رسول اللہ ﷺ  انسانیت کے لیے رحمت

 ریاض فردوسی

اورہم نے آپ کونہیں بھیجامگرسارے جہانوں کے لیے رحمت کرتے ہوئے.(سورہ۔انبیاء۔آیت۔107)

دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہم نے تم کو دنیا والوں کے لیے رحمت ہی بنا کر بھیجا ہے دونوں صورتوں میں مطلب یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت دراصل نوع انسانی کے لیے اللہ کی رحمت اور مہربانی ہے،  کیونکہ آپ ﷺ نے آ کر غفلت میں پڑی ہوئی دنیا کو چونکایا ہے،  اور اسے وہ علم دیا ہے جو حق اور باطل کا فرق واضح کرتا ہے،  اور اس کو بالکل غیر مشتبہ طریقہ سے بتا دیا ہے کہ اس کے لیے تباہی کی راہ کونسی ہے اور سلامتی کی راہ کونسی۔ کفار مکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کو اپنے لیے زحمت اور مصیبت سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ اس شخص نے ہماری قوم میں پھوٹ ڈال دی ہے،  ناخن سے گوشت جدا کر کے رکھ دیا ہے۔ اس پر فرمایا گیا کہ نادانو،  تم جسے زحمت سمجھ رہے ہو یہ درحقیقت تمہارے لیے ﷲ کی رحمت ہے۔(تفہیم القرآن)

بلاشبہ اﷲ تعالیٰ نے ایمان والوں پر یقینااحسان فرمایاکہ جب اُن ہی میں سے ایک رسول ان میں مبعوث فرمایا جو اُنہیں اﷲ تعالیٰ کی آیات پڑھ کر سناتاہے اوراُنہیں پاک کرتاہے اورانہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے حالانکہ بلاشبہ اس سے پہلے وہ یقیناکھلی گمراہی میں تھے۔(سورہ۔آل عمران۔آیت۔164)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا جب مکہ سے ہجرت کرکے (اونٹ پر سوار ہوکر) مدینہ منورہ کی جانب روانہ ہورہی تھیں، تو راستہ میں ہبار بن اسود نامی ایک شخص نے انہیں اتنی تیزی سی نیزہ مارا کہ وہ اونٹ سے گرپڑیں، حمل ساقط ہوگیا، اس صدمہ سے تاب نہ لاسکیں اور اللہ کو پیاری ہوگئیں، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس حادثہ کی خبر ہوئی تو آپ بہت غضب ناک ہوئے اور آپ کو اس بات سے بہت صدمہ ہوا، جب بھی اس حادثہ کی یاد تازہ ہوجاتی تو آب دیدہ ہوجاتے؛ لیکن جب ہبار بن اسود اسلام لے آئے اور معافی کی درخواست کی، توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں معاف کردیا۔

  اسی طرح وحشی بن حرب جن کی ذات سے اسلامی تاریخ کے تلخ ترین حادثہ کی یاد وابستہ ہے، کہ جنھوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب و مشفق چچا کو قتل کیاتھا؛ لیکن جب انھوں نے اسلام لاکر خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا اسلام تسلیم فرمالیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قتل کی کیفیت دریافت فرمائی، جب انھوں نے واقعہ بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر گریہ طاری ہوگیااور فرمایا وحشی! تمہارا قصور معاف ہے؛ لیکن تم میرے سامنے نہ آیا کرو، تمہیں دیکھ کر پیارے شہید چچا کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔آپ سب سے زیادہ سخی، بہادر محبت کرنے والے اور امن پسند انسان تھے۔ اور یہیں وجہ تھی کہ آپ امن اور انسانیت کو قائم رکھنے کے لیے جہاد کرتے تھے تاکہ زمین کو کسی بڑے فساد سے بچایا جاسکے۔اس لیےنبی اکرم ﷺ کے پاس کل 9 تلواریں تھیں۔دو تلواریں  آپؐ کو وراثت میں ملی تھی، اس کے علاوہ تین تلواریں رسول اکرم ﷺکے مال غنیمت میں آئ۔ اس وقت ان نو تلواروں میں سے آٹھ تلواریں استنبول میں ایک عجائب گھر میں محفوظ ہیں جبکہ ایک تلوار مصر میں ایک مسجد کے اندر  محفوظ ہے۔ان کے نام یہ ہیں۔العضب، الرسوب،المخدم،القلعی،الماثور، الحتف،البتار، الذوالفقار، القضیب،

