روزہ صرف اللہ کے لیے

ریاض فردوسی

قرآن مجید کے سورہ بقرہ کی آیت 183 میں صراحت کے ساتھ بیان ہوا ہے کہ روزہ اسلام سے پہلے کے ادیان میں بھی موجود تھا۔ توریت و انجیل میں سابقہ امتوں کے روزہ رکھنے کا تذکرہ موجود ہے۔ توریت کی تصریح کے مطابق، حضرت موسی (ع) نے الواح کے دریافت کرنے سے پہلے چالیس روز روزہ رکھا اور کچھ بھی کھانے پینے سے پرہیز کیا۔ قرآن کریم میں حضرت زکریاؑ اور حضرت مریمؑ کے روزہ رکھنے اور روایات میں اسلام سے پہلے کے ادیان میں روزہ کے موجود ہونے کا ذکر ہوا ہے۔ روزہ اسلام سے قبل دیگر اقوام جیسے قدیم مصریوں، یونانیوں، رومیوں اور ہندیوں میں بھی موجود تھا۔ صوم عربی زبان کا لفظ ہے اور مصدر ہے۔ اس کے معنی مطلقا رک جانا ہے جیسے چلنے سے رک جانا ،گندی بات کرنے سے پرہیز کرنا، کھانے پینے سے پرہیز کرنا وغیرہ۔ اردو میں روزہ لفظ کا معادل صوم و صیام ہے۔ فقہ کی اصطلاح میں قصد قربت کے ساتھ صبح کی اذان سے مغرب کی اذان تک روزہ کو باطل کرنے والی تمام چیزوں سے پرہیز کرنے کا نام روزہ ہے۔ روزہ مخصوص چیزوں سے طلوع فجر صادق سے غروب تک پرہیز کرنے کا نام ہے۔ روزہ نفس کو مبطلات روزہ سے پرہیز کے لئے آمادہ کرنا ہے۔ لغت میں کلمہ صوم کے معنی کسی چیز کے ترک کرنے یا کسی چیز سے پرہیز کرنے کے ذکر ہوئے ہیں۔ رمضان المبارک کے روزے دو ہجری میں فرض کیے گئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں 9 برس رمضان المبارک کے روزے رکھے۔ امام نووی ؒ کہتے ہیں! رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نو رمضان المبارک کے روزے رکھے، اس لیے کہ ہجرت کے دوسرے سال شعبان میں رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ ہجری ربیع الاول کے مہینے میں فوت ہوئے تھے(المجموع 6 / 250)

روزہ یہ ہے کہ انسان ان چیزوں سے اجتاب کرے جو روزہ کو باطل کرتی ہیں اور روزہ کے ظاہری آداب کی رعایت کرے۔ خواص کا روزہ یہ ہے کہ وہ آنکھ، کان، زبان، ہاتھ، پاؤں اور دوسرے اعضاء و جوارح کو بھی گناہوں سے محفوظ رکھیں۔ روزہ یہ ہے کہ انسان دنیوی پریشانیوں اور اہداف و مقاصد سے دوری اختیار کر لے سوائے اس دنیا سے جو دین کا مقدمہ ہو۔ اسی طرح سے حدیث کے مطابق، حقیقی روزہ ان تمام چیزوں کو ترک کرنا ہے، جسے خداوند عالم پسند نہیں کرتا ہے اور حقیقی روزہ وہ ہے جس میں انسان کے آنکھ، کان، بال، جلد بھی روزہ ہوں اور دل کا روزہ، زبان کے روزہ سے بہتر اور زبان کا روزہ شکم کے روزہ کے بہتر شمار کیا گیا ہے۔

روزہ کے مقاصد:

1۔ مسلمان اللہ تعالیٰ کی کبریائی اور اس کی عظمت کا اظہار کریں۔

2.۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ ہدایت الہٰی ملنے پر اللہ بزرگ وبرتر کا شکر بجا لائیں کہ اس نے پستی و ذلت کے عمیق غار سے نکال کر، رفعت و عزت کے اوج کمال تک پہنچایا۔

3.۔ مسلمان پرہیز گار بنیں اور ان میں تقویٰ پیدا ہو۔

4۔ روزہ رکھنے سے انسان بھوک اور پیاس کا احساس کرنے لگتا ہے جوآخرت کی کامیابی وکامرانی کا باعث بنتا ہے۔ مسلمان انسان آخرت اور قیامت کی جاویدانہ زندگی کو یاد کرکے اس کیلئے تیاری کرے۔ بھوک اور پیاس کی وجہ سے انسان کا تکبر اور غرور ختم ہو جاتا ہے اور وہ دوسرے عبادات کی انجام دہی کیلئے آمادہ ہو جاتا ہے۔ مسلمان روزے کے احکامات پر عمل کرے۔

5۔ روزہ رکھنے سے روزہ داروں کے درمیان ایک قسم کی ایثار اور ہمدلی پیدا ہوتی ہے اور محروموں کے مدد اور ان کی خدمت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ ان کے علاوہ روزہ رکھنے سے انسان کی زندگی میں نظم و ضبط آ جاتا ہے اور اسے قناعت پیشہ کرنے کا سلیقہ آتا ہے، نیز انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں گناہوں اور گرفتاریوں کے مقابلے میں صبر کرنے کا مادہ بھی روزہ رکھنے کے ذریعے ہی پیدا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رمضان المبارک میں سماجی مفاسد میں قابل توجہ کمی دیکھنے میں آتی ہے۔

روزہ کے فوائد!

