا مگر انھیں بھی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید فرمائی کہ اذنِ قتال ملنے تک ایسا کام نہ کریں ۔ دونوں نوجوان صحابہؓ بڑے جرأت مند، طاقتور اور صاحبِ سیف و سناں تھے۔

مدینہ منورہ میں ہجرت کے بعد باقاعدہ ایک ریاست وجود میں آگئی۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اس کے غیر متنازعہ اور متفقہ سربراہ تھے۔ اب اللہ تعالیٰ نے ہتھیار اٹھانے کی اجازت دی۔ ارشاد ہوا: ’’اجازت دے دی گئی، ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جارہی ہے، کیونکہ وہ مظلوم ہیں اور اللہ یقینا ان کی مدد پر قادر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیئے گئے صرف اس قصور پر کہ وہ کہتے تھے: ’’ہمارا رب اللہ ہے‘‘۔ اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے تو خانقاہیں اور گرجے اور معبد اور مسجدیں ، جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے، سب مسمار کر ڈالیں ۔ اللہ ضرور ان لوگوں کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کریں گے۔ اللہ بڑا طاقت ور اور زبردست ہے‘‘۔ (الحج22: 39-40)

 اسلام دعوت و تبلیغ سے پھیلا ہے۔ کسی کو زبردستی اسلام میں داخل کرنا منع ہے۔ دلیل سے لوگوں تک بات پہنچائی گئی۔ سلیم الفطرت لوگوں نے اسے مان لیا اور وہ داخل اسلام ہوگئے۔ بعض لوگ دلائل سے قائل تو ہوگئے مگر کئی وجوہات سے انھوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ ان وجوہات میں یوں تو بے شمار وجوہات سامنے آتی ہیں مگر سرداروں کے انکار کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ اسلام قبول کرنے کے نتیجے میں ان وڈیروں ، سرداروں اور اشرافیہ کو اپنی قیادت و سیادت خطرے میں نظر آرہی تھی۔ بعض لوگوں نے عاجلہ کا سودا کیا اور آجلہ و آخرہ کو پس پشت ڈال دیا۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’ہر گز نہیں ؛ اصل بات یہ ہے کہ تم لوگ جلدی حاصل ہونے والی چیز (یعنی دنیا) سے محبت رکھتے ہو اور آخرت کو چھوڑ دیتے ہو‘‘۔ (القیامۃ75: 20-21)

  بعض لوگوں نے لومۃ لائم سے خوف زدہ ہوکر اس راہ حق سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ کچھ کمزور دل اور ضعفاء ایسے تھے کہ ابتلا و امتحان سے ڈر کر چپ سادھ لی۔ اللہ نے اہل ایمان کو حکم دیا ہے: ’’دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔ صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے۔ اب جو کوئی طاغوت کا انکار کرکے اللہ پر ایمان لے آیا، اس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا، جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں اور اللہ (جس کا سہارا اس نے لیا ہے) سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے‘‘۔ (البقرہ2:256)

  سب سے زیادہ تعداد میں لوگ اہل ایمان کے کردار سے متاثر ہوکر اسلام میں داخل ہوئے۔ حلب شام کا ایک شہر ہے۔ یہاں عیسائی آباد تھے۔ امین الامت حجرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ شامی و رومی فوجوں سے لڑتے لڑتے اس علاقے میں آپہنچے۔ انھوں نے اہل شہر سے کہاکہ اگر وہ اسلام کو پسند کرلیں اور اپنی آزاد مرضی سے اس میں داخل ہونا چاہیں انھیں اس کی دعوت دی جاتی ہے۔ اگر وہ اسلام قبول نہ کرنا چاہیں تو کوئی جبر و اکراہ نہیں ۔ وہ اپنے مذہب پر قائم رہیں اور اسلامی ریاست کی سیاسی و قانونی بالا دستی قبول کریں ۔ اس صورت میں اسلامی ریاست ان کی جان، مال، عزت و آبرو اور مذہبی آزادی کی مکمل ضمانت دے گی۔ ان کی عبادت گاہیں محفوظ و مامون ہوں گی۔ اس کے بدلے میں انھیں اسلامی ریاست کو ایک ٹیکس دینا پڑے گا جسے جزیہ کہا جاتا ہے اور جو لوگوں کی استطاعت سے زیادہ ان پر لاگو نہیں کیا جاتا۔ اگر انھیں یہ دونوں شرائط قبول نہ ہوں تو پھر آخری چارۂ کار کے طور پر جنگ ناگزیر ہوجائے گی۔

