رسول پاکؐ کا مشن اور ہماری ذمہ داریاں: ایک محاسبہ

ڈاکٹر محمد واسع ظفر

۱۲؍ ربیع الاول جو کہ اصحاب سیر کے ایک طبقہ کے مطابق یوم ولادت باسعادت نبویؐ ہے (بعض محققین ۹؍ ربیع الاول کے قائل ہیں )، مسلم معاشرہ کے مختلف طبقوں میں مختلف انداز میں منایا جا تا ہے۔ کہیں محفل میلاد ہے تو کہیں جلسہ سیرت النبیؐ، کہیں نعتیہ مشاعرہ کاانعقاد ہے تو کہیں جلوس کا اہتمام ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ رسول پاک ﷺ کے تئیں اپنی محبت اور عقیدت کے اظہار کے لئے ہی کیا جاتا ہے لیکن احقر کی نظر میں یہ دن اگر رسول پاک ﷺ کے مشن کی یاد اور اس کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کے احتساب کے دن کے طور پر منایا جائے تویہ آپؐ کے تئیں امت مسلمہ کی بہترین خراج عقیدت ہوگی۔

اللہ رب العزت نے محمد عربی ﷺ کو قیامت تک پیدا ہونے والے تمام جن و انس کی طرف اپنا رسول بناکر بھیجا اور ہردوقوموں کی دنیا و آخرت کی ہر قسم کی فلاح و کامیابی آپؐ کے ذریعہ لائے گئے دین وشریعت کی اتباع کے ساتھ وابستہ کردی۔ چنانچہ رسول پاک ﷺ کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ آپ سارے عالم کے انسانوں کو ایک اللہ کی بندگی اور اپنی اتباع کی دعوت دیں، ماننے والوں کو دنیا اورآخرت میں ملنے والے اللہ کے انعامات کی بشارت دیں اور منکروں کو دنیا وآخرت میں سامنے آنے والے اللہ کے عذاب سے ڈرائیں۔ پیارے نبی ﷺ کی اس ذمہ داری کو قرآن کریم نے مختلف مقامات پر مختلف الفاظ و انداز میں بیان کیا ہے۔ مثلاً ایک جگہ ارشاد ربانی ہے : (قُلْ یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُولُ اللّٰہِ اِِلَیْْکُمْ جَمِیْعاً الَّذِیْ لَہُ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَا اِلٰہَ اِلاَّ ہُوَ یُحْیٖ وَیُمِیْتُ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَکَلِمٰتِہٖ وَاتَّبِعُوْہُ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُوْنَ)۔ (ترجمہ): ’’آپ کہہ دیجئے کہ اے لوگو! میں رسول ہوں اللہ کا تم سب کی طرف، جس کی حکومت ہے آسمانوں اور زمین میں، نہیں ہے کوئی معبود اس کے سوا، وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے، سو ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے بھیجے ہوئے نبی امی پر، جو کہ یقین رکھتے ہیں اللہ پر اور اس کے سب کلاموں (احکام) پر اور ان کی اتباع کرو تاکہ تم ہدایت پاجاؤ ‘‘۔ (الاعراف: ۱۵۸)۔دوسری جگہ یہ ارشاد فرمایا: (یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّا اَرْسَلْنٰکَ شَاہِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا ہ وَّ دَاعِیْاً اِلَی اللّٰہِ بِاِذْنِہٖ وَسِرَاجًا مُّنِیْرًا ہ)۔ (ترجمہ): ’’اے نبیؐ! بیشک ہم نے ہی آپ کو گواہی دینے والا اور خوشخبریاں سنانے والا اور ڈرانے والا بناکر بھیجا ہے اور بلانے والا اللہ کی طرف اس کے حکم سے اورروشن چراغ‘‘۔ (الاحزاب: ۴۴۔ ۴۵)۔ ایک اور جگہ قرآن کریم نے آپ کی بعشت کا مقصد یوں بتایا ہے: (ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ شَھِیْدًا)۔ (ترجمہ): ’’وہی (اللہ) ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت (کا سامان یعنی قرآن ) اور سچا دین (یعنی اسلام)دیکر بھیجا تاکہ اس (دین)کو تمام(بقیہ)ادیان پر غالب کر دے اور اللہ تعالیٰ کافی ہے گواہی دینے والا۔ (الفتح:۲۸)۔