اے ہمارے رب! ان میں انہی میں سے ( وہ آخری اور برگزیدہ ) رسول

 (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث فرما جو ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے ( کر دانائے راز بنا دے ) اور ان ( کے نفوس و قلوب ) کو خوب پاک صاف کر دے،  بیشک تو ہی غالب حکمت والا ہے۔(سورہ۔البقرہ۔آیت۔129)

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اچھے اخلاق کو اُن کے اتمام تک پہنچانے کے لیے مبعوث کیا گیا ہوں۔ ”(مسند احمد رقم۔8902)

 مسند احمد ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں اللہ جل شانہ کے نزدیک آخری نبی اس وقت سے ہوں جبکہ آدم ابھی مٹی کی صورت میں تھے میں تمہیں ابتدائی امر بتاؤں میں اپنے باپ ابراہیم کی دعا اور حضرت عیسیٰ نے دی اور میری ماں نے دیکھا کہ گویا ان میں سے ایک نور نکلا،  جس سے شام کے محل چمکا دئے۔ مطلب یہ ہے کہ دنیا میں شہرت کا ذریعہ یہ چیزیں ہوئی۔ آپ کی والدہ صاحبہ کا خواب بھی عرب میں پہلے ہی مشہور ہو گیا تھا اور وہ کہتے ہیں کہ بطن آمنہ سے کوئی بڑا شخص پیدا ہو گا بنی اسرائیل کے نبیوں کے ختم کرنے والے حضرت روح اللہ نے تو بنی اسرائیل میں خطبہ پڑھتے ہوئے آپ کا صاف نام بھی لے دیا اور فرمایا لوگو میں تمہاری طرف اللہ کارسول ہوں،  مجھ سے پہلے کی کتاب توراۃ کی میں تصدیق کرتا ہوں اور میرے بعد آنے والے نبی کی میں تمہیں بشارت دیتا ہوں جن کا نام احمد ہے ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اسی کی طرف اس حدیث میں اشارہ ہے،  خواب میں نور سے شام کے محلات کا چمک اٹھنا اشارہ ہے،  اس امر کی طرف کہ دین وہاں جم جائے گا بلکہ روایتوں سے ثابت ہے کہ آخر زمانہ میں شام اسلام اور اہل اسلام کا مرکز جائے گا۔ شام کے مشہور شہر دمشق ہی میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام شرقی سفید مینارہ پر نازل ہوں گے۔ بخاری مسلم میں ہے میری امت کی ایک جماعت حق پر قائم رہے گی،  ان کے مخالفین انہیں نقصان نہ پہنچا سکیں گے یہاں تک کہ امر اللہ آ جائے صحیح بخاری میں کہ وہ شام میں ہوں گے۔ ابو العالیہ سے مروی ہے کہ یہ بھی اسی مقبول دعا کا ایک حصہ ہے کہ اور یہ پیغمبر آخر زمانہ میں مبعوث ہوں گے۔ کتاب سے مراد قرآن اور حکمت سے مراد سنت و حدیث ہے حسن اور قتادہ اور مقاتل بن حیان اور ابو مالک وغیرہ کا یہی فرمان ہے اور حکمت سے مراد دین کی سمجھ بوجھ بھی ہے۔ پاک کرنا یعنی طاعت و اخلاص سیکھنا،  بھلائیں کرانا،  برائیوں سے بچانا،  اطاعت الٰہی کر کے رضائے رب حاصل کرنا،  نافرمانی سے بچ کر ناراضگی سے محفوظ رہنا۔ اللہ عزیز ہے جسے کوئی چیز نہیں کر سکتی جو ہر چیز پر غالب ہے وہ حکیم ہے یعنی اس کا کوئی قول و فعل حکمت سے خالی نہیں،  وہ ہر چیز کو اپنے محل پر ہی حکمت وعدل و علم کے ساتھ رکھتا ہے۔(تفسیر ابن کثیر جلد اول)

نبی کریم ﷺ نے فرمایا، میں  اپنے باپ ابراہیم کی دعا کا نتیجہ ہوں۔  (مسند ابو داؤدطیالسی:1224)

