روزہ کے احکام و مسائل (2)

محمد عرفان شيخ یونس سراجی

یہ روزہ کے احکام ومسائل کی دوسری کڑی ہے  جوکہ بہت اہم ہے ۔شریعت  اسلامیہ نے  مسلمانوں کو شرعی عذر کی بنا پر  روزہ نہ رکھنے کی عظیم الشان  نعمت کی شکل میں "رخصت ” عطا کی  ہے ۔جیسے بسااوقات انسان کسی ایسے مرض سے جوجھ رہا ہوتا ہے جس کے وجہ سے وہ  روزہ رکھنے سے قاصرہوتا ہے، یا ایسے پریشان کن حالات سے گزر رہا ہوتا ہے جس میں   روزہ رکھنا اس کی سکت سے  بعید تر ہو تا ہے،بنابریں  شریعت نے  مشکلات ومصائب کے پیش نظر  رخصت دی ہے ۔

 ماہ  رمضان المبار ک میں    شرعی معذوروں کی تفصیلات   ذیل کے سطور میں ذکر کیے جارہے ہیں : ۔

  ۱۔ مسافر:

سفر کی حالت میں روزہ چھوڑنے پرمنجملہ مسلمانوں کا  اجماع ہے ۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:”مسافر کے روزہ چھوڑنے کی ابا حت پرمسلمانوں کا  اجماع ہے“۔(المغنی ۳/۳۳)

 امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ  رقمطراز ہیں : ”رمضان میں مسافروں کے روزہ نہ رکھنے کی رخصت پر کتاب وسنت کی نصوص   دلالت کرتی ہیں، سفر  کا ا طلاق اس سفرپر  ہوگا جسے لوگ سفر مانتے ہیں، گرچہ اس کی مسافت   قصیر کیوں نہ ہو“۔

 مسافر کے  روزہ رکھنے اور چھوڑنےکی  افضیلت کےبارے میں تین  حالات ہیں :۔

۱۔ جب روزہ جان لیوا اور  باعث مشقت  نہ ہو،تو  ایسی صورت حال میں روزہ رکھنا افضل ہے ۔کیوں کہ نبی کریمﷺ نے اس عمل کی تعمیل کی ہے ۔

حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ  ہم لوگ ماہ رمضان المبارک  کے شدید گرمی کے دنوں  میں  نبی کریم ﷺ کی صحبت  مبارکہ میں موجود تھے، تااینکہ ہم میں  سےایک شخص  شدت  گرمی کی وجہ سےاپنے سر پرہاتھ رکھے ہوئے تھے، اور ہم میں سے صرف میں اورنبی کریمﷺروزہ سےتھے۔(صحیح بخاری، ح:۱۹۴۵)

۲۔ جب روزہ  باعث مشقت  اورقابل برداشت ہو، تو  افطاریعنی روزہ کشائی زیاد ہ مناسب ہے، اور یہاں افطار سنت بھی ہے، اس لیے کہ”   فِطر”اللہ  کی جانب سے عظیم رخصت ہے، جسے اپنےبندوں کے لیے وضع کیا ہے ۔ اور اللہ تعالی  کو یہ بات زیاد ہ پسند ہے کہ اس کی رخصت  کی بجاآوری کی جائے۔تاہم اللہ کو رخصت کے باوجود روزہ رکھنا ناپسند ہے۔

۳۔ جب روزہ شدید پریشانی  کاباعث  اور ناقابل برداشت ہو، تو روزہ دار کےلیے یہاں روزہ کھنا حرام ہے، اور یہ بھی اندیشہ ہے کہ ایسی حالت میں رکھا گیا روزہ قبول   ہی نہ ہو۔جیساکہ اس کی حرمت پرنبی کریم ﷺ کی حدیث مبارکہ  دلالت کرتی ہے ۔نبی کریم ﷺ رمضان کے دنوں میں  حالت روزہ میں فتح مکہ کےسال مکہ مکرمہ کا رخ کیا، جب آپ    کراع الغمیم (مکہ اور مدینہ کے مابین ایک جگہ کانام)پہونچے،تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی روزہ رکھ لیا، پھر آپ سے عرض کیا گیا کہ روزہ ان پر بہت گراں گذررہا ہے، اوروہ لوگ رخصت کے خواہاں  ہیں، چنانچہ  نبی کریم ﷺنے   عصر کے بعد پانی کا  پیالہ منگوایا اور  اپنے ہاتھوں سے اٹھا کر اسے اوپر کیا   حتى کہ صحابہ کرام  رضی  اللہ عنہم نے دیکھ لیا، پھر آپ نے پانی  نوش کیا۔بعدازاں آپ سے کہاگیا کہ  بعض افراد روزے سے ہے، تو آپ نے  فرمایا کہ ایسے لوگ   گنہ گار ہیں، ایسے لوگ گنہ گار ہیں۔(أخرجہ مسلم،ح: ۱۱۱۴)