دین اسلام کو باقی ادیان پر غالب کرنا معقولیت اور دلیل و حجت کے اعتبار سے بھی تھا اور حکومت وسلطنت اور اسلامی نظام حیات کے قیام و نفاذ کے اعتبار سے بھی لیکن یہ سب تبھی ممکن تھا جب انسانوں کی اکثریت یا کم از کم ایک معتدبہ تعداد حقیقت کے اعتبار سے اس دین کو اپنی زندگی میں داخل کر لیتی اور اس مشن کو لے کر اٹھ کھڑی ہوتی۔ چنانچہ آپؐ نے ملک و سلطنت کو اپنی محنت کا اولین ہدف نہیں بنایا بلکہ آپؐ کی محنت کا میدان انسانوں کے قلوب تھے۔ آپؐ کو ہر وقت یہی فکر دامن گیر رہتی تھی کہ روئے زمین پر بسنے والا ایک ایک انسان کیسے نفس وطاغوت کی بندگی سے نکل کر ایک اللہ کی بندگی کرنے والا، کفر وشرک اور باطل ادیان کی ظلمتوں اور تنگیوں سے نکل کر اسلام کے نور اور اس کی وسعتوں میں داخل ہوجانے والا اور جہنم کے راستہ سے منہ موڑکر جنت کے راستہ پر چلنے والا بن جائے۔

تاریخ شاہد ہے کہ آپؐ نے مکہ کی گلیوں میں، کوہ صفا کے دامن میں، ایام حج میں منٰی کی گھاٹیوں میں، عکاظ، ذوالمجاز اور مجنہ کے بازاروں میں، طائف کی گلیوں میں کیسے ایک ایک انسان کی خوشامدیں کی ہے اور ان خوشامدوں پر آپؐ کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا ہے۔ آپؐ کو جھٹلایا گیا، آپؐ کا مذاق اڑایا گیا، آپؐ کو طرح طرح کے طعنے دئے گئے، ڈرایا دھمکایا گیا، آپؐ کو جادوگر، شاعر اور مجنون کہاگیا، آپؐ کے چہرہ انور پر تھوکا گیا، آپؐ کے اوپرمٹی ڈالی گئی، آپؐ کے جسم مبارک پر نماز کی حالت میں اونٹ کی اوجھری ڈالی گئی، آپؐ کو مارا پیٹا گیا، آپؐ کی گردن مبارک میں چادر ڈال کر گھسیٹا گیا اور گلا گھونٹا گیا، آپؐ کاسماجی مقاطعہ (Social Boycott) کیا گیا، آپؐ کے گھر کے دروازے پر اوجھری، خون اور گندگیاں پھیکی گئی، آپؐ کو فقر و فاقہ کی سختیاں بھی برداشت کرنی پڑیں، دو دوبیٹیوں کو بیک وقت طلاق دے دی گئی، طائف کی گلیوں میں پتھر مار مار کر آپؐ کے قدم مبارک کو لہولہان کردیا گیا لیکن منصب نبوت کو پورا کرنے کے سلسلہ میں آپؐ کے پائے ثبات میں کوئی لغزش نہیں ہوئی۔

دعوت پر آپؐ کی استقامت کا اندازہ لگائیے! حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ حضور اکرمؐ حج کے موسم میں قبائل عرب کے پاس تشریف لے جاتے اور ان کو دعوت دیا کرتے تھے لیکن ان میں سے کوئی بھی آپؐ کی باتوں کو نہ مانتا تھا اور آپؐ کی دعوت کو قبول نہ کرتا تھا۔ آپؐ عکاظ، مجنہ، اور منیٰ کے بازاروں میں ہر سال ان قبائل کے پاس تشریف لے جاتے اور ان کو دین کی دعوت دیا کرتے۔ آپؐ ان کے پاس اتنی بار گئے کہ ان قبائل میں سے بعض (دعوت پر آپؐکی استقامت کو دیکھ کر حیران ہو کر) یہ کہنے لگ گئے : ’’ما آن لک أن تیأس منا؟‘‘ یعنی کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ آپ ہم لوگوں سے مایوس ہوجائیں۔ ( دلائل النبوۃ للحافظ ابي نعیم الاصبھاني، دارالنفائس، بیروت، ۱۹۸۶ ؁ء، الجزء الاول، صفحہ ۳۰۰، رقم ۲۲۴)۔ قربان جایئے رسول پاک ﷺ کی ذات اطہر پر کہ اتنا ہونے کے باوجود آپؐ ان سے مایوس نہیں ہوئے اور اسی جوش وجذبہ کے ساتھ ان کو دین کی دعوت دیتے رہے۔

