رمضان المبارک میں یوگی کے دو تحفے!

حفیظ نعمانی

اُترپردیش کے وزیر اعلیٰ نے یہ محسوس کرکے سرکاری چھٹیاں ضرورت سے زیادہ ہوگئی ہیں چند چھٹیوں کو منسوخ کیا۔ ہم ذاتی طور پر اُن لوگوں میں ہیں جو اتنی چھٹیوں کے ہمیشہ خلاف رہے جن سے سرکاری کام بھی متاثر ہوتے ہیں اور بچوں کی تعلیم پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کسی بڑے آدمی کی پیدائش کے دن چھٹی کیوں ؟ میزائل مین ڈاکٹر عبدالکلام جو صدر جمہوریہ رہے انہوں نے وصیت کی تھی کہ میرے مرنے پر چھٹی نہ کی جائے بلکہ اور زیادہ کام کیا جائے۔

وزیر اعلیٰ یوگی نے جن چھٹیوں کو ختم کیا ہے ان میں ایک جمعۃ الوداع کی بھی چھٹی ہے۔ اور حضور اکرمؐ کے یوم ولادت کی بھی چھٹی ختم کردی گئی ہے۔ اس پر مسلمانوں کے ایک حلقہ کی طرف سے اعتراض کیا گیا تھا کہ جو چھٹی وزیر اعظم نے دی ہے اسے صوبائی وزیر اعلیٰ ختم کرنے کے مجاز نہیں ہیں ۔ اس کا کیا فیصلہ ہوتا ہے؟ اس پر بعد میں لکھیں گے۔ فی الحال جمعۃ الوداع کی چھٹی کو بحال کرنے کی جو کوشش تنظیم علی کانگریس نے کی ہے اس کے بارے میں کچھ عرض کرنا ہے۔ پانچ یا چھ سال پہلے اتفاق ایسا ہوا کہ رمضان کی 30  تاریخ کو جمعہ تھا۔ اسے جمعۃ الوداع قرار دینے میں یہ خطرہ تھا کہ اگر 29  کو چاند ہوگیا تو کیا ہوگا؟ لہٰذا پورے ملک میں اس سے پہلے جو جمعہ تھا اسے الوداع قرار دے لیا گیا۔ ہم یہ سوچنے لگے کہ اگر 29  رمضان کو چاند نہیں ہوا تو 30  رمضان کو روزہ ہوگا اور وہ آخری جمعہ یعنی جمعۃ الوداع ہوگا۔ تو اس کا کیا ہوگا جو الوداع منا لیا گیا؟

اودھ نامہ کے قارئین کو یاد ہوگا کہ ہم نے ایک مضمون

’’میں آخری جمعہ ہوں مگر الوداع نہیں ‘‘

کے عنوان سے لکھا اور اخبار کے ذمہ داروں کو فون کردیا کہ اسے ٹائپ تو کرالیا جائے مگر رات کو بارہ بجے تک انتظار کریں اگر ہر طرف سے اعلان کردیا جائے کہ چاند نہیں ہوا تو اُسے چھاپ دیں ۔ اویس میاں نے اسے ہر اخبار کو بھیج دیا۔ اخبار ایسے سنسنی خیز مضامین اور خبروں کی تلاش میں رہتے ہیں جو قارئین دلچسپی سے پڑھیں ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ چاند نہیں ہوا اور ملک کے بیس اخباروں نے اسے چھاپا۔ اور اگر یہ کہوں کہ کئی حضرات وہ ہیں جنہوں نے اس مضمون کو پڑھ کر ہی دوستی کے فون کئے اور وہ تعلق آج بھی ہے۔

ہمارا اعتراض یہ تھا کہ جب آخری جمعہ جمعۃ الوداع ہوتا ہے تو پھر 30  رمضان کو جو جمعہ تھا اسے الوداع کے طور پر کیوں نہیں منایا گیا؟

