روزگار، نوجوان اور انقلاب فلم کا وہ گیت

رویش کمار

ایسی خبریں آرہی ہیں کہ حکومت پانچ سال سے خالی پڑے عہدے ختم کرنے جا رہی ہیں. یہ صاف نہیں ہے کہ مسلسل پانچ سال سے خالی پڑے عہدوں کی تعداد کتنی ہے. اول تو ان پر بھرتی کرنا چاہئے تھا مگر جب نوجوان ہندو مسلم ڈبیٹ میں حصہ لے ہی رہے ہیں تو پھر فکر کی کیا بات. یہ بھروسہ ہی ہے کہ جس وقت روزگار بحث کا مدعا بنا ہوا ہے اس وقت یہ خبر آئی ہے.

وزارت خزانہ نے 16 جنوری کو مختلف وزارتوں اور محکموں کو ایسی ہدایات بھیج دی ہیں. محکمہ سربراہان سے کہا گیا ہے کہ ایسے عہدوں کی شناخت کریں اور جتنی جلدی ممکن ہو رپورٹ سونپیں.

اس خبر نے نوکری کی تیاری کر رہے نوجوانوں کا دل دھڑكا دیا ہے. اب یہ نوجوان کیا کریں گے، کوئی ان کی کیوں نہیں سنتا، ان نوجوانوں نے آخر کیا غلطی کر دی؟ بہت سے امتحانات ہو چکے ہیں مگر جواننگ نہیں ہو رہی ہے. 30 جنوری کو یوپی میں تین تین بھرتیاں منسوخ ہو گئیں. لڑکے اداس اور بیتاب ہیں. رو رہے ہیں. ان کے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے.

جس 16 جنوری کو وزارت خزانہ نے تمام محکموں کو ہدایت کی کہ پانچ سال سے خالی پڑے عہدوں کو ختم کر دیا جائے، اسی 16 جنوری کو ایک اور خبر چھپی تھی. یہ خبر بھی وزارت خزانہ کی رپورٹ کی بنیاد پر تھی کہ 1 مارچ 2016 تک چار لاکھ سے زیادہ عہدے خالی پڑے تھے. یہ سارے عہدے مرکزی حکومت کے محکموں سے متعلق ہیں.16 جنوری کے اكونومك ٹائمز میں رپورٹ شائع ہوئی ہے کہ 1 مارچ 2016 تک گروپ اے کے284  15،عہدے خالی تھے. گرب بی کے740 49، عہدے خالی پڑے تھے. گروپ سی کے21،418 3، عہدے خالی تھے. گروپ سی کے ان عہدوں کے لئے لاکھوں کی تعداد میں میرے نوجوان دوست آس لگائے بیٹھے ہیں.

آج اتنے بڑے ملک میں ان نوجوانوں کے لئے بات کرنے والا ایک لیڈر نہیں ہے. نوکریاں کم ہو رہی ہیں. نوجوان دکھائی نہیں دے رہے ہیں. مجھے انقلاب کا گانا یاد آ رہا ہے. وہ جوانی جوانی نہیں جس کی کوئی کہانی نہ ہو. ہندو مسلم ٹاپک نے نوجوانوں کو ذہنی غلام بنا لیا ہے. روزگار نہ دینے کا یہ بہترین وقت ہے. نوجوانوں کو ہندو مسلم ٹاپك کی گولی دے دو، وہ اپنی جوانی بغیر کسی کہانی کے کاٹ دے گا.

گزشتہ سال نومبر میں کھادی دیہی صنعت کمیشن نے 300 سے زائد کی بھرتی نکالی. فارم کے لئے 1200 روپے لیے اور فیس لینے کے کچھ دن کے اندر ہی بھرتی کا عمل عارضی طور پر ملتوی کر دیا. ڈھائی ماہ ہو گیا، اس کا کچھ اتہ پتہ نہیں ہے. سوچئے کھادی دیہی صنعت فارم بھرنے کے 1200 روپے لے رہا ہے. سوچئے کیا یہ لوگوں کو سوال نہیں لگتا ہے.

2016-17 میں وزیر اعظم روزگار پروتساه منصوبہ لانچ ہوا تھا. ایک سال میں ہی اس کا بجٹ نصف کئے جانے کا اندیشہ ہے. ایسا بزنس اسٹینڈرڈ کے رپورٹر سومیش جھا نے لکھا ہے. اس منصوبہ کے تحت اگر کوئی کمپنی اپنے ملازم کو EPFO، EPS میں رجسٹرڈ کراتی ہے تو حکومت تین سال تک کمپنی کے 8.33 فیصد حصہ خود بھرے گي. اس سے فائدہ انھیں ملازمین کوملے گا جن کی سیلری 15000 روپے فی ماہ تک ہی ہوگی. حکومت نے اس کی منصوبہ بندی کے لئے 1000 کروڑ کا انتظام کیا تھا.

اخبار لکھتا ہے کہ دسمبر 2017 تک EPFO کو صرف 2 ارب روپے ہی ملے تھے. اس نے لیبر کی وزارت کو خط لکھ کر 500 کروڑ کا مطالبہ کیا ہے. اس کا مطلب یہ ہے کہ کمپنیوں نے رجسٹرڈ تو کرا دیا ہے مگر کمپنیوں کو حصہ نہیں مل رہا ہے. 2017-18 کے لئے 700 کروڑ کی ہی ضرورت پڑی ہے.

اس کا ایک اور مطلب ہے کہ EPFO کے ریکارڈ پر کم ہی ملازم جڑے ہیں. بزنس سٹینڈرڈ لکھتا ہے کہ جولائی 2017 تک 9000 کمپنیوں کے61، 024 3، لاکھ ملازمین نے EPFO کا فائدہ لیا. اس کے بعد اگست سے دسمبر 2017 کے درمیان661 28،کمپنیوں کے 18 لاکھ ملازمین نے اس اسکیم سے فائدہ اٹھایا.

اس طرح کل تعداد تقریبا 22 لاکھ کے قریب بیٹھتی ہے. ہر ماہ 3 ملین 66 ہزار نئے ملازم EPFO سے جڑتے ہیں. آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ روزگار کے اعداد و شمار کو ظاہر کرتا ہے. مگر کئی بار کمپنیاں حکومت کی منصوبہ بندی کا فائدہ اٹھانے کے لئے ان ملازمین کو اس اسکیم سے جوڑتی ہیں جو پہلے سے کام کر رہے ہیں. لہذا دعوے سے نہیں کہہ سکتے ہیں کہ یہ نیا روزگار ہے.

مترجم: محمد اسعد فلاحی

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