آپؐ کو لوگوں کی ہدایت کی اس قدر امید رہتی کہ آپ انہیں ان کی موت کے دروازے تک دین کی دعوت دیتے۔ چنانچہ یہ قصہ مشہور ہے کہ جب ابوطالب کی موت کا وقت قریب آیا تو نبی کریم ﷺ ان کے پاس تشریف لے گئے اور آپؐ نے فرمایا: ’’اے چچاجان! لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کہہ دیجئے تاکہ قیامت کے دن میں اس کے سبب آپ کے ایمان کی گواہی دے سکوں، تو انہوں نے جواب دیا کہ اگر اس بات کا احتمال نہ ہوتا کہ قریش یہ کہہ کر عار دلائیں گے کہ موت کی گھبراہٹ نے اس سے اس کلمہ کو کہلادیا ہے تو میں یہ (کلمہ) پڑھ کر تمھاری آنکھوں کو ٹھنڈی کر دیتا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے سورۂ قصص کی یہ آیت نازل فرمائی ( اِنَّکَ لَا تَھْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ۔ ۔ ۔ الآیۃ) جس کا ترجمہ یہ ہے:’’ آپؐ جس کو چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے بلکہ اللہ ہدایت دیتا ہے جس کو چاہے اور ہدایت پانے والوں کا علم بھی اسی کو ہے۔ (سنن ترمذی، کتاب تفسیر القرآن، باب و من سورۃ القصص، بروایت ابوہریرہؓ)۔

اسی طرح ایک یہودی لڑکا جونبی کریم ﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا جب ایک روز بیمار ہوگیا تو آپؐ اس کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے اور اس کے سرہانے بیٹھ گئے اور اس سے فرمایا کہ مسلمان ہوجاؤ۔ اس نے اپنے والد کی طرف دیکھا جو وہیں موجود تھا۔ اس کے والد نے اس سے کہا کہ ابوالقاسم(یعنی محمد ﷺ)کی بات مان لو۔ چنانچہ وہ لڑکا مسلمان ہوگیا۔ جب نبی کریم ﷺ باہر تشریف لائے تو آپؐ نے (خوشی میں اور بطور شکر )یہ فرمایاکہ تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے اس بچے کوجہنم کی آگ سے بچالیا۔ ( صحیح بخاری، کتاب الجنائز، باب ۲۹، رقم ۱۳۵۶، بروایت انسؓ)۔