 علاوہ ازیں نبی کریم  ﷺکا فرمان ہے :”لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تَصُومُوا فِي السَّفَرِ“۔(صحیح بخاری،ح:۱۹۴۶، وصحیح مسلم،ح:۱۱۱۵)

 ترجمہ: ”سفر میں روزہ کھنا  نیکی نہیں ہے “۔

 س:۔مسافرکے لیے فِطْر (روزہ  چھوڑنا)کب مشروع  ہوگا ؟

 ج:۔ جب مسا فر سفر کی نیت سے اپنا  گھر  چھوڑ دے، تو روزہ کشائی جائز ہے،اس سے قبل  افطار(روزہ چھوڑنا) جائزنہیں ہے، کیوں کہ اس کا  شمار مسافر میں نہیں ہوگا ۔

۲۔ مریض:

روزہ کی حالت میں مریض کی دو قسمیں ہیں :۔

پہلی قسم: ایسا مریض جس کےمرض کے زوال کا امکان ہو، تو اس کے لیے  فِطر جائز ہے، بعدازاں روزے کی قضا کرے گا۔

 دوسری قسم: ایسا مریض جس کے مرض  کی شفایابی ممکن نہ  ہو۔ایسے مریض پر کو ئی روزہ نہیں ہے،بلکہ اس کےاوپر مسکین کو  کھانا کھلانا ہے ۔

کھانا کھلانے کے دو اوقات ہیں : پہلا وقت  رمضان  کا آخری دن جس میں مکمل رمضان کا کھانا کھلایا جائے، اور دوسرا یہ کہ ہردن  ایک مسکین کو کھانا کھلایاجائے۔

مقدار طعام کے بارے میں”  لجنہ دائمہ  للافتاء  السعودیہ” کا قول ہے کہ    صائم ہردن ایک مسکین کو ایک صاع گندم یا کھجور یا چاول  یا اسی طرح   شہر کی  معروف غذا عطا کرے۔اور ایک صاع سعود ی  کبار علماء کی تقدیر کے اعتبار سے 2600 گرام ہوتا ہے  یعنی دو کلو، 600 گرام، اس  طور سے ایک  کلو،300 گرام چاول سےیا اس کے علاوہ    شہر کی  دیگر معروف  غذا  سے نکالا جائے گا ۔اگر احتیاطا  ڈیڑھ کلو نکالا جائے، تویہ  زیادہ مناسب ہے۔اگر تیس یا ونتیس مسکین کو دعوت عشائیہ   ایک دسترخوان پر رمضان کے دنوں کی تعداد کے اعتبار سے دے دیا جائے، تو یہ بھی کفایت کرجائےگی ۔

تنبیہ:

 نقود کی شکل میں کفار ہ نکالنا جائز نہیں ہے ۔ (فتاوی اللجنۃ الدائمہ : ۱۰/۱۷۲)

۳۔ حاملہ اور مرضعہ (پیٹ والی اور دودھ پلانے والی عورت):

  حمل والی عورت اور دودھ پلانے والی عورت کے لیے رمضان کے دنوں میں روزہ چھوڑنا جائز ہے، اس شرط کے ساتھ کہ  دودھ پلانے والی عورت اپنی جسمانی کمزوری کی وجہ سے دودھ کے ختم ہونے یا  دودھ پیتے بچے کی صحت متاثر ہونے کا خدشہ محسوس کرتی ہو،نیز  حمل والی عورت اپنی  جسمانی کمزروی یا پیٹ میں پل رہے بچے کی  صحت کی مضرت کا خوف محسوس کرتی ہو۔علاوہ ازیں  کسی بہانے یا شوق سے روز ہ چھوڑنا نرا جائزنہیں ہے ۔ اگر  پیٹ والی یا دودھ پیلانے والی عورت نشیط ہو، جسمانی طورسے بالکل فٹ ہو، روزہ رکھنے کی وجہ سے  متاثر نہ ہوتی  ہو، تو  ایسی صورت میں روزہ چھوڑنا بالکل جائزنہیں ہے۔

س:- حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت روزہ چھوڑ دے، تو وہ قضا کرے گی یا مسکین کو کھانا کھلائے گی؟

ج:۔ راجح قول کے مطابق دونوں قضا کریں گی ۔

علامہ ابن بازرحمہ اللہ فرماتے ہیں : ” پیٹ والی اوردودھ پلانےوالی عورت کا حکم مریض کے حکم کی طرح ہے ۔جب ان پر روزہ رکھنا باعث مشقت ہو، تو  ان کے لیے روزہ چھوڑنا جائز ہے؛ اور جب بھی میسر ہو، چھوڑے گیے روزے کی قضا ان پر  واجب ہے، جیسے کہ مریض۔بعض اہل علم اس طرف گیے ہیں کہ ان پر ہردن  ایک مسکین کو کھانا  کھلاناواجب ہے، جوکہ یہ قول ضعیف اور مرجوح ہے ۔صحیح یہ ہے کہ ان پر  مسافر اور مریض کی  طرح قضا واجب ہے، جیساکہ  اللہ تعالی کا فرمان ہے : ”فَمَنْ کَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ“.(سورہ بقرہ:۱۸۴) ترجمہ: ”تم میں سے جو شخص اس مہینے کو پائے اسے روزہ رکھنا چاہیے، ہاں جو بیمارہو یا مسافرہو اسے دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرنی چاہیے“۔(مجموع الفتاوی: ۱۵/۲۲۵)