ابوجہل جیسا بدترین دشمن آپ ﷺ کی کاملیت کے بارے میں کہتا ہے کہ محمد ﷺ میں تمھیں جھوٹا نہیں سمجھتا۔ عروہ بن سعود۔واﷲ میں نے حبشہ کے بادشاہ نجاشی، قیصر روم اور کسریٰ کے دربار دیکھے مگر جتنی تعظیم محمد ﷺ کے ساتھی آپ ﷺ کی کرتے ہیں وہ کسی بادشاہ کے دربار میں نصیب نہ ہوئی۔مصنف جوزف سکاچ نے آپؐ کی کامیابیوں کو یوں خراج عقیدت پیش کیا ہے’’ حضورﷺ کو اپنی رسالت کی صداقت پر جو پختہ یقین تھا وہ ہر شک و شبے سے بالا تر ہے آپؐ کی شخصیت کا جو پہلو نہائت شدت سے ابھرا وہ آ پؐ کا دلی جذبہ تھا جب اس کا امتزاج آپؐ کی غیر معمولی صلاحیتوں سے ہوا تو آپؐ کی رسالت دنیا میں ہی کامیابی سے ہمکنار ہو گئی مکے میں آپؐ کا صبرو استقلال اور مدینے میں آپؐ کے مدبرانہ اعمال آپؐ کی اس نظریاتی جدو جہد کے مظاہر تھے جس کیلئے آپؐ ساری عمر انتھک کوشش کرتے رہے آپؐ کی غیر معمولی شخصیت جس کے اثرونفوذ نے آپؐ کی کامیابی کی راہیں ہموار کیں اور اسلام پر اپنے انمٹ اثرات چھوڑے ہیں‘‘۔ اقوام مشرق کے افکارو عادات میں رسولﷺ کی سیرت اور تعلیمات نے جو حیرت انگیز انقلاب برپا کیا اس کا تذکرہ کرتے ہوئے ایک مصنف باسورتھ سمتھ لکھتا ہے کہ صبح دم موذن کی آواز اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ جہان بھی رسولؐ عربی کا پیغام پہنچا اس کا مشق کی روائتی سستی اور آرام پر بھی گہرا اثر پڑا۔ یہ دعوت آج بھی گواہی دیتی ہے کہ محمدﷺ کو دنیا میں اﷲ کی حکومت کے قیام پر انسان کی آزادی فکر پر کتنا گہرا یقین تھا‘‘۔ایم این رائے ایک ہندو جو کیمو نسٹ انٹر نیشنل کا ممبر تھا دنیا کے چوٹی کے انقلابی لوگ اس کے ممبر تھے وہ اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ تاریخ انسانی کا عظیم ترین انقلاب وہی تھا جو محمدؐ عربی نے برپا کیا تھا حضورؐ کے جانثاروں نے جس سرعت کے ساتھ فتوحات حاصل کیں اور عراق شام ایران مصر جس تیزی کے ساتھ فتح کئے اگرچہ اس تیزی کے ساتھ تاریخ انسانی میں فتوحات پہلے بھی ہوئی ہیں ریکارڈ پر ہے کہ سکندر اعظم مقدونیہ سے چلا تھا اور دریائے بیاس تک پہنچا اور وہ تیزی سے فتح کرتا ہوا آیا وہ اپنی جگہ بہت بڑی مثال ہے وہ تو مشرق سے مغرب کی طرف آیا تھا جبکہ انیلہ مشرق سے مغرب کی طرف گیا تھا لیکن ایم این رائے کہتا ہے کہ ان فاتحین کی فتوحات محض ملک گیری کا شاخسانہ تھیں ان کے نتیجے میں کوئی تہذیب یا کوئی نیا تمدن وجود میں نہین آیا دنیا میں کوئی روشنی نہیں پھیلی کوئی علم کا فروغ نہیں ہوا جبکہ محمدؐ عربی کے جانشینوں کے ذریعے سے شرقاً غرباً جو فتوحات بڑی تیزی کے ساتھ ہوئی ہیں ان کے نتیجے میں ایک نیا تمدن نئی تہذیب علم کی روشنی اور انسانی اقدار کا فروغ وجود میں آیاایک ایسا معاشرہ وجود میں آیا جو ہر طرح کی زیادتیوں سے پاک تھا اس میں سیاسی جبر نہیں تھا اس میں معاشی استحصال نہیں تھا اس میں کوئی سماجی تفاوت نہیں تھا دنیا میں اور بھی بڑے بڑے لوگ رہتے ہیں جو سالہا سال تک پہاڑوں کی غاروں کے اندر تپسیائیں کرتے رہے ہیں لیکن محمدؐ عربی نے غار حرا میں چند روز کیلئے جو خلوت گزینی اختیار کی وہ نتیجہ خیز تھی اس سے نئی قوم نیا تمدن نیا آئین اور حکومت وجود میں آگئی‘‘مغربی مصنف مائیکل ہارٹ نے اپنی مشہورِ زمانہ کتاب The Hundredd میں دنیا کے ان سو عظیم ترین آدمیوں کا ذکر کیا ہے جنہوں نے دنیا کی تشکیل میں بڑا کردار ادا کیا۔ اس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سب سے پہلے شمار پر رکھا ہے۔ مصنف ایک عیسائی ہوکر بھی اپنے دلائل سے یہ ثابت کرتاہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پورے نسل انسانی میں سیّدالبشر کہنے کے لائق ہیں۔تھامس کارلائیل نے 1840ء کے مشہور دروس (لیکچرز) میں کہا کہ ”میں محمد سے محبت کرتاہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ ان کی طبیعت میں نام ونمود اور ریا کا شائبہ تک نہ تھا۔ ہم انہی صفات کے بدلے میں آپ کی خدمت میں ہدیہً اخلاص پیش کرتے ہیں “۔ فرانس کا شہنشاہ نپولین بوناپارٹ کہتاہے ” محمد دراصل سروراعظم تھے۔ 15سال کے قلیل عرصے میں لوگوں کی کثیر تعداد نے جھوٹے دیوتاﺅں کی پرستش سے توبہ کرڈالی۔ مٹی کی بنی دیویاں مٹی میں ملا دی گئیں۔ یہ حیرت انگیز کارنامہ تھا آنحضرت کی تعلیم کا “۔ جارج برناڈشا لکھتا ہے ” موجودہ انسانی مصائب سے نجات ملنے کی واحد صورت یہی ہے کہ محمد اس دنیا کے رہنما بنیں “۔ گاندھی کہتے ہیں کہ ” بانی اسلام نے اعلیٰ اخلاق کی تعلیم دی جس نے انسان کو سچائی کا راستہ دکھایا اور برابری کی تعلیم دی۔ میں اسلام کا جتنا مطالعہ کرتاہوں اتنا مجھے یقین راسخ ہوجاتاہے کہ یہ مذہب تلوار سے نہیں پھیلا “۔ جرمنی کا مشہور ادیب شاعر اور ڈراما نگار ”گوئٹے “ حضور کا مداح اور عاشق تھا۔ اپنی تخلیق ”دیوانِ مغربی“میں گوئٹے نے حضور اقدس کی بارگاہ میں جگہ جگہ عشق محمد کا اظہار کیا ہے اور ان کے قدموں میں عقیدت کے پھول نچھاور کیے ہیں۔ فرانس کے محقق ڈی لمرٹائن نے اپنی کتاب ”تاریخِ ترکی“ میں انسانی عظمت کے لیے جو معیار قائم کیا اس ضمن میں فاضل تاریخ دان لکھتاہے ” اگر انسانی عظمت کو ناپنے کے لیے تین شرائط اہم ہیں جن میں۔ مقصد کی بلندی، وسائل کی کمی،  حیرت انگیر نتائج۔ تو اس معیار پر جدید تاریخ کی کو ن سی شخصیت محمد سے ہمسری کا دعویٰ کرسکتی ہے “۔ فرانسیسی مصنف دی لمرتین لکھتاہے ” فلسفی، مبلغ، پیغمبر، قانون سا ز، سپاہ سالار، ذہنو ں کا فاتح، دانائی کے عقائد برپا کرنے والا، بت پرستی سے پاک معاشرہ تشکیل دینے والا۔ بیسیوں ریاستوں کو ایک روحانی سلطنت میں متحد کرنے والا۔.۔.وہ محمد ہیں۔ .۔.جہاں تک انسانی عظمت کے معیار کا تعلق ہے ہم پوچھ سکتے ہیں کہ ان معیاروں پر پورا اُترنے والا محمد سے بھی کوئی برتر ہوسکتا ہے “۔؟ ڈاکٹر شیلے پیغمبر آخرالزماں کی ابدیت اور لاثانیت کا اقرار کرتے ہوئے لکھتے ہیں ” محمد گزشتہ اور موجودہ لوگوں میں سب سے اکمل اور افضل تھے اور آئندہ ان کا مثال پیدا ہونا محال اور قطعاً غیر ممکن ہے“۔(ﷺ)

رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے کل تک تو پہنچنا مشکل ہے البتہ یہ محمدجرنیل ہیں،  یہ محمد بادشاہ ہیں،  سپہ سالار ہیں،  تاجر ہیں،  داعی ہیں،  فلاسفر ہیں،  مدبر ہیں،  خطیب ہیں،  مصلح ہیں،  یتیموں کی پناہ گاہ ہیں،  عورتوں کے نجات دہندہ ہیں،  جج ہیں،  ولی ہیں۔ یہ تمام اعلیٰ اور عظیم الشان کردار ایک ہی شخصیت کے ہیں۔ ہر شعبہ زندگی کیلئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت مثالی ہے۔(پروفیسر راما کرشنا راو)​(زاد المعاد 1/29۔ سو (The Hundred ) از مائیکل ہارٹ)

منٹ گومری واٹ (1909-2006 سکاٹش تاریخ دان لکھتا ہے کہ، اپنے عقائد کے لیے صعوبتیں اٹھانے پر آمادگی، اس کے اطاعت کرنے والوں اور ایمان لانے والوں کا بلند کردار، جو اسے اپنا سردار سمجھتے تھے اور اس کی عظیم و لازوال کامیابیاں اس (محمد) کی بنیادی دیانتداری کا واضح ثبوت ہیں۔

 جان ڈیون یوں لکھتا ہے کہ اس میں کچھ شک نہیں کہ تمام مصنفین اور فاتحین میں سے ایک بھی ایسا نہیں ہے جس کے واقعات عمری محمد ﷺ کے واقعات عمری سے زیادہ مفصل اور سچے ہوں۔

والٹر اور باسورتھ کہتا ہے کہ۔کوئی شخص اپنے گھر کا ہیرو نہیں ہو سکتا کیونکہ گھر میں بڑا آدمی بھی معمولی ہوتا ہے مگر باسورتھ کہتا ہے کہ یہ بات کم از کم پیغمبر اسلام ﷺ کے بارے میں صحیح نہیں ہے۔

محمد، پر اثر انسان! جس نے اسلام کی بنیاد رکھی۔ 570 عیسوی میں ایک ایسے عرب قبیلے میں پیدا ہوا جو بتوں کی پوجا کرتا تھا۔ پیدائش کے وقت یتیم ہوا۔ وہ ہمیشہ غریبوں، ضرورت مندوں، بیواﺅں اور یتیموں، غلاموں اور مظلوموں کا خیال رکھتا تھا۔ بیس سال کی عمر میں وہ ایک کامیاب کاروباری شخص بن گیا اور جلد ہی وہ ایک بیوہ خاتون کے کاروان کا مسئول بن گیا۔ پچیس سال کی عمر میں اس کی مالکہ کو اس کی خوبیوں کا اندازہ ہو گیا اور اس نے انھیں شادی کا پیغام بھیجا۔ اگرچہ وہ خاتون ان سے پندرہ سال بڑی تھی، اس کے باوجود محمد نے ان سے شادی کی اور جب تک ان کی بیوی زندہ رہیں وہ ان کے باوفا شوہر رہے۔

 اپنے سے ماقبل کے ہر پیغمبر کی مانند محمد نے اپنی ناقابلیت کا احساس کرتے ہوئے خدا کا پیغام پہنچانے کے لیے اپنی حیا سے مقابلہ کیا، لیکن فرشتے نے کہا کہ پڑھو، جہاں تک ہمارے علم میں ہے محمد لکھنا اور پڑھنا نہیں جانتے تھے، لیکن انھوں نے ان عظیم الفاظ کی ترجمانی شروع کی جنھوں نے بہت جلد دنیا کے ایک بڑے حصے میں انقلاب برپا کر دیا۔ یعنی” خدا ایک ہے“۔محمد ہر عمل میں مستحکم طریقے سے حقیقت پسند تھے۔ جب ان کے بیٹے ابراھیم کا انتقال ہوا تو اسی وقت گرہن لگا۔ چہ مہ گویاں ہونے لگیں کہ خدا اس موت سے نالاں ہوا ہے۔ جب کہ محمد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے کہا کہ ”گرہن ایک قدرتی امر ہے اسے کسی فرد کی موت یا زندگی سے ملحق کرنا بے وقوفی ہے۔“جیمز اے مشنر ( 1907-1997 صدارتی انعام یافتہ امریکی لکھاری)سر ولیم موئر(1819-1905ماہر علوم شرق)