بنی نوع انسان کی ہدایت کی آپؐ کی یہ فکر عام حالات تک ہی محدود نہ رہی بلکہ اللہ پاک نے جب آپ کو کفار و مشرکین سے مقابلہ کی اجازت مرحمت فرما دی تو جنگ کے حالات میں بھی آپؐ نے اس کو مقدم رکھا۔ آپؐ جب تک کسی قوم کو دعوت نہ دے لیتے اس وقت تک ان سے جنگ نہ کرتے اور یہی ہدایت آپؐ نے اپنے پیارے ساتھیوں کو بھی دیا۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عائذؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺجب کسی لشکر کو روانہ فرماتے تو ان کو یہ نصیحت فرماتے کے لوگوں سے موانست پیدا کرو، جب تک ان کو دعوت نہ دے لو ان پر حملہ نہ کرنا اور چھاپہ نہ مارنا کیوں کہ روئے زمین پر جتنے کچے پکے مکان ہیں ان کے مکینوں کو اگر تم مسلمان بناکر میرے پاس لے آؤ تو یہ مجھے اس سے زیادہ محبوب ہے کہ تم ان کی عورتوں اور بچوں کو میرے پاس(باندی اور غلام بناکر)لے آؤ اور ان کے مردوں کو قتل کردو۔ (حیاۃ الصحابہ از مولانا محمد یوسف کاندھلوی، دارالاشاعت، کراچی، پاکستان، ۲۰۰۳ ؁ء، جلد ۱، ص ۱۲۳)۔ حضرت علیؓ کو جنگ خیبرکے دن جب آپؐ نے جھنڈا تھمایا تو انہوں نے کہا کہ ہم ان (یہودیوں ) سے اس وقت تک جنگ کریں گے جب تک وہ ہماری طرح (مسلمان) نہ ہو جائیں۔ تو آپؐ نے فرمایا تم اطمینان سے چلتے جاؤ یہاں تک کہ جب ان کے میدان میں اتر جاؤ تو ان کو اسلام کی دعوت دو اور اللہ کے جو حقوق ان پر واجب ہیں وہ ان کو بتاؤ (پھر اگر وہ نہ مانیں تو ان سے جنگ کرنا)۔ اللہ کی قسم ! اگر تمھارے ذریعہ ایک شخص کو بھی ہدایت مل جائے تو یہ تمھارے حق میں سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔ (صحیح بخاری، کتاب الجہاد و السّیر، دُعَاءِ النَّبِيِّ ﷺ اِلَی الْاِسْلَامِ وَ النُّبُوَّۃِ وَ أَنْ لَا یَتَّخِذَ بَعْضُھُمْ بَعضًا أَرْبَابًا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ، رقم ۲۹۴۲، بروایت سہل بن سعدؓ)۔

جنگ کے دوران مخالفین میں سے جو لوگ گرفتار ہو جاتے اور انھیں رسول پاکؐ کے سامنے پیش کیا جاتا تو آپؐ انہیں بھی اسلام کی دعوت دیتے۔ حضرت مقدادبن عمروؓ روایت کرتے ہیں کہ جب میں نے حکم بن کیسان کو ایک سریہ میں گرفتار کیا تو ہمارے امیر لشکر (عبداللہ بن جحش الاسدیؓ) نے ان کی گردن مارنے کا ارادہ کیا تو میں نے کہا کہ آپ ان کوچھوڑ دیں، ہم انہیں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے کر جائیں گے۔ چنانچہ ہم انہیں لے کر حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپؐ ان کو اسلام کی دعوت دینے لگے اور بہت دیر تک دعوت دیتے رہے۔ جب کافی دیر ہوگئی تو حضرت عمرؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ!آپؐ کس امید پر اس سے کلام فرما رہے ہیں، اللہ کی قسم!یہ تو ابد تک بھی اسے (یعنی اسلام کو) قبول نہیں کرے گا۔ آپؐ مجھے اجازت دیں کہ میں اس کی گردن اڑادوں تاکہ یہ جہنم رسید ہوجائے لیکن نبی کریم ﷺ نے حضرت عمرؓ کی بات پر کوئ توجہ نہ فرمائ اور انہیں مسلسل دعوت دیتے رہے یہاں تک کہ حکمؓ مسلمان ہوگئے۔ اس واقعہ کو زہریؒ نے بھی روایت کیا ہے جس کے اخیر میں یہ ہے کہ حضرت حکم بن کیسانؓ کے اسلام لانے کے بعد آپ ؐ نے اپنے صحابہ کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا کہ اگر میں ان کے بارے میں ابھی تم لوگوں کی بات مان لیتا اور انہیں قتل کردیتا تو یہ دوزخ میں چلے جاتے۔ (کتاب الطّبقات الکبیراز محمد ابن سعد، مکتبۃ الخانجی، قاہرہ، ۲۰۰۱ ؁ء، جلد ۴، صفحہ ۱۲۸)۔ اللہ اکبر! کیسے تھے ہمارے پیارے نبیؐکہ اپنے دشمنوں کی بھی دنیا و آخرت کی خیرخواہی کا اس قدر خیال رکھا۔