۴۔حائضہ اور نفسا:

 حائضہ اس عورت کو کہتےہیں جس کے اندام نہانی سے   ہر مہینے حسب معمول   فاسد خون خارج ہوتا ہے،اورنفسا جس کی شرم گاہ  سے بچے کی ولادت کےبعد   حسب طبیعت  تيس دن یا چالیس دن  فاسد خون  خارج ہوتا ہے ۔ان دونوں پر روزہ رکھنا حرام ہے ۔

حائضہ اور نفسا پرروزہ چھوڑنا اور بعدازاں دیگر ایام میں قضا کرنا واجب ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہے کہ جب ہمیں حیض آتا تھا، تو نبی کریم ﷺ ہمیں روزہ کی قضا کا حکم دیتے تھے اورنماز کی قضا کا حکم نہیں دیتے تھے۔

جب عورت  حیض یا نفاس کاخون دیکھ لے، تو اس  کا روزہ باطل ہوجاتا ہے، گرچہ سورج غروب ہونے سے چند ثانیہ قبل کیوں نہ  دیکھا ہو۔ اور جب  دن کے کسی حصے میں حیض یا نفاس  سے پاک سے ہوجائے، اورروزہ رکھ لے، تو اس کا روزہ درست نہیں ہوگا، اس لیے کہ شریعت نے اسے  پورے دن افطارکا حکم دیا ہے ۔تاہم جب وہ   رات میں  پاک ہوجائے،گرچہ فجر سے کچھ  لحظہ پہلے کیوں  نہ ہو، تو اس پر روزہ کی نیت کرنا واجب ہے،  پھر وہ  فجر کے بعد بھی غسل کرسکتی ہے، اور اس کا روزہ صحیح ہوگا۔

۵۔ روزہ رکھنے کی وجہ سے  جسم وجان کی ہلاکت کا خائف :

جو شخص اپنے نفس کی شدت پیاس   یا شدت بھوک کی بابت   ہلاکت کا خوف محسوس کررہاہو، تو اس کے لیے روزہ چھوڑنا جائز ہے۔جیسے ذیابطیس کا مریض، اگر اس  کا بطن  متوازن غذا سے خالی ہو، تو جان کے ضیاع  کا اندیشہ  بڑھ جاتا ہے، بنابریں  شریعت نے ایسے  اشخاص کےلیے رخصت دی ہے ۔

صحیح یہ ہے کہ جو شخص  روزہ رکھنے کی وجہ سے   مرض کی زیادتی  کا  ڈرمحسوس کرتا ہو، تو  وہ مریض کے حکم میں ہے۔(الشرح الکبیر لابن قدامہ: ۷/۲۲۵)

آخری بات:

 بعض ایسے مسلمانوں کو دیکھا گیا ہے جو کم علمی یا جہالت کے سبب   حالت مرض میں روزہ چھوڑنا گوارا نہیں کرتے، اور جب انہیں  شریعت کے احکام ومسائل سے روشناس کیا جاتا ہے،تواس پر عمل پیراہونے کی بجائے  یہ کہتے نہیں تھکتے کہ  ہم مر جائیں گے پر روزہ نہیں چھوڑیں گے ۔یہ تو سراسر   ہٹ دھرمی ہے۔اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو انہی چیزوں کا مکلف بنایا ہے جن پر وہ عمل درآمد کی  استطاعت رکھتا ہوں،جیساکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے : ”لَايُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا“.(سورہ بقرہ: ۲۸۶) ترجمہ: ”اللہ تعالی کسی جان کو اس کی   طاقت سےزیادہ تکلیف نہیں دیتا“۔ اللہ تعالی اپنے بندوں پر نہایت ہی رحیم وشفیق ہے، جو  ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا ۔بایں ہمہ مسلمانوں  کے لیے غایت درجہ  ضرور ی ہے کہ  عبادات کے احکام ومسائل سیکھنے  کی غرض سے مستند و معتمد علما سے رجوع کریں، شرم وحیا سے پرے جب بھی کوئی دینی مسائل ذہن پر دستک دیں، تو ان کے تئیں معلومات  اخذ کرنے کی کوشش کریں۔ تب جاکر صحیح معنوں میں عبادات اور کیے گیے اعمال قابل قبول ہوں گے-

اللہ تعالی تمام مسلمانوں کو دین کی سمجھ بوجھ عطا فرمائے۔آمین یارب العالمین

تبصرے بند ہیں۔