محمد نے بت پرستی کا خاتمہ کیا۔ انہوں نے توحید، خدا کی لامحدود رحمت، انسانی اخوت، یتیموں کی کفالت، غلاموں کی آزادی اور شراب کی حرمت کی تبلیغ کی۔ کسی دین کو اسلام کی مانند کامیابی حاصل نہ ہوئی۔جوہن گوتھ(1749-1832جرمن لکھاری،سیاستدان)

محمد کا پیغام اپنی عظیم منزل کی جانب شفاف، پاکیزہ اور تروتازہ ندی کی مانند رواں دواں ہے۔

 پنڈت گیان درا دیو شرما شاستری (مذہبی راہنما، لکھاری)۔تمام نقاد اندھے ہیں۔ وہ نہیں دیکھ سکتے کہ وہ واحد تلوار جو محمد نے تانی وہ رحم، ہمدردی، دوستی اور عفو کی تلوار تھی،یہ وہ تلوار ہے جو دشمنوں کو فتح اور دلوں کو پاک کرتی ہے، ان کی تلوار لوہے کی تلوار سے زیادہ تیز دھار تھی۔ اسلام پر تنقید کرنے والا تنگ ذہن ہے جس کی آنکھیں جہالت کے نقابوں سے ڈھکی ہوئی ہیں۔ انھیں روشنی کی بجائے آگ، حسن کی بجائے بدصورتی اور اچھائی کی بجائے برائی نظر آتی ہے۔ وہ ہر اچھی خوبی کو برائی کی صورت میں پیش کرتے ہیں جو کہ ان کی اپنی بدکرداریوں کا عکس ہے۔

میجر لیو نارڈ(1850-1943فوجی افسر، سیاستدان، لکھاری و ماہر معاشیات کہتا ہے کہاگر اس زمین پر حقیقتا کسی انسان نے خدا کو پایا، اور اپنی زندگی کو انتہائی تندہی کے ساتھ خدا کے لیے وقف کیا، تو بلا شک و شبہ وہ شخص جزیرہ عرب کا نبی ( محمد ) تھا۔

پروفیسر ٹی وی این پرسویڈ(ماہر حیاتیات،  میڈیکل پریکٹیشنر فرماتے ہیں کہمیری نظر میں محمد ایک عام سا انسان تھا جو پڑھنا لکھنا نہیں جانتا تھا۔ درحقیقت وہ ان پڑھ تھا۔ ہم چودہ سو سال پہلے کی بات کر رہے ہیں۔ کیا آپ کسی ایسے شخص کو جانتے ہیں جو ان پڑھ ہو اور ایسے عمیق بیانات دے اور اعلانات کرے جو حیران کن حد تک درست اور سائنسی نوعیت کے ہوں؟ میں نہیں سمجھتا کہ یہ سب اتفاقیہ ہے۔ درست اطلاعات کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ڈاکٹر مورے کی مانند میرے ذہن میں اس بابت کوئی شک نہیں کہ یہ وحی یا الہام تھا جس کے سبب انھوں نے اس قسم کے بیانات دیے۔

پنڈت ہری چنداختر یوں نظرانہ محبت پیش کرتے ہیں،

کس نے ذروں کو اٹھایا اور صحرا کر دیا           

    کسی نے قطروں کو ملایا اور دریا کر دیا،

زندہ ہو جاتے ہیں جو مرتے ہیں حق کے نام پر               

    اللہ اللہ موت کو کس نے مسیحا کر دیا،

کس کی حکمت نے یتیموں کو کیا دریتیم               

   اور بندوں کو زمانے بھر کا مولا کر دیا،

کہہ دیا لاتقنطوا اختر کسی نے کان میں 

      آدمیت کا عرض ساماں مہیا کر دیا،

اور دل کو سر بسر محو تمنا کر دیا

     اک عرب نے آدمی کا بول بالا کر دیا​۔

تبصرے بند ہیں۔