لوگوں کو جہنم سے بچانے کی نبی کریم ﷺ کی جو فکر تھی اسے آپؐ نے خود اپنے الفاظ میں یوں بیان کیا ہے : (ترجمہ): ’’میری مثال اس شخص جیسی ہے جس نے آگ جلائ اور جب اس آگ نے اردگرد کو روشن کردیا تو پتنگے اور حشرات الارض (جو آگ میں آپڑتے ہیں ) اس میں گرنے لگے اور اس شخص نے انہیں روکنا شروع کردیا اوروہ (پتنگے وغیرہ) اس پر غالب آتے گئے اور آگ میں گرتے گئے۔ آپؐ نے فرمایا : یہی میری اور تمھاری مثال ہے، میں تمہیں تمھاری کمروں سے پکڑ پکڑ کر آگ سے ہٹا تا ہوں، آگ سے ہٹ آؤ! آگ سے ہٹ آؤ! اور تم میرے قابو سے نکل جاتے ہو اور اسی میں گرتے جاتے ہو‘‘۔ (صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب شَفَقَتِہِ ﷺ عَلیٰ أُمَّتِہِ وَ مُبَالَغَتِہِ فِي تَحْذِیْرِھِمْ مِّمَّا یَضُرُّھُمْ، رقم ۵۹۵۷، بروایت ابوہریرہؓ)۔ رسول پاکؐ کو لوگوں کی ہدایت کی فکر اور ان کے ایمان نہ لانے کا اس قدر غم رہتا کہ اللہ رب العزت نے آپؐ کو شفقتاً یہ فرمایا: (فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ عَلآی اٰثَارِہِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِہٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفاً)۔ (ترجمہ): ’’پس اگر یہ لوگ اس کلام پر ایمان نہ لائیں توشاید آپ ان کے پیچھے اسی رنج میں اپنی جان ہلاک کرڈالیں گے‘‘۔ (الکھف:۶)۔ دوسری جگہ فرمایا: (لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُونُوْا مُؤْمِنِیْنَ ہ اِنْ نَّشَاْ نُنَزِّلْ عَلَیْْہِمْ مِّنَ السَّمَآءِ اٰیَۃً فَظَلَّتْ اَعْنَاقُہُمْ لَہَا خٰضِعِیْنَ ہ)۔ (ترجمہ): ’’شاید آپ خود کو ہلاک کر ڈالیں گے (اس غم میں ) کہ کیوں یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔ اگر ہم چاہیں تو ان پر آسمان سے کوئی ایسی نشانی اتاردیں کہ جس کے سامنے ان کی گردنیں جھک جائیں ‘‘۔ (الشعراء: ۳۔ ۴)۔