ٹیلہ والی مسجد کے امام مولانا فضل الرحمن واعظی اس وقت حیات تھے۔ ہم نے ان کو ہی خطاب کرکے کچھ باتیں لکھی تھیں کہ قرآن، حدیث، اجماع صحابہؓ کہیں وہ جمعۃ الوداع دکھادیں ۔ قرآن عظیم میں 28  ویں پارے میں سورئہ جمعہ ہے اس میں صرف جمعہ کی نماز کی بات کی گئی ہے اس میں بھی جمعۃ الوداع کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اور اگر مولانا کے نزدیک یہ شریعت کا مسئلہ ہے۔ یا بقول علی کانگریس برصغیر میں ماہ رمضان کے جمعہ کو کافی اہمیت دی جاتی ہے اور مخصوص آخری جمعہ جسے جمعۃ الوداع کہا جاتا ہے ایک خاص مقام کا حامل ہے۔ مگر علی کانگریس کے خبرنگار نے یہ نہیں لکھا کہ وہ خاص مقام کیا  ہے اور اس کا ذکر کہاں ہے؟ رمضا ن المبارک میں ایک رات لیلۃ القدر ہے قرآن عظیم میں اس کے لئے بھی ایک سورہ ہے اور اس کی خصوصیت یہ بیان کی گئی ہے کہ اس کی عبادت کا ثواب ایک ہزار مہینوں کی عبادت یا اس سے بھی زیادہ ہے۔ لیکن سورئہ جمعہ میں جو سورئہ قدر سے بہت بڑی ہے اس میں کوئی ذکر الوداع کا نہیں ہے اور نہ کسی خصوصیت کا ہے۔

ہر مسلک میں یہ ہے کہ اگر ہم نے ظہر کی نماز غلطی سے ایک گھنٹہ پہلے پڑھ لی تو وقت آنے پر اسے دوبارہ پڑھنا چاہئے۔ اور اگر نہیں پڑھی تو وہ قضا باقی رہے گی۔

جس سال کا ہم ذکر کررہے ہیں اس سال اگر غلطی سے ایک ہفتہ پہلے الوداع منا لیا گیا اور جاہل مولویوں نے جمعہ کے خطبہ میں ’’الوداع الوداع یا شہر رمضان الوداع‘‘ بھی پڑھ لیا تب 30  کو جو جمعہ تھا اسے دوبارہ الوداع کے طور پر کیوں نہیں منایا؟ اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ اور ثابت ہوتا ہے کہ چاہے جس جمعہ کو الوداع قرار دے دو۔

ہمارے اس مضمون کو چھپے ہوئے شاید چھ سال ہوگئے اور اسے ہزاروں یا شاید لاکھوں آدمیوں نے پڑھا ان میں وہ بھی ہوں گے جو الوداع کو اتنا اہم مانتے ہیں کہ سرکاری چھٹی کے لئے حکومت پر زور ڈال رہے ہیں اور یہ نہیں بتاتے کہ اس رمضان میں جو چار جمعے ہیں ان کے تین اور چوتھے جمعہ میں کیا فرق ہے جس کی وجہ سے چھٹی دی جائے؟ ہر جمعہ کو صرف ایک کام ہے کہ غسل کرنا، صاف اور پاک کپڑے پہننا ، خوشبو لگانا (اگر موجود ہو) نماز کے لئے جانا خطبہ سننا، نماز پڑھنا، ظہر کی چار رِکعت کے بجائے دو رِکعت پڑھنا اور سنت پڑھ کر واپس آجانا۔ اب کوئی صاحب وہ کام بتائیں جو تین جمعوں کے علاوہ کرنا ہوں ؟ رمضان المبارک میں ہیلپ لائن لکھی ہوئی ہیں شیعہ عالم یا سنی عالم ہیلپ لائن کے ذریعہ اگر بتانے کی زحمت کریں تو ہم بھی حکومت سے پرزور مطالبہ کریں گے کہ اگر سب کو نہیں تو مسلمانوں کو تو چھٹی دے دی جائے۔ ورنہ ہم تو یوگی جی کا شکریہ ادا کریں گے کہ ایک بدعت کے لئے پورے اُترپردیش کو انہوں نے بند کرنے سے انکار کردیا۔