 اہل حلب نے کہاکہ تم نے انصاف کی بات کی ہے۔ ہمارا فیصلہ یہ ہے کہ نہ ہم تمہارا دین قبول کریں گے، نہ تم سے جنگ لڑیں گے۔ ہم اپنے دین پر قائم رہیں گے اور جزیہ دیں گے۔ معاہدے کے مطابق جزیہ کی رقم ادا کر دی گئی۔ اسلامی فوجیں کچھ دن یہاں مقیم رہیں ۔ بعد میں دشمن کی نئی اور تازہ دم فوجیں شمال مغرب کی جانب سے آگئیں ۔ جنگی حکمت عملی کے تحت صحابہؓ کے درمیان مشاورت سے فیصلہ ہوا کہ مسلمان حلب سے پیچھے ہٹ کر دشمن کا انتظار کریں گے کیونکہ یہ میدان مقابلے کیلئے زیادہ موزوں ہے۔ اس فیصلے کے فوراً بعد سپہ سالار نے ساتھیوں کو حکم دیا کہ وہ وصول شدہ رقم اہل حلب کو واپس کردیں کیونکہ یہ رقم محض اسی صورت میں ان کیلئے جائز ہوسکتی تھی جب وہ اہل بلد کی حفاظت کرسکتے۔ اب عارضی طور پر ہی سہی مگر انھیں یہاں سے پیچھے چلے جانا ہے۔ جب رقم واپس کی گئی تو اہل حلب نے حیرت سے پوچھا: ایسا کیوں کیا جارہا ہے؟ صحابہؓ نے جواب دیا کہ ان کے سپہ سالار نے کہا ہے کہ ہم جنگی حکمت عملی کے تحت پیچھے ہٹ رہے ہیں ، اس لئے ان کی حفاظت نہ کرسکیں گے، لہٰذا یہ رقم ہم استعمال نہیں کرسکتے۔ ان لوگوں کو زندگی میں پہلی بار یہ تجربہ ہوا تھا۔ ان کے ہم مذہب عیسائی حکمران تو ان سے وصول کردہ ٹیکس میں سے کسی صورت ایک پائی بھی واپس نہ کیا کرتے تھے۔ اگر چہ وہ اس کے بدلے میں کوئی خدمت سر انجام دیں یا نہ دیں ۔ ان لوگوں کو مسلمانوں کے اس بے مثال اخلاق و کردار نے اتنا متاثر کیا کہ وہ گرجا گھروں میں جاکر اپنے ہم مذہب عیسائیوں کے مقابلے پر ان اہل اسلام کی کامیابیوں کی دعائیں کرنے لگے۔

 جب حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے اپنے دشمنوں کو جنگ میں شکست دی اور حلب سے دور شمال مغرب کی طرف ان کو دھکیل دیا تو ایک بار پھر حلب میں داخل ہوئے۔ اب شہر کے لوگ کیا بچے اور کیا بوڑھے، کیا عورتیں اور کیا مرد سبھی ان کے والہانہ استقبال کیلئے امڈ آئے۔ ان کے دل اسلام کے عظیم الشان نظام اخلاق نے فتح کرلئے تھے۔ وہ یک زبان پکارے کہ ہم جزیہ نہیں دیں گے۔ ہم اس دین حق کو برضا و رغبت قبول کرتے ہیں ۔ (تفصیلات کیلئے دیکھئے الفاروق از علامہ شبلی نعمانی، مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان، باب فتح یرموک، ص 125-126)

  یوں یہ شہر اس روز سے آج تک اسلام کا مرکز ہے۔ اندھی قوت سے لوگوں کو پچھاڑا جاسکتا ہے مگر جیتا نہیں جاسکتا۔ جیتنے کیلئے محبت کی شیرینی، اخلاق کی پاکیزگی اور کردار کی عظمت ضروری ہوتی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ کرامؓ ان صفات سے پوری طرح متصف تھے۔

تبصرے بند ہیں۔