یعنی ان کی ہدایت کی فکر و غم میں خود کو اس قدر گھلانے کی ضرورت نہیں کہ آپ اپنی جان کو ہی ہلاکت میں ڈال دیں، اگر ہمیں جن و انس کی آزمائش مقصود نہ ہوتی جس کا منطقی اور لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ان میں سے بعض ایمان لائیں اور بعض نہ لائیں، تو ہم آسمان سے ایسی نشانی اتارتے کہ جس کے آگے سر تسلیم خم کئے بغیر اور جس پر ایمان لائے بغیر انہیں کوئی چارہ نہ ہوتالیکن اس میں ایک طرح سے جبر کا پہلو شامل ہوجاتا جب کہ ہم نے ہر دو جنس کو ارادہ و اختیار کی آزادی دے رکھی ہے تاکہ ان کی آزمائش کی جائے اس لئے ہم نے ایسا کرنے سے احتراز کیا جس سے ہمارا یہ قانون متاثر ہو اور صرف انبیاء و رسل کو مبعوث کرنے اور کتابیں نازل کرنے پر ہی اکتفا کیاتاکہ دیکھیں کو وہ انقیاد و تسلیم کی راہ اختیار کرتے ہیں یا سرکشی کی۔
یہ ہے رسول پاکؐ کے مشن اور انسانوں کی ہدایت کی تڑپ کا اجمالی خاکہ۔ اب ذرا ہم اپنے حال پر غور کریں۔ کیا رسول پاکؐ کی محبت اور آپؐ کی اتباع کا یہ تقاضہ نہیں ہے کہ ہماری زندگی کا بھی وہی مشن ہو جو جناب رسول اللہ ﷺ کی زندگی کا مشن تھا؟ حالانکہ اللہ رب العزت نے ہماری اس ذمہ داری کی وضاحت بھی اپنی کتاب میں فرمادی ہے۔ ارشاد ربانی ہے: (قُلْ ہٰذِہٖ سَبِیْلِیْ اَدْعُوْٓا اِلَی اللّٰہِ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ وَ سُبْحٰنَ اللّٰہِ وَمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ)۔ (ترجمہ): ’’آپ فرمادیجئے کہ یہ ہے میری راہ کہ بلاتا ہوں (لوگوں کو) اللہ کی طرف بصیرت کے ساتھ، میں (بھی) اور وہ (بھی) جو میرے تابع ہیں اور اللہ پاک ہے اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں ‘‘۔ (یوسف:۱۰۸)۔ قرآن کریم کی یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ رسول پاک ﷺ کے مشن میں ان کے متبعین بھی ان کے شریک ہیں اور عقلاً بھی یہ بات سمجھنے کی ہے کہ جب آپؐ کو اللہ پاک نے قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کا نبی بنایا اور سب کی کامیابی اسی دین سے وابستہ کردی جس کے داعی اور شارع آپؐ تھے توپھر آپؐ کے اس دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد آخریہ دین ان تمام انسانوں تک کیسے پہنچے گا؟ ظاہر ہے کہ یہ ذمہ داری امت مسلمہ کے ہر فرد کے کندھوں پر ہے لیکن کیا بحیثیت مسلمان ہم نے اسے کبھی محسوس بھی کیا ہے؟ اس سوال کے جواب کے لئے ہر شخص خوداپنے گریبان میں جھانکے اور غور کرے۔

حقیقت یہ ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ سے محبت کا دم تو بھرتے رہے لیکن ان کے مشن کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کو ہم نے قطعی نہیں سمجھا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں جو عزت و سربلندی عطافرمائ اور اپنی رضاکا پروانہ بھی دیا اس کی وجہ یہی تھی کہ انھوں نے نہ صرف اس ذمہ داری کو محسوس کیا بلکہ دعوت الی اللہ کو ہی زندگی کا مقصد بنایا اور اسی مقصد پر اپنی جان و مال کو قربان کر دیا۔ افسوس! صد افسوس کہ آج ہم اس مقصد سے کافی دور ہوگئے اور اس دنیائے فانی کی چند روزہ عیش وعشرت کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا۔ ہماری زبانوں پر تو یہ کلمہ جاری رہا کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے آئیڈیل ہیں لیکن درپردہ ہم نے اپنا آئیڈیل نہ جانے کس کس کو بنا رکھا ہے؟ ہم دین اسلام کی سرفرازی اور سربلندی کے لئے کوشاں تو کیا ہوتے الٹا اسے مٹانے اور بدنام کرنے کی کوئی کسر ہم نے نہ چھوڑی اور ہمیں اس کا کچھ احساس بھی نہیں ہے۔ دعوت الی اللہ کے مشن سے ہٹنے کا جو نتیجہ نکلنا تھا وہ سامنے آگیا یعنی انسانوں کی عمومی ہدایت رک گئی، دین خود ہماری زندگیوں سے نکلتا چلا گیا اور جو اعمال دین زندہ رہ گئے ان کی بھی روح نکل گئی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے سارے عالم میں ہم پر ذلت مسلط کردی جس سے نکلنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ ہم پھر اپنے اس مقصد زندگی کی طرف لوٹ جائیں جس کی تعلیم ہمیں قرآن و سنت سے ملتی ہے۔ ۱۲؍ربیع الاول کے دن اگر ہم نے اس مشن کو اختیار کرنے کا عہد کر لیا تو یہی رسول پاک ﷺ کے تئیں ہماری بہترین خراج عقیدت ہوگی۔ اللہ پاک ہم سب کو ان باتوں پرعمل کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین!ثم آمین!

تبصرے بند ہیں۔