مولی علی کرم اللہ وجہ سے مروی ہے کہ پیارے نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’بے شک اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے ایک نبی عَلَیْہِ السَّلَام کی طرف وَحی فرمائی کہ آپ اپنی قوم کو خبر دیجئے کہ جو بھی بندہ میری رِضا کیلئے ایک دن کا روزہ رکھتا ہے تو میں اُس کے جسم کو صحت بھی عنایت فرماتا ہوں اور اس کو عظیم اَجر بھی دو ں گا۔ ‘‘(شُعَبُ الایمان ج۔ .3۔ ص۔ 412حدیث۔ 3923)

 آکسفورڈ یونیورسٹی کا پروفیسرمورپالڈ (MOORE PALID) کہتا ہے: ’’میں اسلامی علوم پڑھ رہا تھا جب روزوں کے بارے میں پڑھا تو اُچھل پڑا کہ اسلام نے اپنے ماننے والوں کوکیسا عظیم الشان نسخہ دیا ہے! مجھے بھی شوق ہوا، لہٰذا میں نے مسلمانوں کی طرز پر روزے رکھنے شروع کردئیے۔ عرصۂ دراز سے میرے معدے پرورم تھا، کچھ ہی دِنوں کے بعد مجھے تکلیف میں کمی محسوس ہوئی میں روزے رکھتا رہا یہاں تک کہ ایک مہینے میں میرا مرض بالکل ختم ہوگیا!‘‘ہالینڈکاپادری ایلف گال(ALF GAAL) کہتا ہے: میں نے شوگر، دل اور معدے کے مریضوں کو مسلسل 30 دن روزے رکھوائے، نتیجتاََ شوگر والوں کی شوگر کنڑول ہوگئی، دِل کے مریضوں کی گھبرا ہٹ اور سانس کا پھولنا کم ہو ا اور معدے کے مریضوں کو سب سے زیادہ فائدہ ہوا۔ ایک انگریز ماہر نفسیات سگمنڈ فرائیڈ (Sigmund Freud) کا بیان ہے،

روزے سے جسمانی کھچائو،ذِ ہنی ڈِپریشن اورنفسیاتی امراض کا خاتمہ ہوتا ہے۔

حضرت امام جعفر صادقؓ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے روزہ اس لئے فرض کیا تاکہ امیر و فقیر دونوں برابر ہو جائیں کیونکہ امیر نے کبھی بھوک کا مزا ہی نہیں چکھا تاکہ فقیروں پر ترس کھائے اور مہربانی کرے اسکی وجہ یہ ہے کہ امیر شخص کو جس چیز کی خواہش ہو اسکا حصول اسکے بس میں ہے اسی بناء پر اللہ تعالی نے چاہا کہ اس کی مخلوق باہم مساوی ہو جائے اسطرح کہ امیر بھی بھوک کا مزا چکھے تاکہ کمزوروں کے لئے اسکا دل نرم ہو اور بھوکوں پر رحم کرے۔

حضرت ابو الحسن امام علی ابن الرضا ؓ نے فرمایا کہ انسان بھوک اور پیاس کا مزا چکھ کر خود کو ذلیل و مسکین سمجھے تو اسے اسکا ثواب دیا جائے اسکا احتساب ہو وہ اس روزے کی تکلیف کو برداشت کرے اور یہ چیز اسکے لئے آخرت کی سختیوں کی طرف راہنما ہو۔ نیز اسکی خواہشات میں کمی ہو اور عاجزی پیدا ہو۔ دنیا میں اسکو نصیحت ملتی رہے اور آخرت کی سختیوں کی نشاندہی ہوتی رہے اور اسے علم ہو کہ دنیا اور آخرت میں فقیر و مسکین کیا کیا سختیاں برداشت کرتے ہیں۔

حضرت ابو محمد حسن عسکری ؓنے ارشاد فرمایا اللہ تعالی نے روزہ اس لئے فرض کیا تاکہ ایک غنی اور دولتمند شخص کو بھی بھوک کی تکلیف کا علم ہو جائے اور وہ فقیروں پر ترس کھائے۔

آخر میں!

عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا! ساللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب نماز داؤد علیہ السلام کی نماز ہے اور سب سے زیادہ محبوب روزے بھی داؤد علیہ السلام کے ہیں، داؤد علیہ السلام آدھی رات سوتے اوراس کا تیسرا حصہ قیام کرتے اورچھٹا حصہ سوتے تھے،اورایک دن روزہ رکھتے اورایک دن نہیں رکھتے تھے(صحیح بخاری حدیث نمبر 1079 اور صحیح مسلم حدیث نمبر ۔ 1159)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