اور ان کا مزید شکریہ اس کا ادا کرنا ہے کہ انہوں نے سیکڑوں مسلمانوں کے روزے کو داغوں سے بچا لیا۔ ہم نے ملائم سنگھ ہوں یا نرائن دت تیواری یا وشوناتھ پرتاپ سنگھ یا بہوگنا جی ہر وزیر اعلیٰ کے افطار پر کہا ہے کہ جو لوگ جاتے ہیں ان کا روزہ خطرہ میں پڑجاتا ہے۔ جو افطاری اور کھانا حکومت کی طرف سے روزہ داروں کو پیش کیا جاتا ہے وہ سرکاری خزانہ سے ہوتا ہے اور اس میں شراب اور سنیما نیز دوسرے لہوولعب سب کی آمدنی ہوتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ جس چاٹ ہائوس یا ہوٹل کو آرڈر دیا جاتا ہے اس کے بنانے والوں کی پاکی کا معیار کیا ہے یہ ہر شہری جانتا ہے؟ اور کتنے ہوٹل ہیں جہاں ذبح کیا ہوا بکرا یا مرغ پکتے ہیں ؟ اتنا قیمتی روزہ جس کے لئے پاک پروردگار نے فرمایا ’’الصوم لی وانا اجزی بہٖ‘‘ (روزہ میرے لئے ہے اور اس کا بدلہ میں خود دوں گا) اتنے قیمتی روزے کو صرف اس لئے خطرہ میں ڈالنا کہ وزیر اعلیٰ سے ہاتھ ملانے اور ان کی نظر میں آنے کے لئے جانا کہاں کی عقلمندی ہے؟

اخبار کی خبر کے مطابق کلیان سنگھ اور راج ناتھ سنگھ نے کی تھی افطار پارٹی یہ ان کی اپنی سیاست تھی وہ دکھانا چاہتے تھے کہ ہم صرف ہندوئوں کے نہیں مسلمانوں کے بھی وزیر اعلیٰ ہیں ۔ کلیان سنگھ جب وزیر اعلیٰ تھے تو سید وضاحت حسین رضوی ان کے میڈیا سینٹر میں تھے اور انہوں نے ہی ہمیں کلیان سنگھ سے ملایا تھا اور عنوان یہ تھا کہ وہ مسلم صحافیوں سے مل کر ان کے خیالات جاننا چاہتے ہیں اور راج ناتھ سنگھ سے ہماری ملاقات ہوئی تو چودھری شہیر حیدر مرحوم ہمارے ساتھ تھے۔ اور ہم نے دونوں سے وہی باتیں کیں جو لکھتے ہیں ۔ لیکن انہوں نے جب افطار میں بلایا تو معذرت کرلی۔ اور ہم تو افطار میں قریب سے قریب دوست کے گھر بھی جانے سے کتراتے رہے کیونکہ مولا نے فرمایا ہے کہ روزہ کھولتے وقت جو دعا کی جاتی ہے وہ ضرور قبول کرتا ہوں ۔ اور کہیں بھی جائو یہ سکون نہیں رہتا۔ یوگی جی کا شکریہ اور اگر وہ لکھ دیں کہ کوئی وزیر اعلیٰ افطار میں نہ بلائے تو مزید احسان ہوگا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. محمد عامر کہتے ہیں

    بہت ہی عمدہ طریقہ سے وضاحت کی ہے
    جن چھٹیوں کو ضروری سمجھا جاتا ہے وہ تو فضول نکلے

    [email protected]

تبصرے بند ہیں۔